خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع جلسہ سالا نہ یوکے13اگست2016ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق عورتوں اور مردوں کی پیدائش کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں چاہے وہ امراء کے طبقہ میں سے ہیں یا عوام الناس میں سے ہیں، امیر ہیں یا غریب ہیں، سب اپنے مقصد پیدائش کو پہچانیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات:57) اور میں نے جنّوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہیں، اس کا حق ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر چلنے والے ہیں، چاہے مرد ہوں یا عورتیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بشارتیں بھی دی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب جنت کی بشارت دی تو عورتوں اور مردوں کو علیحدہ علیحدہ بھی مخاطب فرمایا۔ بعض جگہ صرف انسانوں کا لفظ استعمال کیا، مومن کا لفظ استعمال کیا لیکن یہاں جنت کی بشارت دیتے ہوئے مرد اور عورت دونوں کے نام لئے۔ چنانچہ نے اللہ تعالیٰ سورۃ توبہ میں فرماتا ہے کہ  وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ۔ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ ۔اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (التوبۃ:71)کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا۔ یقینا اللہ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے۔

          پھر آگے فرمایا وَعَدَاللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْا َنْھٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْھَاوَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ۔وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ۔ ذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(التوبۃ:72)اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسی جنتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اسی طرح بہت پاکیزہ گھروں کا بھی جو دائمی جنتوں میں ہوں گے۔ تاہم اللہ کی رضا سب سے بڑھ کر ہے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

          پس بڑا واضح ہے کہ جو انعام مردوں کو مل رہا ہے، جو مومنوں کو مل رہا ہے، وہی انعام عورتوں کو بھی مل رہا ہے۔ کہیں نہیں لکھا کہ عورتوں کو ایک درجہ یا کچھ حصّہ کم ملے گا یا انعام میں کوئی تھوڑی بہت کمی بیشی ہو گی یا جنت کے جس مقام پر مرد ہوں گے وہاں عورتیں نہیں ہوں گی۔ فرمایا نیکی کرو۔ نیکی کرنا اور اللہ تعالیٰ کو مقدم سمجھنا ضروری ہے۔ پھر انعام عورتوں کو بھی ویسا ہی ملے گا جیسا مَردوں کو ملتا ہے۔ کوئی مَردوں کی تخصیص نہیں بلکہ دوسری جگہ فرمایا کہ مَردوں اور عورتوں دونوں کو اجر عظیم ملے گا بشرطیکہ وہ نیک کام سرانجام دیں۔ اور نیک کاموں کی تفصیل بھی بیان فرما دی۔   اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّاللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۔(الاحزاب:36)یقینا مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجرِعظیم تیار کئے ہوئے ہیں۔

          پس وہ کام جواجرعظیم کا مورد بناتے ہیں قطع نظر اس کے کہ یہ مرد کر رہے ہیں یا عورتیں ہرایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ان کو اس کا انعام ملے گا اگر تم یہ نیکیاں انجام دو گے ۔ پس ان نیکیوں کی تفصیل لکھ دی اور انہی نیکیوں کی ہمیں تلاش کرنی چاہئے اگر اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے، اس کی رضا حاصل کرنی ہے، اس سے اجر لینا ہے۔

           اسی طرح اور بہت سی جگہوں پر مومنین اور مومنات کا علیحدہ علیحدہ ذکر ہے۔ گو بہت سے احکام میں مردوں اور عورتوں کو صرف مومنوں کے نام سے مخاطب کیا گیا ہے۔ لیکن اگر صرف مومن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو ان احکام میں بھی عورتیں بھی شامل ہیں۔

           پس یہ قرآن کریم کی خوبی ہے کہ جہاں عمومی طور پر مومنین کو مخاطب کرنے سے مرد اور عورت دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جا سکتی ہے وہاں صرف مومنین کا لفظ استعمال کیا۔ جہاں خاص طور پر دونوں کے حقوق کو قائم کرنا ہے، اجر دینا ہے، جنت کی بشارتیں دینی ہیں، ان کی ذمہ داریوں کے ذکر کی ضرورت تھی، خاص تحریک کر کے انعامات کا ذکر کرنے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو اجاگر کرنے کی ضرورت تھی وہاں مومنین اور مومنات کا، مرد اور عورت کا علیحدہ علیحدہ بھی ذکر کر دیا۔

