خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے 14اکتوبر2012

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اپنی بات شروع کرنے سے پہلے جرمنی کی لجنہ کی صدر صاحبہ کے لئے اگر ممکن ہو تو اپنی حاضری کی رپورٹ بھی بھجوا دیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں جس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجے وہ وہ مقصد تھا جس کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے کے لئے تشریف لائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرمایا کہ اے نبی! آپ دنیا کو بتا دیں کہ مَیں تمام دنیا کو خدائے واحد کی طرف بلانے کے لئے بھیجا گیا ہوں، دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ دنیا کے انسانوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے طریق سکھلانے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔

            پس یہ مقصد تھا، یہ پیغام تھا جس کو پھیلانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر آپ کے خلفائے راشدین نے کوشش کی۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے جہاں اس مقصد کے حصول کے لئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کیں وہاں معاشرے میں اس پیغام کو پہنچانے اور اس پر قائم رہنے کے لئے قربانیاں بھی دیں۔ ان قربانیوں میں مرد بھی شامل تھے اور عورتیں بھی شامل تھیں، بچے بھی شامل تھے اور جوان بھی شامل تھے۔ ہم تاریخ اسلام میں ان کے حیرت انگیز واقعات پڑھتے ہیں۔ پس ضروری تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے آئے تو آپ کے ماننے والوں کو بھی یعنی احمدیوں کو بھی قربانیاں دینی پڑنی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ہر طبقے کے لوگوں نے مختلف حالات میں مختلف قسم کی قربانیاں دیں اور آئندہ بھی دینی پڑیں گی کہ دینی جماعتوں کی ترقی پھولوں کی سیج پر نہیں ہوتی۔ دنیا پر غالب آنے والی قومیں آسانیوں اور آسائشوں میں رہ کر دنیا کو فتح نہیں کرتیں۔ پس دنیا میں رہنے والی ہر احمدی عورت کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر انہوں نے جماعتی ترقی کا حصہ بننا ہے تو انہیں نفس کی قربانی بھی دینی ہو گی، جان کی قربانی بھی دینی پڑے گی، اولاد کی قربانی بھی دینی پڑے گی، مال کی قربانی بھی دینی پڑے گی، جذبات کی قربانی بھی دینی پڑے گے، وقت کی قربانی بھی دینی پڑے گی، تبھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جب تک مردوں کے ساتھ عورتیں اس قربانی کے لئے تیار نہیں ہوں گی، جب تک جماعت کا ہر فرد بچہ، بوڑھا، عورت، مرد اس قربانی کے لئے تیار نہیں ہو گا، جماعت کی ترقی میں تیزی نہیں آ سکتی۔ اسی لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مردوں سے عہد لیا تو عورتوں سے بھی عہد لیا جسے آپ نے ابھی دہرایا ہے کہ ہم اپنی جان، مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گی، خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گی۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ جماعت کی ابتدا سے لے کر آج تک احمدی عورت اس عہد کو جب بھی موقع ملے، نبھاتی اور پورا کرتی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ پورا کرتی رہے گی۔

اس وقت مَیں جماعت احمدیہ کی خاطر مختلف قربانیوں سے گزرنے والی احمدی عورتوں کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُنہیں قربانی کی توفیق دی اور وہ ثابت قدم رہیں۔

 سب سے پہلے جس کا مَیں ذکر کروں گا وہ صبر اور جماعت سے وابستگی کا عظیم اظہار ہے جو حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ کا آپ کی شہادت کے بعد ہمارے سامنے آیا۔ حادثہ شہادت کے بعد حکومت افغانستان کی طرف سے آپ کی اہلیہ اور بچوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے جن کو سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر انہوں نے قابل رشک صبر و استقلال کا نمونہ دکھلایا۔ آپ کی اہلیہ ہر موقع پر یہی فرماتی رہیں کہ اگر احمدیت کی وجہ سے مَیں اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے شہید کر دئیے جائیں تو مَیں اس پر خدا تعالیٰ کی بے حد شکر گزار ہوں گی اور بال بھر  بھی اپنے عقائد تبدیل نہ کروں گی۔ ( تاریخ احمدیت مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب جلد 2 صفحہ 332)

یہ اُس عظیم شہید کی عظیم بیوی کا ردّعمل تھا۔ پھر اسی طرح قربانیوں کی تاریخ آگے بڑھتی چلی گئی۔

1978ء میں وفات پانے والی بعض خواتین کا تاریخ لجنہ اماء اللہ میں ذکر ہے۔ مثلاً محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاری عاشق حسین صاحب نے 1976ء میں احمدیت قبول کی۔ سانگلہ ہل کی رہنے والی تھیںجو پاکستان میں شہر ہے۔ احمدیت کے رستے میں ہر دکھ اور قربانی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ آپ کی وفات بھی نہایت دردناک طور پر واقعہ ہوئی۔ آپ کے پالے ہوئے بیٹے نے آپ کو احمدی ہونے کی وجہ سے چھری سے حملہ کر کے شہید کر دیا۔

(ماخوذ از تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد 5صفحہ 271 مرتبہ زیرنگرانی صدر لجنہ اماء اللہ پاکستان)

پھر ایک قربانی کرنے والی خاتون مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد سلیم بٹ صاحب چونڈہ تھیں۔ آپ 2؍ مئی کو دعوت الی اللہ کے سلسلے میں قریبی گاؤں ڈوگراں گئی تھیں۔ ایک نو مبائع عابد صاحب کے گھر بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک مخالف نے چھری سے وار کر کے شدید زخمی کر دیا۔ ہسپتال لے جایا گیا۔ تیرہ بوتلیں خون کی لگیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور جانبر نہ ہو سکیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دی۔

(ماخوذ از روزنامہ الفضل ربوہ 19جون 1999ء صفحہ 1جلد 84-49 نمبر 136)

احمدی عورت کی تبلیغ کے میدان میں جان کی قربانی کے بہت سارے واقعات میں سے یہ ایک واقعہ ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلے میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور اُن کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی۔ اب ایک عورت کی بہادری کایہ قصہ سنیں جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔ اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا۔ ان عورتوں کے متعلق یہ خبر آئی تھی کہ جب سکھ اور ہندو تلواروں اور بندوقوں سے ان پر حملہ آور ہوئے تھے تو یہ عورتیں اُن کو بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرے کی رہنے والی تھی اور ان کی سردار بنائی گئی تھی۔ بعد میں لڑائی کے طریقے بھی لجنہ کو سکھاتی رہی تھی ۔ (ماخوذ از الازہار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 176 مرتبہ حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ)

