خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 2016ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آجکل دنیا میں عموماً ایک بہت بڑا طبقہ یہ الزام لگاتا ہے کہ مذہب دنیا کے فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ اس وجہ سے ایک بہت بڑی تعداد مذہب سے دُور ہٹ گئی ہے اور ان دُور ہٹنے والوں میں بہت بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جن کا مذہب عیسائیت تھا۔ ابھی تک یہی کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کسی مذہب کے ماننے والوں میں سب سے بڑی تعداد عیسائیوں کی ہے لیکن عملاً مذہب کو نہ ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ عیسائیوں میںسے ہو رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کے وجود کے انکار کرنے والے انہی میں سے زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذہب ہماری ضروریات پوری نہیں کرتا۔ مذہب کا کوئی ہمیں مقصد نظر نہیں آتا۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ مذہب کو مانا جائے اور اس پر قائم ہوا جائے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ مذہب نئے زمانے اور ترقی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ عیسائیوں میں تو اکثریت نام کے عیسائی ہیں۔ چرچ میں جانے والوں کی تعداد بہت معمولی ہے۔ لوگوں کے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے اور بہت سارے دوسرے ایسے مطالبات جو آزادی دلانے والے اور مذہب کے احکامات کے خلاف ہیں ان کے خلاف بولنے والوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے یہ لوگ اپنی بنیادی تعلیم میں جو پہلے ہی بگڑی ہوئی تھی مزید تبدیلیاں کرتے چلے جا رہے ہیں۔
پھر دوسرا بڑا مذہب دنیا میں اسلام ہے اور مسلمان چاہے عملاً اسلام کی تعلیم پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن اِلَّا مَاشَائَ اللہ اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب ضرور کرتے ہیں۔ اور نہیں تو جمعہ یا عید کی نمازیں ضرور پڑھ لیتے ہیں اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں جہاں سوال آ جائے دینی روایات کا شعائر اللہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا قرآن کریم کا۔ انہی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے لئے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے مفاد پرست علماء اور تنظیموں نے مسلمان کہلانے والے ایک طبقے سے غلط کام کروانے شروع کر دئیے۔ انہیں شدت پسند بنا دیا ہے۔ انہیں اپنی حکومتوں کے خلاف غلط رنگ میں ابھار دیا ہے۔ بیشک اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ملکوں کے حکمران بھی اس کے ذمہ دار ہیں جن کے غلط رویّوں اور عوام کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے یہ ردّ عمل ظاہر ہوا ہے۔ لیکن جو عوام کے جذبات سے فائدہ اٹھانے والے ہیں ان کی نیت بھی نیک نہیں ہے۔ وہ بھی اپنے مفادات کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور پھر ان دشمنیوں کو، اپنی طاقت کے اظہار کو انہوں نے اپنے ملکوں سے باہر نکل کر مغربی دنیا میں بھی خود کش حملوں اور ظالمانہ قتل و غارت کے ذریعہ پھیلا دیا ہے جس کی وجہ سے ان ملکوں میں بھی اسلام کے لئے خوف پھیل گیا ہے۔ اور جو مذہب کے مخالف ہیں، جو خدا کے وجود سے انکاری ہیں، ان کی تعداد میں ان کو دیکھتے ہوئے بھی مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں مذہب ہی فساد کی جڑ ہے اور خاص طور پر اسلام نعوذ باللہ اس میں اوّل نمبر پر ہے۔
ایسے وقت میں ہم احمدی ہیں جو کہتے ہیں کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی یہ بدامنی اور فتنہ و فساد مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہب سے دُور ہٹنے کی وجہ سے ہے۔ یہ فتنہ و فساد اس لئے ہے کہ مذہب کی حقیقی تعلیم کو توڑمروڑ دیا گیا ہے، اس کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ مسلمان بیشک اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، بیشک قرآن کریم اپنی اصلی حالت میں موجود ہے، لیکن اس کی تعلیمات کو مفاد پرستوں نے غلط تشریحیں کر کے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
پس نہ ہی مذہب کے خلاف گروہ نے مذہب کو سمجھا، نہ ہی مسلمانوں نے یا بظاہر مذہب پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے مذہب کو سمجھا ہے۔ ان میں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اوّل نمبر پر مسلمان ہیں اور بدقسمتی سے انہوں نے اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو موقع دے دیا کہ وہ اسلام پر اعتراض کرنے میں بڑھتے چلے جائیں۔
قرآن کریم کی تعلیم تو ایسی سموئی ہوئی تعلیم ہے اور فطرت کے مطابق تعلیم ہے اور ہر طبقے کے حق کو قائم کرنے والی تعلیم ہے کہ جس کے رحم اور عدل کے معیار یہ ہیں کہ دشمن سے بھی بے انصافی نہ کرو۔
