احمدیت کا رشتہ – ہر رشتہ سے بالاتر
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل لندن)
حضرت مسیح موعودؑ نے احمدیوں کے لیے بھائی چارے کا یہ معیار قائم فرمایا ہے:
’’اگر تم چاہتے ہوکہ آسمان پر تم سے خداراضی ہوتو تم باہم ایسے ایک ہوجاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔‘‘
(کشتیٔ نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍جنوری 2014ء میں مکرم محمود احمد انیس صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں چند ایمان افروز واقعات کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ احمدیت کی آغوش میں آنے والے دینی اخوت کے رشتہ میں یوںپروئے گئے کہ اُن کے تعلقات اور رشتہ داریوں کے معیارہی بدل گئے۔
٭…حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کے جس قدرآدمی ہیں سب کو حضور سے اپنے اپنے طریق کے مطابق محبت تھی، مگر جس قدر ادب و محبت حضورؑ سے حضرت خلیفہ اول ؓکو تھی اس کی نظیر تلاش کرنی مشکل ہے۔ چنانچہ ایک دن مَیں حضرت مولوی صاحبؓ کے پاس بیٹھا تھا وہاں ذکر ہواکہ حضرت مسیح موعودؑ نے کسی دوست کواپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کرنے کو ارشاد فرمایا مگریہ کہ وہ دوست راضی نہ ہوا۔ اتفاق سے اسی وقت مرحومہ امۃ الحئی بھی جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں کھیلتی ہوئی سامنے آگئیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ فرمانے لگے کہ مجھے تو اگر مرزا کہے (حضرت مسیح موعودؑ کو آپ پیار سے مرزا کہا کرتے تھے )کہ اپنی لڑکی کو نہالی (نہالی ایک مہترانی تھی جو حضرت صاحب کے گھر میں کام کرتی تھی) کے لڑکے کو دے دو۔ تو میں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دوں گا۔ یہ کلمہ سخت عشق و محبت کا تھا۔ مگر نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھ لو کہ بالآخروہی لڑکی حضورؑکی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو خودحضرت مسیح موعودؑ کا حُسن و احسان میں نظیر ہے۔
٭…حضرت رحمت اللہ صاحبؓ آف بنگہ جب قادیان جاکر حاضر خدمت ہوتے تو موسم کے فروٹ یا کوئی سبزی وغیرہ لے جایا کرتے تھے۔ بسبب کثرتِ کاروبار کے اگر خود نہ جاسکتے تو بذریعہ ریلوے آم و آلو وغیرہ بھیج دیاکرتے۔ آپؓ سبزی و ٹھیکہ باغات کا کام کرتے تھے۔ آپؓ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ عاجز کے ہاں تشریف لائے۔ گھر پر کھانا کھانے کے وقت معلوم ہوا کہ میری بیوی تو فوت ہوچکی ہے۔ فرمانے لگے کہ تم نکاح کرو۔ میں نے وہی معاملہ احمدیت والا پیش کر دیا۔ خیر انہوں نے واپس جا کر اپنے اخبار الحکم میں خاکسار اور مکرم غلام احمد صاحب واعظ کے رشتوں کے متعلق تحریک شائع کر دی۔ شاید دو تین مرتبہ متواتر شائع ہونے پر ایک معزز دوست نے نکاح و رشتوں کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے حکم کا ایک لمبا چوڑا خط جناب شیخ صاحب کے نام اخبار میں شائع کرنے کے لیے بھیجا جس میںیہ بھی غالباً ذکر تھا کہ جماعت احمدیہ میں دو دوستوں کے نکاح کے متعلق چند مرتبہ تحریک شائع ہو رہی ہے، کیا اتنی بڑی جماعت میں دو رشتے بھی نہیں ہیں؟ انہوں نے وہ مفصّل خط بھی شائع کردیا۔ اس کے بعد ایک دن حضرت عرفانی صاحبؓ بنگہ تشریف لائے اور ہماری دکان پر بیٹھ کر دوتین خطوط پڑھے جو رشتہ کے متعلق جموں اور فیروزپور وغیرہ سے آئے تھے۔ پڑھ کر مسکرائے اور مجھے فرمانے لگے مبارک ہو۔ پھر انہوں نے جموں والا رشتہ پسند فرما کر ان کے ساتھ خط و کتابت قادیان سے شروع کی۔ مکرم جناب خوا جہ کرم داد خان صاحب چنگوی حال مقیم جموں نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت مبارک میں لکھ بھیجا کہ میں اپنی ایک لڑکی میاں رحمت اللہ کو حضور کے منشا و حکم کے بموجب دیتا ہوں۔ اس پر حضور نے شیخ صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ دریافت فرما کر خواجہ صاحب کی فلاں لڑکی کا رشتہ میاں رحمت اللہ صاحب سے منظور کروالیں۔ شیخ صاحب نے عرض کیا کہ حضور !آپ میاں رحمت اللہ کو جانتے ہیں؟ فرمانے لگے کہ ہاں ہاں وہی ہیں ناں جو ابھی آلوؤں کی بوری بھی لائے تھے۔ شیخ صاحب نے عرض کی حضور وہی ہیں۔ چنانچہ محترم عرفانی صاحب کا مکتوب گرامی پہنچا کہ حضرت صاحب نے مکرمی خواجہ صاحب کی منجھلی باکرہ لڑکی کا رشتہ تمہارے لیے منظور فرمایا ہے ۔ نکاح کے لیے تیار رہیں۔ مجھے فکر بھی ہوا اور خوشی بھی۔ فکر اس لیے کہ پہلے ان سے تعارف بھی نہیں اور وہ راجپوت اور یہ عاجز غریب لاہوریا ارائیں ہے۔ خوشی اس بات کی کہ حضرت اقدسؑ نے منظور فرمایا ہے انشاءاللہ بابرکت ہوگا۔ خیر میں نے مکرمی عرفانی صاحب کو لکھا کہ آپ خواجہ صاحب کو پھر یہ یاددہانی کروا دیں کہ یہ عاجز قوم کا ارائیں ہے۔ انہوں نے دوبارہ اُن کو لکھا تو انہوں نے ایک لمبا چوڑا خط ان کو لکھا جس کا مختصر خلاصہ یہ تھا کہ میں نے قومیت کا کوئی لحاظ نہیں رکھا۔ ہاں جو قوم حضرت مسیح موعودؑ نے تیار کی ہے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی قوم نہیں اور یہ بھی کہا کہ میرا خط بھی اپنے اخبار میں شائع کردو۔ جو انہوں نے شائع کر دیا۔
پھر خواجہ صاحب نے جموں سے ایک مختارنامہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ کے نام لکھ کر ارسال فرمایا کہ حضرت صاحب کی اجازت سے آپؓ جس وقت جس دن چاہیں ولی بن کر میری لڑکی کا نکاح میاں رحمت اللہ بنگہ والہ سے کروا دیں۔ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ اور مکرمی عرفانی صاحبؓ نے باہم مشورہ کر کے حضرت صاحبؑ کی خدمت مبارک میں نکاح کے متعلق عرض کردیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ میاں رحمت اللہ کو بلوانے کے لیے مولوی یار محمد صاحب (مختارنورپور) جائیں اور شاید کرایہ بھی حضور نے ہی خود دیا اور مبلغ دو روپیہ علاوہ سفر خرچ کے دیے کہ میاں رحمت اللہ کو کہنا کہ ہمارے لیے دو روپیہ کی دیسی سرخ شکرلیتے آویں۔ الغرض مولوی یار محمد صبح میری دکان پر پہنچ گئے۔ حالات بتلائے۔ کہنے لگے کہ آج ہی چلنا ہے۔ خیر کچھ کھانا وغیرہ کھلا کر میں نے ایک تھیلہ شکر سرخ اور شاید کچھ قند بھی تیار کیا ۔