 آجکل تو جوڈو کراٹے سکھایا جاتا ہے۔ لجنہ اور ناصرات کو چاہئے بجائے ادھر اُدھر وقت ضائع کرنے کے کم از کم اپنے ڈیفنس کے طریقے سیکھیں۔ پھراس میں بچپن کی نیک تربیت کا، ماں نے بچپن کی جو نیک تربیت کی تھی، جو باتیں بچے کے ذہن میں ڈالی تھیں، اُس کے اثر کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ چند دن ہوئے شیخو پورہ کے ایک افسر نے جنہوں نے بی سی جی کا کورس کیاہوا ہے، مجھے خط لکھا کہ مَیں دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ بہت اچھا ہم غور کریں گے کہ آپ کی خدمت سلسلہ کس رنگ میں اُٹھا سکتا ہے۔ لیکن آپ بتائیں کہ آپ کا کس خاندان سے تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے صوفی عبدالخالق صاحب جالندھر والوں کا نام سنا ہو گا۔ مَیں نے کہا جانتا ہوں۔ جالندھر کے مشہور پیر تھے، اُن کی ایک بیٹی قادیان آیا کرتی تھیں۔انہوں نے کہا وہ بیٹی جو تھی وہ میری والدہ تھیں۔ کہتے ہیں اس لڑکے نے لکھا کہ میرے نانا تو احمدیت کے سخت مخالف تھے لیکن میری والدہ نے آخری عمر میں احمدیت قبول کر لی تھی اور فوت ہونے کے بعد وہ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئی ہیں۔ پھر انہوں نے لکھا کہ مجھے زندگی وقف کرنے کی تحریک اس لئے ہوئی ہے کہ جب مَیں پیدا ہوا تھا اُسی وقت سے میری والدہ نے میرے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کی تھی کہ مَیں نے تمہاری زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کرنی ہے۔ مَیں چار پانچ سال کا ہی تھا کہ وہ فوت ہو گئیں لیکن ان کی وہ بات میرے دل میں ایسی گڑھی کہ اب جبکہ مَیں بڑا ہو گیا ہوں، مَیں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی ہے اور بی سی جی کا ڈپلومہ بھی حاصل کر لیاہے، میرے دل میں ہمیشہ یہ خلش رہتی ہے کہ میری والدہ نے تو یہ خواہش کی تھی کہ میں دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کروں لیکن مَیں دنیا کے کاموں میں مشغول ہوں۔ انہوں نے بیان کیا کہ مَیں نے اس بات کا ذکر اپنے والد سے بھی کیا۔ انہوں نے بھی کہا کہ جب تمہاری والدہ کی یہ خواہش تھی کہ تم دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرو تو تم زندگی وقف کر دو۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ دیکھو ماں فوت ہو گئی،ا ُس کا بیٹا دوسرے ماحول میں چلا گیا، دنیا داری کے ماحول میں پڑ گیا، اُس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بی سی جی کا ڈپلومہ حاصل کیا اور اب اُسے ایک اچھی ملازمت ملی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اُس کے دل میں یہ جلن رہتی ہے کہ میری ماں کہتی تھی کہ مَیں نے تمہیں دین کی خدمت کیلئے وقف کرنا ہے لیکن مَیں دنیا کمانے میں لگا ہوا ہوں۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 25مارچ 1956ء صفحہ 2-3 جلد 45/10 نمبر 71)

             تو یہ بچپن کی اُس نیک تربیت کا اور باتوں کا اثرتھا جو ماں نے اپنے بیٹے کے دل میں ڈالا کہ چار پانچ سال کی عمر کا بیٹا اور اُس نے اس اثر کو اپنے دل میں قائم رکھا اور بڑے ہو کر جب کسی قابل بن گیا تو دین کے لئے اپنی زندگی وقف کی۔

            پس احمدی ماؤں کا یہ کام ہے جس کے کرنے کی آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت بھی بہت ساری احمدی مائیں ایسی ہیں جو اپنے بچوں کو وقفِ نو میں شامل کر رہی ہیں۔ لیکن وقفِ نَو میں شامل کرنے کے بعد جس طرح توجہ سے اُن کی تربیت کی ضرورت ہے وہ نہیں کی جا رہی اور یہی وجہ ہے کہ بعض لڑکے ایسے ہیں جو بڑے ہونے کے بعد اب مجھے لکھنا شروع ہو گئے ہیں کہ ہم اپنا وقف قائم نہیں رکھنا چاہتے۔ اگر صحیح طور پر حقیقی طور پر مائیں اپنے بچوں کے دل میں یہ ڈال دیں کہ وقف کی اہمیت کیا ہے اور تم نے وقف کیا ہے اور تم نے اس کو نبھانا ہے تو کبھی ایسی مثالیں سامنے نہ آئیں۔ اسی طرح بہت ساری مائیں ایسی بھی ہیں یا مَیں کہوں گا بعض مائیں ایسی ہیں جو گھر نہیں بیٹھتیں، اپنی اولاد کی تربیت کے اوپر توجہ نہیں دے رہیں، اپنے دنیاوی کاموں میں لگی ہوئی ہیں اور یہ بات بھی اُسی زمرہ میں آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ پس ہماری عورتوں کو اس بات کو بھی سوچنا چاہئے۔ بعض نوجوان بچیاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر چلی جاتی ہیں یا شوقیہ طور پر ملازمت کر رہی ہیں حالانکہ اس سال ہی کینیڈا اور امریکہ کے جلسہ میں عورتوں کو یہ تلقین کی تھی۔میرا خیال ہے کہ بلا وجہ بغیر ضرورت کے صرف شوق کے طور پر کام نہ کریں اور یہاں آجکل ایک نئی اختراع چلی ہے۔ بعض نوجوان لڑکیوں نے گھروں سے نکلنے کے بہانے تلاش کرنے کے لئے نئی ٹرم بنائی ہے کہ Me Time کہ ہم نے اپنا وقت صرف کرنا ہے اور ہماری مرضی جس طرح مرضی صَرف کریں۔ حالانکہ اُن کو اپنے گھروں پر توجہ دینی چاہئے۔

             پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔کچھ عرصہ ہوا کالج کی ایک سٹوڈنٹ ہمارے گھر آئی اور اس نے مجھے ایک رقعہ دیا جس میں لکھا تھا کہ مَیں دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتی ہوں۔حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا کہ بی بی اس وقت ہمارے پاس لڑکیوں کے زندگی وقف کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کیونکہ واقف زندگی کو تبلیغ کے لئے گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے بلکہ بعض دفعہ اُسے ملک سے بھی باہر جانا پڑتا ہے اور لڑکیاں اکیلی باہر جا نہیں سکتیں۔ہاں اگر تم زندگی وقف کرنا چاہتی ہو تو کسی وقف زندگی نوجوان سے شادی کر لو۔ وہ خاموش ہو کے چلی گئی۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں میری چھوٹی بیوی کی ایک کلاس فیلو تھی، اُن کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگی کہ مَیں نے اس سے پہلے کی نیت کی ہوئی تھی کہ مَیں اپنی زندگی دین کے لئے وقف کروں گی لیکن اُس نے پہل کر لی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ اُس کی شادی ایک غیر ملکی واقف زندگی نوجوان سے ہو گئی۔ اب دیکھو نیک نیتی کیسا اچھا پھل لاتی ہے۔