میں نے کل یہاں غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے سیشن میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی میں کچھ بتایا تھا تو اس کے بعد اکثر لوگ جن میں یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور پڑھے لکھے لوگ اور مختلف طبقوں کے لوگ شامل ہیں انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ آج یہ باتیں سن کر ہمارا اسلام کے بارے میں جو تصور قائم ہوا ہوا تھا وہ یکسر بدل گیا۔ اب ہمیں پتا چلا ہے کہ اسلام کے خلاف بولنے والے جو کہتے ہیں اور اسلام کی جو تصویر میڈیا پیش کرتا ہے وہ اس سے مختلف ہے جو ہمیں آج یہاں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے حوالے سے سننے کو ملی۔ بلکہ ایک شخص نے تو یہ بھی کہا کہ میں عیسائی تھا لیکن میرا مذہب مجھے تسلی نہیں دے سکا اور اب میں دہریہ ہو چکا ہوں۔ لیکن آج یہاں آپ کے خلیفہ نے جو باتیں کی ہیں اور یہ مَیں نے سنی ہیں اس کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مذہب اسلام بالکل مختلف ہے۔ پہلے تو میں عیسائی تھا اور یہ مذہب چھوڑا تھا۔ اسلام کو تو میڈیا نے اس طرح بتایا ہوا تھا کہ اس میں غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غور کروں۔ لیکن جب میں نے یہ باتیں سنی ہیں تو میرے نظریات بالکل مختلف ہو گئے ہیں اس سے جو ہمیں بتایا جاتا ہے۔ اور کہنے لگا کہ اگر کبھی میں مذہب کی طرف آیا تو احمدی مسلمان بنوں گا۔
ہم احمدی مسلمان غیروں کو دوسرے مسلمانوں سے کیوں مختلف نظر آتے ہیں؟ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید احمدیوں نے اسلام کی خوبصورتی دنیا کو بتانے کے لئے اس کی تعلیم میں کچھ تبدیلیاں کر دی ہیں۔ جب ان کو بتایا جائے کہ ہمارا اسلام وہی ہے جو قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے ثابت ہوتا ہے تو حیران ہوتے ہیں۔ ان کو ہم بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا بگڑنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا پورا ہونا تھا۔ اور احمدی مسلمانوں کا عمل بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا نشان ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ وعدہ فرمایا تھا کہ اس بگڑے ہوئے زمانے میں جو مسلمانوں کے بگڑنے کا زمانہ آئے گا اس زمانے میں مذہب کی حقیقت بتانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلامِ صادق مبعوث ہو گا جو دونوں طرف کے لوگوں کے اعتراضات دُور کرے گا اور رہنمائی کرے گا۔ جو دنیا کو بتائے گا کہ مذہب دنیا میں فساد پیدا کرنے کے لئے نہیں آتا بلکہ مذہب کا تو کام ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت پیدا ہو اور اس کے بندوں سے شفقت کی جائے اور اسلام سب سے زیادہ اس تعلیم کا پرچار کرتا ہے۔ اور اگر قرآن کریم اور احادیث کو دیکھیں تو یہی اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ہمیں نظر آتا ہے۔
پس احمدی مسلمان اگر دوسروں سے مختلف نظر آتے ہیں تو اسلام کی بنیادی تعلیم میں تبدیلی کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کو حقیقی رنگ میں سمجھنے کی وجہ سے۔ اس تعلیم کو اس طرح سمجھنے کی وجہ سے جو زمانے کے امام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلامِ صادق مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام نے ہمیں سمجھائی ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا کہ مذہب سے اگر صحیح طور پر فائدہ اٹھانا ہے تو پہلے یہ سمجھو کہ مذہب ہے کیا۔ پھر اس بات کا ادراک حاصل کرو کہ مذہب کی ضرورت کیوں ہے۔ پھر ہمیں بتایا کہ اگر تم مسلمان ہو تو یہ علم بھی حاصل کرو کہ اسلام کی صداقت باقی مذاہب پر کیا ہے۔ اگر اسلام کی صداقت پر یقین پیدا کر لو تو پھر اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کرو جو اسلام اپنے ماننے والوں سے چاہتا ہے۔ اور اس بات کی بھی سمجھ ہونی چاہئے کہ اسلام صرف اپنے ماننے والوں سے مطالبے نہیں کرتا بلکہ دیتا بھی ہے اور اگر دیتا ہے تو کیا دیتا ہے ۔ پھر آپ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اس زمانے میں آپ علیہ السلام کے ذریعہ زندگی بخشنے کا مقصد اسلام کس طرح پورا کر رہا ہے۔ روحانی زندگی کس طرح ہمیں حاصل ہو سکتی ہے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اسلام کے ذریعہ کس طرح دنیا کو اُمّتِ واحدہ بنانا چاہتا ہے۔
یہ تمام باتیں اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے حوالے سے ہی آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ مذہب کیا ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’یقینا سمجھو کہ خدا ہے اور اس کا ایک قانون ہے جس کو دوسرے الفاظ میں مذہب کہتے ہیں۔ اور یہ مذہب ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتا رہا اور پھر ناپدید ہوتا رہا اور پھر پیدا ہوتا رہا۔ مثلاً جیسا کہ تم گیہوں وغیرہ اناج کی قسموں کو دیکھتے ہو کہ وہ کیسے معدوم کے قریب ہو کر پھر ہمیشہ از سرِ نَو پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ بیج ڈالا جاتا ہے، زمین میں بیج پڑتا ہے، ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس بیج سے پودا نکلتا ہے پھر وہی دانہ بن جاتا ہے اور سینکڑوں دانوں میں بن جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’اور بایں ہمہ وہ قدیم بھی ہیں ان کو نَو پیدا نہیں کہہ سکتے۔ یہی حال سچے مذہب کا ہے کہ وہ قدیم بھی ہوتا ہے اور اس کے اصولوں میں کوئی بناوٹ اور حدوث کی بات نہیں ہوتی اور پھر ہمیشہ نیا بھی کیا جاتا ہے۔‘‘ (البلاغ۔ فریادِ درد، روحانی خزائن جلد13 صفحہ397)