قادیان پہنچے۔ صبح جمعہ تھا۔ حضرت صاحب کو اطلاع کی گئی تو آپؑ کا حکم آیا کہ جمعہ کے بعد عبدالحیٔ کی آمین ہوگی اور انشاء اللہ عصر کے بعد نکاح ہو جائے گا۔ جمعہ کے بعد آمین ہوئی۔ حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے چلے تو فرمایا کہ عصرِ وقت مسنون ہے۔ نکاح پڑھا دیا جاوے گا۔ عصر کے بعد حضرت حکیم مولانا نورالدینؓ کو فرمایا کہ خطبہ نکاح پڑھیں۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے عرض کیا کہ اگر حضور کا کچھ کام میں حرج ہو تو تشریف لے جائیں اور ہمیں نکاح کے متعلق کوئی احکام ہوں تو فرمادیں۔ فرمایا: بڑے مولوی صاحب نکاح پڑھائیں۔ مَیں انشاء اللہ جا کر دعا کروں گا۔ پس حضرت اقدسؑ تشریف لے گئے۔
بعدازاں حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے وہ مختارنامہ مولوی عبدالکریم صاحبؓ سے لے کر پڑھا تو فرمایا کہ انہوں نے مہر کے متعلق کچھ مقرر کرکے نہیں لکھا۔ مناسب ہے کہ حضرت صاحب سے دریافت فرما لیا جاوے کہ مہر کیا مقرر کیا جاوے۔ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے فرمایا کہ جبکہ خواجہ صاحب نے مجھے مختار بنا دیا ہے تو کیا میں مجاز نہیں ہوں کہ جو مہر میں چاہوں باندھ دوں۔ اس پر حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے فرمایا کہ ہاں آپ مجاز تو ہیں مگر امام جو موجود ہے۔ ان سے دریافت فرما لیا جاوے تو بہتر ہے ورنہ خیر۔اس پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے فرمایا کہ حضرت صاحب کو کاہے کو تکلیف دیتے ہیں۔ میں ہی مقرر کردیتا ہوں۔ خیر انہوں نے حضرت عرفانی صاحب سے مشورہ کر کے عاجز سے دریافت کیا کہ کیوں جی جو مہر میں باندھوں منظور ہے۔ میں نے عرض کیا منظور ہے تو انہوں نے اڑھائی سو روپیہ مہر مقرر کر کے حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی خدمت میں عرض کر دیا۔ اس کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے اچھا خاصا خطبہ جو پُراز معارف تھا پڑھ کر دعا کروائی۔
٭…حضرت مولانا عبدالرحیم نیرصاحبؓ کی پہلی شادی حضرت مسیح موعودؑ کے عہد مبارک میں حضورؑ ہی کی نظر شفقت اور خصوصی مشورہ سے حضرت سید عزیزالرحمٰن صاحب بریلوی ؓکی صاحبزادی سے ہوئی۔ سید صاحب موصوف کی چار بیٹیاں تھیں جن میں سے تین علی الترتیب ڈاکٹر عطرالدین صاحب، حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بھٹیؓ اور حضرت محمد یحییٰ خان صاحبؓ ایسے نیک سیرت افراد سے بیاہی گئیں اورچوتھی بیٹی محترمہ عائشہ بانو صاحبہ کے نکاح کا مکمل اختیار حضرت مسیح موعودؑ کو دیا گیا تھا۔ حضورؑ نے حضرت سید عزیزالرحمٰن صاحب ؓکو لکھا کہ کیا لڑکا ذات کا سید ہو؟ انہوں نے جواباً تحریر کیا کہ جبکہ آپ کی تعلیم یہ ہے کہ ایک سید ہو اور دوسرا کنجرا (سبزی فروش) تو میری بیعت کے بعد دونوں ایسے ہیں جیسے ایک ماں کے پیٹ سے دو پیداہوئے ہوں۔ مَیں چونکہ آپ کی بیعت میں آچکا ہوں اس لیے اگر پسند فرمائیں کہ دوسرا احمدی بھائی بھنگی ہے اور اسے لڑکی دینے کو فرمائیں تو مجھے اعتراض نہ ہوگا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کے مشورہ سے محترمہ سیدہ عائشہ بانو کا نکاح حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ کے ساتھ ہو گیا۔