            پس ہماری بچیوں کو بھی یہی کوشش کرنی چاہئے کہ دین دیکھیں، دیندار بنیں اور لڑکوں کو بھی یہی کوشش کرنی چاہئے کہ دیندار لڑکیاں تلاش کریں۔ اور خاص طور پر بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے واقف زندگی لڑکوں کے رشتے آتے ہیں تو انکار ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ واقف زندگی لڑکوں سے لڑکیوں کو اپنے رشتے منظور کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو تو بجائے اس کے کہ بغیر سوچے سمجھے جواب دے دیا جائے دعا کر کے فیصلہ ہونا چاہئے۔

            پھر حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک اور لڑکی روتی ہوئی میرے پاس آئی اور اُس نے کہا کہ مَیں کسی واقف زندگی نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہوں لیکن میرے والد اس میں روک بنتے ہیں اور وہ میری شادی واقف زندگی سے نہیں کرنا چاہتے۔ مَیں حیران ہوا کہ اُس کے اندر کس قسم کا اخلاص پایا جاتا ہے۔ مَیں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کو کہا۔( مولانا ابوالعطاء صاحب ہمارے جو امام عطاء المجیب راشد صاحب ہیں ان کے والد تھے۔ )  کہ وہ اس کے والد کو سمجھائیں۔ آخر چند دنوں کے بعد وہ پھر آئی اور اُس نے کہا کہ میرا والد اُن کے سمجھانے پر ایک واقف زندگی سے میری شادی کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ اُس کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد وہ پھر ایک دن روتی ہوئی آئی اور کہنے لگی کہ میرا باپ کہتا ہے کہ اگر تو اپنے خاوند کے ساتھ ملک سے باہر گئی تو مَیں تمہاری شکل تک نہیں دیکھوں گا۔ یعنی واقف زندگی سے شادی کر لی ہے۔ اب واقف زندگی اُس کے باپ کاپابند ہو ، نہ کہ جماعت کا۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا، مَیں بیمار ہوں(آخری عمر کا قصہ ہے) اور تمہارے رونے کی وجہ سے میرا دل گھبراتا ہے ۔ اس لئے تم خود ہی کچھ کرو اور اپنے والد کو کسی نہ کسی طرح سے راضی کر لو۔ بعد میں حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ مَیں نے پھر مولوی ابوالعطاء صاحب سے کہا اور اُنہوں نے کوشش کر کے سمجھوتہ کروا دیا۔ اب دیکھو کہ وقف زندگی ایک جہاد ہے اور جہاد کا عورتوں کو براہ راست حکم نہیں۔ واقف زندگی نوجوانوں کو غیر ممالک جانا پڑتا ہے اور لڑکیاں اکیلی باہر نہیں جا سکتیں اس لئے اس قسم کی قربانی کا اُنہیں براہِ راست حکم نہیں لیکن جب لڑکیوں میں دین کی خدمت کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُن کے لئے ایسے سامان کر دیتا ہے کہ ان کی خواہش پوری ہو جاتی ہے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 25مارچ 1956ء صفحہ 3-4 جلد 45/10 نمبر 71)

            پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ ایک خاتون کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ محترمہ شمیم اختر صاحبہ اہلیہ مقبول احمد صاحب شہید بیان کرتی ہیں کہ میرے شوہر مقبول احمد صاحب نے 1967ء میں بیعت کی تھی۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد مولوی آپ کو بہت تنگ کرتے تھے اور دھمکیاں دیتے تھے۔ رات کو گھر میں پتھر وغیرہ پھینکتے اور دروازے کھٹکھٹاتے۔ آپ کا لکڑی کا آرا تھا۔ Saw مشین لگائی ہوئی تھی۔ ایک دن ایک نقاب پوش  شخص لکڑی خریدنے آیا اور خریدنے کے بہانے خنجر نکال کر آپ پر پَے در پَے وار کئے اور آپ کو شہید کر دیا۔ شوہر کی شہادت کے بعد سسرال والوں نے کہا کہ احمدیت چھوڑ دو تو ہم تمہیں پناہ دیں گے۔ دشمن بھی دھمکیاں دیتے تھے کہ احمدیت چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ ہم تمہیں سینے سے لگائیں گے۔ لیکن اس خاتون نے ان سب باتوں کو ردّ کر دیااور کسی قیمت پر احمدیت چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ جس دین کی خاطر آپ کے شوہر نے جان دی تھی اُس سے آپ بھی چمٹی رہیں۔

 (خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الربع ؒ برموقع جلسہ سالانہ یوکے مورخہ 30جولائی 1994ء بحوالہ ماہنامہ مصباح اکتوبر 1994ء صفحہ 13جلد 68/44 شمارہ 10)

            پھرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ ایک اور خاتون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ثریا صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ وہ گوجرانوالہ میں علی پور میں رہتے تھے۔ 1974ء کے ہنگاموںمیں جب وہاں پر جلوس آیا تو ایک رات پانچ چھ آدمی ہمارے گھر آ گئے۔ میری تائی جان نے اُن سے کہا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ تمہارے گھر والوں کو اور تم لوگوں کو جلانا چاہتے ہیں۔ آگ لگا کر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر میری تائی جان نے اُن سے کہا کہ بیشک ہمارے گھروں کو جلا دو لیکن ہمیں یہاں سے نکل جانے دو۔ اتنے میں میرے بہنوئی عنایت محمد صاحب بھی آ گئے۔ انہوں نے میرے بہنوئی اور میرے والد غلام قادر صاحب کو پکڑ لیا۔ میرے سامنے اُن کو زبردستی گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ اکیلی عورت تھی، کچھ نہ کر سکتی تھی۔ اور میرے دیکھتے دیکھتے ان ظالموں نے دونوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے صبر کی توفیق دی اور کہتی ہیںدو ماہ بعد میری والدہ بھی وفات پا گئیں۔ اُس وقت بہت تکلیف دہ حالات تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر ثابت قدم رکھا اور احمدیت کی خاطرباوجود اس سختی کے اپنے ایمان پر آنچ نہ آنے دی۔ (خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الربع ؒ برموقع جلسہ سالانہ یوکے مورخہ 30جولائی 1994ء بحوالہ ماہنامہ مصباح اکتوبر 1994ء صفحہ 15جلد 68/44 شمارہ 10)