           اسلام پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں اور یہ اعتراض اپنے اندر وزن بھی کوئی نہیں رکھتا، صرف اعتراض برائے اعتراض ہے کیونکہ قرآن کریم میں ان کے اعتراضوں کے جواب بھی موجود ہیں۔ لیکن قرآن کریم پر اعتراض کرنے والے کو یہ نظر نہیں آتا کہ اسلام سے پہلے کسی مذہبی کتاب نے عورتوں کے تمام حقوق اور باتوں کا ذکر نہیں کیا جس طرح اسلام نے کیا ہے۔

           قرآن کریم ہی ہے جس نے واضح کیا کہ عورت کے بھی ویسے ہی جذبات ہیں جیسے مرد کے۔ اور عورت کی بھی خواہشات ہیں جس طرح مرد کی۔ اللہ تعالیٰ جہاں مرد کے حقوق قائم فرماتا ہے وہاں عورت کو حقوق دلوانے کے لئے یہ بھی اعلان کرتا ہے کہ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ(البقرۃ:229) یعنی ان عورتوں کا دستور کے مطابق مَردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مَردوں کا اُن پر۔ پھر بے شمار حقوق اسلام نے عورت کے قائم کئے۔ نیکی کا اجر دونوں کا برابر ہے جیسا کہ میں نے بتایا۔ عورت کو جائیداد کا وارث بنایا۔ عورت کی کمائی پر صرف عورت کا ہی حق دیا۔ عورت سے حق ورثہ چھیننے کو منع کیا گیا۔ فرمایا کہ ان کو حق دو۔ ان کے ورثے کے حق کو نہ چھینو۔ عورتوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے شادی سے روکنے سے منع کیا گیا۔ اس طرح کے بہت سے حکم ہیں۔

           مجھ سے ایک دفعہ ایک جرنلسٹ نے کہا کہ عیسائیت میں جس طرح نئے زمانے کے ساتھ تبدیلیاں کی جا رہی ہیں تم نہیں سمجھتے کہ اسلام میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ مَیں نے اسے یہی جواب دیا تھا کہ نہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ قرآن کریم نے انسانی فطرت کو قائم رکھتے ہوئے ذمہ داریاں مقرر کی ہیں اور جب یہ مقرر کر دی گئی ہیں تو کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ بدلنے کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں کہیں کمیاں ہوں۔ اگر حقوق غصب کئے جا رہے ہوں وہاں ضرورت پڑتی ہے چاہے مرد کے حقوق ہوں یا عورت کے، بچے کے حقوق ہوں۔ یا ماں باپ کے۔ مزدور کے حقوق ہوں یا آجر کے۔ ملازم کے حقوق ہوں یا مالک کے۔ عام شہری کے حقوق ہوں، یا حکومت کے۔ جب سب حقوق کا تعیّن کر دیا گیا ہے اور بڑے انصاف سے تعیّن کر دیا گیا ہے اور اگر صحیح اسلامی حکومت ہے جس کے نمونے ہم نے صحیح اسلامی حکومتوں میں دیکھے بھی اور ان کی ادائیگی بھی ہو رہی ہو تو پھر صرف اس لئے کہ ہم جدید تعلیم پر چلنے والے ہیں اور جدید تعلیم تقاضا کرتی ہے کہ مذہبی تعلیم کو بدلا جائے اس لئے بدل دو تو یہ بیوقوفی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ہاں اگر یہ سب حقوق ادا نہیں ہو رہے تو انہیں ادا کروانے کی کوشش کی جائے۔ اس تعلیم پر عمل درآمد کروایا جائے۔ لیکن یہ کہنا کہ بدل دو، یہ کوئی حل نہیں ہے۔ بدل کر بھی ایسی حکومتیں، ایسے سربراہ جو حقوق ادا نہیں کرتے یا ایسے لوگ جو حقوق ادا نہیں کرتے وہ تب بھی حقوق ادا نہیں کریں گے۔ پس اصل ضرورت یہ ہے کہ حقوق ادا کروانے کی کوشش کی جائے، ان کو لاگو کیا جائے۔ ان پر عمل درآمد کروایا جائے۔