٭…محترم میاں محمد مغل صاحب عرف مُغلا سکنہ کوٹ محمدیار نزد چنیوٹ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ بیعت کے بعد آپ کے رشتہ دار کہا کرتے تھے کہ تم برادری سے کٹ گئے ہو اب تمہارا رشتہ نہیں ہوگا۔ ان کے بیٹے مکرم بشیراحمد طاہر صاحب نے اپنے والد محترم کے ذکرخیر کے مضمون میں ان کی شادی کا واقعہ بھی تحریرکیا ہے جو انہیں مکرم سید اعجازاحمد شاہ صاحب مرحوم انسپکٹرمال نے یوں سنایا کہ تمہارے والد صاحب ایک بار پھرتے پھراتے قادیان آئے۔ قیام حسب معمول حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے ہاں ہی تھا۔ حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کسی تحریر میں مشغول تھے۔ تمہارے والد صاحب نے حسب عادت و معمول رشتہ کے لیے دعا کی درخواست کی۔ حضرت مولانا نے تحریری کام کی گہرائی کی وجہ سے مداخلت پر ذرا خفگی کا اظہار کیا جس کا مفہوم تھا کہ میں نے تمہارے لیے یہاں رشتے رکھے ہوئے ہیں ۔ اِدھر سے آتے ہوتورشتہ کی بات، اُدھرسے آتے ہوتو رشتہ کی بات۔ والد صاحب سنّاٹے میں آگئے کہ مولوی صاحب بھی خفا ہوگئے۔ خاندان کی اذیت وتکلیف پرا س سہارے کا بھرم بھی ٹوٹتا نظرآیا۔ دل غم سے بھر گیا اور صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔ آنکھوں کے نِیر ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ حضرت مولانا نے جو خاموشی دیکھی تو نگاہ اوپر اٹھائی، آنسوؤں کا اُمڈتا ہوا ایک ریلا نظر آیا۔ فوراً اٹھے اور والد صاحب کو گُدی سے پکڑ کر کمرے میں جائے نماز پر لے گئے کہ جتنا رونا ہے یہاں رولے۔ جو کچھ ملے گا یہاں سے ملے گا، میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔
کچھ دنوں کے بعد ملتان کے ایک گاؤں سے ایک حافظ قرآن آئے اور حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ سے کہا کہ میری دو بیٹیاں ہیں۔ ایک کی شادی تو بامر مجبوری غیرازجماعت رشتہ داروں میں ہوچکی ہے۔ دوسری کی شادی مَیں چاہتا ہوں کہ احمدی سے ہو۔ زندگی کا اعتبارنہیں۔ حضرت مولانا نے فرمایا: ہاں ہاں ایک زمیندار گھرانے سے ہی نوجوان ہے دیکھ لو۔ انہوں نے کہا: آپ کو منظور ہے تو مجھے بھی منظور ہے۔ یہ میرا پتہ ہے، نوجوان کو یہاں بھیج دینا۔
ملتان واپس جاکر انہوں نے گھر کے افراد کو بتایا تو اُن کے بیٹے وغیرہ ناراض ہوگئے کہ نہ دیکھا نہ بھالا، نہ اتہ نہ پتہ، زبان دے آئے ہیں۔ تقدیر الٰہی سے وہ جلد ہی فوت ہوگئے۔ بعدازاں جب مولوی راجیکی صاحبؓ کے کہنے پر میاں محمد مغل صاحب اُن کے ہاں پہنچے تو مرحوم کے بیٹے نے زبان، کلچر اور ظاہری طور طریقے دیکھ کر فوراً انکار کردیا اور اپنی ہمشیرہ صاحبہ کو بھی انکار کرنے پر زور دیااور کئی قسم کے نقص نکالے۔ ہمشیرہ نے صاف کہہ دیا کہ وہ ایسے ہی ہیں جیسے آپ بیان کرتے ہیں لیکن ایمان تو ہے ناں۔ والد صاحب نے جہاں زبان دی ہے میں ہرگز ہرگز اس سے انکار نہیں کروں گی ۔ چنانچہ شادی کی تاریخ مقررکردی گئی۔ ادھر برادری میں میاں مغلا صاحب نے آکر بتایا تو سب مذاق کریں کہ تمہارے ساتھ کسی نے دل لگی کی ہے۔ تمہیں بےوقوف بنایا جارہا ہے۔ بہرحال وہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓکی معیت میں کُل چار افراد کی بارات لے جاکر دلہن کو بیاہ لائے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’میں خداتعالیٰ کا شکر کرتاہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لیے میں ان کو بلاتاہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتاہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایاجاتاہے۔ میری طرف سے کسی امرکا اشارہ ہوتاہے اور وہ تعمیل کے لیے تیار۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 336)
