خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ 30اگست2013ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جیسا کہ کچھ حد تک میں خطبہ میں بھی ذکر کر چکا ہوں، ہمارا یہ جلسہ خالص دینی جلسہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جلسوں کا مقصد افرادِ جماعت کو اُن اعلیٰ معیاروں تک پہنچانا تھا جہاں تقویٰ میں ترقی بھی نظر آئے، ایمان کی مضبوطی بھی نظر آئے اور حقوق العباد کی ادائیگی کے معیار بھی بلند ہوتے نظر آئیں۔ اس بارے میں آپ علیہ السلام نے بارہا ہمیں توجہ دلائی ہے، بارہا ہمیں نصائح فرمائی ہیں، بار بار بڑے درد اور فکر سے ان باتوں کو دہرایا تا کہ ہماری روحانی اور عملی حالتوں میں ترقی ہو۔ ہم اُس مقام پر پہنچ سکیں جو زمانے کے امام کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے ہمیں حاصل ہونا چاہئے۔ ہم وہ معیار حاصل کر سکیں جو ایک حقیقی مسلمان کو حاصل کرنا چاہئے تا کہ وہ انعامات حاصل کر سکیں، اُن حقیقی خوشخبریوں کے حاصل کرنے والے بن سکیں جو اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی مسلمان کے لئے مقدر کی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان نصائح کو مختلف جگہوں پر پیش فرمایا، مختلف رنگ میں پیش فرمایا۔ ان نصائح کو مَیںآپ کے الفاظ میں ہی اس وقت آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دلی کیفیت کا اندازہ ہو، اور ہمارے سامنے آپ کی دلی کیفیت آ جائے اور ہم جلسے کے اس خاص ماحول میں اور اس ماحول کے زیرِ اثر زیادہ سے زیادہ ان معیاروں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ سچی خوشحالی اور راحت کس طرح حاصل ہوتی ہے، فرماتے ہیں کہ:
’’ لوگ حقیقتِ اسلام سے بالکل دُور جا پڑے ہیں۔ اسلام میں حقیقی زندگی ایک موت چاہتی ہے جو تلخ ہے لیکن جو اس کو قبول کرتا ہے آخر وہی زندہ ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ انسان دنیا کی خواہشوں اور لذّتوں کو ہی جنّت سمجھتا ہے حالانکہ وہ دوزخ ہے۔ اور سعید آدمی خدا کی راہ میں تکالیف کو قبول کرتا ہے اور وہی جنت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا فانی ہے اور سب مرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ آخر ایک وقت آ جاتا ہے کہ سب دوست، آشنا، عزیز و اقارب جدا ہو جاتے ہیں۔ اُس وقت جس قدر ناجائز خوشیوں اور لذّتوں کو راحت سمجھتا ہے وہ تلخیوں کی صورت میں نمودار ہو جاتی ہیں۔ سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے۔ متقی کے لئے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق: 3۔4) پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے۔ لیکن حصولِ تقویٰ کے لئے نہیں چاہئے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں۔ تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے ملے گا۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے، تقویٰ اختیار کرو جو چاہو گے وہ دے گا۔ جس قدر اولیاء اللہ اور اقطاب گزرے ہیں انہوں نے جو کچھ حاصل کیا تقویٰ ہی سے حاصل کیا۔ اگر وہ تقویٰ اختیار نہ کرتے تو وہ سبھی دنیا میں معمولی انسانوں کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے۔ دس بیس کی نوکری کر لیتے یا کوئی اَور حِرفہ یا پیشہ اختیار کر لیتے۔ اس سے زیادہ کچھ نہ ہوتا۔ مگر آج جو عروج اُن کو ملا اور جس قدر شہرت اور عزّت انہوں نے پائی۔ یہ سب تقویٰ ہی کی بدولت تھی۔ انہوں نے ایک موت اختیار کی اور زندگی اُس کے بدلے میں پائی۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 90۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’قرآنِ شریف تقویٰ ہی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علّتِ غائی ہے۔‘‘ یعنی یہی اس کا اصل مقصد ہے ’’اگر انسان تقویٰ اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ اس کی طرف اشارہ کر کے سعدی کہتا ہے ؎
کلید در دوزخ است آں نماز
کہ در چشم مردم گذاری دراز‘‘
یعنی دوزخ کی کنجی وہ نماز ہے جو لوگوں کے لئے لمبی کر کے پڑھی جائے یعنی دکھاوے کے لئے پڑھی جائے۔
فرمایا:’’ریاء الناس کے لئے خواہ کوئی کام بھی کیا جاوے اور اس میں کتنی ہی نیکی ہو وہ بالکل بے سُود اور الٹا عذاب کا موجب ہو جاتا ہے۔ اِحیاء العلوم میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانے کے فقراء خدا تعالیٰ کے لئے عبادت کرنا ظاہر کرتے ہیں مگر دراصل وہ خدا کے لئے نہیں کرتے بلکہ مخلوق کے واسطے کرتے ہیں۔ انہوں نے عجیب عجیب حالات ان لوگوں کے لکھے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں(کہ) ان کے لباس کے متعلق لکھا ہے کہ اگر وہ سفید کپڑے پہنتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ عزت میں فرق آئے گا ‘‘ یعنی سفید کپڑے، صاف ستھرے کپڑے پہننے سے اُن کی بزرگی ظاہر نہیں ہو گی ’’اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر میلے رکھیں گے تو عزت میں فرق آئے گا۔