           پس اگر میں اپنی مذہبی کتاب قرآن کریم کو دیکھتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کہ وہ اس خدا کا کلام ہے جو عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ اُس کو ماضی کا بھی علم تھا اور حال کا بھی علم ہے اور آئندہ آنے والی باتوںکا بھی علم ہے۔ پس جب ہم ایسے خدا کو مانتے ہیں اور ایسی کتاب پر یقین رکھتے ہیں جس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے تو پھر مَیں کیوں سمجھوں کہ اسلام میں احکامات کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پھر اگر مذہب خدا کی طرف سے ہے اور مجھے خدا کی ہستی پر یقین ہے۔ مَیں اس بات پر قائم ہوں کہ مذہب بھیجنے والا اللہ تعالیٰ ہے تو پھر مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ مَیں خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر لوگوں کے بنائے ہوئے قانون کے پیچھے چلنا شروع کر دوں۔

           کل جمعہ کے وقت بہت سا پریس آیا ہوا تھا۔ پہلا دن تھا۔ ہمارے پریس سیکرٹری جمعہ کے بعد مجھے کہنے لگے کہ پریس تو آیا ہوا ہے لیکن چینل فور(Channel 4) کی وجہ سے ہم بڑے پریشان ہیں۔ شاید وہ خاتون تھیں۔ کہتی ہیں کہ باقی تو تمہاری باتیں ٹھیک ہیں لیکن یہ عورتوں مردوں کی سیگریگیشن(segregation) جو ہے، یہ علیحدہ علیحدہ جو عورتوں اور مَردوں کو بٹھایا ہوا ہے یہ تو تمہیں بھی شدت پسند دکھاتا ہے۔ یہ تم عورتوں کے حقوق غصب کر رہے ہو۔ میں نے اسے کہا تھا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ انہیں کہو کہ اس بات کا جواب ہم مرد نہیں دیں گے۔ تم عورتوں سے جا کر پوچھو۔ اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ لجنہ کی طرف سے ہماری ایک نمائندہ لڑکی جو پریس کو بھی بڑے انٹرویو دیتی ہیں۔ انہوں نے بڑا اچھا جواب اسے دیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کو مانیں نہ مانیں لیکن اس کو ردّ کرنے کی دلیل ان کے پاس کوئی نہیں۔ دوسرے میں نے یہ کہا کہ اگر وہ اس بات سے ہمارے متعلق کوئی منفی خبر دیتی ہیں یا تبصرہ کرتی ہیں تو کریں۔ ہم نے دنیا داروں کو اور پریس کو یا کسی چینل کو خوش نہیں کرنا۔ ہم نے تو خدا تعالیٰ کو خوش کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی ہے۔ اس کے احکامات پر چلنا ہے۔ میں یہی جواب عموماً دیا کرتا ہوں کہ مذہب ہمیں اپنے پیچھے چلانے آتا ہے۔ مذہب ہمیں اپنے پیچھے چلا کر ہمیں ہمارے پیدا کرنے والے خدا سے ملانے کے لئے آتا ہے۔ مذہب بندوں کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں آتا۔ مذہب اس لئے نہیں آتا کہ ہم لوگوں کو خوش کریں۔

           اللہ تعالیٰ انبیاء بھیجتا ہے اور بھیجتا ہی اُس وقت ہے جب زمین میں فساد برپا ہو جاتا ہے۔ جیسا قرآن شریف میں بھی ذکر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اُس وقت بھیجا جب دنیا فساد سے بھری ہوئی تھی اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس وقت بھیجا جب دنیا میں ہر سمت، ہر طرف فساد پھیلا ہوا تھا۔ سو سال پہلے جس فساد کے روکنے کے لئے آپ نے قرآن کریم کی روشنی میں ہمیں بتایا اور وضاحت فرمائی وہی صورتحال آج بھی ہے اور اس کا حل بھی وہی ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔

           یہ دنیا والے جو مذہب سے دور ہٹ کر مذہب پر اعتراض کر کے فساد برپا کر رہے ہیں یہی بات ان کو ایک دن اس کے نتائج بھی دکھائے گی۔ اسی طرح جو مذہب کے نام پر فساد کر رہے ہیں یہی ان کی پکڑ کی وجہ بھی بنے گی چاہے وہ مسلمانوں میں سے ہوں۔

