احمدی اور جینیٹک انجینئرنگ
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عالمی درس القرآن سے ایک حصہ بھی ٹیکنیکل میگزین 1999ء کا حصہ ہے۔
حضور انور نے سورۃ النساء کی آیت 120؍ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس آیت میں اللہ کی مخلوق کو تبدیل کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اُس زمانہ کے مفسرین نے اپنے حالات کے پیش نظر مختلف معانی کئے۔ ایک یہ ہے کہ کان کاٹنا۔ اللہ نے کٹے ہوئے کان والی مخلوق پیدا نہیں کی تھی اس لئے کہا گیا کہ مخلوق کے کان کاٹ کر اس میں تبدیلی نہ کرو لیکن یہ اصل معنی نہیں ہیں بلکہ اس فعل کا آغاز کان کاٹنے سے ہوا جو بڑھتے بڑھتے آج اس فعل پر منتج ہوا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ ایک مطلب اس کا یہ بیان کیا گیا کہ عورت مرد کے مشابہ دکھائی دے یعنی ایسے بال کٹوائے یا بنوائے کہ مرد کے مشابہ لگے۔ پھر ایسی عورتیں جن کے سر کے بال کم ہو جاتے تھے وہ مستعار مانگ کر بال لگاتی تھیں۔ یہ بات صرف اس رنگ میں منع تھی کہ شادی کے لئے دھوکہ نہ ہو۔ یہ بات قولِ سدید کے خلاف ہے۔ مگر علماء نے ہر قسم کے بناؤ سنگھار پر پابندی لگانے کا رجحان اختیار کرلیا۔ آنحضرتﷺ نے احتیاط کا جو رجحان اپنایا وہ اسلئے تھا کہ جب ایسی خوبصورتی پیدا کی جائے تو امکان ہے کہ عورتیں اپنے سر کی خوبصورتی دکھانے کے لئے سر کو ننگا رکھیں گی اور بے پردگی کا رجحان بڑھے گا۔
شیطان نے کہا تھا کہ مَیں انسانوں کو ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں حکم دوں گا کہ وہ خدا کی پیدا کردہ مخلوق میں سے مویشی بتوں کے نام پر الگ کردیں۔ یہ بظاہر معمولی تبدیلی ہے مگر مطلب کے اعتبار سے بہت بڑی تبدیلی ہے۔
شیطان نے کہا کہ پھر دوبارہ مَیں حکم دوں گا اور واقعتا خلقِ خدا میں تبدیلی کردیں گے۔ یہ مضمون اب کھلا ہے۔ چنانچہ انسان کی تخلیق کے خلیوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کا کام کمپیوٹرائزڈ کیا ہوا ہے جس سے تمام اعضائے انسانی بنتے ہیں اور اس میں سائنسدان دخل اندازی کرچکے ہیں چنانچہ اس کے نتیجے میں اور بہت سی تبدیلیاں ہوں گی۔ مثلاً بڑی بڑی سبزیاں اگائی جاسکیں گی۔ یہ خوراک میں تبدیلی تو ہے مگر خوراک کو نہیں بدلتے۔ یہ تبدیلی ناجائز نہیں کہلاسکتی۔ مقصد میں تبدیلی نہیں ہوئی کہ غذائی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ یہ خلق کی مخالفت نہیں بلکہ تائید ہے۔ لیکن ’’خسر خسراناً مبینا‘‘ کا مطلب ہے کہ اس خوراک کو کھانے سے انسان کو اندرونی کمزوریاں اور بیماریاں لاحق ہوجائیں گی۔ بظاہر جو صحت مند وجود عام خوراک سے بنتا ہے وہ ان غذاؤں سے نہیں بنتا۔ سائنس دانوں نے اس کے نقائص پکڑ لئے ہیں۔ جو نئی بیماریاں جانوروں میں پیدا ہو رہی ہیں اور پھر وہ جانوروں کے ذریعے انسانوں میں داخل ہورہی ہیں، ایسے خلق کو انسانی تائید میں استعمال کرنا بھی غلط ہے۔ یہ نکتہ نظر ہے۔ … میرے نزدیک احمدی انجینئرز کے لئے اس مرحلہ پر احتیاط بہتر ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اندرونی طور پر بعض خلیے بیماریوں کا مخفی پیغام اپنے اندر رکھتے ہیں۔ جینیٹک انجینئر کوشش کر رہے ہیں کہ خلیوں کا علاج کرکے ایسا مادہ نکال دیں جو خدا تعالیٰ کے ڈیزائن کے مطابق نہیں ہے۔ یعنی ان خلیوں کو خدا کے ڈیزائن کے مطابق کردیں۔ دمہ کی بیماریاں ہیں یا سفلس وغیرہ اگر تخلیق کے مادہ میں ڈوب کر دور کردیں تو یہ انسان کے مفاد میں ہوگا۔ مجھے اس سے سو فیصد اتفاق ہے۔ احمدی انجینئرز تبدیلیاں نہ کریں بلکہ کی گئی تبدیلیوں کو دور کردیں تو یہ بات پسندیدہ کہلائے گی۔
سائنس دان دو واضح حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک یہ کہتے ہیں کہ یہ خبیث جینیٹک چیز ہے اسے چھوڑ دیا جائے اور بعض کہتے ہیں کہ جو مفید حصہ ہے اسے اپنایا جائے۔ مَیں نے کہا ہے کہ جو مفید حصہ ہے اس کے خلاف کوئی بات نہیں ہوسکتی، اُس کو اپنایا جا سکتا ہے۔