            پھر ایک قربانی کا ذکر ہے۔ حنیف محمود صاحب نے ایک مضمون لکھا ہے اُس میں ان کا ذکر کیا ہے کہ 28؍ مئی 2010ء میں جو واقعات ہوئے ہیں، ایک شہید نوجوان کی والدہ سے تعزیت کے لئے جب اکٹھے ہوئے تو انہوں نے افسوس کے الفاظ پر ٹوک دیا۔ یعنی افسوس کرنے جب اُن کے پاس گئے تو اُنہوں نے ٹوک دیا، روک دیا کہ میرے سے افسوس نہ کرو۔ مَیں تو ایک شہید کی والدہ ٹھہری ہوں۔ کہتے ہیں شہید کی والدہ، شہید کی بیوہ یا بہن بھائی ہونے کا شرف حاصل ہونے کے الفاظ تقریباً ہر گھر سے سننے میں آئے اور بڑے حوصلے اور صبر سے ان سب  عورتوں نے  یہ صدمے برداشت کئے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 21جولائی 2010ء جلد 95/60 نمبر 153 صفحہ 15)

            پھر ایک مضمون میں جو الفضل میں احمدی خواتین اور تحریک وقف زندگی کے موضوع پر چھپا تھا، ایک ذکر آیا  کہ ایک خاتون اہلیہ مستری نور محمد صاحب گنج مغل پورہ تھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے محمد لطیف امرتسری کو خط لکھا کہ آج قادیان میں رہنابہت بڑا مجاہدہ ہے۔ تم نہایت جوانمردی اور استقلال سے حفاظت مرکز کی ڈیوٹی دیتے رہو۔ اور اگر اس راہ میں جان بھی دینی پڑے تو دریغ نہ کرو۔ یاد رکھو کہ تم پر ہم تبھی خوش ہوں گے جب تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس بستی قادیان کی حفاظت میں قربانی کا وہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاؤ جو ایک احمدی نوجوان کے شایانِ شان ہے۔ گھبراؤ نہیں۔ خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔ ہم تمہارے ماں باپ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اللہ تمہیں استقامت بخشے۔    (الفضل ربوہ 18اگست 2008ء جلد 93-58 نمبر 188صفحہ 4)

            پھر شہدائے لاہور کے ذکر میں جن کا مَیں پہلے اپنے خطبات میں بھی ذکر کر چکا ہوں۔ یہاں آپ کے سامنے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں مَیں نے  پہلے بھی بیان کیا تھا کہ ایک خاتون لکھتی ہیں کہ میرے چھوٹے بچے بھی جمعہ پڑھنے گئے تھے اور خدا نے اُنہیں اپنے فضل سے بچا لیا۔ جب مسجد میں خون خرابہ ہو رہا تھا تو ہماری ہمسائی ٹی وی پر دیکھ کر بھاگی آئیں کیونکہ پاکستان کا ٹیلی ویژن اُس وقت سب کچھ دکھا رہا تھا ۔ اس سوچ کے ساتھ میرے گھر آئی کہ مَیں رو دھو رہی ہوں گی، کیونکہ مسجد کے ساتھ اُن کا گھر تھا اور وہ نظارے بھی دیکھ رہی تھیں، خبر بھی سن لی تھی، لیکن کہتی ہیں جب میرے پاس آئیں تو مَیں نے اُن سے کہا کہ ہمارا معاملہ تو خدا کے ساتھ تھا۔ مجھے بچوں کی کیا فکر ہے۔ ادھر تو سارے ہی ہمارے اپنے ہیں جو مسجد میں موجود ہیں۔ اگر میرے بچے شہید ہو گئے تو خدا کے حضور مقرب ہوں گے اور اگر بچ گئے تو غازی ہوںگے۔ یہ سن کر وہ عورتیں حیران رہ گئیں اور الٹے پاؤں واپس چلی گئیں کہ یہ عجیب عورت ہے کیسی کیسی باتیں کر رہی ہے‘‘۔ (خطبات مسرور جلد 8صفحہ 263خطبہ جمعہ 4 جون 2010ء)

            پھر شہدائے لاہور کے تعلق میںیہ بھی مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ایک احمدی طالب علم جو تھوڑا عرصہ ہوا یہاں یوکے میں تعلیم کے لئے آیا تھا۔ وہ مجھے ملنے آیا اور مجھے بتایا کہ مَیں آپ سے اپنی ماں کی ہمت کی ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ اُس طالبعلم لڑکے کو مسجد میں دو گولیاں لگی تھیں۔ فائر جو ہو رہے تھے تو دو گولیاں اُس کو بھی لگی تھیں۔ کہتے ہیں مَیں جو زخمی ہوا ہوں تو ماں کو فون کر کے بتایا کہ اس طرح گولیاں لگی ہیں اور خون بہ رہا ہے تو ماں نے جواب دیا کہ بیٹا مَیں نے تمہیں خدا کے سپرد کیا۔ خبریں آ رہی ہیں کہ لوگ شہید ہوئے ہیں۔ اگر شہادت مقدر ہے تو جرأت سے جان اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنا ،کسی قسم کی بزدلی نہ دکھانا۔ بہر حال اس بچے کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ آپریشن سے گولی نکال دی گئی۔ تو یہ ہے ماں کا کردار۔ جب مائیں اپنے بچوں کو ایسی تربیت دے رہی ہوں، شہادت کے لئے تیار کر رہی ہوں، شہداء کے لواحقین افسوس پر آنے والوں کو تسلی دلا رہے ہوں تو پھردشمن چاہے جتنا مرضی زور لگا لے ایسی قومیںکبھی ختم نہیں ہوا کرتیں کیونکہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور سزا کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ آزمائش اور امتحان لے رہا ہوتا ہے۔

 (ماخوذ از خطبات مسرور جلد 8صفحہ 672-673خطبہ جمعہ 31دسمبر 2010ء)

            اللہ تعالیٰ سے ہمیں یہ دعا بہر حال کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے سخت امتحان سے بچائے اور اپنی نصرت کے ایسے نظارے دکھائے کہ دشمن خائب و خاسر ہو جائے۔

            امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ نارتھ بین کے گاؤں ایساؤ کی سسٹر آجا ٹیڈا کنڈے ایک معمر خاتون ہیں۔ انہوں نے کافی بڑی عمر میں بیعت کی۔ غیر احمدی خاوند اور اولاد کی خوشی نصیب نہ ہونے کے باوجود ( ان کا خاوند غیر احمدی تھا اور اولاد بھی نہیں ہوئی تھی) لیکن جب احمدیت قبول کی ہے تو وہ بڑی استقامت سے اپنے دین پر قائم رہیں۔ بلڈ پریشر اور شوگر کی مریضہ ہیں لیکن اس کے باوجود فارمنگ اور باغبانی کا کام کرتی ہیں اور اپنا چندہ باقاعدگی سے ادا کرتی ہیں۔ خاوند اور دیگر خاندان کی ہر بات بڑے صبر سے برداشت کرتی ہیں۔ اُن کی سختیوں کے باوجود ہمیشہ ان کے چہرہ پر مسکراہٹ رہتی ہے۔ جب بھی اپنے فارم اور باغ سے آمد ہوتی ہے تو جماعت سے رابطہ کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس پر جتنی زکوٰۃ لاگو ہوتی ہے وہ پہلے وصول کریں۔ پھر جو باقی چندے ہیں وہ وصول کریں۔ مالی قربانی کا جذبہ اُن لوگوں میں بھی ہے جو ابھی نئے نئے احمدی ہو رہے ہیں۔

