اردوترجمہ خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے 25؍اکتوبر 2015ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعا لیٰ کے فضل سے لجنہ اماء اللہ یوکے کا سالانہ نیشنل اجتماع آج اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔آپ لجنہ اماء اللہ کی ممبرات وہ خواتین اور لڑکیاں ہیں جنہوں نے امامِ وقت حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو مانا ہے ۔اس بات کو ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے جس جماعت کی بنیاد ڈالی ،وہ جما عت ہے جس کا قیام قرآنِ کریم میں درج اللہ تعالی کے احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ پیشگوئیوں کے مطابق آخری زمانہ میں ہونا تھا۔حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قرآنِ کریم کامتن اپنی اصلی حالت میں لکھا ہوا محفوظ تھا اور مسلمان کہلانے والے افراد کی کثیر تعداد دنیامیںموجود تھی اور ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے قرآنِ کریم حفظ کیا ہوا تھا۔ مگر درحقیقت ان کی اکثریت قرآنِ کریم کی اصل تعلیمات کو یکسر بھلاچکی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تا ایک ایسی جماعت قائم کی جائے جس کے ذریعہ دنیا میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کا دو با رہ ظہور ہو۔
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کی جماعت کو دوسروں کے لئے ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نمونہ کے معنے یہ ہیں کہ دوسرے آپ کے قول و فعل سے متأثر ہوں اور جو دیکھیں اس پروہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ سو آج آپ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہوکر اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور انہیں اکنافِ عالَم میں پھیلانے کا عہد کیا ہے۔
ایک اور موقع پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے متبعین اپنی تمام نفسانی خواہشات اور جذبات سے اپنا دامن پاک کرلیں کیونکہ جب آپ احمدی ہونے اور حقیقی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کریں گے تو دوسرے لوگ یقینا آپ کو انتہائی تنقیدی نگاہ سے دیکھیں گے۔آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ دوسرے لوگ میرے ماننے والوں کے عملی معیار کو جانچیں گے لہٰذا یہ اشد ضروری ہو جاتا ہے کہ احمدی مسلمان اخلاق کے انتہائی اعلیٰ معیار قائم کریں اور صرف اچھی عادات ہی اپنائیں۔آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے ماننے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں تا کہ کوئی ان پر الزام نہ لگا سکے یا یہ نہ کہہ سکے کہ یہ اچھے مسلمان نہیں یا یہ کہ احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں۔لہٰذا ہر احمدی مرد و زن کو اپنی ان بھاری ذمہ داریوںکو سمجھنا چاہئے۔اگر وہ اپنا اچھا نمونہ قائم نہیں کریں گے تو نہ صرف یہ کہ ان کااپنا تٔاثر دوسروں پر ا چھا نہیںپڑے گا بلکہ وہ ساری جماعت کی بدنامی کا بھی باعث ہوں گے۔ خوا ہ وہ لجنہ اماء اللہ کی ممبر ہوں ، خدام الاحمدیہ یا مجلس انصار اللہ سے تعلق رکھتے ہوں، ان کو ہمیشہ حقیقی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔یقینا اگرذاتی نمونہ کمزور ہوگا تو پھر تبلیغ اور حقیقی اسلام کو پھیلانے کی مساعی لاحاصل رہیں گی او ر کوئی ان باتوں پر دھیان نہیں دے گا۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر میری جماعت یہ چاہتی ہے کہ اسے ایک سچی جماعت سمجھا جائے تو لازم ہے کہ تمام افرادِ جما عت اپنی نفسانی خواہشات اور تمناؤں کو اپنے دین کی خاطر ترک کردیں۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے بے شمار مواقع پر ہمیں بہت ہی خوبصورت انداز میں نصائح فرمائی ہیں اور ہدایات دی ہیں جن کو ہمیں ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ لجنہ اماء اللہ اپنے تعلیمی نصاب میں حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی کتب بھی شامل کرتی ہے اور بہت سی ممبرات ان کتب کا مطالعہ بھی کرتی ہیں اور بعض ان کتب پر مبنی امتحان بھی دیتی ہیں ۔