خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ مغربی کینیڈا 19مئی2013ء
(نوٹ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِح:اً فَاِنَّہٗ یَتُوبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَاباً۔ وَالَّذِیْنَ لَایَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا۔ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًَا۔(الفرقان:74-72)
ان آیات کا ترجمہ ہے :اور جو توبہ کرے اور نیک اعمال بجا لائے تو وہی ہے جو اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے رجوع کرتا ہے۔ اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں۔ اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے ربّ کی آیات یاد کروائی جاتی ہیں تو ان پر وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔
ایک احمدی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا فرد ہونے کا اور آپ کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس سوچ کے ساتھ کہ اب مَیں اپنی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ سوچ ہے جو ایک احمدی کو حقیقی احمدی بنانے والی ہے اور ہونی چاہئے۔ اگر یہ نہیں تو احمدی ہونے کا دعویٰ بے معنی ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہی بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا اور ایک حقیقی عبدِ رحمن بنانا تھا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے والا بنانا تھا۔پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ سے تعلق میں ترقی کر رہے ہیں، اُس کے احکامات پر عمل کرنے کی اپنی تمام تر استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ہمارے لئے فکر کا مقام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو مَیں نے تلاوت کی ہیں، عباد الرحمان کی بعض خصوصیات بیان کی ہیں۔
پہلی بات یہ بیان فرمائی کہ وہ توبہ کر کے اپنے گزشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی مانگنے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اور اس عہد کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ، کوششوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی عہدِ بیعت ہے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر کیا ہے۔ وقتاً فوقتاً اس عہدِ بیعت کو دہرا کر ہم اس کا اعادہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اپنی مخلوق پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ وقتاً فوقتاً وہ انبیاء کو بھیجتا رہا اور پھر آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل اور مکمل شریعت کے ساتھ بھیجا اور پھر اس زمانے میں آپ کے عاشقِ صادق، امام الزمان اور مہدیٔ دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا تا کہ وہ انسانوں کو توبہ کے راستوں کی طرف توجہ دلائیں۔ پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے اس مقصد کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع میں قرآنِ کریم کی تعلیم کو لاگو کرنے کے لئے بھیجا تھاتا کہ دنیا کو توبہ کی راستوں کی طرف نشاندہی کر کے، گناہوں کی نشاندہی کر کے، نیکیوں کی طرف توجہ دلا کر، نیکیوں کے راستوں کی طرف نشاندہی کر کے اُن کا تعلق خدا تعالیٰ سے جوڑیں۔
جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ نے، جیسا کہ مَیں نے کہا، بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے یہ عہد پورا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
بہر حال ان باتوں کا مَیں مختصر ذکر کروں گا۔
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے توبہ اُس کو قرار دیا ہے جس کے ساتھ نیک اعمال ہوں۔ اگر صرف توبہ اور استغفار انسان کرتا رہے، جیسا عام طور پر لوگ باتیں کرتے ہوئے کرتے ہیں اور اُس کے ساتھ نیک اعمال نہ ہوں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہ ہو، خدا تعالیٰ نے اپنی رضا کے راستوں کی طرف جو نشاندہی کی ہے اُن پر چلنے کی توجہ نہ ہو تو وہ استغفار، استغفار نہیں ہے اور وہ توبہ، توبہ نہیں ہے۔
پھر نیک اعمال کی اگلی آیت میں بعض نشانیاں بتائی ہیں کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ اپنی حالتوں کو درست کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے ہوئے جھکنے والے ہیں۔ جھوٹ کے قریب بھی نہیں جاتے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ سے دور کرتا ہے۔ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ پس جو شرک کے قریب جا رہا ہو وہ عباد الرحمن نہیں بن سکتا۔
یہاں جو لفظ ’’زُور‘‘ استعمال ہوا ہے اس کے مختلف معنی اہلِ لغت نے لکھے ہیں اور ان معنوں کے مطابق ’’لَایَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ ‘‘ کہ وہ جھوٹ سے دور بھاگتے ہیں، اس کے جو مختلف معنی ہیں وہ یہ بنیں گے کہ توبہ کرنے والے بندے، اللہ تعالیٰ سے لَو لگانے والے بندے نہ تو ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں جھوٹ کی مجلسیں ہوں، لغویات ہوں اور نہ خود جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر ایسی مجلسوں سے بھی اجتناب کرتے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی اور چیز کو اہمیت دی جا رہی ہو۔ پھر توبہ کرنے والے اپنی سچی گواہیوں کے معیار بہت اونچے رکھتے ہیں۔ اپنی ہر بات میں سچائی اور قولِ سدید پر زور دینے والے ہیں۔ اور ایسے باوقار لوگ ہیں کہ لغو مجالس اور لغو باتوں سے جہاں اُنہیں اُن کے نیک اعمال اور توبہ محفوظ رکھتی ہے، وہاں دوسروں کو بھی اُن کے نیکی کے معیار کا پتہ لگتا ہے۔ یوں وہ اپنے ماحول میں بھی نیکیوں کا پرچار کرنے والے بن جاتے ہیں۔ سچائی کا ایسا معیار قائم ہوتا ہے کہ جو دوسروں کی توجہ کھینچنے والا ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں سے جو تیسری آیت ہے، اُس میں فرمایا کہ جب عبادالرحمن کو نصیحت کی جاتی ہے، اُن لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے جو یہ عہد کرتے ہیں کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کروں گا تو وہ پوری توجہ دیتے ہیں۔ جب اُنہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات یہ ہیں اور انہیں اس طرح بجا لانا ہے تو وہ اُن سے لاپرواہی نہیں برتتے کیونکہ وہ دین کو اچھی طرح سمجھ بوجھ کر اختیار کرتے ہیں یا اختیار کرنے کے بعد اُس میں مزید ترقی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کرنی چاہئے۔
ہر احمدی کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کیوں احمدی ہے اور اس کا عہدِ بیعت کیا ہے؟ نئے آنے والے تو سمجھ بوجھ کر آتے ہیں۔ جو نئے شامل ہو رہے ہیں اُن میں سے اکثریت ایسی ہے جن کی اللہ تعالیٰ خود رہنمائی فرماتا رہا۔ خوابوں کے ذریعہ سے احمدی ہوئے، پھر اُس کے بعد انہوں نے لٹریچر پڑھا۔ لیکن پرانے احمدی، بعض پیدائشی احمدی بڑی عمر میں سے بھی اور نوجوانوں میں سے بھی ہیں کہ اُن کو دین کا اس طرح پورا علم نہیں ہے اور نہ وہ اس طرف توجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہمارے باپ دادا احمدی تھے، بلکہ اس تعلیم کو جاننے کی کوشش کریں اور جانیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں دینا چاہتے ہیں، جو قرآنِ کریم کی تفسیر ہے۔ اگر یہ توجہ نہیں تو پھر ایسے لوگوں کا شمار آنکھوں والوں اور سوجاکھوں میں نہیں ہو سکتا،توبہ کرنے والوں میں نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصدیق کرنے والوں میں نہیں ہوگا، دنیاوی لغویات سے بچنے والوں میں نہیں ہو گا۔ دین کی باتیں سننے کے لئے ایسے لوگوں کے کان بند ہو جاتے ہیں اور دینی آنکھ بھی اندھی ہو جاتی ہے اور اللہ نہ کرے کہ کسی احمدی کی دینی آنکھ کبھی اندھی ہو۔ گو دنیاوی کاموں کے لئے آنکھیں بھی کھلی ہوتی ہیں اور کان بھی کھلے ہیں لیکن اُن نصائح پر عمل نہ کر کے جو خدا اور اُس کے رسول اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے ہمیں بتائے ہیں، ایسے لوگ پھر اندھے بھی ہیں اور بہرے بھی ہیں۔ مسلمان کہلانے والی بہت ساری تعداد آپ کی بیعت میں نہ آ کر باوجود مسلمان ہونے کے حقیقی مسلمان نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے جوڑ کر اندھوں اور بہروں کی اُس صف سے نکال دیا ہے جو باوجود مسلمان کہلانے کے اللہ تعالیٰ کی آیات پر عمل نہیں کر رہے، اُس کے احکامات پر عمل نہیں کر رہے۔ اُس کے نشانات دیکھ کر پھر اس زمانے میں دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے اُس کے مہدی اور مسیح موعود کی آواز پر کان نہیں دھر رہے۔ لیکن ہماری خوش قسمتی کی حقیقت اُس وقت ظاہر ہو گی جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات پر چلنے والے ہوں گے، جب ہم اپنے آپ کو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی مثال بنانے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک احمدی کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس کے لئے آپ کی نصائح میں سے چند نصائح مَیں نے لی ہیں جو اَب مَیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ہر ایک کو جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک ان نصائح پر، ان باتوں پر پورا اتر رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’ آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے……صرف ماننے سے اﷲ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا جب تک عمل اچھے نہ ہوں۔کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہوتو نیک بنو۔ متقی بنو۔ ہر ایک بدی سے بچو۔ یہ وقت دعائوں سے گزارو۔ رات اور دن تضرع میں لگے رہو۔ جب ابتلا کا وقت ہوتا ہے تو خد اتعالیٰ کا غضب بھی بھڑکا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں دعا، تضرع، صدقہ ، خیرات کرو۔زبانوں کو نرم رکھو۔ استغفار کو اپنا معمول بناؤ۔ نمازوں میں دعائیں کرو۔ مثل مشہور ہے کہ منتیں کرتا ہوا کوئی نہیں مرتا۔ نِرا ماننا انسان کے کام نہیں آتا۔ اگر انسان مان کر پھر اسے پس پشت ڈال دے تو اسے فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر اس کے بعد یہ شکایت کرنی کہ بیعت سے فائدہ نہیں ہوا بے سُود ہے۔ خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا۔‘‘(ملفوظات جلد 2صفحہ 576۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے فرمایا کہ:’’ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح بھی رکھا ہے۔ عملِ صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو۔ یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں‘‘۔ یعنی چور اس تاک میں رہتے ہیں کہ انسان کے عمل چرائیں۔’’وہ کیا ہیں؟‘‘(وہ چور جس کی آپ نے مثال دی)’’ ریا کاری ( کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے۔) عُجب ( کہ وہ عمل کرکے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے۔)