‘‘ اگر میلے ہوں گے تو پھر امراء کے سامنے سبکی ہو گی، وہاں جا نہیں سکیں گے ’’ اس لئے امراء میں داخل ہونے کے واسطے یہ تجویز کرتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کے کپڑے پہنیں مگر ان کو رنگ لیتے ہیں۔ ایسا ہی اپنی عبادتوں کو ظاہر کرنے کے لئے عجیب عجیب راہیں اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً روزہ کے ظاہر کرنے کے واسطے‘‘ دوسروں کو یہ بتانے کے لئے کہ میں نے نفلی روزہ رکھا ہوا ہے ’’وہ کسی کے ہاں کھانے کے وقت پر پہنچتے ہیں اور وہ کھانے کے لئے اصرار کرتے ہیں‘‘ اگر گھر والا کھانے کے لئے اصرار کرے ’’تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کھائیے میں نہیں کھائوں گا، مجھے کچھ عذر ہے۔ اس فقرہ کے یہ معنی ہوتے ہیں (کہ) مجھے روزہ ہے۔ اس طرح پر حالات ان کے لکھے ہیں۔ پس دنیا کی خاطر اور اپنی عزت اور شہرت کے لئے کوئی کام کرنا خدا تعالیٰ کی رضا مندی کا موجب نہیں ہوسکتا۔ اس زمانہ میں بھی دنیا کی ایسی ہی حالت ہو رہی ہے ۔ہر ایک چیز اپنے اعتدال سے گر گئی ہے۔ عبادات اور صدقات سب کچھ ریاکاری کے واسطے ہو رہے ہیں۔ اعمال صالحہ کی جگہ چند رسوم نے لے لی ہے۔ اس لئے رسوم کے توڑنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ کوئی فعل یا قول قال اﷲ اور قال الرسول کے خلاف اگر ہو تو اسے توڑا جائے۔‘‘ یعنی وہ تمام رسمیں جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے خلاف ہیں وہ بدعات ہیں، وہ رسوم ہیں، اُن کو توڑنا ہمارا فرض ہے۔ فرمایا: ’’جبکہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ہمارے سب اقوال اور افعال اﷲ تعالیٰ کے نیچے ہونے ضروری ہیں پھر ہم دنیا کی پروا کیوں کریں؟ جو فعل اﷲ تعالیٰ کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو اس کو دور کر دیا جاوے اور چھوڑا جاوے۔ جو حدودِ الٰہی اور وصایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہوں ان پر عمل کیا جاوے کہ ِاحیاء سنّت اسی کا نام ہے۔ اور جو امور وصایا آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے خلاف نہ ہوں یا اﷲ تعالیٰ کے احکام کے خلاف نہ ہوں اور نہ ان میں ریا کاری مدّنظر ہو بلکہ بطور اظہارشکر اور تحدیث بالنعمۃ ہوں تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 390-391۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اگر دکھاوا نہیں ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے لئے تحدیثِ نعمت کے طور پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اظہار ہوتا ہے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق ہے اور یہ جائز ہے۔ لیکن اس کے لئے ہم میں سے ہر شخص کو ہر ایک کو اپنے دل کو خود ٹٹولنا ہو گا کہ کیا یہ اظہار اللہ تعالیٰ کے شکرِ نعمت کے طور پر ہے یا خود پسندی کے اظہار کے طور پر اور دنیا دکھاوے کے لئے۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ تقویٰ سے انسان اللہ تعالیٰ کے کس قدر انعامات کا وارث بنتا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اُٹھ گیا ہے۔ کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس:10) کا مصداق ہو گا۔ پاکیزگی اور طہارت عمدہ شئے ہے۔ انسان پاک اور مطہر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔ لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذات کی ہر ایک شئے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔ چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خدا تعالیٰ اسے اور راہ سے مالدار کردے۔ اسی طرح زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خد اتعالیٰ اس کی خواہش کو اور راہ سے پوری کردے جس میں اس کی رضا حاصل ہو۔ حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی کوئی بھی برائی جب انسان کرتا ہے، اُس وقت جو اُس کی حالت ہوتی ہے اُس کے دل سے اُس وقت ایمان نکل چکا ہوتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایمان کی حالت ہو اور انسان برائیوں میں مبتلا ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اُس سے نکل جاتا ہے اور جب خدا تعالیٰ کا خوف نکلا تو ایمان بھی نکل گیا۔ پھر آپ اس فقرے کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھا سکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے۔ اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے۔ جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پاسکتا ہے۔‘‘ اگر یہ ایمان ہو کہ خدا تعالیٰ میرے ہر فعل کو دیکھ رہا ہے تو یہ برائیاں ہو ہی نہیں سکتیں، کسی برائی میں انسان مبتلا نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کہ:’’ اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے۔ جسے وہ عطا ہو تو وہ سب کچھ پا سکتا ہے۔ بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے‘‘۔ چھوٹے گناہوں اور بڑے گناہوں سے بچے۔ ’’انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچاسکتے۔