Translation of The Address by Hadhrat Khalifatul Masih V in Holland in 2012
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
معزز مہمانان کرام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ سب پر اللہ تعا لیٰ کا فضل ہو اور سلامتی نازل ہو۔
آج یہاں کی احمدیہ مسلم کمیونٹی کے نیشنل صدر نے مجھ سے درخواست کی کہ میں آپ سے جو ہمارے دوست ہیں مخاطب ہوں۔ اصل میں یہ پہلا موقع ہے کہ میں ہالینڈ میں ایسے احباب سے براہِ راست مخاطب ہوں جو کہ ہماری کمیونٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب یہاں پر یہ امید لے کر آئے ہونگے کہ میں آپ کے سامنے اسلام کی اصل تعلیمات پیش کروں، اور میری تقریر بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہو گی۔ تاہم اصل مضمون کی طرف آنے سے قبل میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہماری دعوت قبول کرتے ہوئے اس تقریب میں شامل ہوئے ہیں۔ اس شکریہ کا اس لحاظ سے بھی جواز ہے کہ آپ لوگ مختلف مذاہب سے تعلق ہونے یا مختلف عقائد رکھنے کے باوجود اس تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔ میرے آپکا شکر گزار ہونے کی ایک اور خاص وجہ یہ بھی ہے کہ چند سالوں سے ہالینڈ میں ایک خاص گروہ اسلام کی ایک بھیانک ترین شکل پیش کر رہا ہے اور آپ لوگوں نے ایک ایسی تقریب میں شامل ہونے کی حامی بھری ہے کہ جس کا انعقاد ایک مسلمان گروہ نے کیا ہے اور اسلئے آئے ہیں کہ آپ مسلمانوں کا بھی موقف سنیں، اور یہ بات درحقیقت اس چیزکی نشاندہی کرتی ہے اور ثابت کر تی ہے کہ آپ لوگ برداشت کے اعلیٰ معیار رکھتے ہیںاور کھلے دل و دماغ کے مالک ہیں۔آپ لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ آپ لوگ واقعی منصفانہ اور کھری سوچ رکھتے ہیں جس کے تحت آپ نے بدنیتی پر مبنی افواہوں اور پروپیگنڈا پر انحصار کرنے کی بجائے آپ نے ارادہ کیا ہے کہ آپ لوگ خود آکر دیکھیں اور حقیقت کی جانچ کریں۔ میں اس کے لئے آپ کا معترف ہوں کیونکہ بعینہٖ یہ ایسی اقدار ہیں جو انصاف کو قائم کرتی ہیں اورجو امن، حفاظت اور مفاہمت کی بنیاد رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضور ﷺ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وہ اندھا دھن افواہوں اور سُنی سُنائی باتوں پر یقین نہ کریں بلکہ کسی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے سُنی ہوئی بات کی مکمل تصدیق کرنی چاہئے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا اور ہر سُنی سنائی بات پربغیر تحقیق کے یقین کرے تو اس سے غلط فہمیاں اور شکایات پیدا ہو سکتی ہیں اور پھریہ غلط فہمیاں، بدامنی اور جھگڑوں پر منتج ہو سکتی ہیں۔اس لئے یہ جو بظاہر چھوٹی اور معمولی سی بات ہے حقیقت میں یہ معاشرہ کا امن برباد کرسکتی ہے۔ اس تمام پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے میں انتہائی خوش ہوں کہ آپ آج یہاں تشریف لائے ہیں اور آپ کا یہاں آنا آپ کے اعلیٰ اخلاقی معیار کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلئے میرا یہ اولین فرض ہے کہ ایسا مثبت ردعمل ظاہر کرنے پر میں اپنے دلی جذباتِ تشکر آپ کو پیش کروں۔ اور ان مختصر الفاظ کے بعد میں مختصر طور پر آپ کے سامنے اسلام کی سچی تعلیمات بیان کرتا ہوں۔ ہر سچے مسلمان کے لئے بانیِ اسلام حضرت محمدﷺ رہبر اور رہنما ہیں۔ آنحضور ﷺ نے اپنی زندگی میںتمام اخلاقی تعلیمات ایسی باریکی اور گہرائی سے بیان کیں کہ زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا پہلو بھی ان سے باہر نہیں رہا۔ بظاہر یہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو کہ حقیقت میں ایک ہم آہنگ معاشرہ کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر آنحضور ﷺ نے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ ہمیشہ اچھا سلوک کرنے والے کا شکریہ ادا کریں اور ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے بھائی کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرتا اور جو خدا کا شکر ادا نہیں کرتا وہ پورے طور پر اللہ تعالیٰ کا فضل بھی جذب نہیں کر سکتا۔ اگر ایک مسلمان محض خداتعالیٰ کے فضلوں کو پانے کی نیت اور امید سے نیکی کی راہ اختیار کرتا ہے تو اسکا ہر عمل درحقیقت اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کے احکامات کے عین مطابق ہونا چاہئے۔ اسلام تمام مسلمانوں سے دو ہی اصولوں کی پاسداری چاہتا ہے۔ پہلا یہ کہ خداتعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کیا جائے اور دوسرا یہ کہ خداتعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کئے جائیں۔ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔ یہ دونوں مقاصد صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں کہ جب ایک شخص کا دل پاکیزگی، نیک نیتی اور اچھے کام کرنے کی خواہش کی آماجگاہ ہو۔ خداتعالیٰ اپنی مخلوق سے بے انتہا پیار کرتا ہے اور اس پیار کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ ایک دوسرے سے باہمی محبت، الفت اور عزت سے پیش آئیں تا کہ وہ خدا تعالیٰ کے انعامات اور فضائل حاصل کر سکیں۔ اپنی مخلوق کے لئے خدا تعالیٰ کی اس محبت کی سب سے اعلیٰ مثال وہ کامل اور بے مثل رہنمائی ہے جو قرآنِ کریم کی صورت میںاس نے تمام بنی نوع انسا ن کے لئے نازل فرمائی۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا ذکر کیا ہے جو ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ بھی حکم صادر فرمایا ہے کہ وہ ہر حال میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ یہاں میں ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ نہ ہی قرآنِ کریم نے اور نہ ہی آنحضورﷺ نے کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہیں صرف مسلمانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے بلکہ آنحضور ﷺ کی رحمت تمام انسانوں تک بغیر کسی تفریق مذہب و عقیدہ کے وسیع ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ آنحضور ﷺ صرف انسانوں کے لئے ہی رحمت بنا کر نہیں بھیجے گئے بلکہ تمام جانوروں اور جاندار چیزوں کیلئے بھی رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ اگر ایک شخص کو خاص طور پر بھیجا ہی اسلئے گیا ہو کہ وہ محبت و الفت کا منبع ہو اور تمام دنیا سے درگذر کا سلوک کرے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کبھی اسکی تعلیمات کسی فردِ بشر کے لئے نقصان یا تکلیف کا باعث ثابت ہو جائے۔ اور اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ اس شخص کے اعمال اور افعال کسی بھی صورت میں کسی کے حقوق پامال کرنے والے یا کسی بھی طور نقصان کرنے والے ہوں۔ اسکے برعکس لازم ہے کہ ایسا شخص جو یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ دوسروں سے شفقت اور رحمت کاسلوک کرے وہ لوگوں کو فائدے پہنچانے کے لئے خود سخت تکلیف اور غم برداشت کرے۔ بعینہٖ ایسا ہی ہم آنحضورﷺ کی سیرت اور حیاتِ طیبہ کو پاتے ہیں۔ اور اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ آنحضور ﷺ کا ہر عمل صرف اور صرف ان تعلیمات پر مبنی تھا جو کہ خداتعالیٰ کی طرف آنحضور ﷺ کو وحی کی گئیں۔ یہاں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ غیر مسلم اسلام کو سچا یقین کریں یا نہ کریں، یقینا ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نبوت کا سلسلہ جو خداتعالیٰ نے جاری کیا تھا آنحضور ﷺ کی ذات میں اپنے تمام نقطہء کمال تک پہنچ گیا۔ ہم آنحضورﷺ کو آخری شریعی نبی مانتے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ تعلیم جو آنحضورﷺ کو قرآنِ کریم کی صورت میں وحی کی گئی ،آخری اور کامل تعلیم ہے۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہدایت جو قرآنِ کریم بیان کرتا ہے وہ عالمگیر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اگر ہم خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے گذشتہ انبیاء کی تاریخ پر ایک سرسری سی نظر دوڑائیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ لوگ اور قومیں جنہوں نے انبیاء کا انکار کیا بالآخر ہمیشہ وہی خداتعالیٰ کی سزا کے مورد ٹھہرے اور یہ بھی کہ وہ ایسی سزائیں مختلف طریق سے واردکی گئیں۔بعض طاقتیں اور قومیں اسی زندگی میں تباہ کی گئیںاور بعض ہمارے عقیدہ کے مطابق آخرت میں خداتعالیٰ کے عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ اسی طرح جب اسلام کی تعلیم آنحضورﷺ پر وحی کی گئی، تو آنحضورﷺ کویہ بھی یقین تھا کہ وہ وہ لوگ بھی جنہوں نے نہ صرف اس تعلیم کا انکار کیا بلکہ آنحضورﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی مخالفت اور ان پر مظالم ڈھانے میں ہر حد پھلانگ گئے، چاہے اسی دنیا میں یا آخرت میں خدا کے غضب کے وارث ٹھہریں گے۔
جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں کہ آنحضورﷺ تمام بنی نوع انسا ن کے لئے رحمت تھے، اور اسکا مطلب ہے کہ آنحضور ﷺمسلسل پریشان اور بیتاب رہتے کہ بنی نوع عذابِ الٰہی سے بچ جائے اس لئے سارا دن اسلام کی راہ میں انتھک محنت کر نے کے بعد عملی طور پر آنحضور ﷺ بلاناغہ رات بھر خدا تعالیٰ کے حضور جھکے رہتے اور التجائیں کرتے رہتے کہ لوگ خداتعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں۔ آنحضور ﷺ کی اس بے چینی کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کوبراہِ راست وحی میں مخاطب کیا جیسا کہ قرآنِ کریم بیان کرتا ہے کہ؛
’’کیا تو اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔‘‘ (الشعراء آیت 4)
یہ آیت بڑی خوبصورتی سے انسانیت کے لئے اُس بے مثال محبت اور رحم کا اظہار کرتی ہے جو آنحضورﷺ کے دل میںجاگزیں تھی۔ یہی محبت تھی کہ آنحضور ﷺ چاہتے تھے کہ لوگ اپنے خالق کو پہچان سکیں اور یہ کہ لوگ ہر قسم کی بت پرستی اور شرک کے عقائد کو چھوڑ دیں۔ آنحضورﷺ کی شدید خواہش تھی کہ انسان یہ یقینِ محکم رکھتا ہو کہ تمام قوتوں کا سرچشمہ خدا ئے واحد ہے۔ آنحضور ﷺ کی یہ خواہش اس لئے تھی کہ وہ جانتے تھے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں کریں گے وہ خداتعالیٰ کے غضب کے وارث ٹھہریں گے۔ اسطرح جب اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کی یہ غم زدہ حالت دیکھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کی تاکید کی کہ وہ ایسا نہ کریں کہ اس غم میں فنا ہی ہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیںصرف پیغام پہنچانے، نصیحت کرنے اور لوگوں کی خدا کی طرف رہنمائی کرنے کا کام سونپا ہے۔ آنحضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی تاکید کی گئی کہ ہدایت دینے والی صرف خداتعالیٰ کی ذات ہے، وہ جسے چاہتا ہے سچائی کی طرف ہدایت دیتا ہے لہٰذااسلام قبول کرنے کا آخری مرحلہ محض خداتعالیٰ کے فضل سے ہی عبور کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی سورۃ بقرہ آیت 257میں دوٹوک الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ ،