           یہ دنیا دار اپنے زعم میں عورتوں اور مردوں کے علیحدہ بیٹھنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ سب سے بڑا اعتراض ان کو ہمارے پر یہی ہوتا ہے۔ یہی لوگ چند دہائیاں پہلے عورتوں کو ہر قسم کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے تھے اور جب وقت کے ساتھ عورت نے اپنے حق کے لئے آواز اٹھائی تو کیونکہ عورت کو حق دلانے کی یہ انسانی کوشش تھی اس لئے اس نے دوسری انتہا اختیار کر لی۔ عورت کو حق دینے کے نام پر اسے ہمدردی کے جذبے کے تحت اتنا زیادہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا کہ اس کا تقدس ہی ختم کر دیا۔ ہمدردی کے جذبے کی آڑ میں آزادی کے نام پر عورت کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے۔ یورپ کی عورت کو اس بات کا تجربہ نہیں کہ عورت کی اپنی شناخت اس وقت زیادہ ابھرتی ہے اور اس کو اپنے تحفظ کا احساس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب وہ عورتوں میں ہو اور عورتوں کی تنظیم کے ساتھ کام کر رہی ہو اور آزادی سے اس کی ہر حرکت ہو۔ قریباً دو سال پہلے ایک انگریز مہمان یہاں آئی تھیں۔ اچھی لکھنے والی ہیں۔ سارا دن انہوں نے عورتوں کے ساتھ گزارا اور شام کو کہنے لگیں کہ پہلے مجھے بڑا عجیب لگا تھا کہ صرف عورتوں میں ہوں لیکن سارا دن یہاں گزار کر مجھے احساس ہوا کہ مَیں زیادہ آزاد ہوں اور مجھے زیادہ تحفظ مل رہا ہے۔

          پس جب عورت کو اس کا تقدس قائم رکھتے ہوئے اس کے حقوق کا بتایا جائے تو چاہے مغرب میں پلی بڑھی غیر مسلم عورت ہو وہ اس بات کا اظہار کرے گی کہ اسلام عورت کے حقوق قائم کرتا ہے اور عورت کا علیحدہ بیٹھنا کوئی اس کی آزادی کو ختم نہیں کرتا۔ اس چینل فور(Channel 4) کی جو کل نمائندہ آئی تھی انہی خاتون نے جب اپنے ٹوِٹر(Twitter) پہ  نمائش کا یا کسی کا حوالہ دے کر ٹوِیٹ(Tweet) کیا کہ وہاں اس طرح ہو رہا ہے عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں تو اسی عورت نے پھر ان کا جواب بھی دیا اور یہ بھی مجھے خوشی ہے کہ بہت ساری احمدی لڑکیوں نے بھی اس کا جواب دیاکہ تم غلط کہتی ہو۔ تو بہرحال یہ تو انسانی قانون کے خلاف ایک ردّعمل ہے جو آجکل کی عورت آزادی کے نام پر مغرب اور ان ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں جس کا اظہار ہو رہا ہے اور عورت کو کیونکہ پتا ہے یا اس کو احساس ہے کہ ہمیں آزادی لینے کے لئے بھی مرد کی ضرورت ہے اور لاشعوری طور پر عورت کی فطری کمزوری ظاہر ہو رہی ہے اس لئے عورت نے اپنی آزادی کے لئے مرد کی مدد حاصل کی اورمرد نے عورت کی اس فطرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جب عورت کو آزادی دلانے کے لئے مددگار بننے کی کوشش کی تو ساتھ ہی اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے آزادی کے نام پر اسے ننگا کرنے کی بھی کوشش کی۔

           اسی لئے یہاں کی ایک انگریز عورت لکھنے والی ہیں انہوں نے ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ عورت کی آزادی کے نام پر جو حجاب اتارنے اور عورتوں کے لئے برائے نام لباس پہننے کی مہم میں مرد بہت کوشش کرتے ہیں اور اس معاملے میں بڑے ایکٹو(active) ہیں۔ یہ عورتوں کی آزادی سے زیادہ اپنی خواہش کی تسکین کے لئے یہ کر رہے ہیں تا کہ عورت کو ننگا دیکھیں۔ تو یہ یہاں کی جو عقلمند عورتیں ہیں خود ہی یہ کہتی ہیں۔