یعنی آپ نے بیان فرمایا کہ تمام انبیاء ایک قسم کی تعلیم لاتے ہیں۔ ایک ہی قسم کی تعلیم ہوتی ہے جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرو اور اس کے بندوں سے شفقت کی تعلیم ۔ یہی سب انبیاء بیان کرتے رہے۔ حضرت نوح بھی، حضرت ابراہیم بھی، حضرت موسیٰ بھی، حضرت عیسیٰ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ لیکن جب سب دین بگڑ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پھر ایک کامل دین ہوا۔ تعلیم وہی تھی جس کو نئے سرے سے اور زیادہ نکھار کر پیش کیا گیا جس نے پھر ان بگڑے ہوئے دینوں کی اصلاح کر دی اور اس زمانے میں پھر آپ کے غلام کو بھیجا جو تجدید دین کر رہا ہے، اس مقصد کو پورا کر رہا ہے جو مذہب کا ہے جو خدا تعالیٰ کا قانون ہے جسے خدا زمین میں پھیلانا چاہتا ہے۔
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ مذہب کو تم نے کس طرح سمجھنا ہے کہ یہ کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’مذہب کی جڑھ خدا شناسی اور معرفتِ نعماء الٰہی ہے۔ اور اس کی شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں اور اس کا پھل برکات روحانیہ اور نہایت لطیف محبت ہے جو ربّ اور اس کے بندہ میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس پھل سے متمتع ہونا روحانی تقدس و پاکیزگی کا مثمر ہے۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ281)
پس فرمایا اگر یہ باتیں حاصل ہو جائیں یا اس کو سمجھ آ جائیں کہ یہ کیا ہیں تو مذہب کی بھی سمجھ آ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی پہچان کرنی ضروری ہے۔ اس کوشش میں رہو کہ اللہ کیا ہے۔ اس کو پہچانو۔ اس کی جو نعمتیں ہیں ان کی معرفت حاصل کرنی ہے۔ ان پہ غور کرنا ہے۔ اور اس کی شاخیں اعمال صالحہ ہیں۔ ان کو اس پودے کو پھیلانے کے لئے، پھولنے کے لئے اعمال صالحہ پیدا کرنے پڑیں گے تب اس کو وہ شاخیں لگیں گی اور پھر اس پر پھول لگیں گے۔ جو اعلیٰ اخلاق ہیں وہ اس کے پھول ہیں۔ اور جو روحانی برکات حاصل ہوں گی اللہ تعالیٰ سے تعلق میں پھر ایک خاص مقام حاصل ہو گا وہ اس کا پھل ہے۔ اس کی برکات پھر تمہیں ملیں گی ۔ اور یہ ایسی باریک اور گہری محبت ہے جو بندے اور خدا میں پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔ لیکن یہ پھل حاصل کرنے کے لئے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ نے فرمایا کہ روحانی تقدس اور پاکیزگی حاصل ہو گی تو تبھی تمہیں یہ پھل ملیں گے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:۔
’’خدا تعالیٰ نہایت درجہ قدوس ہے۔ وہ اپنی تقدیس کی وجہ سے ناپاکی کو پسند نہیں کرتا اور چونکہ وہ رحیم و کریم ہے اس واسطے نہیں چاہتا کہ انسان ایسی راہوں پر چلے جن میں اس کی ہلاکت ہو۔ پس یہ اس کے جذبات ہیں جن کی بناء پر مذہب کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘(ملفوظات جلد10 صفحہ427۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اللہ تعالیٰ تو مذہب کو بھیج کر انسانوں کو ہلاکت سے بچانا چاہتا ہے نہ کہ فتنہ و فساد میں ڈالنا۔ جن کا تعلق حقیقی رنگ میں خدا تعالیٰ سے ہے وہ فتنہ و فساد کے قریب بھی نہیں جاتے۔ جب اس بات کی سمجھ آ جائے تو پھر انسان یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ مذہب کی ضرورت کیا ہے بلکہ وہ مذہب کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ یاد رہے کہ محض خشک جھگڑے اور سبّ وشتم اور سخت گوئی اور بدزبانی جو نفسانیت کی بنا پر مذہب کے نام پر ظاہر کی جاتی ہے اور اپنی اندرونی بدکاریوں کو دُور نہیں کیا جاتا اور اس محبوب حقیقی سے سچا تعلق پیدا نہیں کیا جاتا اور ایک فریق دوسرے فریق پر نہ انسانیت سے بلکہ کتوں کی طرح حملہ کرتا ہے اور مذہبی حمایت کی اوٹ میں ہر ایک قسم کی نفسانی بدذاتی دکھلاتا ہے کہ یہ گندہ طریق جو سراسر استخوان ہے اس لائق نہیں کہ اس کا نام مذہب رکھا جائے۔‘‘
کہتے ہیں مذہب جھگڑے پیدا کرتا ہے، فساد پیدا کرتا ہے۔ فرمایا کہ جھگڑے جو ہیں، گالی گلوچ جو ہے، ایک دوسرے پر بدزبانی کرنا جو ہے، یہ سب نفسانیت کی بناء پر ہیں مذہب کی بناء پر نہیں ہیں۔ یہ تو تمہاری اندرونی دل کی جو حالت ہے اس کو ظاہر کر رہی ہیں اور یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ تمہارا اپنے اس محبوب سے، اس خدا سے سچا تعلق نہیں ہے۔ اور اگر سچا تعلق ہے تو کتّوں کی طرح ایک دوسروں پے حملہ نہ کرو، ایک دوسرے کو برا بھلا نہ کہو، بلا وجہ انسانوں کو معصوم جانوں کو مارو نہ معصوموں کی جانیں نہ لو۔