’’دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘
اسلئے اسلام کے مطابق تمام لوگوں کو کسی بھی مذہب کے اختیارکرنے یا نہ کرنے کا پورا حق ہے کیونکہ یہ خدا اور انسان کے آپس کا معاملہ ہے۔ اسلام نہ تو دینی معاملات میں جبر کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی اسلام جبر کے ذریعے پھیلا ہے، جیسا کہ اکثراسے غلط الزام دیا جاتا ہے۔ اسلام بڑے دو ٹوک الفاظ میں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی کو بھی کوئی مذہب اختیار کرنے کے لئے مجبور نہیںکیا جا سکتا۔ اگر کسی شخص کو کوئی مذہب اختیار کرنے کے لئے طاقت استعمال کرتے ہوئے مجبور کیا گیا ہو اور دل میں اس کے سچا ہونے کایقین نہ ہو، تو جب بھی کوئی موقع میسر آئے گا تو ایسا شخص فوراً اس مذہب کو چھوڑ دے گا۔ یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ دلوں اورذہنوں کو طاقت ے ذریعے کبھی بھی فتح نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر ہم ابتدائی مسلمانوں کے مثال لیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنے ایمان اور اسلام کی خاطر عظیم قربانیاں دیں۔ ابتدائی مسلمانوں کی اکثریت یا تو بہت غریب لوگ تھے یا پھر غلام تھے اور اسلام قبول کرنے کے باعث انہیں ہولناک ظلم وستم برداشت کرنا پڑے لیکن وہ کبھی بھی کفر کی طرف نہ لوٹے اورنہ کبھی ایمان چھوڑا۔ اگر ہم مزید ابتدائی اسلام کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ مکہ میں مشکلات اور مظالم کے ایک طویل عرصہ کے بعد وہ مدینہ ہجرت پر مجبور کر دیے گئے۔ اگرمذہبِ اسلام ان کے دلوں میں رچ بس نہ گیا ہوتا اوراگر اسکی صداقت پر انکا ایمان پختہ نہ ہوتا تو مسلمانوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ ایسی مشکلات اور مصائب کو براداشت کرتے اور اسکی خاطر اپنے وطن کو خیرباد کہہ دیتے۔
ہجرت کے بعد مسلمانوں کی حالت، جنہیں مکہ میں سنگین مخالفت کا نشانہ بنایا گیا تھا، نمایاں طور پر بہتر ہو گئی اور ان کی تعداد بھی بڑھنا شروع ہو گئی۔ ہجرت کے بعد کے اس دور کے متعلق اسلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ چونکہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کی حالت بہتر ہو گئی اس لئے مسلمانوں نے کافروں کے خلاف جنگ وجدل کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس الزام کی کوئی بھی بنیاد نہیں ہے۔ اس میں ذرہ بھر بھی صداقت نہیں اور یہ صرف مخالفینِ اسلام کے جھوٹے پروپیگنڈا کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں کے مدینہ ہجرت کے بعد جو سب سے پہلی جنگ ہوئی وہ غروئہ بدر تھی۔ تمام تاریخی واقعات اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اس وقت جو مسلمانوں کو میسر تھا وہ غیر مسلموں کی فوجی صلاحیت کے مقابل پر کچھ بھی نہ تھا۔ مسلمانوں کی فوج کفار کی فوج کے ایک تہائی سے بھی کم تھی۔ اس کے علاوہ کفار کو ہتھیار اورجنگی سازو سامان وافر تعداد میں میسر تھاجبکہ مسلمانوں کے پاس اپنے دفاع کے لئے صرف چند تلواریں اور تیر تھے۔ یہ الزام بھی سراسر غلط ہے کہ اس جنگ کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ جنگ مسلط کی گئی تھی۔ وہ کفار جنہوں نے مسلمانوں کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا تھا، انہوں نے مدینہ میں بھی انکو امن سے جینے نہ دیااور اس مخالفت میں وہ مسلمانوں کی دہلیز تک آپہنچے اور شدید حملہ کیا۔ مسلمانوں کے دل اس قدر پختہ ایمان اور یقین سے پُر تھے کہ انہوں نے انتہائی بے خوفی اور بے مثال بہادری سے اپنا دفاع کیا۔ یہ بہادری اور ایمانی حالت ظاہر کرتی ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ان کا ایمان درحقیقت سچاتھا۔ وسائل اور افرادی قوت میں ایک بڑے خلاء کے باوجود مسلمانوں نے ایک بڑی فتح پائی اور یہ فتح ایک عظیم الشان نشان تھا کہ خداتعالیٰ کی نصرت انکے ساتھ تھی۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ یہ جنگ ایک دفاعی جنگ تھی اوریہ جنگ خداتعالیٰ کی طرف سے جوابی حملہ کی اجازت کے بعدہی ہوئی۔ اور وہ وجہ جس کے باعث یہ اجازت دی گئی قرآنِ کریم میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ؛
’’اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جارہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے۔ اور یقینا اللہ انکی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (یعنی) وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقینا اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔‘‘ الحج آیت40، 41)
ان آیات کو سن کر آپ اس بات کو محسوس کریں گے کہ قرآنِ کریم میں دفاعی جنگوں کی اجازت صرف مسلمانوں کی حفاظت کے لئے نہیں دی گئی بلکہ حقیقت میں اس اجازت کے تحت مسلمانوںکو یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ تمام دیگر مذاہب کے معابد کی حفاظت کریں ۔ یقینا آنحضورﷺ کے اور آپﷺ کے خلفائے راشدہ کے زمانہ میں جب تک اسلام اپنی اصل شکل میں قائم رہا کبھی بھی مسلمانوں نے کسی جنگ کا آغاز نہ کیا۔ اور جہاںبھی وہ جنگ پر مجبور کئے گئے وہاں انہیں آنحضورﷺ کی جانب سے جنگی قوانین کے متعلق سخت ہدایا ت دی گئیں۔ مثلاً آنحضورﷺ نے یہ حکم دیا کہ جنگ کے دوران کوئی بھی گرجہ یا کسی بھی مذہب کی عبادتگاہ تباہ نہیں کی جائے گی۔یہ ہدایت کی گئی کہ کسی بھی پادری یا کوئی اور مذہبی شخصیت کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ ہدایت دی گئی کہ کوئی عورت، بچہ یا بوڑھا تکلیف نہ دیا جائے۔ یہ ہدایت دی گئی کہ کوئی بھی مسلمان کسی ایسے فرد پر حملہ نہیں کریگا جو کہ پہلے حملہ نہیںکرتا یا جو پہلے تلوار نہیں اٹھاتا اور یہ ہدایات صرف انسانوں کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تھیں، جیسا کہ ہدایت تھی کہ جنگ میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کوئی فصل تباہ کی جائے۔ اور یہ تمام ہدایات قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم کے مطابق ہیں۔ یہ حقیقی اسلام تھا اور یہی حقیقی اسلام ہے۔
آجکل ہم اس تعلیم کی واضح خلاف ورزی دیکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اندھا دھند فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گنجان آباد شہر اور قصبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور معصوم سولین افراد ہلاک ہو رہے ہیں اور انکے گھر تباہ ہو رہے ہیں۔ اس خلاف ورزیوں نے ماحول کو بھی نہیں چھوڑا اور ہم دیکھتے ہیں کہ درخت اور فصلیں تباہ کی جارہی ہیں۔ یہ جو میں نے سب بیان کیا ہے اسکے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام ایسا مذہب ہے جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے؟ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مکہ کے ابتدائی مسلمانوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ میں صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ جو کہ ایک لوہار کے متعلق ہے جو کہ مخالفینِ اسلام میں سے تھا۔ یہ جان کر کہ اسکا غلام مسلمان ہو گیا ہے۔ اس لوہار نے اس غلام کو انتہائی ہولناک اذیت پہنچائی۔ وہ لوہار اپنے غلام کو بارہا دہکتے کوئلوں پر ڈالتا اور یہ صرف اس وجہ سے کہ وہ غلام یہ کہتا تھاکہ اللہ ایک ہے اور محمدﷺ اسکے رسول ہیں۔ اس غلام کو زبردستی کوئلوں پر اتنے لمبے دورانیہ تک رکھا جاتا کہ کوئلے بھی اسکی جلد کے پگھلنے سے بجھ جاتے۔ اس قسم کی سنگین اور بربریت کے باوجود بھی جب فتح مکہ ہوئی تو آنحضورﷺ نے رحمت کی بے مثال تاریخ رقم کرتے ہوئے ان سب کو معاف فرما دیا جنہوںنے بہت سالوں تک مسلمانوں کو بُری طرح اذیت دیے رکھا۔ یہ معافی غیر مشروط طور پر دی گئی قطع نظر اسکے کہ کوئی اسلام قبول کرے یا نہ کرے۔ وہ واحد شرط جو آنحضورﷺ نے رکھی وہ یہ تھی کہ یہ لوگ آئندہ مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کریں گے۔ رحمت اور شفقت کی یہ لاجواب مثال اس قدر حیرت انگیز تھی کہ اس نے باقی ماندہ دشمنانِ اسلام کے دل جیت لئے ۔ یہ آنحضورﷺ حضرت محمد ﷺ اور اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیمات ہیں۔ افسوس کے ساتھ میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ آجکل بعض مسلمان گروہ اس طور اسلام کی تصویر پیش کر رہے ہیں جو کہ ان تعلیمات سے سراسرمختلف ہے اور اسی طرح بعض مسلمان ممالک بھی اپنی پالیسیز اور اعمال میں ان اصل تعلیمات کی پاسداری نہیں کر رہیں۔ لیکن اس کا الزام آنحضورﷺ یا قرآنِ کریم پر نہیں دیا جا سکتا۔
ہم احمدی مسلمان ان حقیقی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں جو آنحضورﷺ اپنے ساتھ لائے تھے۔ آنحضورﷺ نے خود یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مستقبل میں روحانی طورپر ایک سیاہ دور آئے گاجب مسلمانوں کی اکثریت اسلام کی اصل تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہوگی۔ مزید آنحضورﷺ نے یہ بھی پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس دور میں اللہ تعالیٰ مسیحِ موعود علیہ السلام اور مہدی معہود علیہ السلام کو ظاہر فرمائے گا۔ اسے دنیامیں دوبارہ سے اسلام کی اصل تعلیمات زندہ کرنے کی غرض سے بھیجا جائے گا۔ آنحضور ﷺ نے مزید یہ بھی تاکید فرمائی تھی کہ جب وہ شخص آجائے تو تمام مسلمان اسکو تسلیم کریں۔ ہم احمدی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جس مسیحِ موعود و مہدی معہودکے بارے میں آنحضور ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی وہ دراصل بانیِ جماعت احمدیہ کی ذاتِ اقدس ہی ہے جن کا نام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔اپنی زندگی میں انہوں نے اسلام کی حقیقی اور اصل تعلیم پر عمل کیا اور یہ انہی کی ہدایت کا نتیجہ ہے کہ ہماری جماعت یعنی احمدیہ مسلم جماعت دنیا بھر میں محبت ، رحمت اور امن کا پیغام پھیلا رہی ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود وہ مقاصد بیان فرمائے ہیں کہ جن کے حصول کے لئے انہیں بھیجا گیا تھا، آپ فرماتے ہیں کہ ان کے بھیجے جانے کا بنیادی مقصد بنی نو انسان کو خدا کے قریب لانا ہے اور انسانوں کی توجہ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف ڈلانا ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مقصد کے لئے بھی بھیجا گیا کہ وہ تمام مذہبی جنگوں کا خاتمہ کریں اور اسلام کی سچی تعلیمات یعنی محبت ، الفت، امن اور سچی انسانی اقدار کا قیام کریںگے۔ اسلئے ہم احمدی تمام دنیا میں خاص ان تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں۔ جب کوئی مخالفِ اسلام ہماری مقدس کتاب قرآنِ کریم یا ہمارے مقدس نبی حضرت محمد ﷺ کو ہنسی اور تمسخر کا نشانہ بناتا ہے یا ان پر غلط اور بے بنیاد الزامات لگاتا ہے، تو یہ طبعی طور پر ہمارے طبائع پر اثر کرتا ہے ،ہمارے جذبات کوبری طرح مجروح کرتا ہے اورہمیں تکلیف دیتا ہے۔ مزید برآں متفرق فرقوں سے دیگر اور بہت سے مسلمان بھی ہیں جنہیں ان پریشان کُن اقدامات کی وجہ سے شدید ٹھیس پہنچتی ہے۔ جماعتِ احمدیہ کے نقطہ نظر سے میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم کبھی بھی غلط یا نامناسب رویہ اختیار نہیں کرتے اور کبھی بھی بدلہ لینے کا خیال دل میں نہیں لاتے۔ ہم کبھی بھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتے۔ اسکی بجائے ہم اسلام کی سچی اور خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کوشاں رہتے ہیں اور اسطرح سے ہم اپنے مذہب کے بارے میں اٹھنے والے تمام شکوک و شبہات دور کرتے ہیں۔ دکھ کی بات ہے کہ بعض اسلامی گروہ اوربعض انفرادی حیثیت میں مسلمان بالکل غلط طریق پر اپنے اشتعال کو ظاہر کرتے ہیں، جوابی کاروائی کرتے ہیں اور بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اسطرح معاشرہ میں بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔ میں آج اس تقریب کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں ہمیشہ ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا احترام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور میں آپ سب سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ آپ ہماری ان کوششوں میں ہماری مدد کریںتا کہ ہم اس اہم مقصد کو حاصل کر سکیں۔ ہمیں لازمی طور پر معاشرہ میں امن اور مفاہمت کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اسکا متبادل یہ ہو گا کہ نفرت اور تنازعوں کی یہ سلگتی آگ بھڑکتی رہے گی اور بالآخر تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اور یہی میری دعا اور خواہش ہے کہ آپ سب پورے معاشرہ میں محبت، الفت، مفاہمت اور بھائی چارہ قائم کرنے کے لئے ہماری مدد کریں۔میں آپ لوگوںسے درخواست کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے حلقہ اثر میں ایک دوسرے کی عزت و تکریم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کریں کہ یہی وہ واحد راہ ہے جس کے ذریعے سے ہم دنیا کو آنے والی تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیاکی غالب اکثریت میں بدامنی اور مایوسی بہت حد تک رجحان پا چکی ہے۔ اگر اس کو جاری رہنے دیا گیاتو یہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اور ایسی جنگ کا حتمی نتیجہ ایک بھاری تباہی ہے۔ ایسی تباہی کہ ہم نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی۔ اللہ دنیا کی حالت پر رحم کرے۔ اور کاش کہ تمام بنی نوع انسان خداتعالیٰ کے حقوق ادا کرنے اورآپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی ضروت کو سمجھے۔ کیونکہ یہ وہ واحد راستہ ہے کہ جس کے ذریعے سے دنیا اس عظیم الشان تباہی سے بچ سکتی ہے۔
آخر پر میں ایک مرتبہ پھر تمام مہمانانِ کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمت کی اور اپنے اوقات میں سے وقت نکال کر ہمارے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین صلہ دے۔ بہت شکریہ۔