           ان نام نہاد ترقی یافتہ کہلانے والوں نے مذہب کے نام پر اور روایات کے نام پر عورت پر جو ظلم ہوا اس کا صرف ایک پہلو دیکھا ہے۔ عورت نے عیسائیت اور مذہب اور روایات کے نام پر اپنی غلامی کا ایک پہلو دیکھا ہے۔ یہ صرف تیسری دنیا کی بات نہیں ہے بلکہ ان ملکوں میں بھی آج سے چند دہائیاں پہلے یہی کچھ ہوتا تھا اور پھر اس کو ختم کرنے کے لئے، اپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے ہر حیلہ اور حربہ استعمال کیا گیا۔ اور پھر دوسرا المیہ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ مسلمانوں نے اپنی روایات جو مختلف قوموں کی تھیں، اسلامی مذہب کی نہیں قوموں کی روایات تھیں ان پر مذہب کا لبادہ پہنا کر عورت کو بالکل ہی بے وقعت بنا دیا۔ اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ لوگ مذہب کے نام پر ظلم کرتے ہوئے عورت کو نہایت حقیر، ذلیل چیز سمجھتے ہیں اور پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام تو عورت کے حقوق قائم کرتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد5 صفحہ417-418۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

           آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کہتے ہیں کہ ہم اس خوف سے کہ ہماری شکایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ہو جائے اپنی بیویوں سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے تھے۔ یہ حق تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائے۔ مسلمانوں میں بعد میں اپنی مختلف قوموں سے آنے والوں نے اپنی قومی روایات یا مردوں کے اپنے آپ کو زیادہ طاقتور سمجھنے کی وجہ سے یا کسی وجہ سے اچھے بھلے دینی علم رکھنے والے بھی بعض زیادتیاں کر جاتے تھے۔ ان لوگوں میں لاشعوری طور پر یہ احساس پیدا ہو گیا تھا چاہے اس کا اظہار نہ ہو کہ عورت کچھ لحاظ سے مرد سے کمتر ہے اور مرد کی اسی میں عزت ہے کہ عورت سے چاہے وہ اس کی بیوی ہو ایک فاصلہ رکھا جائے۔ بات چیت میں عورت کو اس کے سامنے بولنے کا حق نہ دیا جائے۔ باہر نکلیں تو سڑک پہ چلتے ہوئے مرد اور عورت فاصلہ دے کر چلیں۔

          ایک دفعہ ٹرین کے انتظار میں، گاڑی کے انتظار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سٹیشن پر حضرت امّاں جان کے ساتھ پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جو بڑے عالم تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول بھی اس وقت وہاں موجود تھے تو مولوی عبدالکریم صاحب نے اس اثر کے تحت جو ہندوستان میں علماء کے ذہنوں پر تھا یا بہرحال اپنی طبیعت کی وجہ سے حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب کو کہا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام حضرت امّاں جان کے ساتھ پلیٹ فارم پر ٹہل رہے ہیں۔ لوگ کیا کہیں گے۔ آپ جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو روکیں۔ حضرت خلیفہ اوّل نے کہا میں تو نہیں کہتا۔ آپ کو خیال آیا ہے تو آپ جا کر کہہ دیں۔ میرے نزدیک تو کوئی ایسی بری بات نہیں۔ چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ہوئے۔ ان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ اس طرح ٹہل رہے ہیں، لوگ کیا کہیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کیا کہیں گے۔ یہی کہیں گے کہ مرزا غلام احمد اپنی بیوی کے ساتھ پلیٹ فارم پر ٹہل رہا تھا۔ تو کہنے دیں کیا فرق پڑتا ہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب نہایت خاموشی سے منہ لٹکا کے واپس آ گئے۔ حضرت خلیفہ اول نے مسکرا کر انہیں کہا کیوں؟ جواب سن آئے؟ تسلی ہو گئی آپ کی؟ (ماخوذ از الفضل18 اکتوبر1952 صفحہ3 جلد40/6 نمبر235)

