احمدیہ ہسپتال قادیان
تقسیم ہند کے بعد سے نور ہسپتال اگرچہ جماعت کی ملکیت میں تو ہے لیکن سرکاری ہسپتال کے طور پر کام کر رہا ہے۔ 1947ء میں یہ ہسپتال جماعت کے قبضے سے نکل گیا تھا اور اس کا سامان لوٹ لیا گیا تھا یا تباہ کردیا گیا تھا۔ حتی کہ فرسٹ ایڈ کا سامان بھی میسر نہ رہا تھا۔ اس بے سرو سامانی کے عالم میں جنوری 1948ء تک محترم میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب (جنہیں بعد میں کوئٹہ میں شہید کردیا گیا تھا) طبی خدمات بجالاتے رہے۔ پھر یہ فریضہ کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب کے سپرد ساڑھے سات برس تک رہا۔
جب احمدیوں کے بائیکاٹ کا المیہ پیش آیا تو اس کے کچھ ہی روز بعد ایک غیرمسلم بڑھیا بہشتی مقبرہ میں آئی اور وہاں موجود احمدی دوستوں سے کہنے لگی کہ تم نیک لوگ ہو اس مقدس مزار پر میرے بیمار داماد کی شفایابی کے لئے دعا کرو۔ احمدیوں نے کہا کہ دعا تو کریں گے لیکن اپنے داماد کو ہمارے ڈاکٹر کو بھی دکھادو۔ چنانچہ اگلے روزہی وہ بڑھیا اپنے مریض کو چارپائی پر ڈلواکر وہاں لے آئی، ڈاکٹر صاحب نے بہشتی مقبرہ کے پاس جاکر مریض کا معائنہ کیا اور دوا بھجوادی۔ چند روز بعد ہی وہ مریض خود ڈاکٹر صاحب کی دوکان پر بعض اور مریضوں کو لے کر آگیا اور اس طرح سے بائیکاٹ عملاً بیکار ہوگیا۔ پھر دن بدن غیرمسلم مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی اور مئی 1948ء میں قریباً ایک سو مریض روزانہ آنے لگے۔
چونکہ ہسپتال میں سامان اور دوائیں دستیاب نہیں تھیں اس لئے صدر انجمن کی ابتدائی گرانٹ کے بعد مزید دواؤں کی خرید کیلئے ذی استطاعت مریضوں سے معمولی فیس لینی شروع کی گئی۔ غرباء کا علاج مفت ہی کیا جاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت دی کہ جلد ہی دوکان کو ہسپتال میں تبدیل کردیا گیا۔ 1948ء میں آؤٹ ڈور مریضوں کی تعداد 31 ہزار سے زیادہ تھی اور 1950ء میں 41 ہزار سے زیادہ۔ 1951ء میں نور ہسپتال میں لیبارٹری کا بھی آغاز کردیا گیا۔ …
جون 1991ء سے نور ہسپتال کو نئی مکمل صورت میں جاری کیا گیا ہے اور اب یہاں لیڈی ڈاکٹر کے علاوہ X-ray، ECG، زچگی وارڈ، آپریشن وغیرہ کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ ہسپتال کی زیر نگرانی علاقے میں متعدد میڈیکل فری کیمپ لگائے جاچکے ہیں… اوریہ ہسپتال پورے علاقے میں فلاحی خدمات کے لئے مشہورہے۔