            آئیوری کوسٹ جماعت کی ایک خاتون اموریہ کارو صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ 2008ء میں جب مَیںنے دیکھا کہ ہمارے گاؤں سے کثیر تعداد میں لوگ خلیفۂ وقت کو ملنے گھانا جا رہے ہیں۔( جب مَیں2008ء میںگھانا کے دورے پر گیا ہوں) تو مَیں نے کہا کہ مَیں بھی جاؤں گی مگر دل میں خیال آیا کہ میرا کاروبار تو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر سفر خرچ اور دس دن کا کام بھی نہ کر سکوں گی۔ بہر حال خدا تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے مَیں نے پختہ ارادہ کر لیا اور گھانا چلی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ گھانا جا کر خلیفۂ وقت کو دیکھا اور خطاب سنے۔ گو کہ مجھے اپنی زبان نہ ہونے کی وجہ سے اصل تقریر سمجھ تو نہ آئی۔باوجود اس کے کہ انگلش میں تھی اور وہاں کی زبان میں ترجمہ بھی ہو رہا تھا۔ لیکن ان کی مقامی زبان کیونکہ اور تھی۔کہتی ہیں سمجھ نہیں آئی مگر دل مطمئن ہو گیا کہ میرا سفر ضائع نہیں ہوا بلکہ میرے لئے برکتوں والا سفر ہے۔ تو ایسے بھی لوگ ہیں جن کو زبان سمجھ آئے نہ آئے، خاموشی سے بیٹھتے ہیں اور باتیں سنتے ہیں۔ لیکن یہاں بعض دفعہ لجنہ کی شکایت آ جاتی ہے کہ آواز آ بھی رہی ہوتی ہے، زبان بھی سمجھ آ رہی ہوتی ہے، اُس کے باوجود بچوں کے بہانے خود باتیں کرنے میں زیادہ مصروف ہوتی ہیں۔ پس ان نئے آنے والوں سے بھی سبق سیکھنا چاہئے۔ آگے اُن کے ایمان کی مزید پختگی دیکھیں ۔خیر کہتی ہیں کہ جس دن سے مَیں گھانا سے واپس آئی ہوں۔ آج 2012ء تک میرا کاروبار پہلے سے ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔ 2008ء کی نسبت سات آٹھ گنا زیادہ کاروبار اور منافع ہو رہا ہے۔ میرا دل مطمئن ہے اور میرا ایمان پختہ ہے کہ وہاںجا کر جلسہ سن کر خلیفۂ وقت سے مل کر مَیں نے کچھ ضائع نہیں کیا بلکہ دنیا بھی حاصل کی اور اب میں کوشش کرتی ہوںکہ جو بھی خلیفہ وقت کی طرف سے ارشادات آتے ہیں اُن پر عمل کرنے کی کوشش کروں۔

            فضل رحیم صاحب سرکل انچارج شعلہ پور مہاراشٹر انڈیا لکھتے ہیں کہ شعلہ پور میں جماعت کا قیام آج سے سترہ سال پہلے ہوا تھا۔ جماعت کو منظم بنانے میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں نے بھی بیشمار قربانیاں کی ہیں۔ محمد اسماعیل شیخ صاحب جو اس وقت صدر جماعت شعلہ پور ہیں اُن کی اہلیہ شمیم بیگم صاحبہ شعلہ پور کے نثار احمد کی بیٹی ہیں جو کہ پہلے خود بھی احمدی تھے لیکن بیٹی کے نکاح کے بعد نثار احمد مخالفین سے ڈر کر احمدیت سے منحرف ہو گئے اور جماعت کی مخالفت شروع کر دی اور اپنی بیٹی کو بھی منحرف ہونے پر مجبور کیا۔ اپنی بیٹی پر طرح طرح کے ظلم و ستم کرنا شروع کر دئیے۔ یہاں تک کہ بیٹی کو دیا ہوا زیور تک واپس لے لیا۔ شمیم بیگم صاحبہ اس سب کے باوجود ثابت قدم رہیں اور اپنے والد صاحب کو بھی سمجھانے کی کوشش کرتی رہیں۔ لیکن اُن کے والد صاحب اور دیگر رشتہ داروں کا ظلم اُن پر بڑھتا چلا گیا جس کی وجہ سے اُنہیں اپنی جائیداد سے بھی محروم ہونا پڑا۔انہوں نے اپنے رشتے داروں سے اور والد صاحب سے کہا کہ مجھے احمدیت کی نعمت کے مقابلے پر کچھ نہیں چاہئے۔ ساری جائیداد بھی جاتی ہے تو چلی جائے مگر میں احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتی۔ اور پھر اپنے شوہر سے کہا کہ ہم کچھ دنوں کے لئے قادیان چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ موصوفہ اپنے شوہر اور ایک دودھ پیتے بچے کو لے کر قادیان آ گئیں۔ جاتے وقت اُنہیں جگہ جگہ جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی لیکن موصوفہ نے اپنے مخالف ماں باپ سے کہا کہ مَیں سچائی پر ہوں۔ اگر آپ لوگوں کو نجات چاہئے تو آپ لوگ بھی اس راستے کو قبول کریں۔ امام مہدی کے قدموں پر آ کر جھک جائیں اور روتے ہوئے یہ کہہ کر اپنا فون انہوں نے بند کر دیا۔ اس کے بعد موصوفہ کئی مہینے قادیان میں رہی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے واپس اپنے علاقے میں چلی گئی ہیں اور بڑے اچھے حال میں اپنی زندگی کے دن گزار رہی ہیں۔

            انڈیا سے ہی ایک اور واقعہ ہے۔ حافظ ریحان احمد صاحب جنہوں نے فیملی کے ساتھ 2000ء میں بیعت کی تھی۔ اپنی والدہ رئیسہ خاتون صاحبہ کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار کے احمدی ہونے کے بعد ہمارے گاؤں چھتبنہ ضلع سہارنپور یوپی میں بڑی شدید مخالفت ہوئی۔ تمام گھر والے اور رشتے دار مخالف ہو گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے والدین اور بھائیوں کو بھی احمدی ہونے کی توفیق عطا فرما دی۔ میرے والدین کے احمدی ہونے کے بعد گاؤں میں ہمارے پڑوسیوں اور دیگر رشتہ داروں نے شدید مخالفت اور گالی گلوچ کا سلسلہ شروع کر دیا لیکن میری والدہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بڑی جرأت کے ساتھ اس مخالفت کا مقابلہ کیا۔ دارالعلوم دیوبند سے مُلّاؤں نے آ کر کئی دن تک ہم لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور پھر بالآخر طرح طرح کی دھمکیاں دیں لیکن میری والدہ کے حوصلہ دینے اور سینہ سپر ہونے کی وجہ سے یہ مُلّاں ناکام اور نامراد ہو کر واپس لوٹے اور پورے گاؤں میں اکیلا ایک خاندان احمدیت پر قائم رہا۔

