اردوترجمہ خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع ہیومینٹی فرسٹ انٹرنیشنل کانفرنس 24جنوری 2015ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے الحمدللہ آج اور کل ’ہیومینٹی فرسٹ‘ اپنی انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کررہی ہے اور میرے خیال میں اتنے وسیع پیمانے پر یہ ان کی پہلی کانفرنس ہے۔ میں امید کرتاہوں اور میری دعاہے کہ یہ تقریب نہایت نتیجہ خیز اورفائدہ مند ثابت ہو۔ اور جو حکمتِ عملیاں اور منصوبہ جات آپ یہاں بنارہے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو انہیں عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:مجھے یہ بھی امید ہے اور میری دعا ہے کہ ’ہیومینٹی فرسٹ‘ میری توقعات پر پورا اترنے والی ہو(انشاء اللہ)۔ اور میری توقعات وہی ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی جماعت کے افراد سے تھیں۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بے شمار مواقع پر انسانیت کی خدمت کی ضرورت کے متعلق بیان فرمایا اور تحریرفرمایاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس حوالہ سے توقعات واقعی بہت زیادہ تھیں اور یہ چیز اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ’خدمتِ انسانیت‘ کو شرائطِ بیعت میں رکھاہے۔ چنانچہ شرائط بیعت میں سے نویں شرط یہ ہے کہ:
’’عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘۔
(اشتہار تکمیل تبلیغ 12جنوری 1889ء ۔ مجموعۂ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 190اشتہار نمبر 48)
پس ہر احمدی کے دل میں دوسروں کی خدمت کرنے کی قدراوراہمیت نقش ہوجانی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بہت سی استعدادوں اور قابلیتوں سے نوازاہے ۔ پس انسان کا فرض ہے کہ وہ ان خداداد استعدادوں کو دوسروں کی مدد کے لئے، بالخصوص ضرورتمندوں کی مدد کے لئے استعمال کرے ۔ ہرایک کو چاہئے کہ وہ دوسروں کی خاطر اپنی قابلیتوں اور مہارت کو استعمال کرے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹرز اپنی طبّی خدمات پیش کرسکتے ہیں، اساتذہ تعلیم فراہم کرسکتے ہیں ، انجنیئرز بھی اپنے فن کی مہارت پیش کرسکتے ہیں جبکہ وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے وہ دوسروں کے لئے اپنی دولت خرچ کرسکتے ہیں اور انہیں کرنی بھی چاہئے۔ یہ تو چند ایک مثالیں ہیں ورنہ اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے تو مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی کثیر تعداد ہے جوبنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے اللہ کی راہ میں خرچ کرتی ہے اوراس مقصد کے لئے اپنا وقت اور اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں ۔ یہ بات عہدیداروں اور رضاکاروں دونوں میں پائی جاتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: غیر احمدی اکثر یہ سن کر حیران ہوتے ہیں کہ مختلف پیشہ ور احمدی احباب دنیا کے پسماندہ ترین علاقوں تک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں۔وہ یہ سن کر مزید حیران ہوتے ہیں کہ یہ لوگ ایک پیسہ تک فضول ضائع نہیں کرتے بلکہ ان میں سے بعض تو اپنے سفر کے اخراجات بھی خود ہی برداشت کرتے ہیں اوربغیر کسی اُجرت کے اپنا وقت، مہارت اور خدمات پیش کرنے کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ یہ سب اُسی روح کے نتیجہ میں ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت میں پیدافرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت سے مواقع پر اپنے پیروکاروں کو دوسروں کی خدمت اور ان کے درد کے احساس کی اہمیت کے متعلق نصائح فرمائی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
’’دین کے دو ہی کامل حصے ہیں۔ ایک خدا سے محبّت کرنا اورایک بنی نوع سے اس قدرمحبّت کرناکہ اُن کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دعاکرنا‘‘۔
( نسیم دعوت روحانی خزائن جلد19 صفحہ 464)