ہم باقاعدہ طور پرآپ علیہ السلام کی کتب کے حوالے ،جلسوں اور اجتماعات کے موقع پر اپنے خطا بات اور تقاریر میں بھی شامل کرتے ہیں۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ارشادات اور ہدایات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں؟ مثلاً آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہر احمدی آپ کی تصنیف ’’کشتیٔ نوح‘‘ کا بار بار مطالعہ کرے۔ اس کتاب میں احمدی خواتین کے لئے بھی بہت سی نصائح موجود ہیں جیسا کہ آپ علیہ السلام نے اس کتاب میں ان خوبیوں اور نیکیوں کا ذکر فرمایا ہے جن کے حصول کے لئے خواتین کوکوشش کرنی چاہئے اور ان پر عمل کرتے ہوئے انہیں زندگی گزارنی چاہئے۔
یاد رکھیں کہ تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں: پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جنہیں کوئی علم یا معلومات حاصل ہی نہ ہوں، ایسے لوگ اگر غلطی کریں تو ان کی غلطی قابلِ معافی ہوسکتی ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو صحیح راہ کاعلم ہوتے ہوئے بھی غلط راہ اختیار کرلیتے ہیں ، یقینا ان سے ان کے اعمال کا مؤاخذہ ہوگا۔ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہیں صحیح راہ کا علم بھی ہوتا ہے اور وہ جانتے بوجھتے ہو ئے صحیح تعلیم کے برخلاف عمل کرتے ہیں جبکہ دوسروں کو اس پر عمل کر کے اپنی اصلاح کرنے کی نصیحت کررہے ہوتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل صریحاً منافقت کے زُمرہ میں آتا ہے۔اس لئے یہ بات اشد ضروری ہے کہ دوسروں کے اعمال کا جائزہ لینے سے پہلے ایک احمدی مسلمان کو اپنی حالت کا جائزہ لینا چاہئے ۔اُنہیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ کیا ہم حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی تعلیمات پر خود عمل کر رہے ہیں؟ اُنہیںپو ری سچا ئی سے اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ان کا اپنا دامن بے راہ رَوی اور گناہ سے پاک ہے؟
جماعت اور لجنہ کی ممبراتِ عاملہ کا یہ اوّلین فرض ہے کہ وہ اپنی روحانی اور اخلاقی حالت کی اصلاح کریں۔ اگر وہ اس بات پر توجہ دیں گی تبھی وہ دیگر احمدیوں کو نیک نمونہ دکھا کر ان کی اچھی تربیت کرسکتی ہیں۔تا ہم اگر ممبرانِ عاملہ ہی صحیح معیارپر نہیں چلیںگے تو تمام جماعت پر اسکا منفی اثر پڑے گا۔ اسی لئے میں دوبارہ یہ بات کہتا ہوں کہ سب سے پہلے عاملہ ممبران اپنی ذاتی ذمہ داریوں کو سمجھیںاور خود اپنے معیار پر نگاہ رکھیں۔ ہمارا جماعتی نظام ایسا ہے کہ اگرمقا می سطح سے شروع کر کے ریجنل اور پھر نیشنل لیول تک کے ممبرانِ عاملہ اپنے آپ میں مثبت تبدیلی لے آئیں تو قدرتی طور پر اس کا مطلب یہ ہو گاکہ پچاس فیصد کے قریب ممبران ایسے ہونگے جو اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل کرنے والے بن جائیں گے۔ وہ ہماری کم عمر بچیوں اور دو سرے ممبرز کے لئے ایک قابلِ تقلید نمونہ بن کر ان میں اچھائی اور نیکی پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ وہ دوسروں پر یہ ثابت کردیں گے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر اپنے نفس کی خواہشات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ بات ازحد ضروری ہے کہ ہر احمدی اپنی اخلاقی تربیت کے لئے آپ علیہ ا لسلا م کی کتب کا مطالعہ کرے۔آپ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ یہ لازم ہے کہ ہر احمدی قرآنِ کریم کی بار بار باقاعدگی سے تلاوت کرے، اس کے معنی پرغور کرے اور اپنی زندگی اس کے احکام کی روشنی میں گزارے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے مزید یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے اپنے گھروں میں عبادات اور نمازوں کے لئے ایک خاص دلی شوق پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایک ماں ہونے کے ناطے سے آپ اپنی اولاد کے دلوں میں عبادت کا شو ق تبھی پیدا کر سکتی ہیں جب آپ خود اپنی عبادات کا حق ادا کرنے والی ، ساری نمازیں ادا کرنے والی اور اللہ تعالیٰ سے سچے تعلق کااظہار کرنے والی ہوں۔