‘‘ جتنی بھی حکومتیں ہیں ان کے قانون ہیں، ان کے حکم ہیں، یہ گناہوں سے نہیں بچا سکتے، بلکہ اب تو حکومتوں کے قانون ایسے بن رہے ہیں جو گناہوں میں مبتلا کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان حکومتوں پر بھی رحم کرے اور ان کو عقل اور سمجھ عطا کرے۔ فرمایا: ’’ حُکّام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے۔ انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کرکے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے۔ اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے‘‘۔ جہاں انسان نے یہ سمجھا کہ میں اکیلا ہوں اور مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا، اس کا مطلب خدا تعالیٰ کا خوف بھی ختم ہو گیا اور جب یہ ختم ہوا تو فرمایا اُس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے۔’’ اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے دیکھتا ہے۔ ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا تو کبھی گناہ نہ کرتا۔ تقویٰ سے سب شئے ہے۔ قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ:5) سے مراد بھی تقویٰ ہے کہ انسان اگر چہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرنا اور اپنے ہر فعل کو اللہ تعالیٰ کی مدد کی وجہ سے عمل میں لائے جانے کو جب انسان سوچتا ہے تو یہی تقویٰ ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ:5) جب ہم کہتے ہیں تو یہ تقویٰ کی طرف لے جانے والی چیزہے۔ فرمایا:’’پھر دوسری سورت بھی ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ:3)سے شروع ہوتی ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو۔ اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے۔‘‘ یعنی خواہشات اور ارادے جو گناہوں کے ہوں اٹھا دیتا ہے۔’’ بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے۔ دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے۔ جس شئے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی۔ایک اور آیت قرآن شریف میں ہے اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا (حٰمٓ سجدہ:31) اس سے بھی مراد متقی ہیں۔ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا یعنی ان پر زلزلے آئے، ابتلا ء آئے، آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے ہیں اس سے نہ پھرے۔ پھر آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلائی تو اس کا اجر یہ ملا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو، تمہارا خدا متولّی ہے۔ وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حٰمٓ سجدہ:31)اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے۔ اور اس جنت سے یہاں مراد دنیا کی جنت ہے جیسے قرآن مجید میں ہے۔ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(الرحمٰن:47)‘‘۔ اور جو اپنے رب کی شان سے ڈرتا ہے، اُس کے مقام سے ڈرتا ہے، اُس کے لئے دو جنّتیں ہیں، دنیا میں بھی اور اخروی بھی۔ پھر فرماتے ہیں ’’پھر آگے ہے۔ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (حٰم السجدۃ:32) دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفّل ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 2صفحہ 557تا559۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک موقع پر آپ علیہ السلام نے تقویٰ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے وہ یہی ہے‘‘ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد کیا ہے؟ فرمایا ’’وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے۔ تقویٰ ہوناچاہئے نہ یہ کہ تلوار اٹھائو۔ یہ حرام ہے۔ اگر تم تقویٰ کرنے والے ہو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہو گی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزواعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں، یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اس وقت کُل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ حقیقی خدا چُھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے۔ مگر اب خد اچاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکّل نہیں ہوسکتے۔‘‘(ملفوظات جلد 2صفحہ 645۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا کہ تمام قسم کے اخلاقِ رذیلہ کو چھوڑنے اور اخلاق فاضلہ اختیار کرنے کے لئے تقویٰ میں ترقی ضروری ہے۔
اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ :’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلفِ حقوق، ریا، عُجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کر کے اُن کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔ لوگوں سے مروّت، خوشی خلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں وہی اصل متقی ہوتے ہیں‘‘۔ یعنی اگر ایک ایک خُلق فرداً فرداً کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں۔’’ اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ(البقرۃ:62)ہے۔ اور اس کے بعد ان کو کیا چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے۔وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف:197)حدیث شریف میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ان کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پائوں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں۔ اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے مَیں اس کو کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خد اکے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔‘‘