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’افسوس ایسے لوگ نہیں جانتے کہ ہم دنیا میں کیوں آئے اور اصل اور بڑا مقصود ہمارا اس مختصر زندگی سے کیا ہے۔ بلکہ وہ ہمیشہ اندھے اور ناپاک فطرت رہ کر صرف متعصبانہ جذبات کا نام مذہب رکھتے ہیں‘‘۔ اپنے ذاتی جذبات ہوتے ہیں ،مفادات ہوتے ہیں اور مذہب کا نام رکھ دیتے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم آجکل مسلمانوں میں سے بعض لیڈروں کی، علماء کی حالت دیکھ رہے ہیں۔ ’’اور ایسے فرضی خدا کی حمایت میں دنیا میں بداخلاقی دکھلاتے اور زبان درازیاں کرتے ہیں جس کے وجود کا اُن کے پاس کچھ بھی ثبوت نہیں۔‘‘ جس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور غیر مسلم بھی شامل ہیں۔
’’وہ مذہب کس کام کا مذہب ہے جو زندہ خدا کا پرستار نہیں بلکہ ایسا خدا ایک مردے کا جنازہ ہے جو صرف دوسروں کے سہارے سے چل رہا ہے۔ سہارا الگ ہؤا اور وہ زمین پر گرا۔ ایسے مذہب سے اگر ان کو کچھ حاصل ہے تو صرف تعصّب۔ اور حقیقی خدا ترسی اور نوع انسان کی سچی ہمدردی جو افضل الخصائل ہے بالکل اُن کی فطرت سے مفقود ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسے شخص کا اُن سے مقابلہ پڑے جو ان کے مذہب اور عقیدے کا مخالف ہو تو فقط اسی قدر مخالفت کو دل میں رکھ کر اس کی جان اور مال اور عزت کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ اور اگر ان کے متعلق کسی غیر قوم کے شخص کا کام پڑ جائے تو انصاف اور خدا ترسی کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہیں کہ اس کو بالکل نابود کردیں‘‘۔ انصاف ہی کوئی نہیں رہتا۔ غیروں کے ساتھ واسطہ پڑ جائے تو چاہتے ہیں ان کو ختم ہی کر دیں۔ یہ حال ہم آجکل علماء کا بھی دیکھتے ہیں۔ غیروں کی بات تو الگ رہی، مسلمانوں میں یہ حالت ہے۔’’اور وہ رحم اور انصاف اور ہمدردی جو انسانی فطرت کی اعلیٰ فضیلت ہے بالکل ان کے طبائع سے مفقود ہو جاتی ہے اور تعصب کے جوش سے ایک ناپاک درندگی ان کے اندر سما جاتی ہے اور نہیں جانتے کہ اصل غرض مذہب سے کیا ہے۔ اصل بدخواہ مذہب اور قوم کے وہی بدکردار لوگ ہوتے ہیں جو حقیقت اور سچی معرفت اور سچی پاکیزگی کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور صرف نفسانی جوشوں کا نام مذہب رکھتے ہیں۔ تمام وقت فضول لڑائی جھگڑ وں اور گندی باتوں میں صَرف کرتے ہیں اور جو وقت خدا کے ساتھ خلوت میں خرچ کرنا چاہئے وہ خواب میں بھی ان کو میسّر نہیں ہوتا۔‘‘ (نصرۃ الحق، روحانی خزائن جلد21 صفحہ28-29)
پس مذہب تو نام ہے اللہ تعالیٰ سے محبت کا اور آپس میں تعلقات کا۔ بعض غلط عمل کرنے والوں کی وجہ سے مذہب کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ مذہب تو نام ہے متعصبانہ جذبات سے پاک ہونے کا۔ مذہب نام ہے اعلیٰ اخلاق کا۔ مذہب نام ہے خدا ترسی اور بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی کا۔ مذہب نام ہے نفسانی جوشوں کو دبانے کا۔ مذہب نام ہے خدا تعالیٰ کی عبادت کا۔ یقینا یہ سب چیزیں مذہب کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہیں نہ کہ عدم ضرورت کو۔ اور یہی باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جن احمدیوں میں یہ باتیں ہیں وہ احمدی دوسروں سے مختلف ہیں۔ اور یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اندر یہ باتیں پیدا کرے تا کہ جو نیک نامی ہماری غیروں میں ہے وہ قائم رہے اور نہ صرف نیک نامی ہو بلکہ اس کی وجہ سے حقیقی اسلام کا پیغام بھی دنیا میں پھیلے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے تلے آئیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ مذہب یہ چیزیں دیتا ہے۔ لیکن اس بات کی دلیل کیا ہے کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے۔ اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیمانہ بیان فرمایا کہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کیسا ہے اور اس تعلق کے نتیجہ میں نشان ظاہر ہوتے ہیں کہ نہیں، تمہاری دعائیں قبول ہوتی ہیں کہ نہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اب بھی اسلام میں صاحبِ خوارق اور نشان موجود ہیں اور دوسری قوموں میں موجود نہیں۔ ذرہ سوچیں کہ یہ تمام کارروائی اسلام کے لئے تھی یا کسی اور مطلب کے لئے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اب اسلام میرے ظہور کے بعد اس بلندی کے مینار پر ہے کہ جس کے مقابل پر تمام ملّتیں نشیب میں پڑی ہیں۔ کیونکہ زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جو اپنے ساتھ تازہ بتازہ نشان رکھتا ہے۔ وہ مذہب نہیں بلکہ پرانے قصوں کا مجموعہ ہے جس کے ساتھ زندہ نشان نہیں ہیں۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ371)
آپ کے بیشمار نشانات ہیں۔ ان کو بیان کیا جائے۔ آپ نے کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں اور آپ نے فرمایا کہ میرے ظہور کے بعد تو مذہب ان نشانات کی وجہ سے ایک بلندی کے مینار پر پہنچ گیا ہے اور ہم روز جماعت احمدیہ کے نشانات دیکھتے ہیں ۔ اور اس بلندی کے مینار پر پہنچنے کے لئے ہمیں بھی اپنے معیار اعلیٰ کرنے پڑیں گے۔ ہمیں بھی مذہب کی اس تعریف کے نیچے آنا ہو گا جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ یا آپ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو بھی نشان دکھاتا ہے ۔ اسلام اور احمدیت کی صداقت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے اس زمانے میں دنیا پر واضح ہو رہی ہے اور ہونی تھی اس میں اللہ تعالیٰ کس طرح مدد فرماتا ہے۔ ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں۔
