ابو ریحان البیرونی
ابوالریحان محمد بن احمد المعروف البیرونی 973ء میں خوارزم میں پیدا ہوئے اور 1050ء میں غزنی میں انتقال کرگئے۔ اُن کا نام ریاضی، جغرافیہ و تاریخ اور تکونیت کے حوالہ سے مستند تسلیم کیا جاتا ہے۔ سترہ برس کی عمر میں ہی انہوں نے ایک ایسا حلقہ ایجاد کیا جس کے نصف درجہ تک نشان لگے ہوئے تھے۔ اس حلقہ کی مدد سے انہوں نے زمینی عرض بلد نکالا۔ اُن کے اور اُن کی بعض کتب کے بارہ میں ایک تعارفی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ 25؍ستمبر 1999ء میں مکرم مخدوم عدیل احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
البیرونی نے اپنے کچھ حالاتِ زندگی اپنی کتاب ’’تحدید الاماکن ‘‘ میں بیان کئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں بعض دنیاوی امور میں بامر مجبوری حصہ لینا پڑا جس کا اُنکے سائنسی کاموں پر بہت برا اثر پڑا۔ 1000ء میں انہوں نے اپنی کتاب ’’الآثارالباقیہ‘‘ تحریر کی تو اسے سلطان قابوس کے نام معنون کیا۔ 1017ء میں وہ غزنی آکر دربار غزنی سے وابستہ ہوگئے اور برسوں وہاں مقیم رہے۔ ایک اندازہ کے مطابق البیرونی نے 146؍کتب تحریر کیں جن کا تعلق فلکیات، اصطرلاب، ریاضی، جغرافیہ، نجوم تقویم، پیمائش، تکونیات، تاریخ، مذہب، فلسفہ، ادب، سحر اور موسمیات سے ہے۔ اُن کی مشہور ترین کتاب ’’کتاب الھند‘‘ میں ہندوستانی رسوم و رواج کا یونانی رسوم و رواج سے مقابلہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ساٹھ سے زائد ابواب ہیں جن میں ذاتِ خداوندی، روح، تصوف، جنت، دوزخ، ہندوؤں کی ذاتوں، شادی بیاہ کے قوانین، ادب، اوزان اور پیمائش کی اکائیاں، مروج طرز تحریر، اعداد، قواعد شطرنج ، اوہام اور جغرافیہ کے علاوہ ہندوستان کے مختلف شہروں کے عرض بلد کا بھی ذکر ہے۔ یہی حال اُن کی دیگر کتب کا ہے۔ الغرض وہ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں جن کو اُن کے معاصرین ’’الاستاذ‘‘ کہتے ہیں۔