پھر فرمایا کہ ’’ خدا کی رحمت کے سر چشمہ سے فائدہ اٹھانے کا اصل قاعدہ یہی ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ خاصّہ ہے کہ جیسے اس انسان کا قدم بڑھتا ہے ویسے ہی پھر خد اکا قدم بڑھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی خاص رحمتیں ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتیں۔اور اسی لئے جن پر یہ ہوتی ہیںان کے لئے وہ نشان بولی جاتی ہیں۔ اس کی نظیر دیکھ لو کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے دشمنوں نے کیا کیا کوششیں آپ کی ناکامیابی کے واسطے کیں مگر ایک پیش نہ گئی حتیٰ کہ قتل کے منصوبے کئے۔ مگر آخر ناکامیاب ہی ہوئے…‘‘۔ فرماتے ہیں: ’’اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شئے نہیں ہے۔ کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں۔ اور زکوٰۃ صاحبِ مال کو دینی پڑتی ہے۔ مگر نماز ہے کہ ہر ایک(حیثیت کے آدمی) کو پانچ وقت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اسے ہرگز ضائع نہ کریں۔ اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے۔‘‘ (اتنا پکا ایمان ہونا چاہئے)’’ اسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اسی سیکنڈ میں۔‘‘قبول کر لے۔ ’’کیونکہ دوسرے دنیاوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے۔ جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے۔ ‘‘یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کا خزانہ ہر جگہ ہر وقت بھرا ہوا ہے، اگر یہ حالت ہو تو فرمایا۔ ’’ اسے اس امر پر یقین ہو کہ مَیں ایک سمیع، علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں اگر اسے مِہر آجاوے تو ابھی دے دیوے۔‘‘ یعنی یہ یقین بھی ہو اللہ تعالیٰ پر کہ وہ دعائیں سننے والا ہے اور سب خزانوں کا مالک ہے اور اگر اُس پر ابھی مہربانی آ جائے تو ابھی دے دیوے۔ فرمایا ’’بڑی تضرع سے دعا کرے۔ نااُمید اور بدظن ہر گز نہ ہووے اور اگر اسی طرح کرے تو(اس راحت کو)جلدی دیکھ لے گا۔ اور خدا تعالیٰ کے اور اَور فضل بھی شامل حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا۔ تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہیے۔ مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لاپروا ہے۔ایک بیٹا اگر باپ کی پروا نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 680تا682۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک اہم بات جو ایک حقیقی احمدی میں ہونی چاہئے وہ ایمان کی حالت ہے، اس کی مضبوطی کی حالت ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو قسموں کا ذکر فرمایا ہے۔ جس میں سے ایک ایمان کا زبانی اقرار ہے، وہ جو ہر ایک کہتا ہے کہ الحمدللہ میں مسلمان ہوں، مسلمان بھی کہتے ہیں۔ اور دوسرا اس کا عملی اظہار ہے۔ یعنی ایک زبانی اظہار اور ایک عملی اظہار۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان دو قسم کا ہے۔ ایک وہ ایمان ہے جو صرف زبان تک محدود ہے اور اس کا اثر افعال اور اعمال پر کچھ نہیں۔ دوسری قسم ایمان باﷲ کی یہ ہے کہ عملی شہادتیں اس کے ساتھ ہوں۔ پس جب تک یہ دوسری قسم کا ایمان پیدا نہ ہو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ ایک آدمی خد اکو مانتا ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کو مانتا بھی ہو اور پھر گناہ بھی کرتا ہو۔ دنیا کا بہت بڑا حصہ پہلی قسم کے ماننے والوں کا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ وہ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں مگر یہ دیکھتا ہوں کہ اس اقرار کے ساتھ ہی وہ دنیا کی نجاستوں میں مبتلا اور گناہ کی کدورتوں سے آلودہ ہیں۔ پھر وہ کیا بات ہے کہ وہ خاصّہ جو ایمان باﷲ کا ہے اس کو حاضر ناظرمان کر پیدا نہیں ہوتا؟ دیکھو! انسان ایک ادنیٰ درجہ کے چوہڑے چمار کو حاضر ناظر دیکھ کر اس کی چیز نہیں اٹھاتا پھر اس خدا کی مخالفت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں دلیری اور جرأت کیوں کرتا ہے جس کی بابت کہتا ہے (یعنی جس کے بارے میں کہتا ہے)مجھے اس کا اقرار ہے۔ مَیں اس بات کو مانتا ہوں کہ دنیا کے اکثر لوگ ہیں جو اپنی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ہم خد اکو مانتے ہیں۔ کوئی پر میشر کہتا ہے کوئی گاڈ کہتا ہے کوئی اور نام رکھتا ہے۔مگر جب عملی پہلو سے ان کے اس ایمان اور اقرار کا امتحان لیا جاوے اور دیکھا جاوے تو کہنا پڑے گا کہ وہ نرا دعویٰ ہے جس کے ساتھ عملی شہادت کوئی نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 607-608۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