پس اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت احمدیہ مُسلمہ کی ایک خوبصورت امتیازی خاصیت کو بیان فرمایاہے جو شاذو نادر ہی کہیں اور دیکھنے کو ملے گی۔ یعنی احبابِ جماعت دوسروں کی خدمت کرتے ہوئے صرف اپنی دولت اور اپنے فن پرہی انحصار نہیں کرتے بلکہ انسانی کوششوں کے ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد اور نصرت بھی مانگتے ہیں۔ وہ دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمدردی، محبت اور بنی نوع انسان کے ساتھ پیار کے حقیقی جذبہ کے ساتھ خدمت کی توفیق عطاکرے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہیں کہ ان کے اندر بے غرض روح پیداہوجائے تاکہ وہ دوسروں کے دکھ اور محرومیوں کو اپنے دکھ اور محرومیاں سمجھ سکیں۔ وہ دعائیں کرتے ہیں کہ وہ دوسروں کی تکالیف اور دکھ درد مٹانے کے قابل ہوجائیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بہت سے رضاکار افریقہ کے دور دراز علاقوں میں یا قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک میں جانے سے پہلے میرے پاس آتے ہیں یا مجھے دعاکے لئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت ڈالے۔ پس جیساکہ میں نے کہا ہماری جماعت کایہ ایک خصوصی امتیاز ہے کہ ہر عمل کا ایک ہی مقصد ہوتاہے یعنی خدا تعالیٰ کو خوش کرنا اور اس کا قرب حاصل کرنا۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کی یہی حقیقی روح ہے جس کو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے براہ راست قائم فرمایا۔
ہمیشہ یادرکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا وقت یااپنی زندگی وقف کرنے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کی جائے اور اس کے ساتھ پیارسے پیش آیاجائے۔(ماخوذ از آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 60)
اور اس قسم کا وقف تقاضاکرتاہے کہ انسان مکمل طور پربے غرض ہوجائے اور دوسرے انسانوں سے حقیقی پیارکرے۔ یہ وقف تقاضاکرتاہے کہ آدمی اس وقت تک آرام نہ کرے جب تک کہ وہ دوسروں کے مسائل کو حل نہ کرلے اور دوسروں کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر نہ ڈال لے۔ یہ تقاضاکرتاہے کہ انسان کا دل دوسروں کی محبت سے اس قدر پُر ہوجائے کہ اُسے اپنے آرام کا خیال نہ رہے بلکہ ہمیشہ اُسے دوسروں کے آرام کی فکر رہے۔ یہ تقاضاکرتاہے کہ انسان اپنے ہر قسم کے دکھ اور تکلیف کو دوسروں کی خاطر بھول جائے اور دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھنے لگے۔ یہ تقاضا کرتاہے کہ انسان اپنی ذات کو پہنچنے والی ہر تکلیف اور پریشانی کو برداشت کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہے تا دوسرے لوگ امن اور سکون کے ساتھ رہ سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار فرمایاہے کہ آپ علیہ السلام کے مرید دوسروں کی خاطر اپنی تمام خداداد صلاحیتوں کو استعمال کریں۔ آپ علیہ السلام نے یہاں تک فرمایاکہ میرے ماننے والوں کو چاہئے کہ ہر قسم کے مذہبی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اپنے مخالفین کی مدد کرنے اور انہیں آرام پہنچانے کی کوشش کریں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 8و ملفوظات جلد 7صفحہ 232)
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:پس یہ ہے وہ معیار اور مقام جو احمدی مسلمانوں کو حاصل کرنا چاہئے جس کے مطابق وہ اپنے تمام اختلافات ایک طرف رکھ کر ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہیں قطع نظر اس کے کہ ان کا تعلق کہاں سے ہے۔ جب کوئی شخص یہ معیار حاصل کرلیتاہے تو تب ہی کہا جاسکتاہے کہ وہ حقیقی روح کے ساتھ انسانیت کی خدمت کررہاہے۔ یقینایہی وہ روح تھی جس کی بنیاد پراس تنظیم کانام ’ہیومینٹی فرسٹ‘ رکھاگیاتھا یعنی انسانیت سب سے مقدم ہے اور ذاتی راحت و آرام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہر وہ شخص جس کا تعلق ہیومینٹی فرسٹ سے ہے خواہ وہ اس کی ا نتظامیہ میں سے ہے یا کارکنان ہیں یا رضاکار ہیں انہیںاس فلسفہ اوراس روح کو سمجھنا چاہئے۔ ہر ایک ممبر کو اپنی صلاحیتیں اور قابلیتیں دوسروں کی خاطر استعمال کرنی چاہئیں اور ایسے ضرورتمندوں کو جو کسی بھی رنگ میں محروم ہیں انہیں آرام اور سکون مہیا کرنے کے لئے ہر وقت کسی بھی قسم کی تکلیف، مشقّت اور قربانی کے لئے تیاررہناچاہئے۔ اس کے بدلہ میں انہیں کسی دنیاوی انعام کی تلاش نہیں ہونی چاہئے بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضاکا حصول ہونا چاہئے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دوسروں کی خدمت کرنے کاایک فائدہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’انسانیت سے محبت‘ کا تعلق روحانیت کے ساتھ جوڑا ہے اور فرمایاہے کہ:
’’ نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے‘‘۔