٭…حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے متبعین کو غیراحمدیوں کے ساتھ رشتے کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے 7؍جون 1898ء کو ’’اپنی جماعت کے لیے ضروری اشتہار‘‘کے عنوان سے ایک اشتہار شائع فرمایا۔ اس میں آپؑ نے فرمایا:
’’چونکہ خداتعالیٰ کے فضل و کرم اس کی بزرگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہورہی ہے اور اب ہزاروں تک اُس کی نوبت پہنچ گئی اور عنقریب بفضلہ تعالیٰ لاکھوں تک پہنچنے والی ہے اس لیے قرین مصلحت معلوم ہواکہ ان کے باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لیے اور نیز اُن کو اہل اقارب کے بداثر اور بدنتائج سے بچانے کے لیے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاحوں کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے۔یہ تو ظاہرہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیرسایہ ہوکر تعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں اُن سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیرممکن ہوگئے ہیں جب تک کہ وہ توبہ کرکے اسی جماعت میں داخل نہ ہوں اور اب یہ جماعت کسی بات میں اُن کی محتاج نہیں ۔ مال میں دولت میں علم میں فضیلت میں خاندان میں پرہیزگاری میں خداترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجودہیں اور ہرایک … قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے ۔…تمام جماعت توجہ سے سن لے کہ راست باز کے لیے ان شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے …‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ50)
٭…حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب چارسدہ کے گاؤں ’’پرانگ‘‘ کے رہنے والے ایک معمولی پڑھے لکھے انسان تھے۔ طبیعت بےحد مسکین اور خداترس پائی تھی۔ مگر احمدیت کے ساتھ وابستگی نے ان کے اندر کچھ اِ س قسم کا جلال اور رعب پیدا کردیا تھا کہ کسی بڑے سے بڑے انسان کو خاطرمیں نہ لاتے تھے۔ آپ کے صاحبزادے مکرم عبدالسلام خان صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مستونگ میں خان بہادر نوابزادہ گل محمد آف ڈیرہ غازیخان نے (جو ریاست قلّات میں وزیر مال تھے) ایک پشاوری تحصیل دار کے ذریعے حضرت مولوی صاحب کو پیغام بھیجا کہ آپ مجھے اپنی دامادی میں لے لیں تو یہ میری بڑی سعادت ہوگی۔ میں اپنی بیوی کو پچاس ہزار روپیہ نقد ادا کروں گا اور نصف جائیداد ان کے نام پر لگادوں گا۔ اس کے علاوہ جو شرائط مقرر کریں وہ سب مجھے قبول ہوں گی۔ حضرت مولوی صاحب دوسرے دن نوابزادہ کے بنگلے پر گئے اور اُن سے کہا کہ آپ نے ایسا پیغام بھیجا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور کہا: ہاں مَیں نے یہ پیغام بھیجاہے اور میری بڑی خوش بختی ہوگی اگر میرے جیسا انسان آپ کی دامادی کا فخر حاصل کرلے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں ایک معمولی سے غریب شخص کو لڑکی دوں گا بشرطیکہ وہ احمدی ہو۔ کیونکہ وہ ہمارے شاہی خاندان کا فرد ہے۔ مگر دنیاوی نواب کو نہیں دوں گا۔ آپ کہتے ہیں کہ میں پچاس ہزارمہر اور نصف جائیداد وغیرہ دوں گا۔ اگر امیر کابل مجھے اپنی نصف حکومت دے دے اور کہے آپ اپنی لڑکی کارشتہ مجھے دے دیں تو چونکہ وہ احمدی نہیں ہے اور مَیں اُس کو اپنے شاہی خاندان کا فرد نہیں سمجھتا اِس لیے اُس کو لڑکی نہیں دوں گا۔‘‘
اس پر نوابزادہ صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب مجھ سے غلطی ہوئی ہے، معافی چاہتا ہوں، مجھے یہ معلوم نہ تھا۔
٭…ایک بہت ہی ایمان افروز واقعہ محترم محمد اعظم اکسیر صاحب مربی سلسلہ یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ مارچ 1981ء کی بات ہے جب طلبی پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضورؒ نے کھڑے کھڑے سلام کا جواب دینے کے بعد متبسم جلال کے ساتھ فرمایا کہ ’’پرسوں مانگٹ اونچے میں ایک احمدی بچی کی شادی غیراحمدی سے ہورہی ہے۔ یہ شادی نہیں ہوگی۔ جاؤ۔‘‘
مَیں درخواستِ دعاکرتے ہوئے باہر آیا تو سامنے کوئی راستہ نہیں تھا۔ محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب (ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ) نے بتایا کہ ہاں مانگٹ اونچے (ضلع حافظ آباد) سے ایک شکایت آئی ہے کہ ایسا ہورہا ہے۔ پھر مجھے ایک چٹھی لکھ کر دی۔ مَیں مانگٹ اونچے پہنچا اور وہاں کی احمدیہ مسجد میں پہنچ کر سجدہ ریز ہو گیا کہ مولا ! مجھے کوئی راہ سجھا۔ وہاں فی الواقع ایک احمدی بچی کی جمعہ کے روز ‘رخصتی’ کی پُرجوش تیاریاں عروج پر تھیں۔ روشنیاں تھیں، چہل پہل تھی مگر جو ادھر خاکسار کے دل پر گزررہی تھی وہ لفظوں کا جامہ نہیں پہن سکتی۔ تاہم یہ الفاظ قلب و ذہن کے ہر حصہ پر دستک دے رہے تھے: ’’یہ شادی نہیں ہوگی۔جاؤ۔‘‘
پھر ایک راہ سجھائی دے گئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک خوبرو صحت مند احمدی نوجوان گکھڑ کے نارمل سکول میں PTC کا کورس کر رہے تھے۔ انہیں بلاکر شادی کی تحریک کی تو یہ بات عجیب اور ناقابل فہم تھی کیونکہ مقصد یہی ظاہر کیا گیا تھا کہ احمدی بچی کی رخصتی مقررہ وقت پر ہو اور تیاریاں جاری رہیں مگر غیراحمدی کی بجائے احمدی دلہا تیار ہوجائے۔ بہرحال ان صاحب کی سعادت مندی کہ کئی طرح کی باتوں کے بعد تیارہوگئے مگر اس سے بھی مشکل تر مرحلہ آگے تھا۔ ’’احمدی بچی‘‘ کے والد کو جب یہ تجویز بتائی تو وہ یکدم چارپائی پر بیہوش نما گر پڑے۔ سنبھالا دیا اور آخر اُنہوں نے کہا کہ اگر وہ نوجوان تیار ہوجائے تو مجھے منظورہے مگر جہاں رشتہ طے ہوچکا ہے وہاں مَیں کیا منہ دکھاؤں گا؟انہیں سمجھایا کہ آپ انہیں منہ نہ دکھائیں بلکہ خدا اور خداکے خلیفہ کو منہ دکھائیں۔ چنانچہ پھر ایک وفد ترتیب دیا گیا جس نے جاکر لڑکے والوں کو باور کرادیا کہ یہ شادی نہیں ہو سکتی اس لیے وہ بارات لے کر نہ آئیں۔
جمعہ کے روز صبح سویرے غلام اپنے آقا کے در پر حاضر تھا اور جب اطلاع عرض کی کہ مبارک ہو حضور! آپ کی تمنا پوری ہو گئی ۔حضورؒکا چہرہ فرطِ مسرت سے تمتما اٹھا۔ معانقہ عطا فرمایا اور سارا واقعہ سماعت فرمایا۔