          تو باوجود اس کے کہ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والے تھے اور روشن دماغ ہو چکے تھے لیکن ان روایات کا اثر تھا۔ اتنا اثر تھا کہ پبلک جگہ پر میاں بیوی کا اکٹھا پھرنا بھی ان کے نزدیک معیوب تھا۔ پس ہم احمدی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی تعلیم کے مطابق مردوں عورتوں اور ہر ایک کے حقوق روشن کر کے، کھول کر بیان کر دئیے ہیں۔ پس اگر ہماری عورتیں کسی قسم کے احساس کمتری میں، کسی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہیں تو ان کو اس سے نکل جانا چاہئے۔ اس کے بجائے اب جبکہ میڈیا اسلام کے خلاف باتیں کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے انہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم بتائیں کہ تم اسلام پر اعتراض کرتے ہو۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ حقوق کے لحاظ سے مرد اور عورت کے حقوق برابر ہیں جبکہ تمہارے مذہب یا کسی بھی مذہب نے یہ حقوق نہیں دئیے۔ مغرب میں عورت ایک غلام کی حیثیت رکھتی تھی جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں۔ اگر اس کا خاوند اس پر ظلم کرتا تو تب بھی اس نے خاموش ہی رہنا تھا اور اس ظلم کو خاموشی سے سہتے چلے جانا تھا لیکن اسلام نے چودہ سو سال پہلے یہ اعلان کیا کہ اگر عورت مرد کے ظلم سے تنگ آ کر اس سے علیحدگی لینا چاہے تو لے سکتی ہے۔ بلکہ یہ بھی حق دے دیا کہ اگر کسی وجہ سے عورت کے دل میں مرد کے لئے ناپسندیدگی کے جذبات اس حد تک چلے گئے ہیں کہ شادی کے رشتے کو مزید قائم نہیں رکھنا چاہتی توعلیحدگی لے سکتی ہے۔ لیکن اس صورت میں پھر عورت کو اپنے تمام حقوق چھوڑنے پڑیں گے۔ ان حقوق سے دستبردارہونا پڑے گا اگر بلا وجہ علیحدگی لینی ہے، اگراپنے اس حق کو قائم کرنا ہے اوریہ یقینا بڑی جائز بات ہے۔

          پھر جیسا کہ میں نے کہا عورت کو یہ حق دیا کہ اس کی کمائی کی وہ مالک ہے اور مرد کے لئے اپنی کمائی ہے۔ لیکن ساتھ ہی مرد کو یہ بھی کہہ دیا کہ گھر کا خرچ چلانا اور بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری تمہاری ہے۔ بیوی کی دولت پر نظر نہ رکھو۔ پھر بعض بلکہ ایسی عورتیں اکثر ہیں جن کی اپنی کوئی آمد نہیں ہوتی۔ ایسی عورتیں خواہش رکھتی ہیں کہ دین کے لئے خرچ کریں، صدقہ و خیرات کریں۔ ایک ایسی ہی عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا خاوند مجھے صدقہ و خیرات سے منع کرتا ہے تو میں کیا کروں۔ کیا میں چُھپ کے صدقہ و خیرات کر سکتی ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں کر سکتی ہو بلکہ اس کی آمد میں سے اس سے چھپ کے اس کے پیسوں میں سے نکال کے بھی صدقہ دے سکتی ہو۔(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب النفقات باب اذا لم ینفق الرجل، فللمرأۃ أن تاخذ بغیر علمہ… حدیث5364) تو ان چیزوں میں عورت کو یہ حق دے دیا۔

           اگر میاں بیوی کی اولاد کی پیدائش کے بعد علیحدگی ہوتی ہے تو یہ حکم دیا کہ اولاد کے لئے پیار کے جذبات ماں اور باپ دونوں کے ہوتے ہیں اس لئے نہ باپ کو اولاد کی وجہ سے تکلیف دو، نہ ہی ماں کو اولاد کی وجہ سے تکلیف دو۔ پس یہ دنوں کے حقوق قائم کئے۔ اس لئے عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی جو بعض دفعہ ضد میں آ جاتے ہیںیہ خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے تکلیف دہ حالات میں بچوں کی وجہ سے نہ عورت بچوں کے باپ کو تکلیف دے، نہ مرد بچوں کی ماں کو تکلیف دے۔ پس وہ باپ جو بچوں پر قبضہ کر کے ماؤں کو ملنے نہیں دیتے اور وہ مائیں اپنی نفرت کی وجہ سے جو انہیں اپنے سابقہ خاوندوں سے بعض دفعہ ہو جاتی ہے اپنے بچوں کو ان کے باپوں سے ملنے نہیں دیتی ہیںوہ بھی غلط کرتی ہیں اور اس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہر نیکی کرنے کے بعد یہی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا تمہیں مقدم ہونی چاہئے۔

