احمدیہ مسلم مشن اردن
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19جولائی 2011ء میں ایک مختصر مضمون میں اردن میں احمدیہ مسلم مشن کی بنیاد کے حوالہ سے معلومات پیش کی گئی ہیں ۔
خلیج فارس سے مراکش تک پھیلی ہوئی عرب دنیا میں شرق اردن (Jordon) ایک نہایت مشہور مملکت ہے ۔ اردن کا علاقہ صدیوں تک دمشقؔ، حمصؔ اور فلسطینؔ کی طرح شام کی اسلامی عملداری میں شامل رہا۔ مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد اسے برطانیہ کے زیر حمایت ایک مستقل ریاست تسلیم کرلیا گیا۔ یہ ریاست دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر برطانوی انتداب سے آزاد اور خودمختار ہوگئی اور عبداللہ بن الشریف حسین الہاشمی اس کے پہلے آئینی بادشاہ قرار پائے۔
شاہ عبد اللہ والی ٔ اردن کی بادشاہت کے تیسرے سال محترم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی واقف زندگی 3؍مارچ 1948 ء کو حیفا سے شرق الاردن کے دارالحکومت عمان پہنچے اور ایک نئے احمدی مشن کی بنیاد ڈالی۔ یہ مشن 7جولائی 1949ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد آپ بغرض تبلیغ شام و لبنان میں تشریف لے گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے محترم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو قادیان سے رخصت کرتے وقت ان کی نوٹ بک میں حسب ذیل ہدایات تحریر فرمائی تھیں :
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان باتوں سے پرہیز کرو جن سے تعلق نہ ہو۔ قرآن کریم فرماتا ہے لغو باتوں سے پرہیز کرو، … ہدایات بہت دی جاچکی ہیں ان کو یاد کریں اور ان پر عمل کریں ۔کسی نے کہا ہے ’ایازقدر خود بشناس‘۔ اس مقولہ کو یاد رکھو، ہم غریب لوگ ہیں ۔ ہم نے اپنے ذرائع سے کام لے کر دنیا فتح کرنی ہے۔ یہ سبق بھولا تو تبلیغ یونہی بیکار ہو جائے گی۔ باقی فتح دُعاؤں اور نماز اور روزہ سے آئے گی۔ تبلیغ سے زیادہ عبادت اور دُعا اور روزہ پر زور دو۔‘‘
پھر 3نومبر 1947ء کو محترم مولوی صاحب کے ایک خط کے جواب میں حضورؓ نے تحریر فرمایا:
’’اب وقت کام کاہے۔ تبلیغ پرزور دے کر ایک موت وارد کریں تا احمدیت دوبارہ زندہ ہو اور مالی اور روحانی قربانی کی جماعت کو نصیحت کریں۔ اب ہر ملک کو ایسا منظم ہونا چاہئے کہ ضرورت پڑنے پر وہی تبلیغ اور سلسلہ کا بوجھ اٹھا سکے ۔ پہلے بہت سستی ہو چکی۔ اب ایک معجزانہ تغیر ہمارے مبلغین اور جماعت میں پیدا ہونا چاہئے‘‘۔
اُردن میں مشن کی ابتداء نہایت پریشان کُن ماحول اور حوصلہ شکن حالات میں ہوئی۔ قضیہ فلسطین کے باعث ہرطرف ابتری پھیلی ہوئی تھی اور دوسرے کثیرالتعداد مظلوم فلسطینی لوگوں کی طرح حیفا کے متعدد احمدی گھرانوں کو بھی ہجرت کر کے شام و لبنان میں پناہ گزین ہونا پڑا تھا۔ خود محترم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی جو حیفا ہی سے اُردن میں تشریف لائے تھے محض اجنبی اور غریب الدیار تھے۔ مولوی صاحب موصوف نے اپنی علمی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز ایک ہوٹل سے کیا جہاں آپ صرف چند ہفتے مقیم رہے مگر پھر جلد ہی اخراجات میں تنگی کی وجہ سے اپنے ایک عرب دوست السید عبد الکریم المعایطہ ابن الحاج محمد ھلال المعایطہ کے ساتھ ایک کمرہ میں رہائش پذیر ہوگئے۔ چند ماہ بعد جب فلسطین کے ایک مخلص عرب احمدی پناہ گزین السید طٰہٰ القزق عمان میں آگئے تو مولوی صاحب ان کے پاس ایک مختصر کمرہ میں منتقل ہو گئے ۔ یہ کمرہ کرایہ پر لیا گیا تھا اور شارع المحطۃ (ریلوے روڈ) پر واقع تھا۔