آپ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد تھا کہ اس زبانی دعویٰ کو عملی شہادت کے ساتھ سجایا جائے۔ آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالمِ آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ بھروسہ ہرگز اُس کو خدا تعالیٰ اور عالمِ آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر کچھ اَور ہے اور دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ ‘‘(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 291-292 حاشیہ)
پس ہم جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلامِ صادق کی طرف منسوب کرنے والے ہیں، اس کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں جسے احیائِ دین کے لئے بھیجا گیا تھا، جسے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے بھیجا گیا تھا، بندوں کا تعلق جڑوانے کے لئے بھیجا گیا تھا، ایمانوں کو تازہ کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا، ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ایمانوں کا معیار کیا ہے؟
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کی فطرت میں یہ امر واقعہ ہے کہ وہ جس چیز پر یقین لاتا ہے اس کے نقصان سے بچنے اور اس کے منافع کو لینا چاہتا ہے۔ دیکھو سنکھیا ایک زہر ہے اور انسان جبکہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس کی ایک رَتّی بھی ہلاک کرنے کو کافی ہے تو کبھی وہ اس کو کھانے کے لئے دلیری نہیں کرتا اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا کھانا ہلاک ہونا ہے۔ پھر کیوں وہ خد اتعالیٰ کو مان کر ان نتائج کو پیدا نہیں کرتا جو ایمان باﷲ کے ہیں۔ اگر سنکھیا کے برابر بھی اﷲ تعالیٰ پر ایمان ہو تو اس کے جذبات اور جوشوں پر موت وارد ہو جاوے۔ مگر نہیں۔ یہ کہنا پڑے گا کہ نرا قول ہی قول ہے، ایمان کو یقین کا رنگ نہیں دیا گیا ہے۔ یہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے اور دھوکا کھاتا ہے جو کہتا ہے کہ مَیں خدا کو مانتا ہوں۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’پس پہلا فرض انسان کا یہ ہے کہ وہ اپنے اس ایمان کو درست کرے جو وہ اﷲ پر رکھتاہے۔ یعنی اس کو اپنے اعمال سے ثابت کر دکھائے کہ کوئی فعل ایسا اُس سے سرزد نہ ہو جو اﷲ تعالیٰ کی شان اور اس کے احکام کے خلاف ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 608۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ علیہ السلام حقیقی ایمان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ: ’’حقیقی ایمان ایک موت ہے۔ جب تک انسان اس موت کو اختیار نہ کرے، دوسری زندگی مل نہیں سکتی۔‘‘ فرمایا:’’جو لوگ نری بیعت کر کے چاہتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں وہ غلطی کرتے ہیں۔ ان کو نفس نے دھوکا دیا ہے۔ دیکھو طبیب جس وزن تک مریض کو دوا پلانی چاہتا ہے اگر وہ اس حدتک نہ پیوے تو شفا کی امید رکھنی فضول ہے‘‘۔ ڈاکٹر کے نسخے کے مطابق جو دوا ہے، وہی کھائی جائے تو تبھی امید رکھی جا سکتی ہے کہ صحت بھی ہو۔ فرمایا ’’ مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دس تولہ استعمال کرے‘‘ ۔ اگر کوئی طبیب یا ڈاکٹر کہتا ہے کہ دوائی کا دس تولہ استعمال کرے۔ ’’اور یہ صرف ایک ہی قطرہ کافی سمجھتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا۔ پس اس حد تک صفائی کرو اور تقویٰ اختیار کرو جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 648۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا: ’’ اس شرط سے دین کو کبھی قبول نہ کرنا چاہئے کہ مَیں مالدار ہو جاؤں گا، مجھے فلاں عہدہ مل جاوے گا۔ یاد رکھو کہ شرطی ایمان لانے والے سے خدا تعالیٰ بیزار ہے۔ بعض وقت مصلحتِ الٰہی یہی ہوتی ہے کہ دنیا میں انسان کی کوئی مراد حاصل نہیں ہوتی، طرح طرح کے آفات، بلائیں، بیماریاں اور نامرادیاں لاحق ہوتی ہیں، مگر اُن سے گھبرانا نہ چاہئے۔ موت ہر ایک کے واسطے کھڑی ہے۔ اگر بادشاہ ہو جاوے گا تو کیا موت سے بچ جاوے گا؟ غریبی میں بھی مرنا ہے، بادشاہی میں بھی مرنا ہے۔ اس لئے سچی توبہ کرنے والے کو اپنے ارادوں میں دنیا کی خواہش نہ ملانی چاہئے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 220۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا : ’’ہر مومن کا یہی حال ہوتا ہے ۔اگر وہ اخلاص اور وفاداری سے اس کا ہوجاتا ہے تو خداتعالیٰ اس کا ولی بنتا ہے۔ لیکن اگر ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بیشک خطرہ ہوتا ہے۔ ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں۔ سینہ کا علم تو خدا کو ہی ہے مگر انسان اپنی خیانت سے پکڑاجاتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ سے معاملہ صاف نہیں تو پھر بیعت فائدہ دے گی نہ کچھ اَور۔ لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کی خاص حفاظت کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے آپ کو خاص کرتے ہیں اُن پر خاص تجلّی کرتا ہے۔ اور خدا کے لیے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس بالکل چکنا چُور ہوکر اس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہ جائے۔ اس لیے مَیں باربار اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو اگر دل پاک نہیںہے۔ ہاتھ پر ہا تھ رکھناکیا فا ئدہ دے گا جب دل دُور ہے ۔جب دل اور زبا ن میںا تفا ق نہیںتو میر ے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر منا فقا نہ اقرار کرتے ہیں تو یادرکھو ایسے شخص کو دو ہر ا عذاب ہو گا۔ مگر جو سچا اقر ار کر تا ہے اُس کے بڑے بڑے گنا ہ بخشے جا تے ہیں اور اس کو ایک نئی زند گی ملتی ہے۔ مَیں تو زبا ن ہی سے کہتا ہو ں، دل میں ڈالنا خدا کا کا م ہے۔‘‘ فرمایاکہ: ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا نے میں کیا کسر با قی ر کھی تھی؟ مگر ابو جہل اور اس کے امثا ل نہ سمجھے۔آپ کو اس قد ر فکر اور غم تھا کہ خدا نے خود فرمایا لَعَلَّکَ بَا خِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْ نُوْ امُؤْ مِنِیْنَ۔ (الشعراء:4)اس سے معلو م ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قد ر ہمد ردی تھی۔ آپؐ چا ہتے تھے کہ وہ ہلا ک ہو نے سے بچ جاویں مگر وہ بچ نہ سکے۔ حقیقت میں مُعلّم اور واعظ کا تواتنا ہی فر ض ہے کہ وہ بتا دیو ے۔ دل کی کھڑکی تو خداکے فضل سے کھلتی ہے۔ نجا ت اُسی کو ملتی ہے جو دل کا صاف ہو۔ جو صاف دل نہیں وہ اُچکاّ اور ڈاکو ہے۔ خدا تعالیٰ اسے بُر ی طرح مارتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد 3صفحہ 65۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’بیعت میں انسان زبان کے ساتھ گناہ سے توبہ کا اقرار کرتا ہے مگر اس طرح سے اس کا اقرار جائزنہیں ہوتا جب تک دل سے وہ اقرار نہ کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ جب سچے دل سے توبہ کی جاتی ہے تو وہ اُسے قبول کرلیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن۔ (البقرۃ:187)یعنی مَیں توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ سچے دل سے توبہ کر نے والا کرتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہوتا تو پھر توبہ کا منظور ہو ناایک مشکل امر تھا۔ سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ پھر خداتعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اُس نے توبہ کرنے والوں کے ساتھ کئے ہیں اور اسی وقت سے ایک نور کی تجلّی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے۔ جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ مَیں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقّدم رکھوں گا تو اس کہ معنی یہ ہیںکہ اگر مجھے اپنے بھائیوں، قریبی رشتہ داروں اور سب دوستوں سے قطع تعلّق ہی کرنا پڑے مگر مَیں خدا تعالیٰ کو سب سے مقّدم رکھوں گااور اُسی کے لئے اپنے تعلقات چھوڑتا ہوں۔ ایسے لوگوں پر خداتعالیٰ کا فضل ہو تا ہے کیونکہ انہی کی توبہ دلی توبہ ہو تی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 3صفحہ 219۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر حقوق العباد کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں ۔دین کے دو ہی حصے ہیں، ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ اُن کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور اُن کے لئے دعا کرنا۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد2صفحہ 146مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا کہ:’’شریعت کے دو ہی قسم کے حقوق ہیں۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد۔ مگر مَیں جانتا ہوں کہ اگر کوئی بد قسمت نہ ہو تو حقوق اﷲ پر قائم ہونا سہل ہے‘‘ (یعنی اگر بہت ہی بدقسمت ہو تو اور بات ہے، ورنہ حقوق اللہ تو بعض لوگ ادا کردیتے ہیں۔کیوں کر دیتے ہیں؟) ’’اس لئے کہ وہ‘‘ (یعنی خدا تعالیٰ)’’ تم سے کھانے کو نہیں مانگتا اور کسی قسم کی ضرورت اسے نہیں۔ وہ تو صرف یہی چاہتا ہے کہ تم اسے وحدہٗ لا شریک خدا سمجھو۔ اس کی صفات کاملہ پر ایمان لائو اور اس کے مُرسَلوں پر ایمان لا کر ان کی اتباع کرو۔‘‘ فرمایا: ’’ لیکن حقوق العباد میں آکر مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں نفس دھوکہ دیتا ہے۔ ایک بھائی کا حق ہے اور اس کے دبا لینے کا فتویٰ دیتا ہے۔ مقدمات ہوتے ہیں تو چاہتا ہے کہ شریک کو ایک حبّہ نہ ملے۔ سب کچھ مجھ ہی کو مل جاوے۔ غرض حقوق العباد میں بہت مشکلات ہیں۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے اس کی بڑی رعایت اور حفاظت کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ آدمی دوسرے کے حقوق تلف کرنے والا ٹھہرے۔ اور یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ملتاہے جس کے لیے دعا کی بڑی ضرورت ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 4صفحہ 371۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بھی فرمایا کہ تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سے کبھی ایسے عمل نہ کروائے جو بندوں کے حقوق مارنے والے ہوں۔ فرمایا :جو شخص حقوق العباد کی پرواہ نہیں کرتا وہ آخر حقوق اللہ کو بھی چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ (جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق نہیں ادا کرتا، وہ اللہ کے حقوق بھی چھوڑ دیتا ہے۔ بھول جاتا ہے پھر) ’’کیونکہ حقوق العباد کا لحاظ رکھنا یہ بھی تو امرِ الٰہی ہے جو حقوق اللہ کے نیچے ہے۔
