آنحضرت ﷺ کی سیرت کا ایک پہلو- شکر گزاری و قدردانی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12 اکتوبر 2009ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کے قلم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ایک پہلو یعنی شکرگزاری اور قدردانی پر ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو جہاں کہیں بھی ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کر۔ اگر تجھ سے کوئی برائی ہو جائے تو اس کے معاً بعد کوئی نیکی کر، وہ بدی کے اثر کو مٹا دے گی اور لوگوںکے ساتھ حسن خلق کے ساتھ پیش آ۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا اور اس دن تم سے میری مجلس میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا جو تم میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا مالک ہو گا۔
رسول اکرمؐ کے حسن خلق کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپؐ بہت قدردان تھے اور طبیعت میں بہت زیادہ شکر کا جذبہ تھا۔ خدا کے لئے بھی اور خدا کے بندوں کے لئے بھی۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ رسول اکرمؐ جب آپؐ کو قرب الٰہی حاصل ہے تو پھر آپؐ اس طرح عبادت کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا کہ کیا میں خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں!
چھوٹی چھوٹی بات کی بھی قدر کرتے تھے۔ ممنونیت محسوس کرتے تھے اور اس کا اظہار فرماتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے ایک دفعہ رسول اللہؐ کے لئے وضو کا پانی رکھا تو شکر گزاری کا اظہار اس دعا کے ساتھ کیا کہ اے خدا اس کو دین کی سمجھ عطا کر اور اسے تفسیر قرآن کا علم بخش۔
ابو زید عمرو بن احطب ؓسے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہؐ نے پینے کو پانی مانگا۔ اس پر میں رسول اللہ ؐ کے لئے ایک برتن میں پانی لایا۔ پیش کرنے لگا تو نظر پڑی کہ اس میں ایک بال ہے۔ میں نے جھٹ سے بال نکال دیا اور صاف پانی رسول اللہؐ کو پیش کیا۔ رسول اللہؐ نے (محبت سے) میری طرف دیکھا اور میرے لئے دعا کی کہ اے اللہ اس کو خوبصورت بنا دے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہؐ نے آپ کے چہرے پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور آپ کو حسن و جمال کی دعا دی۔
رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔
اظہارممنونیت ، قدردانی اور شکر گزاری میں غیروں اور اپنوں میں کوئی تمیز نہیں تھی۔ مطعم بن عدی وہ شخص تھا جس نے رسول اللہؐ کی طائف سے واپسی پر رسول اللہؐ کوپناہ دی تھی اور اپنی پناہ میں مکہ میں رسول اللہؐ کو واپس لایا تھا۔ رسول اللہ ؐنے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارہ میں فرمایا ’’اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے وہ ان گندے لوگوں کے بارہ میں سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر سے ان کو چھوڑ دیتا۔‘‘
عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ہم (صحابہ ؓ) ایک سفر میں رسول اکرم ؐ کے ساتھ تھے (تبوک سے واپسی کا سفر تھا) رسول اکرم ؐ نے مجھے اس ٹولی میں شامل کیا تھا جو اصل قافلہ سے آگے چل رہی تھی اور ہم سب ہی بہت زیادہ پیاسے تھے۔ ہم سفر کر رہے تھے کہ ہمیں ایک عورت ملی جو (اونٹ پر سوار) پانی کے دو مشکیزوں پر پیر لٹکائے بیٹھی تھی ۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے۔ کہنے لگی یہاں تو کہیںپانی نہیں ہے۔ اس پر ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے ڈیرے سے پانی کتنے فاصلہ پر ہے کہنے لگی اتنے فاصلہ پر پانی ہے کہ ایک پورا دن اور پوری رات چل کر وہاں تک پہنچا جا سکتا ہے (یعنی تقریباً 60میل) اس پر ہم نے اس سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ رسول اللہؐ کے پاس چلو۔ اس نے جواب دیا کہ کیسا رسول۔ میں تو کسی رسول کو نہیں جانتی۔ عمران کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی لیکن ہم نے اس کو اپنی مرضی نہ کرنے دی۔ اس کو مجبور کرکے رسول اللہؐ کے پاس لے چلے۔ ہم نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ عورت بھی (بمع اپنے پانی کے مشکیزوں کے) ہمارے ساتھ تھی۔ رسول اللہؐ نے ماجرا دریافت کیا۔ اس پر وہ عورت بول پڑی اور جو کچھ اس نے ہمیں پانی کے بارہ میں بتایا تھا۔ وہ رسول اللہؐ کی خدمت میں بھی عرض کیا ۔ لیکن اس نے رسول اللہؐ کو مزید یہ بتایا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے۔ رسول اللہؐ نے اس کی بات سننے کے بعد فرمایا کہ اس کے مشکیزے اتار کر لاؤ اور پھر رسول اللہؐ نے اس کے نچلے دھانوں پر اپنے ہاتھ سے مسح کیا۔ عمران کہتے ہیں اس کے بعد ہم چالیس پیاسے تھے جنہوں نے ان مشکیزوں سے پانی پیا اورخوب سیر ہو کر پیا۔ پھر ہم نے اونٹوں کو تو پانی نہیں پلایا البتہ قافلہ میں جتنے مشکیزے اور برتن تھے وہ ہم نے اس عورت کے مشکیزوں سے پانی سے بھر لئے۔ لیکن جب آخری برتن بھرا گیا تو بھی عورت کے مشکیزوںکا یہ حال تھا کہ وہ لبالب بھرے ہوئے تھے لگتا تھا کہ پانی ان کو پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو عمران کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ اچھا اب جو جو کھانے کا سامان تمہارے پاس ہے لاؤ۔ پھر اس عورت کے لئے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں جمع کر دی گئیں وہ یہ سامان اور اپنا پانی لے کر واپس ہوئی۔ اپنے عزیزوں کے پاس پہنچی تو کہنے لگی کہ میں آج ایک ایسے انسان سے مل کر آئی ہوں جو یا تو بہت بڑا جادوگر ہے یا وہ جیسا کہ لوگ کہتے ہیں نبی ہے۔ عمران کہتے ہیں کہ اس عورت کے ذریعہ سے خدا نے اس کے قبیلہ کو ہدایت دی وہ خود بھی مسلمان ہو گئی اور اس کا قبیلہ بھی مسلمان ہو گیا۔
دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے اس عورت نے اپنے قبیلہ والوں سے کہا کہ یہ شخص جادوگر اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جادوگر وہ اخلاق نہیں دکھا سکتا جو اس نے دکھائے۔ یہ یقینا خدا کا نبی ہے۔
ربیع بنت معوذ بن عفراء سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ کو تریں بہت پسند تھیں معوذ نے میرے ہاتھ رسول اکرمؐ کو ایک صاع تازہ کھجوروں کا اور ایک صاع چھوٹی تر کا بطور تحفہ بھیجا۔ نیچے کھجوروں والا برتن تھا اوپر تریں تھیں۔ ربیع کہتی ہیں کہ ان دنوں رسول اکرمؐ کے پاس بحرین سے زیورات آئے ہوئے تھے میںنے جب یہ تحفہ پیش کیا تو رسول اکرم ؐ نے اپنی مٹھی ان زیورات سے بھری اور مجھے دے دئے۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اکرم ؐ نے مجھے اتنا زیور دیا جو میری مٹھی میں آ جاتا اور پھر فرمایا کہ اسے پہنو۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے آپؐ سے نیکی کی ہو اور آپؐ نے اس کا بدلہ نہ دیا ہو خواہ دعا ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو۔