مالی میں جو ایک دور دراز افریقہ کا ملک ہے، وہاں کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے احمدیہ مشن ہاؤس فون کیا اور کہا کہ آج سے میں احمدی ہوتا ہوں۔ جب ان سے بیعت کرنے کی وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال دیکھ کر میرا کسی بھی فرقہ میں شامل ہونے کا دل نہیں کرتا۔ میں قرآن کریم اور حدیث کی کتابیں پڑھ کر اس پر حتی الوسع عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن میرے دل میں ہمیشہ یہ بات رہتی تھی کہ خدا تعالیٰ اس دین کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا اور مہدی کا ظہور ہو گا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ یہی وقت تو مہدی کے ظاہر ہونے کا ہے اور اس کے لئے دعا بھی کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ کل رات جب میں دعا کرنے کے بعد سویا تو خواب میںد یکھا کہ چاند آسمان سے علیحدہ ہوا ہے اور زمین کی طرف آ رہا ہے اور چاند قریب آتے آتے میرے ہاتھ پر آ گیا جس میں سے آواز آ رہی تھی کہ مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اور وہ پکار پکار کر لوگوں کو بلا رہا ہے۔ پس اس خواب کے بعد مجھے پتا چلا کہ آج مہدی کا دعویٰ کرنے والا صرف ایک ہی شخص ہے اس لئے آپ میری بیعت لے لیں۔
اس طرح کے سینکڑوں واقعات میرے پاس موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل کیا ہمیں احمدی ہونے کی توفیق عطا فرمائی یا ہمیں احمدی گھروں میں پیدا کیا کہ ہم پیدائشی احمدی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا کیا ہے؟ صرف اتنا ہی کافی ہے؟ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم حقیقی مسلمان بنو۔ اور حقیقی مسلمان کیسا ہونا چاہئے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں احمدی ہونے کے بعد کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ولی پرست نہ بنو بلکہ ولی بنو اور پیر پرست نہ بنو بلکہ پیر بنو۔ تم ان راہوں سے آئو۔ بیشک وہ تنگ راہیں ہیں لیکن ان سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ اگر بہت بڑی گٹھڑی سر پر ہو تو مشکل ہے‘‘۔ اور گٹھڑی ایک عام آدمی کے سر پر کیا ہوتی ہے؟ اَناؤں کی گٹھڑی، گناہوں کی گٹھڑی، تکبر کی گٹھڑی، بداخلاقیوں کی گٹھڑی۔ اور بے تحاشا بداخلاقیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حق نہ ادا کرنے کی گٹھڑی، اس کے بندوں کے حقوق نہ ادا کرنے کی گٹھڑی۔ ان کو پھینکنا پڑے گا پھر اس سے گزر ہو گا۔ فرمایا کہ ’’اگر گزرناچاہتے ہو تو اس گٹھڑی کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھڑی ہے پھینک دو۔ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو پھینک دے۔ تم یقینا یاد رکھو کہ اگر تم میں وفاداری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے اور خدا تعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے۔ ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفاداری کو چھوڑ کر غداری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھاسکتا اور نہ کوئی اسے فریب دے سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔‘‘
(ملفوظات جلد3 صفحہ189-190۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ سچا اخلاق اور صدق ہے جو ایک حقیقی احمدی مسلمان کی پہچان ہونی چاہئے اور یہی وہ چیز ہے جس سے ہم اپنے مذہب کی سچائی دنیا پر ظاہر کر سکتے ہیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ ایک حقیقی مسلمان کیسا ہونا چاہئے اور آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں۔ اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں‘‘۔ سب کوششیں، سب دعاؤں کا محور اللہ تعالیٰ ہو۔ ظاہری کوششیں کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے لیکن ایمان اور یقین اللہ تعالیٰ پے اس قدر ہو کہ جو کام کرنا ہے وہ خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے کسی شخص نے نہیں کرنا۔ فرمایا کہ ’’جس طرح پر ایک بڑا انجن بہت سی کلوں کو چلاتا ہے ‘‘اسی طرح تمہیں ہونا چاہئے۔ ’’پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت و سکون کو اسی انجن کی طاقت عظمیٰ کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیونکر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہو سکتا ہے۔ اور اپنے آپ کو اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ(الانعام:80)کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے منہ سے کہتا ہے ویسے ہی ادھر کی طرف متوجہ ہو تو لاریب وہ مسلم ہے۔ وہ مومن اور حنیف ہے۔ لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادھر بھی جھکتا ہے وہ یاد رکھے کہ بڑا ہی بدقسمت اور محروم ہے کہ اس پر وہ وقت آ جانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے۔‘‘