( ملفوظات جلد 8 صفحہ 102۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس کون احمدی مسلمان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ان رحمتوں اور نعمتوں سے محروم کرنا چاہے گا؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:پس ان باتوںکو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مَیں ہیومینٹی فرسٹ کے تمام ممبران سے کہتاہوں خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتے ہوں یا کام کرتے ہوں کہ وہ اپنے فرائض اخلاص کے ساتھ اور دوسروں کے لئے دلی محبت رکھتے ہوئے سر انجام دیں۔ آپ لوگوں نے صرف اپنے کام کے موجودہ معیار کو برقرار ہی نہیں رکھنا بلکہ ہمیشہ اپنی کوششوں میں اضافہ کرتے چلے جانا ہے اور ہیومینٹی فرسٹ کے اچھے نام اور اچھے کام میں مزید بہتری پیداکرتے چلے جانا ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہیومینٹی فرسٹ کے کاموں کے ذریعہ آپ کا غیراحمدیوں سے بھی واسطہ ہوگا اور آپ انہیں انسانیت کی خدمت کی طرف لے کر آئیں گے۔ پس اس طرح آپ دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے قریب کررہے ہوں گے اور انہیں خدا تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنے والا بھی بنارہے ہوں گے۔ پس آپ لوگوں کو اپنے عمل اور اخلاص کے اعلیٰ ترین معیار قائم رکھنے ہوں گے اور دوسروں کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ بنناہوگا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک اور بات مَیں کہنا چاہوں گاکہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہیومینٹی فرسٹ کو مذہبی فرائض سے مکمل طور پر علیحدہ رکھنا چاہئے۔مَیں ان پر یہ واضح کردوں کہ یہ مذہب ہی ہے جس نے ہمیں خدمتِ انسانیت کی قدرو اہمیت کی تعلیم دی ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے ہمیں سکھایاہے کہ دوسروں کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کے حصول کا اعلیٰ ذریعہ ہے۔ درحقیقت مذہب بذاتِ خود ہیومینٹی فرسٹ کے مقاصد کے لئے ایک بنیادی محرّک ہے۔ پس یہ کہنا کہ ہیومینٹی فرسٹ خود مختار ہونی چاہئے اور مذہب سے آزاد ہونی چاہئے بالکل غلط ہے۔ بعض خاص مواقع تو ہوسکتے ہیں جہاں عارضی طور پر حقوق العباد کو حقوق اللہ سے پہلے رکھا جائے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک انسان ڈوب رہاہے تو انسان کو اجازت ہے کہ وہ ڈوبنے والے کو بچانے کے لئے اپنی نماز کو مؤخّرکرلے لیکن تمام کارکنان اور عہدیداروں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس قسم کی اجازت غیرمعمولی حالات کے لئے ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ دن بدن آپ کی توجہ دعا اور نماز سے ہٹ جائے۔ آپ کو یہ گمان نہیں کرنا چاہئے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ انسانیت کی خدمت بھی عبادت ہے۔ اس لئے صرف رفاہی کام کرلینا ہی کافی ہے۔ یادرکھیں اللہ تعالیٰ نے بعض حقوق اپنے بھی رکھے ہیں۔ پس ہمیں ان کی ادائیگی کی طرف ہمیشہ توجہ دینی چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ ہمارا خاص امتیاز ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہیں ۔ پس حقوق اللہ کی ادائیگی کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر بھی بہت زوردیاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:ہیومینٹی فرسٹ کے ہر ممبر کو یادرکھنا چاہئے کہ صرف دعا اور دعا ہی کے نتیجہ میں اس کی کوششیں بابرکت ہوں گی۔ ہر قسم کے مثبت نتائج صرف اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر انسانیت کی خدمت کریں اور پھر اسی کے آگے جھکیں تو ہم ہر دو حقوق یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کررہے ہوں گے۔ اور اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے بے شمار اَفضال اور انعامات حاصل کرنے والے بن جائیں گے جبکہ ایک دنیاوی شخص کوتو صرف اس کی ظاہری جسمانی کوششوں کا بدلہ ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری کوششوں میں ہمیشہ برکت پڑتی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہمیشہ برکت پڑتی رہے گی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آخر پر دعا دیتے ہوئے فرمایا:اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیومینٹی فرسٹ کے پاس جو فنڈز مہیاہیں اُن کی نسبت وہ کہیں زیادہ کام کررہی ہے ۔ دوسری رفاہی تنظیمیں اتنی رقم سے ہیومینٹی کے کاموں کا دس فیصد بھی نہیں کرسکتیں۔ آپ کو ہروقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمتوں کا نتیجہ ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہیومینٹی فرسٹ کو مزید ترقیات عطافرمائے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنی نوع انسان سے محبت اور اخلاص کی جو روح ہمارے اندر پیداکی ہے اورجس کی ہمیں تعلیم دی ہے اللہ تعالیٰ آپ سب کو اسی جذبہ کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