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے بارہا اپنی جماعت کے افراد کو آپس میں محبت اور بھائی چارہ کا مظاہرہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے کیونکہ اس کے بغیر جماعت کی وحدت خطرہ میں پڑ سکتی ہے۔آپ علیہ السلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ تمام احمدی ایک دوسرے سے محبت اور یگانگت کا برتاؤ کریں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کا سلوک کرے گا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کی محبت ہی حقیقی امن اور اطمینانِ قلب کی ضامن ہے۔اس لئے ہمیشہ معاشرہ میں شفقت اور ہمدردی پھیلانے کی کوشش میں مصروف رہیں۔
آپ کومحض اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے خیر خوا ہی کی امید نہیں رکھنی چاہئے بلکہ تما م بنی نوعِ انسان کے لئے امن ،تحفظ اور سکون سے زندگی بسر کرنے کی خواہش کرنی چاہئے۔ہم جو ’محبت سب کے لئے ‘کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہماری محبت کا دائرہ صرف ’دو سروں‘ کے لئے ہی نہ ہو بلکہ ہمیں آپس میں ایک دوسرے کا خیال رکھنااورایک دوسرے کی بھی مدد کرنی چاہئے۔ افواہیں نہ پھیلائیں اور نہ ہی دوسروں کی کمزوریوں کو نما یا ں کر یںبلکہ بوجھ اُٹھانے میں ان کی مدد کریں ،مشکلات کے حل میںان کی مدد کریں اور آسانی پیدا کرنے والی بنیں۔ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ حقیقی مومن وہ ہیں جو رحم اور ہمدردی کے جذبات کی روح کو ہمیشہ قائم رکھتے ہیں۔لہٰذا جو چاہتے ہیں کہ ان کا شمار حقیقی مومنین میں ہو اور جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ قرآنِ کریم کی سچی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں تو انہیں ہمیشہ محبت،رِفق اور رحمدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔اگر آپ دوسروں سے احترام اور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں گی تو آپ دیکھیں گی کہ بہت سی بری عادتوںمثلاً دوسروںکی بُرا ئی کر نے سے آپ کو قدر تی طور پر نجات مل جائے گی اور یہ بات آج کے معاشرہ میں بے حد اہمیت کی حامل ہے۔
میں نے گزشتہ دنوں ہالینڈ اور جرمنی میں مساجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ان دونوں ممالک میں غیر مسلم خواتین مہمانوں نے یہ تبصرہ کیا کہ خلیفہ نے جو کچھ کہا ہے، بہت ا چھا کہا ہے اور یہ دنیا میں امن اور محبت پھیلا نے کا ایک ذریعہ ہے۔ مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اب یہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ احمدی کیسے ان کے الفاظ کا پاس کرتے ہیں اور کیسے ان خوبصورت تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کی نگاہیں آپ پر ہیں اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں آیا احمدیوں کے قول و فعل میں مطابقت ہے۔چنانچہ ہر احمدی اور لجنہ اماء اللہ کی ہر ممبر کواُن توقعات کو سمجھنا چاہئے جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو ہم سے تھیںاور انہیں پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ ہم حقیقی اسلام کے سفیر بن جائیں۔
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے بڑے درد سے فرمایا کہ جب تک ایک احمدی بیعت کی حقیقت اور اُن ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتا جو بیعت کرنے والے پر ہوتی ہیں، وہ حقیقی آزادی اور نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمیں محض بیعت کے الفاظ ہی کو نہیں دیکھنا بلکہ ان کے صحیح مفہوم اور ان کی روح کو سمجھنا چاہئے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ایک احمدی بیعت کے اصل معنی سمجھ لیتا ہے تبھی وہ ان پر عمل کرسکتا ہے۔