            پھر لکھنؤ کے ایک زونل امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاتون جن کابقریدہ خاتون نام ہے یا کیا؟ بہر حال سیتا پور  یوپی کی تھیں جو کہ بیوہ ہیں۔ 1996ء میں اپنے بچوں سمیت احمدیت قبول کی۔ اس پر سارا گاؤں اُن کا مخالف ہو گیا۔ ایک بیٹا اُس وقت غیر احمدی مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ مخالفین نے موصوفہ کو دھمکی دی کہ اگر احمدیت سے توبہ نہ کی تو تمہارے بیٹے کو مدرسے سے نکال دیا جائے گا۔ کئی روز مولوی گاؤں میں آ کر موصوفہ کو تنگ کرنے لگے مگر یہ خاتون ثابت قدم رہیں۔ آخر کار اُن کے بچے کو غیر احمدیوںنے سکول سے نکال دیا۔ موصوفہ نے اپنے بچے کو قادیان معلم کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا۔ جب مولویوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اس خاتون کو اور زیادہ ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا کہ تم نے اپنے بچے کو قادیان بھیج دیا ہے اور یہ لوگ وہاں پر بچوں کے گردے نکال دیں گے اور اُسے مار دیں گے۔ (یہ بھی مولویوں کے دجل ہیں) مگر اس خاتون نے ان مولویوں کو جواب دیا کہ احمدی چاہے میرے سب بچوں کی جان بھی لے لیںمَیں اس کے لئے تیار ہوں لیکن مَیں نے احمدیت کو قبول کر کے صداقت کو پا لیا ہے۔ اب مَیں اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ باوجود شدید مخالفت کے یہ خاتون ہمیشہ ثابت قدم رہیں۔ اپنے دو بچوں کو قادیان سے معلم کی تعلیم دلوائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی میں بھی پیش پیش ہیں۔

 پھر لکھنؤ سے ہی ایک رپورٹ ہے۔ رئیسہ خاتون صاحبہ زوجہ یاسین صاحب مرحوم آف محمدی سیتا پور سرکل اپنے شہر میں اکیلی احمدی ہیں۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ پورا گاؤں غیر احمدیوں کا ہے۔ خاوند کی وفات کے بعد مخالفین احمدیت نے ان کو ہر طرح سے ڈرایا دھمکایا کہ احمدیت چھوڑ دو ورنہ تمہارا یہاں رہنا محال کر دیا جائے گا۔ تمہاری جوان بیٹیاں ہیں اُن سے کون شادی کرے گا؟ مگر یہ خاتون مخالفین کو ہمیشہ یہی جواب دیتیں کہ میں اپنی بیٹیوں کی شادی احمدیوں میں ہی کروں گی چاہے یہ ساری عمر گھر میں کنواری ہی بیٹھی رہیں مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں مگر احمدیت سے ہٹ کر کبھی کسی سے رشتہ نہیں کروں گی۔ اور صرف ماں نہیں کہہ رہی تھی، بیٹیوں نے بھی یہی کہا ۔ موصوفہ کی بیٹیاں بھی احمدیت کی اتنی ہی فدائی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا اُن کی بیٹیوں کا بھی یہی جواب تھا کہ اگر شادیاں کریں گی تو احمدیوں میں کریں گی۔ نہیں تو نہیں کریں گی۔ جب کسی کام سے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو مخالفین  بیٹیوں پر طنزیہ انداز میں جملے بھی کستے ہیں کہ دیکھو قادیانی مرزائی جا رہی ہے۔ لیکن بیٹیوں کی اس ہمت اور ثابت قدمی کو دیکھ کر مخالفین بھی گھبرا جاتے ہیں کہ ہمارے باوجود تنگ کرنے کے ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ۔ ان کی اس ثابت قدمی کی وجہ سے آج تک مخالفین کی ہمت نہیں ہوئی کہ اُن کے گھر کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھیں۔ اب دو بیٹیوں کی اللہ تعالیٰ  کے فضل سے احمدیوں میں شادی بھی ہوگئی ہے۔

انڈونیشیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاتون داہا صاحبہ نے بیعت کی اور احمدیت میں داخل ہو گئیں۔ جس پر اُن کو اپنی والدہ اور دیگر بہن بھائیوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کی والدہ نے کہا کہ اگر تم احمدیت نہیں چھوڑتی تو میری موت پر میرے قریب نہ آنا اور نہ ہی مجھے چھونا۔ پھر اس قدر مخالفت ہوئی کہ اُس احمدی خاتون کو اپنے خاوند کے ساتھ اپنا گاؤں، اپنا گھر، اپنا کاروبار سب کچھ چھوڑنا پڑا لیکن یہ لوگ اور خاص طور پر یہ خاتون ثابت قدم رہیں ۔ کہتی ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ اگر مَیں احمدیت چھوڑ دوں اور واپس اپنے گاؤں چلی جاؤں تو مجھے کافی دنیاوی فائدہ ہو گا لیکن چونکہ مَیں احمدیت کی حقیقت کو جان چکی ہوں اس لئے اب احمدیت کو چھوڑنا میرے لئے ناممکن ہے۔ میں نے دنیا پر اپنے دین کو مقدم کر لیا ہے۔

 پس یہ ہے اس عہد پر قائم ہونے کی ایک اعلیٰ مثال جو ہزاروں میل دور بیٹھی ہوئی خاتون بھی دکھا رہی ہے۔ اس کا اظہار کر رہی ہے۔

پھر امیر صاحب انڈونیشیا لکھتے ہیں کہ تاسک ملایا میں’ سکا ساری‘ جماعت کا ایک واقعہ ہے۔ ایک احمدی خاتون کے خاوند غیر احمدی ہیں، اُن کی ایک نو عمر لڑکی کا نام عزیزہ یولیانتی (Yulianti)ہے۔ وہ اپنے نانا اور نانی کے پاس رہتی ہے جو کہ احمدی ہیں۔ لڑکی کا والد اچانک بیمار ہو گیا۔ اُس نے اپنی بیٹی کو کہا کہ وہ احمدیت چھوڑ دے اور اُس کے پاس چلی آئے۔مَیںبیمار ہو گیاہوں اگر تم نے مجھے ملنا ہے تو احمدیت چھوڑو اور پھر میرے پاس آ جاؤ۔ اُس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ خیر اس پر نیشنل صدر صاحب نے اُس لڑکی سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ کیا احمدیت چھوڑ کر اپنے باپ کے پاس جانا چاہتی ہے؟ لڑکی نے سسکیوں بھری آواز میں صدر صاحب کو بتایا کہ گو کہ اُس کا باپ اس وقت سخت بیمار ہے اور میرا دل یہی چاہتا ہے کہ مَیں اُسے جا کر ملوں، اُس کے گلے لگوں اور اُس کو میری ضرورت بھی ہے لیکن مَیں جماعت نہیں چھوڑ سکتی۔ مَیں اپنے باپ کو تو قربان کر سکتی ہوں، اپنے جذبات کو تو قربان کر سکتی ہوں لیکن احمدیت کو قربان نہیں کر سکتی، اپنے دین کو قربان نہیں کر سکتی۔ یہ ہے ایمان کی مضبوطی کی وہ داستانیں جو آجکل دنیائے احمدیت میں ہر جگہ رقم ہو رہی ہیں۔