‘‘ فرمایا: ’’خدا تعالیٰ نے انسان پر دو ذمہ داریاں مقرر کی ہیں۔ ایک حقوق اللہ اور ایک حقوق العباد۔ پھر اس کے دو حصے کئے ہیں، یعنی اوّل تو ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری اور پھر دوسری مخلوقِ الٰہی کی بہبودی کا خیال۔‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ 180۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
حقوق العباد میں ایک تو قریبیوں کا خیال ہے جن میں سب سے بڑھ کر ماں باپ اور اُن کی اطاعت کرنا، اُن کا خیال رکھنا۔ دوسرے عامّۃ الناس کا خیال رکھنا، اپنے بھائیوں کا خیال رکھنا۔
فرمایا :’’نوعِ انسان پر شفقت اور اُس کی ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 438۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
لوگوں سے ہمدردی کرنا، اُن کے کام آنا یہ بہت بڑی عبادت ہے۔ فرمایا اور اسی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی مل جاتا ہے۔
پھر فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب ملت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو بھوکوں کو کھلاؤ غلاموں کو آزاد کرو قرض داروں کے قرض دواور زیر باروں کے بار اُٹھاؤ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو۔(نور القرآن نمبر 2 ،روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 434)
یعنی صرف اپنے مذہب والوں کی نہیں، ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کرو، انسانیت کی خدمت کرو۔ ہر ایک کے کام آؤ، غلاموں کو آزاد کرواؤ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، حقیقی ادراک حاصل کرو محبت سب سے اور نفرت کسی سے نہیں، کا۔
فرمایا: ’’تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ سے حقیقی اور سچی محبت قائم کی جاوے اور بنی نوع انسان اور اِخوان کے حقوق اور محبت میں ایک خاص رنگ پیدا کیا جاوے۔ جب تک یہ باتیں نہ ہوں تمام امور صرف رسمی ہوں گے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 67۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا: ’’میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرے کو محدود نہ کرو۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 4صفحہ 217۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر اسی طرح حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ مزید فرماتے ہیں۔ ایک مجلس میں آپ نے فرمایا کہ :
’’حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ یا بیٹا۔ مگر ان سب میں ایک دینی اخوّت ہے۔ اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی ۔
اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے۔ اس لئے ان حقوق میں دوزخ بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے ۔‘‘
فرمایا کہ: ’’ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے۔‘‘اب جہاں عارضی جھگڑے اور رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، وہاں تو دشمنیاں نہیں ہوتیں۔ اب سوچ لیں کس قدر ہمارا حق ہے ایک دوسرے پر؟ کیونکہ پہلا یہی بتایا ہے کہ تمہارا جو دینی بھائی ہیں اُن کا تمہارے اوپر حق ہے۔ آپس میں محبت پیدا کرنی ضروری ہے۔ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح:30)پر عمل کرنا ضروری ہے۔
فرمایا کہ: ’’جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے۔اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔(المؤمن:61)میںاللہ تعالیٰ نے کوئی قیدنہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا۔ بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنّت نبوی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور حقیقۃً موذی نہیں ہونا چاہئے۔ شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ مجھے میرا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو۔ ’’ ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں۔ خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اُس کے ساتھ ملایا جاوے۔‘‘ (یعنی جس طرح شرک سے بیزار ہے اسی طرح اس سے بھی بیزار ہے کہ بلا وجہ کی دشمنی ہو اور اُن کے حق نہ ادا کئے جائیں۔) فرمایا کہ: ’’ ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا۔‘‘ (یعنی ایک جگہ وہ علیحدگی نہیں چاہتا اور ایک جگہ وہ ملاپ نہیں چاہتا) ’’یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل۔‘‘ (یعنی جو دو برائیاں ہیں، وہ نہیں چاہتا کہ بنی نوع کی آپس میں علیحدگی ہو، پھوٹ پڑے، دشمنیاں پیدا ہوں۔ اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، یہ دو برائیاں بہت بڑی برائیاں ہیں) ’’اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے۔ اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیارنہیں کرتی اس میں اور اس کے غیروں میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کاہے تو اس کے ساتھ نہایت رِفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے اور ان سے محبت کرنی چاہئے۔ کیونکہ خدا کی یہ شان ہے’ بداں را بہ نیکاں بہ بخشد کریم‘‘ کہ نیکوں کے ساتھ بدوں کو بھی وہ کریم خدا بخش دیتا ہے۔