شرائطِ بیعت کے با رہ میں میرے خطبات کا ایک سلسلہ تھا جو بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکا ہے اور اسی سال کے شروع میںبھی میَں نے شرائطِ بیعت کی روشنی میں زندگی گزارنے کے موضوع پرایک خطبہ دیا ہے۔ یہ تمام خطبات با آسانی دستیاب ہیں۔ یقینا ہمیں بار بار اپنے عہد کی شرائط پر غور کرتے رہنا چاہئے۔اور لجنہ اماء اللہ کی انتظامیہ کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ شرائطِ بیعت کو لجنہ کی میٹنگز اور تقاریب میں زیرِ بحث لا ئیں اور ان سے متعلق آگا ہی فرا ہم کر یں۔
اگر ہم پہلی شرطِ بیعت کو لیں تو ایک احمدی ہر قسم کے شرک سے مجتنب رہنے کا عہد کرتا ہے۔ دراصل شرک کی بھی بہت سی اقسام ہیں۔ اس لئے ہمیں ان تمام قِسموں کے شرک سے اپنے آپ کو ہر قیمت پربچانا ہوگا۔ ہمیں اپنی روزمرّہ زندگیوں میں محتاط رہنا ہوگاکیونکہ بعض بظاہر بے ضرر معلوم ہونے والی معمو لی باتیں یا رسوم ہوتی ہیں جو شرک میں شامل ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر آپ اپنے کسی مقصدیا فائدہ کے حصول کے لئے کسی کی تعریف کرتی ہیں تو یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔پھر اسکی ایک اور مثال یہ ہے کہ جب ایک شخص اپنی خواہشات کی تکمیل کی دھن میں اتنا مگن ہوجاتا ہے کہ وہ حقو ق اللہ یعنی اپنے فرائض بندگی سے ہی غافل ہوجاتا ہے،تو یہ بھی شرک ہے۔
دوسری شرطِ بیعت یہ ہے کہ ایک احمدی ہر قسم کے جھوٹ سے بچے۔صرف دھوکہ دہی سے بچنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ سچائی پر کاربندرہے اور اس کا قیا م عمل میں لا ئے۔ اگر ہماری سب احمدی خواتین اجتماعی طور پرہر قسم کے جھوٹ سے کنارہ کش ہوجائیں اورکسی حال میں سچائی کا دامن نہ چھوڑیں تو ساری جماعت کے ہر فرد کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ایسا اس لئے ممکن ہے کیونکہ ہماری خواتین اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں اور اگر وہ سچائی کی اہمیت اپنی اولاد کے دلوں میں بٹھا دیں تو انشاء اللہ اس کے بہت ہی وسیع اور دُوررس نتائج مرتب ہونگے۔
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایک احمدی کو ایسی کوئی بات کہنے سے پرہیز کرنا چاہئے جس کی وجہ سے لوگوں میں لڑائی جھگڑا یا فساد کا اندیشہ ہو۔ آپ علیہ السلام نے بارہا اس بارہ میں ارشاد فرمایا کہ ہمیں ہمیشہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے یا ناانصافی کرنے سے بچنا چاہئے۔
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اطاعت کی اہمیت پر زور دیا اور نظامِ جماعت کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ہر احمدی کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ خلیفۂ وقت اور ان کے ذریعہ نظامِ جماعت کی اطاعت کرے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میرے ماننے والے اپنے ا ٓپ کونفسا نی خوا ہشا ت کی پیرو ی سے بچائیں کیونکہ شیطان ایسی خواہشات کے ذریعہ لوگوں کو غلط راہ پر چلنے کے لئے مائل کرتا ہے۔
ایک اور نہایت اہم تعلیم جسے آپ کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے شرائطِ بیعت میں اس شرط کو بھی شامل کیاہے کہ ایک احمدی عام خلق اللہ کو عمو ما ً اورمسلمانوں کو خصو صا ًکسی نوع کی تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے جو شرائطِ بیعت مقرر فرمائی ہیں یا جو بھی ہدایات جاری فرمائی ہیں ، وہ ہماری نجات اور ہماری زندگیوں میں امن و آشتی پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔یہی وہ اقدار ہیں جن کی پہلے سے زیادہ آج دنیا کو ضرورت ہے۔ یہ مخلوق کو اپنے خالق سے ملانے کا ذریعہ ہے۔ یہی ہمارے گھروں میں امن کے قیا م کا ذریعہ ہیں۔ یہی اقدار ہیں جو ہمیں اپنی اولاد کے دلوں میںراسخ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اپنے دین کا احترام کر نے وا لی،اس کی حفاظت کرنے والی اور اعلیٰ ترین اخلاقی معیار برقرار رکھنے والی بنیں۔یہی وہ اقدار ہیں جو ہمیں اپنی اولاد کے ذہنوں میں پختہ کرنی ہیں تاکہ وہ اسلامی تعلیمات کا سچا نمونہ بن سکیں۔
