احمدیہ مرکز سورینام کی یادیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍نومبر 2006ء میں مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب نے احمدیہ مرکز سورینام کے حوالہ سے اپنی یادیں بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مَیں 5؍جنوری 1966ء کو جنوبی امریکہ کے ملک گی آنا پہنچا۔ کچھ عرصہ بعد ہمسایہ ملک سورینام جانے کا پروگرام بنا جو پہلے ڈَچ گی آنا کہلاتا تھا اور آزاد ہوکر سورینام کہلایا۔ 31؍اگست 1967ء کو سورینام کے دارالحکومت پاراماریبو پہنچ کر ایک ہوٹل میں قیام کیا تو اگلے روز ہی چند احمدی دوست مکرم عبدالحمید صاحب صدر جماعت کے ہمراہ تشریف لائے اور صدر صاحب مجھے اپنے گھر لے گئے۔ سورینام میں مرکز کے قیام کے سلسلہ میں کوششیں 1950ء کی دہائی میں شروع ہوگئی تھیں اور رجسٹریشن کے مراحل بھی طے ہوگئے تھے۔ مرکز سے ایک مربی سلسلہ مکرم عبدالعزیز جمن بخش صاحب بھی بھجوائے گئے تھے۔ صدر جماعت عبدالحمید صاحب اُنہی کے بھائی تھے۔ 1961-62ء میں ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ عملاً یہ مرکز بند کردینا پڑا۔ بہرحال میرے پہنچنے پر احمدی صدر صاحب کے گھر اکٹھے ہونے شروع ہوگئے۔ بہت سے احمدیوں سے جماعت کا رابطہ عملاً منقطع ہوچکا تھا اور اُن کا جماعت سے کوئی تعلق نہ رہا تھا۔ تاہم پاراماریبو کے مضافات Ephramsegen میں محترم حسینی بیداللہ صاحب نے اپنا ایک پلاٹ احمدیہ مسجد کے لئے وقف کررکھا تھا اور خود ہی مسجد کی تعمیر کی کوشش کر رہے تھے۔
15؍مئی 1968ء کو خاکسار دوبارہ ڈیڑھ ماہ کے لئے سورینام گیا اور اس دوران احمدیہ مسجد کے مقام پر ہی قیام کیا۔ اس بار بہت سے تربیتی اور تبلیغی امور سرانجام دیئے اور جماعت سورینام کے عہدیداران کا انتخاب ہوکر باقاعدہ نظام بھی قائم کیا گیا۔ محترم حسینی بیداللہ صاحب صدر جماعت اور مکرم واحد علی صاحب جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ پھر تیسری مرتبہ جولائی 1969ء میں سورینام گیا تو 13؍جولائی کو سورینام کی جماعتوں کا اجتماع بھی Ephramsegen میں منعقد ہوا۔ اخبار میں انٹرویو کے علاوہ ٹیلی وژن پر انگریزی میں تقریر کا بھی موقع ملا۔ قریباً ایک ماہ بعد واپسی ہوئی۔