’’پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہئے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے۔ فَأِنَّھُمْ قَوْمٌ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُہُمْ۔ یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم جلیس بدبخت نہیں ہوتا۔یہ خلاصہ ہے ایسی تعلیم کا جوتَخَلَّقُوْ بِاَخْلَاقِ اللّٰہ میں پیش کی گئی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 68-69۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ وہ معیار ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہم سے امید ہے اور ہم سے توقع ہے اور ہم سے چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معیاروں کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں حقیقی تقویٰ عطا فرمائے، وہ تقویٰ جو ہر بڑی نیکی اور ہر چھوٹی سے چھوٹی کو بجا لانے کی طرف اور چھوٹی سے چھوٹی برائی سے بچنے کی طرف ہمیں توجہ دلانے والا ہو۔ ہر برائی سے ہمیں بچانے والا ہو۔ وہ تقویٰ جو خدا تعالیٰ کی خشیت ہمارے دلوں میں پیدا کرے۔ وہ ایمان ہمیں نصیب ہو جو ہمارے زبانی اقرار سے بڑھ کر ہمارے قول وفعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنے والا ہو۔ ہم اپنے نفس کو دھوکہ دینے والے نہ ہوں بلکہ ہمارا ہر عمل ہمارے ایمان کی عملی شہادت دینے والا ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہم عمل کرنے والے ہوں۔ نہ ہی ہم بدبختوں کی مجلس میں بیٹھنے والے ہوں اور نہ ہی ہماری صحبت اور مجلس کسی کو بدبخت بنانے والی ہو۔ ان دنوں میں ہم اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے اپنے جائزے لیتے رہیں، یہ ہر ایک کو دیکھنا چاہئے اور دن رات ان جائزوں میں گزاریں کہ کس حد تک ہم اُن نصائح پر عمل کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمائی ہیں۔ جو پاک تبدیلیاں ہم میں پیدا ہوں، تقویٰ کی ترقی کی طرف ہمارے قدم اُٹھیں، ہمیں ان کے جائزے لینے چاہئیں۔ یہ تبدیلیاں ہمارے ایمان و ایقان میں ترقی کا مستقل حصہ بن جائیں ۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف ہماری توجہ ہو تو ایسی توجہ ہو جو دائمی ہو۔ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ کو ہر پناہ پر فوقیت دینے والے ہوں۔ ہم اپنے حق بیعت کو ادا کرنے والے ہوں اور اپنے عَہدوں کو پورا کرنے والے ہوں۔
اگر آج ہم اس بات پر خوش ہیں کہ جماعت احمدیہ برطانیہ سو سالہ جوبلی منا رہی ہے تو اس کا فائدہ تبھی ہے جب یہ سو سال ہمارے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کا ذریعہ بننے والے ہوں اور ہم یہ عہد کریں کہ آئندہ نسلوں میں بھی ہم اُس تعلیم کو جاری رکھیں گے، اُن خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہیں، ورنہ یہ جوبلیاں اور یہ فنکشن اور یہ دعوے اور نعرے کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں ہر شر سے محفوظ رکھے۔ دشمن کا ہر منصوبہ اللہ تعالیٰ دشمن پر الٹائے اور دنیا میں ہر جگہ ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ دشمن کے شر سے بچائے۔ چلتے پھرتے اور نمازوں میں ان دعاؤں کی طرف خاص توجہ رکھیں۔ جلسہ کے ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں اور جیسا کہ مَیں نے کہا تھا اپنے جلسہ کے آنے کے مقصد کو پورا کرنے کی ہر لمحہ کوشش کریں۔ دنیائے اسلام کے لئے بھی خاص دعا کریں۔ اپنی غلطیوں کی وجہ سے، اپنے ایمانوں میں کمزوریوں کی وجہ سے، ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے حکمران رعایا کے حقوق مار رہے ہیں اور رعایا حکمرانوں کے ساتھ ظلم کر رہی ہے، یا ان کے حق ادا نہیں کر رہی اور حکمران جو ہیں رعایا پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے اس وقت بہت سے مصائب میں دنیائے اسلام گِھر چکی ہے۔ غیروں کو موقع دے رہے ہیں کہ امن کے نام پر اُن کو کمزور تر کرتے چلے جائیں۔ لیکن اب لگتا ہے کہ بات یہاں تک نہیں رہے گی۔ اگر یہی اسی طرح بڑھتے رہے تو کوئی بعید نہیں کہ دنیا کا امن بھی تباہ ہو جائے اور یہ دنیا کا امن جنگ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر شر سے انسانیت کو بچائے اور اگر کوئی ایسی چیز مقدر ہے تو اس کی وجہ مسلمان نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ اب دعا کر لیں۔