اپنے گزشتہ دورہ میں ایک تقریب کے موقع پر میں نے جب ان اسلامی اقدار کا ذکر کیا تواس پر ایک مقامی جرمن خاتون کہنے لگیںکہ یہ اسلامی اصول اور اقدار جان کر اُنہیں بے حد خوشی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بے شک یہ اقدار گھروں اور معاشرہ کے امن کی کلید ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہی وہ اقدار ہیں جو میں اپنی اولاد کو سکھانا چاہتی ہوں مگر بدقسمتی سے بعض اوقات سکولوں میں آزادی کے نام پر اس سے متضاد باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ آپ جو کہ لجنہ اماء اللہ کی ممبرات ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ کی لونڈیاں ہیں، آپ کو اپنی اولاد کے ضمن میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے۔ آپ کو اپنے گھروں میں اعلیٰ ترین معیار اور اقدار رائج کرنی چاہئیں۔ آپ کولا ز ما ً اللہ کے حکموں پر چلنا ہوگا۔ پھراس بات کی اہمیت اوربھی بڑھ جاتی ہے کیو نکہ جس معاشرہ میں آپ رہ رہی ہیں وہاں ہما رے بچے باآسانی دھوکہ کھاسکتے ہیں یا گمراہ ہوسکتے ہیں۔
بعض اوقات بچے اسکول یا باہر کے ماحول سے اثر لے کر غلط باتیں یاغلط عادات اپنا لیتے ہیں، لہٰذا آپ کو اپنے بچوں کے ساتھ بہت سا وقت گزارنا چاہئے۔ آپ کو اُنہیں اچھے اور بُرے کی تمیز سکھانی چاہئے۔ آپ کو ان کے ذہنوں میں وہ اقدار پختہ کردینی چاہئے جو قابلِ قدر ہوںاور جن کو عز یز رکھنا چا ہئیے۔ آپ کو چاہئے کہ آپ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات سمجھائیں۔اور اُنہیں بتائیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے وہ احکام اور اقدار ہیں جن کو دوبارہ دنیا کو سکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو مبعوث فر ما یا ہے۔
جہاں تک اسکول کی تعلیم کا سوال ہے تو آپ کو اپنے بچوں کی اس بارہ میں ضرورحوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ وہ اس میدان میں اعلیٰ ترین معیار حاصل کریں۔تا ہم اگر اسکول آزادی کے نام پر کبھی ایسی باتیں سکھائیں جو اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہوں تو آپ کو اپنے بچوں کو وضاحت سے سمجھانا ہوگا کہ کہ ہماری اقدار اور ہمارے عقائدکیا ہیں۔ یہ آپ پرایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ ایک دن دنیا کی اصلاح کی ذمہ داری آپ کے بچوں کے کندھوں پر ہوگی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کی ذمہ داری حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی جماعت پر ڈالی ہے، لہٰذا ہمیں اس عظیم ذمہ داری کی جانب توجہ کرنی چاہئیے۔اگر ہم ایسا کریں گے تو تبھی ہم اپنے معاشرے کی حفاظت کر سکیں گے اور حقیقی اسلامی تعلیمات کی جانب غیروں کی رہنمائی کر سکیں گے اور تبھی ہم اپنی اولاد اور آئندہ آنے والی نسلوں کی حفاظت کر سکیں گے۔
اللہ تعا لیٰ کے فضل سے دنیا کی توجہ اور دھیان ہماری جماعت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ لوگ ہمیں پہچاننے لگے ہیں اور ہمارے پیغام کو غور سے سننے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر روز تبلیغ کے نئے سے نئے راستے کھول رہا ہے اور آپ میں سے بہت سی ایسی ہوں گی جوخود اس بات کا تجربہ کر رہی ہوں گی۔مگر جیسے جیسے یہ دروازے کھلتے ہیں ، اس بات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ ہر احمدی اپنے تقویٰ کے معیار حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی اُن توقعات کے مطابق ڈھال لے جو آپ علیہ السلام اپنے ماننے والوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ایسی تبدیلیوں کے نتیجہ میں ہی تبلیغ کے نئے راستے کھلیں گے۔انشاء اللہ
اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہماری جماعت کے فائدہ کے لئے جدید مواصلاتی نظام اور میڈیا جیسے ذرائع ابلاغ کی سہولیات مہیا کردی ہیں۔ دنیا کے ہر کونہ میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے یہ ذرائع بہت اہم ثا بت ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ ہماری جماعت کا پیغام زمین کے کناروں تک پہنچ رہا ہے۔ تا ہم یہ صورتِ حال ہماری ذمہ داری کو مزید بڑھا دیتی ہے کیونکہ جو لوگ ہمارا پیغام سُن رہے ہیں وہ یہ جاننے کے لئے ہماری جانب دیکھیں گے کہ آیا ہم جو کہہ رہے ہیں اس پر خود عمل بھی کرتے ہیں۔اگر وہ لوگ یہ دیکھیںگے کہ ہم جو تعلیمات پیش کر رہے ہیں وہ تو سچی ہیں لیکن احمدیوں کے اپنے عملی معیار میں کمزوری پائی جاتی ہے تو اس کا اُن پر مثبت اثر ہونے کے بجائے منفی ہونے کا ا حتما ل ہوگا۔یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے ہمارا پیغام توسُنیں مگر یہ محسوس کریں کہ پرانے احمدیوں کا عملی معیار توقع کے مطابق نہیں ہے تو وہ اسلام کا حقیقی پیغام پھیلانے اور اس پر عمل کرنے کا بیڑا اُٹھا لیں ۔ ایسی صورتحال میں ہماری جماعت یعنی حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی جماعت کی ترقی اور کامیابی کا سہرا اِن نئے آنے والے نیک لوگوںکے سر ہوگا اور پیچھے رہ جانے والے ان برکتوں سے محروم رہ جائیں گے۔پس پیچھے رہ جانے والوں میں آپ کا شمار نہ ہو۔بلکہ احمدیت کی سچائی پھیلانے والوں کی صفِ اوّل میں ، نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل اور کارناموں کے ذریعہ بھی شامل ہوجائیں۔آپ اس روشنی کا منبع بن جائیں جس کی کرنیں اسلام کی سچائی کوروشن کردے۔
جیسا کہ میں نے آج کہا ہے کہ ہم اپنی تعلیمات کو پھیلانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد لے سکتے ہیں۔ ایم ٹی اے کے علاوہ جماعتی ویب سائیٹس بھی ہیں جن پرعلم اورمعلومات سے بھر پورپروگرام اور کتابیں باآسانی دستیاب ہیں۔آپ کو ان ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے علم میں مستقل اضافہ کرنا چاہئے۔ لجنہ اماء اللہ کی ہر ممبر کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑ دے اور باقاعدگی سے اس کے پروگرام دیکھیں۔کم از کم اس بات کو یقینی بنائیں کہ میرا خطبہ جمعہ اور خلیفۃ المسیح کے دیگر پروگرام ضرور دیکھیں۔ اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اُن کے بچے بھی بیٹھ کر یہ پروگرام ضرور دیکھیں۔ جو بچیاں یہاں یوکے میں پلی بڑھی ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ بھی اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ایم ٹی اے اور جماعتی ویب سائیٹس سے منسلک رہیں۔انہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ وہ خلیفہ ٔ وقت کے پروگرام ضرور دیکھیں کیونکہ یہ ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا باعث بھی ہوں گے اور دین کے بارہ میں ان کا علم بھی بڑھے گا۔
دنیا کے ہر حصّہ کے لوگ ایم ٹی اے کے ذریعہ سچائی کو پہچان کر احمدیت کی آغوش میںآ رہے ہیں۔ جیساکہ کچھ عرصہ قبل فرانس کے نزدیک ایک نہایت ہی چھوٹے سے جزیرہ میں رہنے والے ایک شخص نے لکھا کہ اتفاق سے اسے ایم ٹی اے دیکھنے کا موقع ملااور اس وقت میرا خطبہ نشر ہورہا تھا۔ اس خطبہ میں مَیں نے وفاتِ مسیح کا ذکر کیا تو اس کو سن کر اس شخص نے کہا کہ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ درست تعلیم ہے۔ پھر اس نے انٹر نیٹ پر جماعت کے متعلق ریسرچ کی اور Youtubeپر ہمارے پروگرام دیکھے۔اور اسکے بعد اس نے کہا کہ مجھے احمدیت کی سچائی کا یقین ہوگیا۔ اور یوں اللہ کے فضل سے اس نے بیعت کرلی۔ ایسا ہی کئی خواتین ہیں جو ہماری جماعت میں شامل ہوئیں اور وہ اپنے ایمان پر بہت پختہ ہیں۔جیسا کہ ابھی کچھ عرصہ قبل میں ہالینڈ گیا تھا تو وہاں میں ایک احمدی خاتون سے ملا جن کے دو بچے تھے اور وہ فرانس سے مجھ سے ملنے آئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے قبولِ احمدیت کے بعد ان کے شوہر نے ان سے قطع تعلق کرکے ان کو گھر سے نکال دیا۔ مگر پھر بھی ان کو احمدیت پرجو ایمان تھا، وہ اس پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ فطری طور پر عورتیں اپنے خاندان کے ہمراہ آرام اور سہولت کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں۔ مگر پھر بھی ایسی عورتیں بھی ہیں جو اپنے دین اور حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام پر ایمان کی خاطرہر قسم کی تکالیف، مشکلات اور مخالفت برداشت کرتی ہیں۔ یہ ہے ایک سچے مومن کی حالت جو ہر قسم کے آرام کو قربان کرکے صبر سے اپنے دین کی خاطر ہر طرح کے مصائب و آلام کا سامنا کرتے ہیں۔