اسمٰعیل بن ابراہیم سے روایت ہے کہ ان کے دادا عبداللہ بن ربیعہ نے بتایا کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے چالیس ہزار (کی رقم) قرض لی۔ پھر جب رسول اللہؐ کے پاس مال آیا تو رسول اللہؐ نے میرا قرض واپس کر دیا اور ساتھ ہی مجھے دعا دی کہ بارک اللہ فی اھلک و مالککہ خدا تیری اولاد اور تیرے مال میں برکت ڈالے اور فرمایا کہ قرض کا بدلہ تو یہی ہے کہ قرض دہندہ کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کے حق میں دعا کی جائے اور اس کا قرض واپس کیا جائے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ تحفہ قبول کیا کرتے تھے اور پھر اپنی طرف سے تحفہ دے کر اس تحفہ کو لوٹاتے بھی تھے۔
صحابہ ؓ جس طرح آپؐ سے محبت کرتے اور اس محبت کا اظہار کرتے تھے آپؐ اس کی بہت قدردانی فرماتے تھے۔ مسلم کی ایک لمبی حدیث ہے جس میں ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں (اغلباً تبوک سے واپسی کا سفر ہے) رات آئی۔ سب لوگ اپنے اپنے دھیان میں چلے جا رہے تھے لیکن ابو قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی اونٹنی رسول اکرم ؐ کی سواری کے ساتھ رکھی ہوئی تھی اور میری نگاہ رسول اللہؐ پر تھی جب نصف رات گزر گئی تو رسول اللہؐ سواری پر سو گئے۔ رسول اللہؐ سوتے سوتے اپنی کاٹھی سے کھسک گئے میں نے آگے بڑھ کر رسول اللہؐ کو سہارا دیااور رسول اللہؐ کو کاٹھی پر سیدھا کر دیا لیکن میں نے بڑی احتیاط سے ایسا کیا کہ کہیں رسول اللہؐ کی آنکھ نہ کھلے اور میں اس مقصد میں کامیاب رہا۔ کچھ رات گزری تو پھر ایسا ہی ہوا اور میں نے پھر بغیر رسول اللہؐ کو جگائے رسول اللہ ؐکو سہارا دے کر سیدھا کرکے بٹھا دیا۔ کہتے ہیں کہ پھرصبح کے قریب رسول اللہؐ کو نیند میں زیادہ زور سے جھٹکا لگا اور رسول اللہؐ گرنے لگے تب میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر رسول اللہ ؐ کو سہارا دیا۔ اس دفعہ رسول اللہ ؐ کی آنکھ کھل گئی۔ ابھی اندھیرا تھا مجھے پہچانا نہیں۔ فرمایا کون ہے؟ میںنے عرض کیا کہ ابوقتادہ۔ فرمایا کہ کب سے اس طرح میرے ساتھ چل رہے ہو۔ میںنے عرض کیا کہ رسول اللہؐ سرِشام سے ہی جب سے سفر شروع کیا ہے رسول اللہؐ کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ اس پر آپؐ نے مجھے دعا دی جس طرح تُو نے خدا کے نبی کی حفاظت کی اللہ تیری حفاظت کرے۔
جب دین کی کوئی خدمت کرتا تو اس پر اظہار محبت اور اظہار تشکر کا انداز اَور ہی ہوتا تھا۔ جنگ احزاب کے موقع پر حضرت حذیفہؓکو دشمنوںکا حال معلوم کرنے کو بھیجا۔ سخت سردی تھی کہتے ہیںجب میں ان کا حال دریافت کرکے واپس آیا تو مجھ پر شدید کپکپی طاری تھی جیسے میں ٹھنڈے حمام سے نکلا ہوں میں نے رسول اللہؐ کو آ کر صورت حال بتائی اس وقت رسول اللہؐ نے اپنی نماز کی چادر اوڑھی ہوئی تھی رسول اللہؐ نے میری حالت دیکھی تو مجھے اپنے پاس لٹا کر میرے اوپر اپنی چادر کا ایک حصہ اوڑھا دیا۔میں وہیں رسول اللہؐ کے پاس بالکل قریب رسول اللہؐ کی چادر کی گرمی میں لیٹا لیٹا سو گیا صبح رسول اللہؐ نے مجھے جگایا اور فرمایا کہ اب تو بہت سو لئے صبح ہو گئی ہے اٹھو۔
حضرت علی ؓکا بیان ہے کہ میں نے کسی کے لئے رسول اللہؐ کو یہ کہتے نہیں سنا کہ میرے ماں باپ تیرے پر قربان ہوں سوائے سعد بن مالک کے۔ جنگ احد کا موقع تھا۔ سعد مسلمانوں کی طرف سے تیراندازی کر رہے تھے اور رسول اللہؐ ان کے پاس کھڑے کہتے جاتے تھے سعد تیرے پر میرے ماں باپ قربان تُو اسی طرح تیر چلاتا جا۔ سعد تیرے پر میرے ماں باپ قربان تو اسی طرح تیر چلاتا جا۔