 کینیا سے بشارت احمد ملک صاحب مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ا یلڈوریٹ(Eldoret) کی ایک جماعت مکوٹانو(Makutano) کی ایک معمر خاتون کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی فیملی کے ساتھ جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ جب مخالفین کو علم ہوا تو انہوں نے کافی مخالفت کی اور بعض نے تو بائیکاٹ کر دیا۔ ہال ہی میں سعودی عرب کی طرف سے دی گئی امداد سے مکوٹانو گاؤںمیں ایک بڑی مسجد تعمیر کی گئی ہے اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے مالی مدد بھی دی جا رہی ہے، پیسے دئیے جا رہے ہیں۔ وہاں ڈالروں کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ اس خاتون کے گھر بھی گئے اور کہا کہ احمدیت نے تمہیں کیا دیا ہے، وہ تو کچھ مدد کرنے کی بجائے تم سے چندہ لیتے ہیں۔ تم ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ ہماری مسجد میں آیا کرو تو تمہیں ہمیشہ مدد ملتی رہے گی۔ اس پر اُس غریب عورت نے جواب دیا کہ پیسوں کے لالچ میں مَیں تمہاری مسجد میں نہیں آ سکتی۔ تم لوگ فتنہ پیدا کرتے ہو۔تمہارے پاس اسلام نہیں ہے۔حقیقی اسلام احمدیت کے پاس ہے۔ احمدیت نے ہمیں وہ نور دیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے۔ اب ہمارا جینا مرنا احمدیت ہی ہے اور اسی سے وابستہ ہے۔ مَیں تو اُن مولویوں کو کہتی ہوں جو عرب سے آئے ہوئے تھے کہ تم بھی احمدیت کی آغوش میں آ جاؤ توہر قسم کا امن پاؤ گے۔ اس پر وہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔

            پھر تامل ناڈو انڈیا سے ہی بشارت صاحب وہاں کے امیر ہیں، کہتے ہیں کہ ہماری ایک نئی جماعت کڈلور میں گزشتہ دنوں جب مخالفین کی طرف سے جماعت کے خلاف تحفظ ختم نبوت کے نام پر (یہ نام نہاد تحفظ ختم نبوت ہے۔ اصل تحفظ ختم نبوت تو جماعت احمدیہ کا کام ہے) جلسہ منعقد کیا گیا تو اس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بدزبانی اور گالیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ احمدی احباب نے اس کے جواب میں اگلے ہفتہ جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کرنا چاہا لیکن مخالفین نے اس کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ پولیس سٹیشن جا کر ہمارے خلاف حکومتی کارندوں کو اُکسایا۔ چنانچہ پولیس والوں نے مُلّاؤں کی باتوں میں آ کر ہمارا جلسہ روکنے کا ارادہ کر لیا۔ پولیس بھی ان کے ساتھ مل گئی۔ ہمارے ایک مبلغ اجازت کی غرض سے جب پولیس اسٹیشن جانے لگے تو اُس وقت موقع پر حاضرعورتوں میں سے ایک عورت عائشہ بی بی صاحبہ نے کہا کہ میرا جانا بھی وہاں ضروری ہے۔ یہ کہہ کر برقعہ پہن لیا اور وہ خاتون پولیس اسٹیشن پہنچ گئی۔ چونکہ اُس دن مرد لوگوں میں سے بہت کم تھے، اکثر کام پر گئے ہوئے تھے۔ اور اس موقع پرجو موجود تھے وہ ایسے لوگ نہیں تھے جو پولیس کو صحیح طرح اپنا مدعا بیان کر سکیں۔ جب مبلغ صاحب نے حکام سے بات چیت کی تو پولیس نے کہا کہ آپ تو یہاں کے لوکل آدمی نہیں ہیں اور نہ اس کی اجازت لینے کے حقدار ہیں کیونکہ آپ لوکل نہیں ہیں۔ اس لئے ہم آپ کو اجازت نہیں دے سکتے۔یہاں سے چلے جائیں ۔ لہٰذا لوکل افراد کا یہاں آنا ضروری ہے وہ آئیں گے پھر ہم سوچیں گے۔ انہوں نے بہانہ بنایا۔ اس پر عائشہ بی بی صاحبہ نے پُر زور آواز میں، بڑے جوش سے کہا کہ مَیں یہاں کی لوکل ہوں۔ آپ مجھے اجازت دیں۔ ہم کیوں اپنے مذہب کی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتے۔ ہم یہاں جلسہ کریں گے اور احمدیت کی برتری ثابت کرنے کے لئے ہر کوشش کریں گے۔ اور یہ ثابت کریں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اصل اور حقیقی عشق احمدیوں کو ہے۔ اس پر پولیس حکاّم حیرت زدہ ہو گئے اور غیر احمدیوں کی طرف سے جو حالات پیش کئے گئے تھے، وہ اُن کو بتائے لیکن بہر حال اس جرأت مند قدم سے جو احمدی عورت نے اُٹھایا پھر جلسے کی اجازت دے دی۔

            پھر بنگال کلکتہ زون کا ہی ایک واقعہ ہے۔ اگست 2012ء ،رمضان المبارک کی تیس تاریخ کو جماعت احمدیہ عطا پور میں بعد نماز فجر درس کے دوران غیر احمدیوں نے لاٹھیوں اور دوسری چیزوں وغیرہ سے مسجد پر حملہ کر دیا۔ اُس وقت انہوں نے معلم صاحب پر حملہ کیا ۔مگر ہماری احمدی عورتوں نے بڑی ہمت کے ساتھ معلم صاحب کو گھیرے میں لے کر بحفاظت ایک احمدی آدمی کے گھر پہنچا دیا۔ اُس وقت احمدی عورتوں کو معلم صاحب کی حفاظت کرنے کی وجہ سے کافی مار بھی کھانی پڑی لیکن انہوں نے اپنی ڈیوٹی نہیں چھوڑی۔ اُس مرد کی حفاظت ان عورتوں نے کی اور انہوں نے مخالفین کا ڈٹ کر سامنا کیا۔ یہ ہے احمدیوں کی جرأت جو احمدی عورتوں نے دکھائی۔