‘‘۔ کوئی نیکی کر لی تو خوش ہو گیا کہ مَیں نے بہت نیکیاں کر لیں یا مَیں بہت نیک بن گیا ہوں۔’’ اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں۔ ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم، عجب، ریا، تکبر اور حقوق انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو۔ جیسے آخرت میں انسان عمل صالح سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے۔ اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔ سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔ ایک طبیب نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ لے کر اُسے پیوے۔ اگر وہ ان دوائوں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟اب اس وقت تم نے توبہ کی ہے۔ اب آئندہ خد اتعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس توبہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کیا۔ اب زمانہ ہے کہ خد اتعالیٰ تقویٰ کے ذریعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ خد اپر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے۔ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اﷲ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو، خواہ باطن کا ہو، اُسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پائوں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔ رَبَّنَا ظَلَمۡنَا اَنۡفُسَنَا وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡلَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ۔(الاعراف: 24)‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 576-577 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
یہ تفصیل آپ نے بیان فرمائی کہ جسم کا ہر عضو جو ہے اُس سے گناہ ہوتا ہے۔ آنکھ کا گناہ بدنظری کرنا، غلط چیزیں دیکھنا ہے۔ غلط باتیں سننا کان کا گناہ ہے۔ زبان کا گناہ غلط باتیں کرناہے۔ غلط کاموں کی طرف جانا پاؤں کا گناہ ہے۔ اور انسان کا ہر عضو جو ہے وہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور اس سے بچنا ایک مومن کا فرض ہے۔
فرمایا : ’’یہ دعا اول ہی قبول ہو چکی ہے۔ غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گزارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بَلا میں مبتلا ہو۔ کوئی بَلا بغیر اِذن کے نہیں آتی۔ جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی۔ رَبِّ کُلُّ شَیۡئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحۡفَظۡنِیۡ وَانۡصُرۡنِیۡ وَارۡحَمۡنِیۡ۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 576-577 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر بیعت کا مغز کیا ہے؟ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:
’’اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اُس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا میں چھِلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی اور اسلام کا مدّعی سچا مدّعی نہیں ہے‘‘۔( مغز جو ہے ہر چیز کا پیدا کرنا چاہئے۔ اُس کی بنیادی تعلیم کیا ہے۔ یہ جاننے کی ضرورت ہے۔)’’ یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھِلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں، موت کس وقت آ جاوے۔ لیکن یہ یقینی امر ہے کہ موت ضرور ہے۔ پس نرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ۔ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیز نہیں۔ جب تک انسان اپنے آپ پر بہت سی موتیں وارد نہ کرے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے، وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 416 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا :’’ابدال، قطب اور غوث وغیرہ جس قدر مراتب ہیں یہ کوئی نماز اور روزوں سے ہاتھ نہیں آتے۔ اگر ان سے یہ مل جاتے تو پھر یہ عبادات تو سب انسان بجا لاتے ہیں۔ سب کے سب ہی کیوں نہ ابدال اور قطب بن گئے۔ جب تک انسان صدق و صفاکے ساتھ خدا تعالیٰ کا بندہ نہ ہوگا تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے۔ جب ابراہیم کی نسبت خداتعالیٰ نے شہادت دی وَاِبۡرَاھِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰی (النجم:38) کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا۔ تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت ِ الٰہی سے بھرنا، خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظلّ اصل کا تابع ہوتا ہے‘‘( یعنی سایہ اصل کا تابع ہوتا ہے) ’’ ویسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو کوئی فرق نہ ہو۔ یہ سب باتیں دُعا سے حاصل ہوتی ہیں۔ نماز اصل میں دعا کے لئے ہے کہ ہر ایک مقام پر دُعا کرے۔ لیکن جو شخص سویا ہوا نماز ادا کرتا ہے کہ اُسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں۔ جیسے دیکھاجاتا ہے کہ بعض لوگ پچاس پچاس سال نماز پڑھتے ہیں، لیکن اُن کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا حالانکہ نماز وہ شئے ہے کہ جس سے پانچ دن میں رُوحانیت حاصل ہو جاتی ہے۔ بعض نمازیوں پر خدا تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے جیسے فر ماتا ہے فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ (الماعون: 5) وَیْل کے معنے لعنت کے بھی ہوتے ہیں۔ پس چاہئے کہ ادائیگی نمازمیں انسان سُست نہ ہو اور نہ غافل ہو۔ ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے۔ نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھے۔ بہت سی ریاکاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے۔ پوچھا جاوے تو لوگ کہتے ہیں کہ برادری کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا۔ ایک حرام خور کہتا ہے کہ بغیر حرام خوری کے گزارہ نہیں ہوسکتا۔ جب ہر ایک حرام گزارہ کے لیے انہوں نے حلال کر لیا تو پوچھو کہ خدا کیا رہا؟‘‘ (جب ہر چیز دنیا داری کے لئے ہی اختیار کرنی ہے تو پھر خدا کا خانہ کہاں گیا؟) ’’اور تم نے خدا کے واسطے کیا کیا ؟ان سب باتوں کو چھوڑنا موت ہے جو بیعت کرکے اس موت کو اختیار نہیں کرتا تو پھر یہ شکایت نہ کرے کہ مجھے بیعت سے فائدہ نہیں ہوا۔ جب ایک انسان ایک طبیب کے پاس جاتا ہے تو جو پر ہیز وہ بتلاتا ہے اگر اسے نہیں کرتا تو کب شفا پا سکتا ہے؟ لیکن اگر وہ کرے گا تو یَوْماً فَیَوْماً تر قی کرے گا۔ یہی اصول یہاں بھی ہے ۔‘‘
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 457-458 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرماتے ہیں:’’ جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر مَیں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجودِ و احد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دُعا کرو۔ اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے‘‘۔ (انسان اپنے بھائی کے لئے غائب میں ایک دعا کر رہا ہے تو فرشتہ اُس کے لئے دعا کر رہا ہے۔) ’’اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔
مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اول خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلائو کہ غیروں کے لیے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوئی تھی۔ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ (آل عمران: 104)۔یاد رکھو! تالیف ایک اعجاز ہے‘‘۔( یعنی آپس میں محبت، پیار ، خیال رکھنا جو ہے، یہ ایک اعجاز ہے۔) ’’ یاد رکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بَلا میں ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں…۔‘‘(اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے بچائے۔)
پھر فرماتے ہیں ’’یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی۔ وہ ضرور ہو گی۔تم کیوں صبر نہیں کرتے۔جیسے طبّی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے، مرض دفع نہیں ہوتا۔ میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیداہو گی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے؟ بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں…۔ ‘‘ فرمایا: ’’ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے۔ اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چُوستی ہے مگر وہ اُس کو سر سبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔ پس ڈرو، میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 336 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں:’’ کیا اطاعت ایک سہل امرہے۔ جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے۔ حُکم ایک نہیں ہوتا بلکہ حُکم تو بہت ہیں۔ جس طرح بہشت کے کئی دروازے ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اسی طرح دوزخ کے کئی دروازے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 411 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا:’’ خدا تعالیٰ کا شدید عذاب آنے والا ہے اور وہ خبیث اور طیب میں ایک امتیاز کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں فرقان عطا کرے گا جب دیکھے گا کہ تمہارے دلوں میں کسی قسم کا فرق باقی نہیں رہا۔ اگر کوئی بیعت میں تو اقرار کرتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا مگر عمل سے وہ اس کی سچائی اور وفائِ عہد ظاہر نہیں کرتا تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے۔ اگر اس طرح پر ایک نہیں سو بھی مر جائیں تو ہم یہی کہیں گے کہ اُس نے اپنے اندر تبدیلی نہیں کی اور وہ سچائی اور معرفت کے نور سے جو تاریکی کو دور کرتااور دل میں یقین اور لذت بخشتا ہے، دُور رہا اور اس لئے ہلاک ہوا۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 408 حاشیہ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ کی کیا حالت ہو گئی۔ ہرایک حالت میں تبدیلی ہے۔ پس اس تبدیلی کو مدّ نظر رکھو اور آخری وقت کو ہمیشہ یادرکھو۔ آنے والی نسلیں آپ لوگوں کا منہ دیکھیں گی اور اسی نمونہ کو دیکھیں گی۔ اگرتم پورے طور پر اپنے آپ کو اس تعلیم کا عامل نہ بناؤ گے تو گویا آنے والی نسلوں کو تباہ کروگے۔‘‘ فرمایا’’ انسان کی فطرت میں نمونہ پرستی ہے۔ وہ نمونہ سے بہت جلد سبق لیتا ہے۔ ایک شرابی اگر کہے کہ شراب نہ پیو یا ایک زانی کہے کہ زنانہ کرو ۔ایک چور دوسرے کو کہے کہ چوری نہ کرو توان کی نصیحتوں سے دوسرے کیا فائدہ اٹھائیں گے۔ بلکہ وہ توکہیں گے کہ بڑا ہی خبیث ہے وہ جو خود کرتا ہے اور دوسروں کو اس سے منع کرتا ہے۔ جو لوگ خود ایک بدی میں مبتلا ہو کراس کا وعظ کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ دوسروں کو نصیحت کرنے والے اور خودعمل نہ کرنے والے بے ایمان ہوتے ہیں اور اپنے واقعات کو چھوڑجاتے ہیں۔ ایسے واعظوںسے دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 518 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا : ’’ صدیقی فطرت حاصل کرنی چاہئے۔ انہوں نے کونسا نشان مانگا تھا۔ شام سے مکّہ کو آرہے تھے۔ راستہ ہی میں خبر ملی۔ وہیں یقین لے آئے۔ اس کی وجہ وہ معرفت تھی جو آپ کی تھی۔ معرفت بڑی عمدہ چیز ہے۔ جب انسان کسی کے حالات اور چال چلن سے پورا واقف ہو تو اس کو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں کو معجزہ اور نشان کی کوئی حاجت ہی نہیں ہوتی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ آپ کے حالات سے پورے واقف تھے۔ اس لئے سنتے ہی یقین کر لیا‘‘۔ فرمایا:’’ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے تقویٰ ہونا چاہئے، نہ یہ کہ تلوار اٹھائو۔ یہ حرام ہے۔ اگر تم تقویٰ کرنے والے ہوگے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہوگی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزواعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے‘‘( خوش قسمتی دے) ’’اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں۔ یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہوسکتی۔اِس وقت کُل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے۔ مگر اب خداچاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکّل نہیں ہوسکتے۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 644-645 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرماتے ہیں کہ: ’’فرمایا اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اور اُحَافِظُکَ خَاصَّۃً مگر ہماری جماعت کو لازم ہے کہ وہ نرے دعویٰ پر ہی نہ رہے اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو درست کرے اور اپنی اصلاح کرے۔ جو اپنی اصلاح نہیں کرتا اور تقویٰ اور طہارت اختیار نہیں کرتا وہ گویا اس سلسلہ کا دشمن ہے جو اس کو بدنام کرنا چاہتا ہے اور یہ سلسلہ خود خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ اس لئے اپنے عمل سے وہ گویا خدا تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُس کی کیا پروا کرے گا۔ اُسے تو اپنے سلسلہ کی عظمت منظور ہے۔ وہ ایسے لوگوں سے جو اُس کے لئے دشمنی کا کام کریں سلسلہ کو صاف کر دے گا۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 407حاشیہ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرماتے ہیں: ’’ میری نصیحت اس وقت جماعت کو یہ ہے کہ یہ دن بڑے سخت اور ہولناک ہیں۔ اس لئے جہاں تک ہوسکے اپنے دلوںکو اور آنکھوںکو بُرے جذبات سے روکیں اور اپنے اعمال اور چال چلن میں خاص تبدیلی پیدا کریں۔ یہ وقت خاص تبدیلی کا ہے اور خداتعالیٰ سے دعائیں مانگنے کا ہے۔ پس اس وقت خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرو…۔ ‘‘ فرمایا ’’خداشناسی کے مسئلہ پر اس وقت ہزاروں قسم کے حجاب اور گردوغبارپڑے ہیں‘‘۔( یعنی خدا کو پہچاننے کے مسئلے پر ہزاروں قسم کے پردے پڑے ہیں) ’’ اور وہ یقین جو لذت بخش نتائج اپنے ساتھ رکھتا ہے وہ نہیں رہا۔ اور وہ سرور جو دنیا کے تعلقات میں پیدا ہونے والے رنج و غم کو دور کرتا ہے اس وقت نہیں۔ بلکہ یہ حالت ہو رہی ہے کہ اکسیر مل جاوے تو مل جاوے لیکن ایسے آدمی اس زمانہ میں ملنے مشکل ہیں جو خد اتعالیٰ کی ہستی پر ایسا یقین رکھتے ہوں جس نے ان کی ساری قوتوں اور جذبات پر ایسا اثر کیا ہو اور ایسی معرفت عطا کی ہو جس سے ان کے گناہ کی زندگی پر موت وارد ہو چکی ہو۔ مَیںسچ کہتا ہوں کہ ایسے دلوں کا ملنا بہت مشکل ہے جو ایمان اور اس کے لذت بخش نتائج کی معرفت سے بھرے ہوئے ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 430 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا : ’’ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ ا س پُر آشوب زمانہ میں جبکہ ہر طرف ضلالت، غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔ دنیا کا یہ حال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں ہے۔ حقوق اور وصایا کی پروا نہیں ہے‘‘۔ (یعنی کس طرح دوسروں کے حق ادا کرنے ہیں ، جو وصیتیں کی ہیں وہ کس طرح پوری کرنی ہیں، اُس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔) ’’ دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصہ کو ترک کر دیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں۔ جیسے کہ یہ سب باتیں مقدمہ بازیوں اور شرکاء کے ساتھ تقسیم حصہ میں دیکھی جاتی ہیں۔ لالچ کی نیت سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔ نفسانی جذبات کے مقابلہ میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں۔ اس وقت تک کہ خد انے ان کو کمزور کر رکھا ہے گناہ کی جرأت نہیں کرتے مگر جب ذرا کمزوری رفع ہوئی اور گناہ کا موقع ملا تو جھٹ اس کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘۔( گناہ سے بچنا یا کوئی غلط کام کرنے سے بچنا صرف اس لئے نہیں ہے کہ خدا کا خوف ہے بلکہ کمزوری ہے، جب کمزوری دور ہوتی ہے تو بعض دفعہ فوراً زیادتی کرنے پر تُل جاتے ہیں۔) فرمایا ’’ آج اس زمانہ میں ہر ایک جگہ تلاش کر لو تو یہی پتہ ملے گا کہ گویا سچا تقویٰ اٹھ گیا ہوا ہے اور سچا ایمان بالکل نہیں ہے۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور ہے کہ ان کے سچے تقویٰ اور ایمان کا تخم ہرگز ضائع نہ کرے۔ جب دیکھتا ہے کہ اب فصل بالکل تباہ ہونے پر آتی ہے تو اور فصل پید اکر دیتا ہے۔وہی تازہ بتازہ قرآن موجود ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا۔اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (الحجر: 10)بہت سا حصہ احادیث کابھی موجود ہے اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں۔ خدا نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے تو اس کی اُلوہیت کے تقاضا نے ہرگز پسند نہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے اور لوگ ایسے ہی دُور رہیں۔ اس لئے اب ان کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے ہماری تبلیغ ہے کہ تقویٰ کی زندگی حاصل ہو جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 676-677 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم پر ڈالی ہے۔
فرمایا کہ :’’اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو‘‘۔( ڈرتے رہو، خوفزدہ رہو۔) ’’اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو۔ نہ تیزی کرو۔ نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔ جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہے ،تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے۔ اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلی ہے۔ یہ مقام بہت نازک ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 6 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر بعض باتیں ہیں جو عورتوں کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے آپ مردوں کو فرماتے ہیں کہ :’’ فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔…ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور درحقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 307 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اگر یہ نصیحت سامنے رکھیں تو بہت سارے مسائل جو آجکل رشتوں میں لڑائیوں میں پیدا ہو رہے ہیں اور گھروں میںلڑائیاں ہو رہی ہیں ، رشتے ٹوٹ رہے ہیں وہ حل ہو جائیں۔
بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ دعائیں کس طرح کی جائیں؟ بچوں کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے کہ بچوں کے لئے دعا کرنی چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بارے میں فرمایاکہ میں کس طرح دعا کرتا ہوں۔
فرمایا :’’مَیں اِلتزاماً چند دعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں۔
اوّل۔ اپنے نفس کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اُس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے۔
دوم: پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ اُن سے قُرَّۃُ عَیۡن عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیّات کی راہ پر چلیں۔
سوم: پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں۔
چہارم: پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام ‘‘دعا کرتا ہوں۔
’’ پنجم: اور پھر اُن سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم اُنہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔‘‘ اُن سب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 309 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ بھی دعا کا طریق ہے جو احمدیوں کو سامنے رکھنا چاہئے اور اسی طریق سے پھر جیسا کہ پہلے فرمایا، جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے کہ جب انسان دوسروں کے لئے دعا کر رہا ہو تو پھر فرشتے بھی اُس کے لئے دعا کرتے ہیں۔
عورتوں کے بارے میں مَردوں کو آپ نے جو نصیحت فرمائی ہے، وہ مَیں نے پڑھی۔ دوسرے آپ نے فرمایا کہ: ’’ہما ری جما عت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی پر ہیز گا ری کیلئے عورتوں کو پر ہیز گا ری سکھاویں ورنہ وہ گنہگار ہوں گے۔ اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلا ں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی…‘‘۔(کہ جب اپنے میں عیب ہیں تو عورت کو کیا نصیحت کرو گے۔ جب عورت سامنے کھڑی ہو گی اور تمہیں بتائے گی کہ تمہارے فلاں فلاں عیب ہیں اور تمہارے عیبوں کی وجہ سے تمہارا جو تعلق خدا سے ہے وہ تو ہے نہیں تو مجھے کس بِنا پر کہہ رہے ہو کہ مَیں خدا سے تعلق پیدا کروں۔) فرمایا کہ’’ اولاد کا طیب ہو نا تو طیّبا ت کا سلسلہ چا ہتا ہے۔‘‘ (اگر یہ چاہتے ہو کہ اولاد پاک ہو تو پھر مسلسل اپنی حالتوں کا بھی جائزہ لو کہ وہ پاک ہیں کہ نہیں۔) فرمایا ’’اگر یہ نہ ہو تو پھر اولاد خراب ہوتی ہے۔ اس لیے چاہیے کہ سب تو بہ کریں اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں۔‘‘( کیونکہ عورت نے ہی اولاد کی تربیت کرنی ہے تو یہ نمونہ دکھائیں۔) (ملفوظات جلد 3 صفحہ 163-164 ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں تو بعض دفعہ مَیں نے دیکھا ہے کہ عورتیں مَردوں سے زیادہ نیکی پر قائم رہنے والی اور نمونے دکھانے والی ہیں اور فکر کرنے والی ہیں۔ لیکن بہر حال ذمہ واری مردوںکی ہے۔ لیکن یہ بھی ہو جاتا ہے کہ بعض دفعہ عورتیں مَردوں کے زیرِ اثر آ جاتی ہیں۔ مثلاً اکثر مجھے پردہ کے بارے میں شکایات آتی رہتی ہیں کہ ان ملکوں میں آ کر مرد ہیں جن کو شرم آتی ہے کہ عورت حجاب لے یا اپنے آپ کو ڈھانکے، بازار میں اُن کے ساتھ نہ پھرے۔ بلکہ بعضوں نے تو پاکستان سے بعض نئی آنے والیوں کو یا اپنی ماؤں بہنوں کو یہ بھی کہا ہوا ہے کہ یہاں پردہ کرنا بڑا جرم ہے۔ اور اگر تم نے پردہ کیا یا چادر اوڑھی، یا سکارف لیا یا حجاب پہنا تو تمہیں پولیس پکڑ کر لے جائے گی۔ اور اسی لئے بعض عورتوں نے خود بتایا کہ انہوں نے اپنے نقاب اتار دئیے۔ یہ کہاں تک سچ ہے، یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن بہر حال بعض ایسے لوگ ہیں جن کا مجھے علم بھی ہے۔ ایک دو کیسز ایسے بھی ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں۔ لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے۔ فرمایا:’’اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفسِ انسان پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچا رہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 106۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:’’آجکل پردے پر حملے کئے جاتے ہیں۔‘‘( اور آجکل اس زمانے میں تو بہت زیادہ ہیں اور یورپ میں تو یہ بہت زیادہ ہے بلکہ ان حملوں کا ہی اثر ہے کہ جو غیر از جماعت دوسرے مسلمان ہیں، چاہے انہوں نے بلاؤز اور ٹائٹ ِجین پہنی ہو، اس ردّ عمل کے طور پر انہوں نے حجاب اور سکارف لینا شروع کر دیا ہے، گو کہ وہ پردہ نہیں ہے اور اس کی بھی بعض حکومتیں بعض جگہ اجازت نہیں دیتیں اور اس کے خلاف ہیں، لیکن انہوں نے ایک ردّ عمل دکھایا تو احمدی عورتیں کیوں یہ ردّ عمل نہیں دکھا سکتیں اور احمدی مرد کو اس میں کیا جھجھک اور شرماہٹ ہے کہ اُس کی عورت پردہ کرے۔
فرماتے ہیں: ’’آجکل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں‘‘ ۔ (یعنی قید خانہ نہیں ہے۔) ’’ بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ جب پردہ ہو گا، ٹھوکر سے بچیں گے۔ ایک مُنصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکٹھے بلا تامّل اور بے محابا مل سکیں، سیریں کریں، کیونکر جذبات نفس سے اضطراراً ٹھوکر نہ کھائیںگے۔ بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہارہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو، کوئی عیب نہیں سمجھتیں۔ یہ گویا تہذیب ہے۔ انہی بد نتائج کو روکنے کے لئے شارعِ اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی‘‘۔ (یہ تہذیب ہو گی لیکن اسلام نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔) ’’جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مَرد وعورت ہر دو جمع ہوں، تیسرا اُن میں شیطان ہوتا ہے۔ ان ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے۔ یہ انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اگر کسی چیز کوخیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو۔ لیکن اگرحفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں، تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی۔ اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اورخود کشیاں دیکھیں۔ بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی ۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 21-22 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پردہ کے بارے میں یہاں، جیسا کہ میں نے کہا، بعض مرد بھی اتروا دیتے ہیں، نوجوانوں کے بارے میں بھی یہ شکایتیں آتی ہیں۔ بعض عورتیں ایسی ہیں جو دوسری عورتوں کو کہتی ہیں کہ یہاں پردہ نہیں کرنا اور یہاں جب مجھے ملنے آتی ہیں تو اُس وقت مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ برقعہ جو ہے، یہ آج کئی سالوں کے بعد نکلا ہے، یا نقاب جو ہے یہ پہننے کی عادت نہیں ہے، یہ آج پہنا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ منافقت ہے۔ جو پردہ حجاب کا، چادر کا، سکارف کاہے اگر وہ لیا جاتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کم از کم پردہ بتایا ہے وہ لیں۔ سر کو ڈھانکیں، بالوں کو ڈھانکیں، اپنے جسم کو ڈھانکیں جو قرآنِ کریم نے کہا ہے، اوڑھنیوں کو اس طرح پھیرو کہ جسم کا پردہ ہو۔ پس اس طرف عورتوں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مَردوں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بجائے اس کے کہ مرد شرمائیں۔ خاص طور پر مَیں نوجوانوں کو کہہ رہا ہوں۔ اور بعض ایسی عورتیںہیں جن کے پردے، برقعے پرانے ہو چکے ہیں۔ بلکہ اُن کو پہننے سے ہی زیادہ بے پردگی ہوتی ہے تو وہ اپنے لباس ایسے بنائیں جو باپرد ہوں۔ سر کو ڈھانکیں، بالوں کو ڈھانکیں، چہرے کو ایک حد تک ڈھانکیں ۔ اگر میک اَپ کیا ہوا ہے تو چہرے کو ڈھانکنا چاہئے۔ اگر میک اَپ نہیں ہے تو کم از کم پردہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو فرمایا ہے کہ ماتھا ڈھکا ہو اور ٹھوڑی ڈھکی ہو ۔ اس پر بہر حال اس پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو پھر آگے آزادیوں میں بڑھاتی ہیں۔ اور بہت سارے معاملات میرے علم میں ہیں، اسی وجہ سے پھر گھروں کے رشتے بھی خراب ہوئے ہیں ۔پردہ اگر کرنا ہے تو مجھے دکھانے کے لئے نہیںکرنا۔ پردہ کرنا ہے تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لئے کرنا ہے کہ جب نصیحت کی جائے تو اُس پر عمل کرو۔ اندھوں اور بہروں کی طرح اُس پر گزر نہ جاؤ۔ عہدِ بیعت میں ہم کہتے ہیں کہ جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اُس کی پابندی کروں گا۔ تو ہر وہ فیصلہ معروف ہے جو قرآن اور شریعت کا حکم ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’اللہ کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اُس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے۔ پھر جب دیکھے کہ اس کا قول وفعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ موردِ غضب الٰہی ہو گا۔ جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہووہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا۔ بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہو گا۔ پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں، اسی لئے کہ تخمریزی کی جاوے جس سے وہ پھلدار درخت ہو جاوے۔ پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے؟ اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے؟ اگر ہماری جماعت بھی خدا نخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے، وہ غنی ہے، وہ پروا نہیں کرتا۔ بدر کی فتح کی پیشگوئی ہو چکی تھی۔ ہر طرح فتح کی امید تھی ،لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم رورو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورتِ الحاح کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ وعدۂ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 8۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھرآپ فرماتے ہیں:’’ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے۔ خدا تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔ نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو۔ کیونکہ اگر سستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے۔ اگراعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کے لئے جوش نہ ہو تو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پرعمل کرتا ہے۔ لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آجائے گا کہ وہ الگ ہو جائے گا۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔ اعمال پَروں کی طرح ہیں۔ بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کے لئے پرواز نہیں کرسکتا۔ اور ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتا جو ان کے نیچے اﷲ تعالیٰ نے رکھے ہیں۔ پرندوں میں فہم ہوتا ہے۔ اگر وہ اس فہم سے کام نہ لیںتو جو کام ان سے ہوتے ہیں نہ ہو سکیں۔ مثلاً شہد کی مکھی میں اگر فہم نہ ہو تو وہ شہد نہیں نکال سکتی اور اسی طرح نامہ بر کبوتر جو ہوتے ہیں۔‘‘ (جو کبوتر پیغام رسانی کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔) ’’ اُن کو اپنے فہم سے کس قدر کام لینا پڑتا ہے۔ کس قدر دُور دراز کی منزلیں وہ طے کرتے ہیں اور خطوط کو پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح پر پرندوں سے عجیب عجیب کام لئے جاتے ہیں۔ پس پہلے ضروری ہے کہ آدمی اپنے فہم سے کام لے اور سوچے کہ جو کام مَیں کرنے لگا ہوں یہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کے نیچے اور اس کی رضا کے لئے ہے یا نہیں۔ جب یہ دیکھ لے اور فہم سے کام لے تو پھر ہاتھوں سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔ سستی اور غفلت نہ کرے۔ ہاں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ تعلیم صحیح ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم صحیح ہوتی ہے لیکن انسان اپنی نادانی اور جہالت سے یا کسی دوسرے کی شرارت اور غلط بیانی کی وجہ سے دھوکا میں پڑجاتا ہے۔ اس لئے خالی الذہن ہو کر تحقیق کرنی چاہئے۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 710-711 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ :’’الہام میں جو یہ آیا ہے اِلَّا الَّذِیۡنَ عَلَوۡا بِاِسۡتِکۡبَار ٍ۔یہ بڑا مُنذر اور ڈرانے والا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بار بار کشتی نوح کو پڑھو اور قرآنِ شریف کو پڑھو اور اُس کے موافق عمل کرو۔ کسی کو کیا معلوم ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ تم نے اپنی قوم کی طرف سے جو لعنت ملامت لینی تھی لے چکے۔‘‘ احمدیوں کو احمدی ہونے کی وجہ سے جو لعنت ملامت ملتی ہے، فرمایا وہ تو تم لے چکے۔’’ لیکن اگر اس لعنت کو لے کر خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی تمہارا معاملہ صاف نہ ہو اور اُس کی رحمت اور فضل کے نیچے نہ آؤ تو پھر کس قدر مصیبت اور مشکل ہے۔ اخباروں والے کس قدر شور مچاتے ہیں اور ہماری مخالفت میں ہر پہلو سے زور لگاتے ہیں۔ مگر وہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے کام بابرکت ہوتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’ہاں یہ ضروری ہے کہ اس برکت سے حصہ لینے کے لئے ہم اپنی اصلاح اور تبدیلی کریں۔ اس لئے تم اپنے ایمانوں اور اعمال کا محاسبہ کرو کہ کیا ایسی تبدیلی اور صفائی کر لی ہے کہ تمہارا دل خدا تعالیٰ کا عرش ہو جائے اور تم اُس کی حفاظت کے سایہ میں آجاؤ۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 407-408 حاشیہ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم وہ معیاری احمدی بننے والے ہوں جن کی نصائح ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہیں، جو آپ ہمیں بنانا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ آنے والا ہر احمدی اپنے اندر وہ پاک تبدیلی پیدا کرنے والا ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جلسوں کا مقصد بھی تھا۔ اس کے بعد ہم دعا کریں گے۔ اب میرے ساتھ دعا کر لیں۔