           اسی طرح ماں باپ کی وراثت میں بھی اورخاوندوں اوربچوں کی وراثت میں بھی اسلام عورت کو حق دیتا ہے۔ پس ہر قسم کے حقوق ہیں جو اسلام نے قائم کئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے عورت کو حقوق دئیے ہیں، انسانی فطرت کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ حقوق دئیے ہیں۔ عورت مرد کی ضرورت کو مدّنظر رکھتے ہوئے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے یہ حقوق دئیے ہیں۔ پس ہم ان حقوق کا انسان کے قائم کئے ہوئے حقوق سے کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔

           آج حقوق کے نام پر عورت کے لئے ایسی ایسی آزادیاں اور ایسے ایسے حقوق قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو صاف لگتا ہے کہ صرف دکھاوا ہے یا بدلے لئے جا رہے ہیںیا غصہ کے اظہار کئے جا رہے ہیں۔ ایک وقت آئے گا جب ان کو خود احساس ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کی جو فطرت رکھی ہے اس کے مطابق جہاں اشتراک ہے وہاں ایک جیسے حق قائم کئے۔ جہاں عورت کی کمزور فطرت کے مطابق اسے زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے اسے وہاں اسلام نے زیادہ تحفظ دیا۔ اور جو باتیں مردوں کے کرنے کی ہیں ان میں مردوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور جب ان اپنے زعم میں ترقی پسند لوگوں کو اپنے بنائے ہوئے قوانین آزادی میں کمزوریاں نظر آئیں گی، ایک وقت آئے گا جب نظر آئیں گی، تو پھر یہ اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے کسی بہتر حل کی تلاش میں ہوں گے اور اُس وقت صرف اسلام ہی بہتر حل پیش کر سکے گا۔

           پس کسی بھی قسم کے احساس کمتری میں ہمیں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ایک حق جو تھوڑا عرصہ ہوا برطانیہ کے سابق وزیراعظم نے عورتوں کو دیا کہ عورتیں باقاعدہ لڑنے والی فوج میں شامل ہو سکتی ہیں اس پر ابھی بعض پرانے تجربہ کار جرنیلوں نے تبصرے شروع کر دئیے ہیں اور بعد میں یہ جو نتائج سامنے آئیں گے تو اور مزید پتا لگے گا۔ یہ تبصرے کرتے ہیں کہ اس سے ہماری فوج کمزور ہو گی اور مرد فوجی بجائے لڑنے کے، جنگ میں اپنی عورت فوجیوں کو بچانے کی طرف توجہ رکھیں گے اور لڑائی کی طرف صحیح طرح concentrate نہیں کر سکیں گے اور یہ حقیقت ہے۔

           اسلام کہتا ہے کہ عورت کا اصل مقام اس کے گھر میں بچوں کی تربیت ہے اور جب مرد گھر سے باہر کام کر رہے ہوں حتی کہ دین کو ختم کرنے والوں کے خلاف جہاد کر رہے ہوں تو ان کو جو ثواب ملے گا اتنا ہی عورتوں کو اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنے اور انہیں ملک و قوم کا فائدہ مند وجود بنانے پر ملے گا۔ پس اسلام نے اگر ایک کام سے عورت کو منع کیا ہے تو اس کے نہ کرنے کی وجہ سے اس پر جو اجر ملنا ہے اس سے اسے محروم نہیں کیا بلکہ اتنا ہی اجر دوسرے کام کا اسے دے دیا جو مرد نہیں کر سکتے۔

           اسلام عورت کو کمتر یا کمزور نہیں سمجھتا۔ بچوں کی پیدائش کے دوران اور اس کی پرورش کے لئے جو تکلیفیں عورت اٹھاتی ہے اس کا نہ مرد تصور کر سکتا ہے نہ اسے برداشت کر سکتا ہے۔نہ یہ کام کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کے اعصاب جتنے مضبوط ہیں مرد اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ عورت کے کام کی اس اہمیت کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پوچھنے والے کو، ایک سوال کرنے والے کو تین مرتبہ یہ فرمایا کہ تیری ماں تیرے حسن سلوک کی سب سے زیادہ حق دار ہے اور چوتھی مرتبہ فرمایا پھر تیرا باپ۔

(صحیح البخاری کتاب الادب باب من احق الناس… حدیث5971)