(الحکم 12 اپریل1899ء جلد3 نمبر13 صفحہ6) (ملفوظات جلداوّل صفحہ166۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’سچائی کی فتح ہو گی اور اسلام کے لئے پھر ا ُس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں‘‘ ۔ہمیں محنت کرنی پڑے گی۔ ہمیں اپنے تقویٰ کے معیار بڑھانے پڑیں گے۔ ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھانا پڑے گا۔ ہمیں اس کی مخلوق کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دینی پڑے گی۔ اور فرمایا ’’اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلّتیں قبول نہ کرلیں۔ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے ؟ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پراسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ10 تا12)
پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے ہیں ہم نے ہی اس دنیا کو اسلام کے حقیقی نمونے دکھانے ہیں۔ اپنی عملی حالت کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھال کر بتانا ہے کہ اسلام اور مذہب کی حقیقت اب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کے ذریعہ سے دنیا پر ظاہر ہو گی۔ اسلام صرف فرضی باتیں نہیں کرتا، صرف اخلاق کی باتیں نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ سے ملاتا ہے۔ اور یہ وہ انعام ہے جو ایک مومن کو حقیقی رنگ میں مذہب کی پیروی کرنے سے ملتا ہے جو اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اسلام ایک ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص سچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور ان تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کاربند ہو جائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا۔ وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پَردوں میں ہے اس کی شناخت کے لئے بجز قرآنی تعلیم کے اور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے‘‘۔
یہ وہ اہم چیزیں ہیں جن کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ گھروں کے فرائض سے لے کر، معاشروں کے فرائض سے لے کر تمام انسانیت کے حقوق ہم نے ادا کرنے ہیں اور اپنے فرض سمجھ کر ادا کرنے ہیں یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے۔
فرمایا: ’’اور اس میں ایک برکت اور قوتِ جاذبہ ہے جو خدا کے طالب کو دم بدم خدا کی طرف کھینچتی اور روشنی اور سکینت اوراطمینان بخشتی ہے۔ اورقرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُر حکمت عالَم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہئے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہوکر یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں یہ نہیں ہے کہ ہونا چاہئے، عقلی دلیل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کو دیکھ کر اس بات پر یقین کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے۔ فرمایا کہ ’’ اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کر لیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اِس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لاشئے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔‘‘ (نصرۃ الحق، روحانی خزائن جلد21 صفحہ25-26)
ہمارے ایمان میں بڑھے ہوئے لوگ دنیا میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ گزشتہ دنوں میں تھی کہ ایک جگہ افریقہ کے ایک ملک میں ایک شخص کووہاں کے چیف نے کہا کہ تم احمدیت چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں گاؤں سے نکال دوں گا، اپنے قصبہ سے نکال دوں گا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تم نکال دو۔ تمہیں ظاہری طاقت ہے لیکن میرا خدا بھی ہے۔ میں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا۔ تمہارے سے اوپر بھی ایک ہستی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس بات کا رعب اس چیف پر ایسا ڈالا کہ اس نے فوراً کہہ دیا کہ نہیں، تمہیں کوئی نہیں نکالتا۔ تم نے جو کرنا ہے کرو اور یہاں احمدیت کی تبلیغ بھی کرو۔ تو یہ نمونے ہمیں نظر آتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کی ذات کا یہ ادراک پیدا کرنے اور اس سے تعلق جوڑنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اس کی ذات پر ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ وہ سب طاقتوں کا مالک ہے حتی کہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ تم کہتے ہو کہ مذہب تمہیں کیا دیتا ہے؟ ہمارے مذہب نے تو ہمیں ہمارے پیدا کرنے والے سے ملا دیا ہے اور اس کے ساتھ ایک خاص تعلق سے ہمیں جوڑ دیا ہے۔
پھر مذہب کس طرح زندگی بخشتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کو کس طرح پورا فرمایا؟ اس بارے میں بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں۔ اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے، نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اَب نابود ہوچکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔‘‘