            امیر صاحب بنگلہ دیش لکھتے ہیں کہ اپریل 2005ء کو جب سُندر بن میں ، ہماری مسجد پر مُلّاؤں نے قادیانی عبادتگاہ کا بورڈ نصب کر دیا اور اس کے لئے بڑا جلوس نکالا تو اس جلوس نے احمدی گھروں پر بھی حملہ کر دیا اور لُوٹ مار شروع کر دی۔ اُس وقت سارے مرد مسجد کی حفاظت کے لئے گئے ہوئے تھے اور خواتین اور بچے گھروں میں تھے۔ عورتوں نے بڑی بہادری کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ قریباً بارہ عورتیں زخمی ہوئیں جن میں سے پانچ کو شدید زخمی حالت میں ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال میں منتقل کرنا پڑا۔ ایک عرصہ تک وہ ہسپتال میں زیرِ علاج رہیں اور پھر واپس آئیں لیکن انہوں نے مردوں کا مقابلہ کیا اور اپنے ایمان کو ضائع نہیں ہونے دیا۔

 امیر صاحب گیمبیا تحریر کرتے ہیں کہ اَپر رِیور ریجن(Upper River Region) کی سسٹر فاتو باہا اور ان کے خاوند پر 2001ء میں گاؤں والوں نے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں گاؤں کا ہیڈ بھی شامل تھا۔ جو چیف تھا۔ اس حملے میں اس کے خاوند کو بری طرح زخمی کر دیا گیا۔ اُسے فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ چند دن داخل رہا۔ یہ حملہ اُس وقت ہوا جب اُن کے گھر بچے کا نام رکھنے کی تقریب ہو رہی تھی۔ افریقہ میں رواج ہے بچوں کے نام رکھنے کے لئے وہ تھوڑا سا فنکشن کرتے ہیں۔ حملہ آوروں نے تمام کھانے کے برتن بھی الٹا دئیے۔ جو دعوت ہو رہی تھی اس میں مہمان آئے ہوئے تھے۔ گھر والے، خاندان والے اکٹھے تھے۔ کھانا تیار تھا۔ سارا پکا ہوا کھانا انہوں نے الٹا دیا۔ کھانوں میں ریت ڈال دی، مٹی ڈال دی اور اسی پر بس نہیں کی بلکہ حملہ آوروں نے بعد میں احمدیہ مسجد پر بھی حملہ کر کے مسجد کو بھی شہید کر دیا۔ جب ان کے رشتے داروں کو معلوم ہوا تو وہ اُن کو بچانے کے لئے آئے اور رشتے داروں نے صرف اتنا کہا کہ ہم یہی کر سکتے ہیں کہ بحفاظت نکال کر تمہیں محفوظ مقام پر پہنچا دیں۔ جب میاں بیوی سے کہا گیا کہ آپ یہ علاقہ چھوڑ دیں۔ تو اس عورت نے کہا کہ ہم آپ کی مدد کی قدر کرتے ہیں۔ آپ کابڑا شکریہ کہ ہماری مدد کے لئے آئے لیکن ہم احمدی ہیں اور جماعت کی اجازت کے بغیر ہم علاقہ خالی نہیں کریں گے۔ چنانچہ ایریا مشنری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مخالفت کے باعث کوئی تمام تر علاقہ خالی کرا لیا گیا ہو۔ آپ کو ہر حال میں یہاں رہنا چاہئے۔ یہ بات سن کر اس خاتون نے سب کو واضح طور پر کہہ دیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم یہ علاقہ نہیں چھوڑیں گے۔ اگر یہ خاتون اس موقع پر ایسی بہادری کا نمونہ نہ دکھاتیں تو یہ علاقہ احمدیت سے خالی ہو جاتا۔  بہر حال بعد ازاں مرکز کی مداخلت پر ریجن کے گورنر کو رپورٹ کی گئی جس نے پولیس کو بھجوا کر حالات کنٹرول کروائے۔ جو مسجد انہوںنے گرائی تھی وہ بھی اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ تعمیر ہو چکی ہے۔باقاعدہ وہاں معلم بھی ہے، جماعت بھی وہاں قائم ہے اور ایم ٹی اے وغیرہ کے ذریعہ سے اس وقت یہ پروگرام بھی وہاں سنا جا رہا ہے کیونکہ سولر پینل کے ذریعے سے وہاں بجلی کا بھی انتظام ہو چکا ہے۔

 پس یہ چند مثالیں مَیں نے آپ کے سامنے یہ بتانے کے لئے رکھی ہیںکہ ان مثالوں کو ہم نے آئندہ بھی زندہ رکھنا ہے۔ یہ بتانے کے لئے مَیں نے یہ آپ کے سامنے پیش کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا دین کو دنیا پر مقدم رکھے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ کوئی لڑکی اس کمپلیکس میں مبتلا نہ ہو کہ جدید فیشن کا نہیں پتہ یا اُسے دنیاداروں کی طرح بالی وڈ کا نہیں پتہ، ہالی وڈ کا نہیں پتہ۔ یہ مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ مجھے ایک لڑکی کا واقعہ پتہ لگا ۔ وہ اس بات پر پریشان تھی کہ لڑکیاں سکول میں بالی وڈ کا ذکرکررہی تھیںتو لڑکیوں نے اُسے کہا کہ تمہیں بالی وڈ کاپتہ ہے ،تو اُس نے کہا بالی وڈ کیا چیز ہے۔ تو انہوں نے اُس کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا کہ تمہیں یہ بھی نہیں پتہ تو تم نے کیا ترقی کرنی ہے، تم نے کیا سیکھنا ہے؟

پس دنیادار لڑکیوں کی طرح یا عورتوں کی طرح اس بات کی فکر نہ کریں کہ ہمیں بالی وڈ کا نہیں پتہ یا فلاں چیز کا نہیں پتہ یا دنیاوی چیز کا نہیں پتہ یا یہ نہ کہیں یہ جو آج کل نئی اختراع نکالی ہے نئی ٹرم جو نکالی ہے کہ میرامِی ٹائم (Me Time)ہونا چاہئے۔ ہاں اگر نمازیں قضاء ہو رہی ہیں تو فکر کریں، اگر قرآنِ کریم کی تلاوت میں کمی ہے تو فکر کریں۔ اگر قرآنِ کریم کا ترجمہ سیکھنے میں کمی ہے تو فکر کریں۔ اگر کسی احمدی عورت اور لڑکی کو خلیفہ وقت کی طرف سے دین کی خدمت کے لئے آواز دی جا رہی ہے اور وہ آگے نہیں بڑھتی تو یہ فکر کی بات ہے۔ اگر آپ اپنا دین چھپا رہی ہیںاور کسی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہیں تو یہ فکر کی بات ہے۔ پس یاد رکھیں جس عظیم کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں آئے تھے اس کو پورا کرنے کے لئے، آپ کا مددگار بننے کے لئے اگر انصار اور خدام کی ضرورت ہے تو لجنہ کی بھی ضرورت ہے۔ پس دین کی خاطر قربانی کے نئے جذبے کے ساتھ آج یہاں سے جائیں اور ہمیشہ اس کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ان تمام دنیاوی خواہشات کو قربان کر دیں جو وقتاً فوقتاً دنیاداروں کی طرف سے آپ کے دل میں ڈالی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں

اپنا تبصرہ بھیجیں