آپ لوگوں کی اکثریت تو پیدائشی احمدی ہیں لہٰذا آپ لوگوں کو ایسی تکالیف اور مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ آپ کو اپنے اوپر ہونے والے فضلوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر گزار ہونا چاہئے۔ اور شکر گزاری کا طریق یہ ہے کہ آپ اپنے دینی علم کو بڑھائیںاور اسلامی تعلیمات پر خود بھی عمل کریں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں۔ آپ شکر گزار تبھی ہونگی اگر آپ دین کو دنیا پر مقدم کریں گی۔
آخر میں مَیں دوبارہ کہتا ہوں کہ ایسی پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کریں جیسا کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے تھے۔ آپ علیہ السلام کی ساری تعلیمات قرآنِ کریم کی سچی تعلیم پر مبنی اور اللہ سے قرب پانے کا ذریعہ ہیں۔یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ جو اس کے قریب ہوتے ہیں وہ اُن کو ایسے ذرائع سے اجر دیتا ہے کہ جن کے بارہ میں وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ دین کو دنیا پر مقدم کریں گی تو یقیناًاللہ آپ کو دونوں جہان کی حسنات سے نوازے گا۔ وہ آپ کی مشکلات اور پریشانیوں کو دور کرکے آپ کے دل کو ایک حقیقی اطمینان کی کیفیت سے بھر دے گا۔ جب ایک شخص ایسی کیفیت کو پالیتا ہے تو وہ دنیاوی خواہشوں سے مستغنی ہوجاتا ہے اور دل میں صرف اللہ اور اس کے دین کی محبت باقی رہ جاتی ہے۔ جب ایک شخص ایسے معیار تک پہنچ جاتا ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنی تخلیق کے مقصد کو پالیا۔ اللہ کرے کہ آپ میں سے ہر ایک محض نام کی ہی نہیں بلکہ اپنے عمل اور نمو نے سے لجنہ اماء اللہ کی ممبر یعنی اللہ تعالیٰ کی حقیقی بندیاں ہونا ثابت کریں۔
اللہ کرے کہ آپ ہمیشہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی توقعات کو پوراکرنے والی بنیں۔اللہ کرے کہ آپ وہ مشعل بر دار بنیں جو اسلام کی سچی تعلیمات پر رو شنی ڈا لنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی سچی تعلیمات کو پھیلانے والی ہوںاور ہمیشہ قرآنِ کریم کی سچی تعلیمات پر عمل کرنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ لجنہ اماء اللہ پر ہر طرح سے فضل فرمائے۔
اس کے بعد میں کچھ اردو میں بھی بعض اردو بولنے والوں کے لئے کہوں گا۔ یہ بہت ساری باتیں میں نے کہی ہیں بڑے آسان الفاظ میں اور یہ چند مختلف pointsبیان کئے ہیں جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے مختلف وقتوں میںنصیحت کی۔ ان کا اردو ترجمہ کر کے بھی لجنہ اماء اللہ اردو پڑھنے والیوں کو پہنچا دے گی ۔
انگریزی خطاب کے بعد حضور ایدہ اللّہ نے اردو زبان میں فرمایا:
یہاں آجکل پاکستان سے بہت سارے نئے لوگ ہجرت کرکے آرہے ہیں۔ یہ نئی آنے والیاں بھی یاد رکھیںجو میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوںاور کہتا رہتا ہوں کہ یہاں اس لئے آپ آئی ہیں کہ آزادی سے اپنے دین کا اظہار کر سکیں ۔آزادی سے اپنے دین پر عمل کر سکیں۔ پس اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ آپ کی ہجرت دین کی وجہ سے ہے اور یہ آپ پر ایک ذمہ داری ڈالتی ہے۔ اس ذمہ داری کو آپ نے نبھانا ہے۔دین کی آزادی کو حاصل کرنے کے لئے یہاں آئی ہیں تو اس دین کی آزادی کا اظہار زیادہ سے زیادہ آپ کی حالتوں سے ہونا چاہئیے نہ کہ دنیاوی آزادی کا۔ یہ نہ ہو کہ یہاں آکر دین کو بھول جائیںاور دنیاوی رونقوں میں ڈوب جائیں،دنیاوی آزادی کو دین پر ترجیح دینے لگ جائیں۔صرف پیسہ کمانے کی طرف توجہ نہ رہے۔یا صرف اپنے خاوندوں کو اسی بات کی طرف توجہ نہ دلاتی رہیں کہ پیسے کماؤ اور لے کر آؤ۔ بلکہ اپنے گھروں میں دین کا ماحول پیدا کریں۔ اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو ایسے ماحول دینے کی کوشش کریں جہاں دین کو ترجیح دی جاتی ہو۔ بچوں میں وہ سمجھ بوجھ پیدا کریں جس سے اُن کو یہ احساس ہو کہ دین مقدم ہے اور دنیا بعد میں ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر عورتیں اپنے گھروں کو سنبھال لیں تو اگلی نسل سنبھل جائے گی۔عورتیں اگر عبادت گزار ہیں تو اکثریت مردوں کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اور پھر جیسا کہ میں نے کہا کم از کم آئندہ نسل کی اصلاح تو ہو گی ۔ جماعت کو اور خلیفۂ وقت کو آئندہ یہ تو تسلی ہوگی کہ نسلیں سنبھالی جا رہی ہیں۔ یہ نسلیں سنبھالنا آپ کا کام ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس کی طرف توجہ دیں۔
میں نے کشتیٔ نوح کا حوالہ دیا ہے اُس میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے عو ر توں کو بہت سا ری نصا ئح فرمائی ہیں۔یہ بھی اس میں ہے کہ خاوندوں سے ناجائز مطالبات نہ کرو۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ بعض خاوند ایسے بھی ہیں جو خیال نہیں رکھتے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض ایسی بیویاں بھی ہیں جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات بھی کرتی ہیں چاہے کم ہوں۔
بچوں کی طرف توجہ دیں۔ میں نے اپنے اس خطاب میں ایک بات یہ بھی بیان کی کہ بچوں کی اسکول کی تعلیم کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ اُن کو پڑھائیں۔ لیکن ساتھ دینی تعلیم بھی دیں اور جب اسکول بھیجیں تو اُن پر توجہ دے کے بھیجیں ۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہاں آکر بچے اسکول جارہے ہیں اور تعلیم حاصل کر رہے ہیںاس لئے ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی۔ ایک تو یہاں کے اسکولوں کو ایک شکوہ پیدا ہونے لگ گیا ہے کہ پہلے احمدی بچے ہمارے اسکولوں میں آتے تھے تو سب سے زیادہ disciplined بچے ہوتے تھے اور پڑھائی کی طرف توجہ دینے والے بچے ہوتے تھے۔لیکن اب مائیں توجہ نہیں دیتیں۔ اسکولوں میں اگر ماں باپ کو بلائیں بھی تو وہ جاتے نہیں۔ جس کی وجہ سے بچے neglectہو رہے ہیں۔ اُن کو یہ خیال اور احساس پیدا ہورہا ہے کہ اسکولوں میں باقی بچوں کے ماں باپ آتے ہیں۔ ہمارے نہیں آتے۔ اس لئے چاہے آپ نئے آنے والوں کو زبان آتی ہے ، یا نہیں آتی۔ جہاں اسکول میں بچوں کو داخل کرایا ہے تو وہاں جا کے اُن کی حالت کا پتہ کرتی رہا کریں۔ اور اگر زبان نہیں آتی تو لجنہ کے ذریعہ سے یا اپنے طور پر اپنے دوستوں اور سہیلیوں کے ذریعہ سے کسی کو ساتھ لے جایا کریں تاکہ وہاں جاکر بچے کی حالت کا آپ کوپتہ لگتا رہے۔ اور اسکول کو اگرکوئی شکایت ہے تو وہ بھی پتہ لگتی رہے۔اگر بچے کو توجہ کی ضرورت ہے تو اس کی طرف بھی توجہ دی جاتی رہے۔ تو بہر حال یہ بڑی ضروری چیز ہے۔ نہیں تو پھر بچے احساسِ کمتری کا شکار ہوجائیں گے۔ نہ وہ دنیاوی تعلیم حاصل کر سکیں گے اور نہ ہی دین کی طرف توجہ دیں گے۔ پس اس طرف بھی نئی آنے والی ماؤں کو بہت توجہ کی ضرورت ہے۔
نئی آنے والی لڑکیاں بھی یہاں آرہی ہیں۔ بعض پڑھنے کے لئے آرہی ہیں ، بعض ویسے ہجرت کر کے آرہی ہیں۔ آکے اسائلم لے لیا ، نوجوان لڑکیاں ہیں ، غیر شادی شدہ ہیں۔ بعض چھوٹی عمر کی بھی ہیں۔بعض ماں باپ کے ساتھ بھی آئی ہیں۔ اُن کو بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ یہاں آکر آپ نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ اس کا ادراک حاصل کریں اور ہمیشہ اس بات پر غور کریں کہ ہمارا دین مقدم ہے دنیا بعد میں ہے اور اگر یہ نہیں تو پھر ہمارا جو بیعت کا عہد ہے ہم نے خود ہی اُس کو توڑ دیا ہے۔ پس یہ منافقت ہوگی کہ ایک طرف تو بیعت کا عہد کیا جائے اور دوسری طرف اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔یہاں آکر یہ نہ سمجھیں کہ آزادی مل گئی ہے ۔ آپ کوآزادی دین پر عمل کرنے کے لئے ملی ہے ۔ آپ کو یہ آزادی نہیں ملی کہ دین کو چھوڑ دو اور دنیا پر عمل کرنا شروع کردو۔ پس اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اب دعا کر لیں۔