پس توحید کا یہ دائمی پودا لگانے کا آپ کے سپرد کام ہے۔ مخلوق کی ہمدردی کا آپ کے سپرد کام ہے۔ اللہ سے جو دوری پیدا ہو گئی ہے اس سے قریبی تعلق پیدا کرنے کا جو آپ کے ذمہ کام ہے ہم ماننے والوں کا بھی یہ کام ہے کہ اس میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اور پوری کوششوں کے ساتھ، پوری طاقتوں کے ساتھ اس طرف بڑھنے کی کوشش کریں اور یہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
آپ فرماتے ہیں کہ ’’میں دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو خدا نے اپنے ہاتھ سے میری تربیت فرما کر اور مجھے اپنی وحی سے شرف بخش کر میرے دل کو یہ جوش بخشا ہے کہ میں اس قسم کی اصلاحوں کے لئے کھڑا ہو جاؤں اور دوسری طرف اس نے دل بھی تیار کر دیئے ہیں جو میری باتوں کے ماننے کے لئے مستعد ہوں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے دنیا میں مامور کر کے بھیجا ہے اسی وقت سے دنیا میں ایک انقلاب عظیم ہورہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں جو لوگ حضرت عیسیٰ ؑکی خدائی کے دلدادہ تھے اب ان کے محقق خود بخود اس عقیدہ سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں اور وہ قوم جو باپ دادوں سے بتوں اور دیوتوں پر فریفتہ تھی بہتوں کو ان میں سے یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ بُت کچھ چیز نہیں ہیں۔ اور گو وہ لوگ ابھی روحانیت سے بے خبر ہیں اور صرف چند الفاظ کورسمی طور پر لئے بیٹھے ہیں لیکن کچھ شک نہیں کہ ہزارہا بیہودہ رسوم اور بدعات اور شرک کی رسیاں انہوں نے اپنے گلے پر سے اتار دی ہیں اور توحید کی ڈیوڑھی کے قریب کھڑے ہوگئے ہیں‘‘۔ توحید کے دروازے پر کھڑے ہو گئے ہیں۔ قریب ہیں کہ توحید میں داخل ہو جائیں، توحید کو مان لیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں امید کرتا ہوں کہ کچھ تھوڑے زمانہ کے بعد عنایتِ الٰہی ان میں سے بہتوں کو اپنے ایک خاص ہاتھ سے دھکہ دے کر سچی اور کامل توحید کے اس دارالامان میں داخل کر دے گی جس کے ساتھ کامل محبت اور کامل خوف اور کامل معرفت عطا کی جاتی ہے۔ یہ امید میری محض خیالی نہیں ہے بلکہ خدا کی پاک وحی سے یہ بشارت مجھے ملی ہے۔ ‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ180-181)
اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے بیشمار ملکوں میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو کھڑا کر رہا ہے اور اس طرف متوجہ کر رہا ہے کہ وہ اس توحید کے پیغام کو سمجھیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو سمجھیں اور آپ کے پیغام کو قبول کریں، صحیح اسلام کو مانیں۔ اور کئی ایسے ہیں جو یہ لکھتے ہیں کہ ہم بت پرست تھے لیکن آج سے ہم بتوں کو چھوڑ کر ایک واحد و یگانہ خدا پر ایمان لانے والے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ان سے وہ شفقت کا سلوک فرماتا ہے کہ ان کو اپنی ہستی کا یقین اس طرح دلا دیتا ہے کہ ان کی دعائیں قبول ہو رہی ہیں اور ایک نیا ایمان اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا ایک نیا ادراک ان میں پیدا ہو رہا ہے۔ پس یہ کوئی قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ لاکھوں لوگ ہر سال جو احمدیت میں داخل ہوتے ہیں اس بات کا ثبوت ہیں۔ دنیا کے فسادوں کو دور کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ اختلافات ختم ہوں اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا انتظام فرمایا ہے۔ وہ خدا جو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بھی تعلق قائم ہو اور بندے بھی ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور محبت سے رہیں اس بارے میں بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’جیسا کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں وحدت ہے ایسا ہی وہ نوع انسان میں بھی جو ہمیشہ کی بندگی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وحدت کو ہی چاہتا ہے‘‘ انسان جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک عاجز بندہ بن کر رہے اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب اس کا وحدت پہ یقین ہو۔ ایک وحدت کی لڑی میں پرویا جائے اورفرمایا کہ ’’اور درمیانی تفرقہ قوموں کا جو بباعث کثرت نسل انسان نوع انسان میں پیدا ہوا وہ بھی دراصل کامل وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک تمہید تھی۔‘‘ جو مختلف قومیں ہیں، ان میںفرق ہے، مختلف قسم کی نسلیں ہیں جو انسانوں میں پائی جاتی ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ بھی ایک وحدت پیدا کرنے کی تمہید تھی۔ ’’کیونکہ خدا نے یہی چاہا کہ پہلے نوع انسان میں وحدت کے مختلف حصے قائم کر کے پھر ایک کامل وحدت کے دائرہ کے اندر سب کو لے آوے۔ سو خدا نے قوموں کے جدا جدا گروہ مقرر کئے اور ہر ایک قوم میں ایک وحدت پیدا کی اور اس میں یہ حکمت تھی کہ تا قوموں کے تعارف میں سہولت اور آسانی پیدا ہو اور ان کے باہمی تعلقات پیدا ہونے میں کچھ دقّت نہ ہو اور پھر جب قوموں کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تعارف پیدا ہو گیا۔‘‘ پہلے چھوٹے قبائل تھے ، قبائل کا تعارف ،خاندانوں کا تعارف،پھر ملکوں کا تعارف۔ فرمایا کہ جب تعارف پیدا ہو گیا۔ ’’تو پھر خدا نے چاہا کہ سب قوموں کو ایک قوم بنا وے۔ جیسے مثلاً ایک شخص باغ لگاتا ہے اور باغ کے مختلف بوٹوں کو مختلف تختوں پر تقسیم کرتا ہے اور پھر اس کے بعد تمام باغ کے ارد گرد دیوار کھینچ کر سب درختوں کو ایک ہی دائرہ کے اندر کر لیتا ہے۔ اسی کی طرف قرآن شریف نے اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ آیت ہے کہ اِنَّ ھٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِِ (الانبیاء:93) یعنی اے دنیا کے مختلف حصوں کے نبیو! یہ مسلمان جو مختلف قوموں میں سے اس دنیا میں اکٹھے ہوئے ہیں یہ تم سب کی ایک امّت ہے۔‘‘ یہاں اشارہ ہے نبیوں کو کہ نبیوں کی جو امتیں بنی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ یہ جو تمہاری اُمّتیں جمع ہوئی ہیںیہ اس لئے کہ تم سب کی ایک اُمّت ہے۔ ’’جو سب پر ایمان لاتے ہیںا ور میں تمہارا خدا ہوں۔ سو تم سب مل کر میری ہی عبادت کرو…‘‘ تمام پہلے نبیوں کی اُمّتیں تھیں پھر ان کو اسلام کے اوپر اکٹھا کرنے کا حکم دیا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ اس تدریجی وحدت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہر ایک محلہ کے لوگ اپنی اپنی محلہ کی مسجدوں میں پانچ وقت جمع ہوں۔ اور پھر حکم دیا کہ تمام شہر کے لوگ ساتویں دن شہرکی جامع مسجد میں جمع ہوں۔ یعنی ایسی وسیع مسجد میں جس میں سب کی گنجائش ہو سکے۔ اور پھر حکم دیا کہ سال کے بعد عید گاہ میں تمام شہر کے لوگ اور نیز گردو نواح دیہات کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں۔ اور پھر حکم دیا کہ عمر بھر میں ایک دفعہ تمام دنیا ایک جگہ جمع ہو یعنی مکّہ معظمہ میں۔ سو جیسے خدا نے آہستہ آہستہ اُمّت کے اجتماع کو حج کے موقع پر کمال تک پہنچایا۔ اوّل چھوٹے چھوٹے موقعے اجتماع کے مقرر کئے اور بعد میں تمام دنیا کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع دیا۔ سو یہی سنّت اللہ الہامی کتابوں میں ہے۔ اور اس میں خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ نوع انسان کی وحدت کا دائرہ کمال تک پہنچا دے۔ اوّل تھوڑے تھوڑے ملکوں کے حصوں میں وحدت پیدا کرے اور پھر آخر میں حج کے اجتماع کی طرح سب کو ایک جگہ جمع کر دیوے جیسا کہ اس کا وعدہ قرآن شریف میں ہے کہ وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰھُمْ جَمْعًا (الکہف:100) یعنی آخری زمانہ میں خدا اپنی آواز سے تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دے گا جیسا کہ وہ ابتدا میں ایک مذہب پر جمع تھے تا کہ اوّل اور آخر میں مناسبت پیدا ہو جائے۔ غرض پہلے نوع انسان صرف ایک قوم کی طرح تھی اور پھر وہ تمام زمین پر پھیل گئے تو خدا نے ان کے سہولت تعارف کے لئے ان کو قوموں پر منقسم کر دیا اور ہر ایک قوم کے لئے ان کے مناسب حال ایک مذہب مقرر کیا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَّجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا۔(الحجرات:14)اور پھر فرماتا ہے لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا اٰتَاکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ۔ (المائدۃ:49) … اے لوگو! ہم نے مرد اور عورت سے تمہیں پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہارے کنبے اور قبیلے مقرر کئے۔ یہ اس لئے کیا تا تم میں باہم تعارف پیدا ہو۔ اور ہر ایک قوم کے لئے ہم نے ایک مشرب اور مذہب مقرر کیا تا ہم مختلف فطرتوں کے جوہر بذریعہ اپنی مختلف ہدایتوں کے ظاہر کر دیں۔ پس تم اے مسلمانو! تمام بھلائیوں کو دوڑ کر لو کیونکہ تم تمام قوموں کا مجموعہ ہو۔‘‘ مسلمان تمام قوموں کا مجموعہ ہیں ’’اور تمام فطرتیں تمہارے اندر ہیں۔‘‘ غرض تمام پچھلے انبیاء کی جتنی قومیں ہیں ان سب نے اسلام میں اکٹھا ہونا ہے اس لئے تمام قسم کی فطرتیں بھی اندر آ گئی ہیں اور تمام قوموں کا اور تمام مذاہب کا مجموعہ بھی اسلام بن گیا ہے۔ فرمایا ’’غرض مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر خدا نے نوع انسان کو کئی قوموں پر منقسم کر دیا۔‘‘(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ144 تا146)
پس آج اس بات کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ہمیں ضرورت ہے تا کہ ہم دنیا کو مذہب کی ضرورت اور اہمیت بتا سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے اسلام کے خوبصورت پیغام کو اپنے ملک میں بھی اور دنیا میں بھی پھیلا سکیں اور دنیا سے فساد دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں اور شیطان کے پنجے سے دنیا کو نکالیں جس میں یہ دن بدن گرفتار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ شیطانی طاقتیں پہلے سے بڑھ کر مذہب کے خلاف حملے کر رہی ہیں ہمیں بھی چاہئے کہ اس سے بڑھ کر ہم شیطان کے حملوں کا جواب دیں۔ مسلمانوں کو بھی پیغام پہنچائیں اور ان کے لئے دعائیں بھی کریں اور غیر مسلموں کو بھی پیغام پہنچائیں اور ان کے لئے دعائیں کریں تا کہ ہر شخص اُس خدا کو پہچان لے جو دنیا کا خدا ہے۔ جو چاہتا ہے کہ دنیا سے فساد ختم ہو۔ جو چاہتا ہے کہ بندے ایک دوسرے کے حق ادا کریں۔ جو چاہتا ہے کہ دنیا میں وحدت قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ دعا کر لیں۔ (دعا)