          بہترین فعال اور کارآمد شہری بنانے اور اس کی اچھی اور نیک تربیت کرنے کی وجہ سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔

(سنن النسائی کتاب الجہاد باب الرخصۃ فی التخلف لمن لہ والدۃ حدیث3104)

           پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہم دنیا کو یہ بتائیں اور اسی طرح اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ ڈال دیں کہ عورت کے حقوق کی اسلام حفاظت کرتا ہے اور اسے ایک مقام دیتا ہے تو ہم ایک وقت میں دنیا کو باور کرانے والے ہو جائیں گے، ثابت کرنے والے ہو جائیں گے کہ اسلام ہی عورت کے حقیقی حقوق قائم کرتا ہے۔ اور اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ ڈالنے والے ہوں گے۔ اگر لڑکے ہیں تو انہیں بتانا ہے کہ شریعت نے تم پر عورت کے حقوق کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ ہر ماں اپنے لڑکے کی، اپنے بچے کی اس طرح تربیت کرے تو بہت سارے مسائل گھروں کے بھی حل ہو جائیں گے کہ عورت کے حقوق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے، شریعت میں تم پر ڈالی ہے اور اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنا گناہ ہے تو آئندہ آنے والے احمدی مسلمان مرد مسلمان عورت کے بلکہ ہر عورت کے حقوق کے علمبردار بن جائیںگے اور بجائے دنیا داری یا دنیا داروں کی بات کو اہمیت دینے کے اور اس بات کو اہمیت دے کر عورت کے حقوق کے لئے دنیاداروں کی طرح لڑنے کے اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ حقوق قائم کروانے کی کوشش کریں گے۔ پس اگر مائیں اپنے گھروں سے یہ تربیت شروع کریں گی تو وہیں لڑکے ان حقوق کے لئے لڑنے والے ہوں گے بجائے اس کے کہ دنیاوی تنظیموں کے پاس جائیں اور ہماری لڑکیاں اپنے حقوق کے لئے دنیاوی تنظیموں کے پاس جانے کی بجائے اسلام کے دئیے ہوئے حقوق کی پاسدار بن جائیں گی اگر لڑکیوں کی تربیت کی جائے کہ اسلام تمہیں کیا حقوق دیتا ہے اور پھر یہ بات آئندہ نسلوں میں بھی اگر ڈالتے چلے جائیں تو عورتوں کے حقوق کا ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہو جائے گا۔

           پس آج احمدی عورتیں اور احمدی لڑکیاں اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس ذمہ داری کو اٹھا لیں تو آئندہ آنے والی نسلیں چاہے وہ کسی قوم سے تعلق رکھتی ہوں ان کے حقوق کی علمبردار آپ ہو جائیں گی۔ دنیا آپ کی طرف دیکھ کر حقوق قائم کرنے کے لئے رہنمائی لے گی۔ آپ وہ ہوں گی جو ہر قوم کی عورت کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروانے والی ہوں گی اور انہیں آزاد کروا کر ان کے حقوق ادا کرنے والی ہوں گی۔ اور مَیں مردوں سے بھی کہتا ہوں کہ اس عظیم مہم میں عورتوں کے مددگار بنیں۔

           آج مذہب کے خلاف قوتیں انسانی حقوق کے نام پر دنیا کو مذہب سے دور لے جا رہی ہیں اور یہ ہمارے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے حقوق کے قیام کے نام پر ہی دنیا کو مذہب کے قریب لانا ہے۔ دنیا یہ کہتی ہے کہ مذہب حق نہیں دیتا۔ ہم نے بتانا ہے کہ مذہب حق دیتا ہے اور انہی حقوق کی وجہ سے ہم تمہیں مذہب کے قریب لاتے ہیں اور ہم نے لانا ہے جس کے لئے ہماری عورتوں کو بڑا کردار ادا کرنا ہو گا اور ہمیں ان کے مددگار بننا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر عورت بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے والی ہو اور صحیح اسلامی تعلیم پر خود بھی عمل کرنے والی ہو اور اپنی نسلوں کو بھی عمل کروانے والی ہو اوراسے اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہو تا کہ دنیا اسلام کی تعلیم کا اور عورت کے حقیقی حقوق کا اصل چہرہ دیکھ سکے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی عورت کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں