احمدی خواتین کا تعلق باللہ اور عشق رسولؐ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جولائی 2009ء میں احمدی خواتین کے تعلق باللہ اور عشق رسول ﷺ کے حوالہ سے مکرمہ ب۔ بشیر صاحبہ کا مضمون شائع ہوا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مجھ سے خداتعالیٰ باتیں کرتا ہے اور مجھ سے ہی نہیں جوشخص میری اتباع کرے گا اور میرے نقش قدم پر چلے گا اور میری تعلیم کو مانے گا اور میری ہدایت کو قبول کرے گا خداتعالیٰ اس سے بھی باتیں کرے گا… لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہو گا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا اور نابالغ بچے نبوت کریں گے اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے اور یہ سب کچھ مسیح موعود کی روحانیت کا پرتَو ہوگا۔ ‘‘ (ضرورۃالامام۔ روحانی خزائن جلد13 ص475)
٭ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا۔ حضرت اماں جانؓ تہجد اور نماز اشراق کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کرتیں کہ دیکھنے والے دل میں ایک خاص کیفیت محسوس کرتے۔ بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں۔ مَیں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیارا قول کہ ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘ یہی کیفیت حضرت اماں جان کو اپنے آقا سے ورثہ میں ملی تھی۔ یہاں تک کہ چھٹی کے دنوں میں بھی نماز کا وقت باتوں میں ضائع نہیں فرماتی تھیں بلکہ مقررہ اوقات میں تنہا ٹہل کر دعا یا ذکر الٰہی کرتی تھیں۔ دعائوں میں بہت شغف رکھنے والی تھیں۔ آپ کبھی بھی نماز جلدی جلدی ادا نہیں فرماتی تھیں۔ نماز کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی بہت دعائیں کرتی تھیں۔ اپنی اولاد اور ساری جماعت کے لئے جسے وہ اپنی اولاد کی طرح ہی سمجھتی تھیں بڑے درد و سوز کے ساتھ دعا فرماتی تھیں۔ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے آپ کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی۔ اپنی ذاتی دعاؤں میں جو دعا سب سے زیادہ آپ کی زبان مبارک پر آتی وہ یہ مسنون دعا تھی:
’’یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ‘‘۔
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کی یہ تمام عبادت و ریاضت ان مصروفیات کے باوجود تھی جو گھر کے اعلیٰ انتظام اور مہمانداری کے سلسلے میں روز و شب جاری رہتی تھیں۔ ابتدا میں کافی عرصہ تک آپ خود ہی تمام مہمانوں کے لئے جو کبھی کبھار تعداد میں 100بھی ہو جاتے تھے کھانا پکاتی تھیں اور کئی مہمانوں کے مزاج کے مطابق الگ کھانا بھی پکوا لیتیں۔
٭ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی عبادت کا اپنا انداز تھا فرماتی ہیں: ’’میں نے سجدے مخصوص کئے ہوئے ہیں اور اس میں ایک سجدہ تو اس حصۂ جماعت کے لئے بھی مخصوص ہے جس نے کبھی مجھے دعا کے لئے لکھا بھی نہیں تھا‘‘۔ آپ بلاناغہ عشاء کے بعد قرآن مجید کی تلاوت فرماتیں اور رات کو بارہ بجے کے بعد ہی عموماً سوتیں۔ چار سال کی عمر سے ہی تہجد پڑھ رہی تھیں۔ ظاہری شان و شوکت تو اللہ تعالیٰ کی ودیعت تھی۔ لیکن باطنی طہارت و مجاہدات میں آپ کا اپنا عمل دخل تھا۔ آپ نے اپنے نفس کو کچل دیا تھا۔ آپ فرمایاکرتی تھیں کہ ’’میری تو یہ حالت ہے کہ بستر پر کروٹ بدلتی ہوں تو ہر کروٹ پر احباب جماعت کے لئے دعا کرتی ہوں‘‘۔
٭ حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے متعلق اُن کی بیٹی مکرمہ فوزیہ شمیم صاحبہ رقمطراز ہیں: ’’خداتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی۔ ایک دفعہ میں نے کہہ دیا کہ آجکل لوگوں نے رسولؐ خدا کی محبت کو بھی حد سے متجاوز کر دیا ہے۔ یہ سن کر آبدیدہ ہوگئیں اور کہنے لگیں یہ نہ کہو بعض وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی خدا کے برابر لگنے لگتی ہے۔… خدا تعالیٰ کی ذات پر بے انتہا توکل تھا۔ دعائوں پر بیحد یقین تھا۔ صحت کی حالت میں گھنٹوں عبادت میں گزارتیں۔ حضرت مسیح موعودؑ چار سال کی عمر میں آپ کو اپنے مولیٰ کے سپرد کر گئے اور حقیقۃً ساری زندگی اپنے مولا کی گود میں رہیں۔ بسا اوقات کسی چیز کی خواہش کر لیتیں اور وہ غیب سے آ جاتی۔ پھر تحدیث نعمت کے طورپر بار بار اس کا ذکر کرتیںا ور خوش ہوتیں۔ غیراللہ پر بھروسہ کرنے سے سخت نفرت تھی۔‘‘
٭ حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہؓ (والدہ حضرت سیدہ امّ طاہر صاحبہؓ) کے بارہ میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں: آپؓ نے بچپن سے آخرعمر تک اپنی زندگی عبادت الٰہی میں گزاری۔ بچپن اور جوانی میں اپنوں اور دوسروں میں پارسا کے لقب سے مشہور تھیں۔ بیعت کے بعد آپ کی عبادت اور ذکر الٰہی کی کیفیت پانی کی مچھلی کی سی تھی۔ آپؓ دن رات انتھک دعائیں اور ذکر الٰہی کرنے والی اور تقویٰ اور طہارت کا بہترین اسوہ تھیں۔ رات کو بارہ ایک بجے کے بعد آپؓ بیدار ہو جاتیں اور صبح تک عبادت الٰہی میں مشغول رہتیں۔ دن رات کا بڑا حصہ عبادت و ذکر الٰہی میں بسر ہوتا۔ سخت بیماری کی حالت میں بھی آپؓ ایسا ہی کرتیں۔ جب گھر میں کوئی حکم الٰہی کا ذکر کرتا کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر اپنی جان کو تکلیف نہ دو تو فرماتیں: میری جان کو تو اس سے راحت ہوتی ہے۔ آخری مرض تک باجماعت نماز ادا کرتی رہیں۔ کئی کئی گھنٹے کی عبادت سے بھی تھکاوٹ محسوس نہ کرتیں۔ آپ دوسروں کو بتاتیں کہ نماز تو وہ ہوتی ہے جب انسان عرش معلی پر جا کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرے۔ مَیں نماز سے سلام نہیں پھیرتی جب تک میری روح اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ نہیں کرتی اور جب یہ حالت ہوتی ہے تو مَیں اس وقت اسلام اور ساری جماعت احمدیہ کے لئے دعاؤں میں لگ جاتی ہوں۔
آپؓ بیعت سے پہلے بھی صاحب حال تھیں۔ پیغمبروں، اولیاء اور فرشتوں کی زیارت کر چکی تھیں۔ خواب میں دیکھنے سے حضرت صاحب پر ایمان پیدا ہو گیا تھا اور مجھ سے کہا کہ مجھے تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان جانا چاہئے اور سخت بے قراری ظاہر کی کہ ایسے مقبول شخص کی صحبت سے جلدی فائدہ اٹھانا چاہئے، زندگی کا اعتبار نہیں۔ آپؓ کے اصرار پر مَیں تین ماہ کی رخصت لے کر مع اہل و عیال قادیان پہنچا۔ حضرت صاحب کو کمال خوشی ہوئی اور حضورؑ نے اپنے قریب کے مکان میں جگہ دی۔
ایک د فعہ حضرت مسیح موعودؑنے آپؓ سے فرمایا کہ یہ آپ کا گھر ہے آپ کو جو ضرورت ہو بغیر تکلّف مجھے اطلاع دیں۔ آپ کے ساتھ ہمارے تین تعلق ہیں ایک تو آپ ہمارے مرید ہیں، دوسرے آپ سادات سے ہیں تیسرا ایک اور تعلق ہے۔ یہ کہہ کر حضور خاموش ہوگئے۔ والدہ صاحبہ کو اس آخری فقرہ سے حیرانگی سی ہوئی اور ڈاکٹر صاحب سے اس کا ذکر کیا۔ اس وقت ابھی ہمشیرہ مریم بیگم صاحبہ پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کوئی روحانی تعلق ہو گا۔ لیکن حضور کا یہ قول ظاہری معنوں میں بھی ایک لمبے عرصہ کے بعد پورا ہوگیا ہمشیرہ سیدہ مریم بیگم صاحبہ کی ولادت اور پھر ان کے رشتہ کی وجہ سے ۔
٭ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ (امّ طاہر صاحبہؓ) گوناگوں صفات حسنہ سے مالا مال تھیں ہر ایک اعلیٰ خُلق ان میں نمایاں طور پر نظر آتا تھا۔ گویا مجسمۂ حسن خُلق تھیں۔ خوش خُلقی، تقویٰ ، زُہد، مخلوق خدا سے پیار غرض کون سی ایسی خوبی تھی جو اُن کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت نہیں فرمائی تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ زُہد و تقویٰ میں بہت بلند مقام پر فائز تھیں۔ بہت دعا گو، عبادت گزار، قرآن مجید کی عاشق صادق تھیں۔ ظاہری اور باطنی دونوں احترام ملحوظ رکھتیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جاںنثار، حضرت مسیح موعودؑ کی فدائی تھیں۔ تلاوت اور درود شریف سے خاص شغف تھا۔ نماز بہت اہتمام سے ادا فرماتیں۔ تلاوت قرآن کریم اہل زبان کے تلفظ سے کرتیں۔ جب بھی موقعہ ملتا حضرت اقدسؑ کی کتب پڑھتیں۔
مکرمہ کلثوم بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کا بیان ہے کہ حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ نے مجھے بتایا کہ ’’میرا بیٹا طاہر احمد خلیفہ ہوگا‘‘۔ لیکن آپا جان نے یہ بھی مجھے کہا کہ ’’یہ راز کی بات ہے میں آگے کسی سے ذکر نہ کروں۔‘‘ چنانچہ صاحبزادہ صاحب کے خلیفہ منتخب ہونے پر مَیں نے یہ بات حضرت صاحب کی خدمت میں تحریر کی۔
مکرمہ صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ بیگم محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب رقمطراز ہیں: ’’آپاجان بہت عبادت گزار اور تہجد گزار تھیں۔ آپ کی دعائوں میں بہت درد تھا۔ بعد نمازفجر نہایت خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتیں۔ رمضان شریف میں عبادت کا رنگ قابل رشک تھا۔ کئی شب روزہ دار افراد کو اپنے ہاں رکھتیں۔ موسم گرما کی ایک رات ناقابل فراموش ہے ۔ جب آپا جان اور عائشہ پٹھانی اہلیہ مولوی غلام رسول صاحب معمولاً تہجد میں درد بھری دعائیںکر رہی تھیں کہ میں نے دیکھا کہ چندھیا دینے والی روشنی سے ہمارا صحن منور ہو گیا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ یہ لیلۃالقدر کی روشنی ہے۔ میں نے لیٹے لیٹے شور مچاد یا کہ میرے لئے بھی دعا کریں۔ عائشہ پٹھانی نے بعد میں مجھے بتایا کہ یہ روشنی مجھے نظر آئی تھی اور مَیں اس وقت میاں طاہر احمد صاحب کے لئے دعا کر رہی تھی۔ آپا جان کہتی تھیں کہ رشید کے بولنے نے مجھے سب کچھ بھلا دیا اور میں نے اس کے لئے دعا کرنی شروع کر دی۔ میں بھی یہ روشنی دیکھ رہی تھی جو چند سیکنڈ رہی اور مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ جب تم نے یہ نظارہ دیکھا تھا تو تم نے خود اٹھ کر دعا کیوں نہ کی…۔ آپا جان کی قبولیت دعا کے بہت سے واقعات ہیں۔ مثلاً ایک خاتون دعا کے لئے کہنے بالعموم روز آتی۔ اس کی شادی پر بارہ سال گزر چکے تھے اور وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھی اور وہ اپنے اس یقین کا اظہار کرتی کہ ’’آپ دعا کریں تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا۔ آپ دعا کرنے کا وعدہ کریں‘‘۔ آپ نے وعدہ کر لیا آپ خود بھی دعا کرتیں اور عموماً روزانہ حضورؓ سے بھی کہتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹی عطا کی۔
٭ حضرت حسین بی بی صاحبہؓ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی والدہ تھیں۔ انہوںنے عبادات اور زہد و تقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور رؤیاو کشوف کی نعمت سے سرفراز ہوئیں۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے قبول احمدیت سے قبل آپ کو رؤیا میں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کروائی اور آپ کی قبول احمدیت کی طرف راہنمائی فرمائی چنانچہ آپؓ نے اپنے خاوند سے پہلے ایمان لانے کی توفیق پائی۔
حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خانصاحبؓ لکھتے ہیں: ’’مجھے خوب یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں جب بھی طاعون کا دورہ شروع ہوتا تو والدہ صاحبہ کو قبل از وقت خواب کے ذریعہ اس کی اطلاع دی جاتی اور وہ اُسی وقت سے دعاؤں میں لگ جاتیں اور پھر افاقہ کی صورت ہوتی تو بھی خواب کے ذریعہ انہیں اطلاع دی جاتی۔ اسی طرح ہمارے متعلقین میں خوشی اور غم کے مواقع پر انہیں قبل از وقت خبر دی جاتی۔ سلسلہ کے اور بعض اوقات دنیا کے بڑے بڑے واقعات سے بھی انہیں اطلاع دی جاتی۔ باوا جھنڈا سنگھ صاحب ریٹائرڈ سینئر جج نے میرے پاس بیان کیا کہ جب 1936ء کی گرمیوں میں مَیں شملہ میں ٹھہرا ہوا تھا تو ایک دن تمہاری والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ قصور میں ہیضہ کی خبر ملنے پر مجھے بہت تشویش تھی اور مَیں بہت دعا کر رہی تھی۔ رات مجھے خواب میں بتایا گیا کہ ایک ہفتہ کے بعد قصور میں ہیضہ کی وارداتیں بند ہو جائیں گی۔ باوا صاحب فرماتے تھے مَیں اخباروں میں دیکھتا رہا اور پورے ایک ہفتہ کے بعد قصور میں ہیضہ کی وارداتیں بند ہوگئیں۔
ان کے خواب روز روشن کی طرح واضح ہوتے تھے جو من و عن پورے بھی ہو جاتے۔ انہوں نے خواب میں اپنے میاں حضرت چوہدری نصراللہ خانصاحبؓ کو فرماتے ہوئے دیکھا کہ ’’میاں مجھے تو جمعہ کے دن چھٹی ہو گی‘‘۔ اس پر والدہ صاحبہ نے مجھ سے فرمایا کہ چھٹی کے لفظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جمعہ کا دن شروع ہوتے ہی رخصت ہوجائیں گے اس لئے ڈاکٹر خواہ کچھ کہیں تم ابھی سے انتظام کر لو اور جمعرات کی شام تک تمام تیاری مکمل کر لو تاکہ ان کے رخصت ہوتے ہی ہم انہیں قادیان لے چلیں … اپنے بہن بھائیوں کو اطلاع کر دو۔ والد کے کفن کی چادریں منگوا لو۔ صندوق بھی جمعرات کی شام تک تیار کرنے کی تاکید کر دو۔ موٹریں کرایہ پر لے لو اور انہیں ہدایت دیدو کہ نصف شب کے بعد آجائیں۔ میں نے اُن کی ہدایت کے مطابق سب انتظام کردیا۔
اُن کا اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق تھا اور’’اِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘ کی آوازیں ان کے کان میں آتی تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جو عبارت مرحومہ کے کتبے پر لکھے جانے کا ارشاد فرمایا وہ اعلیٰ درجہ کا تحسین ہے۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 12ستمبر 1992ء کو جلسہ سالانہ جرمنی (مستورات) کے موقعہ پر احمدی خواتین کے تعلق باللہ کے متعلق فرمایا: ’’احمدی خواتین میں بڑی بڑی اولیاء اللہ پیدا ہوئی ہیں۔ بعض ایسی ہیں جن کو خداتعالیٰ الہامات سے نوازتا رہا ہے۔ کشوف عطا فرماتا ہے۔ سچے رؤیا دکھاتا ہے۔ مصیبت کے وقت ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور قبولیت سے متعلق پہلے سے اطلاع دی کہ یہ واقعہ اس طرح ہو گا اور اسی طرح ہوا۔ یہ وہ آخری منزل ہے جس کی طرف ہر احمدی خاتون کو لے کر ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ تعلق باللہ کے سوا مذہب کی اَور کوئی جان نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادت بھی اللہ سے محبت اور تعلق پیدا کرنے کے لئے کی جاتی ہے‘‘۔
تعلق باللہ کے اِس مضمون کو حضورؒ نے 31؍جولائی 1993ء کو جلسہ سالانہ برطانیہ میں خواتین سے خطاب کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اپنے بندوں پر فرشتوں کا نزول کریں گے اور ابتلاؤں کے زمانہ میں استقامت اختیار کرنے کے نتیجہ میں یہ پھل زیادہ عطا کیا جائے گا۔ نزولِ ملائک کی علامات جماعت احمدیہ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اور صحابہ کے واقعات کثرت سے جماعت کے لٹریچر میں موجود ہیں۔ یہ واقعات محض ماضی کا اور تاریخ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ آج خواتین کے خطاب میں، مَیں صرف خواتین کے تعلق باللہ کے واقعات سناؤں گا۔…‘‘
حضورؒ نے سب سے پہلے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے بعض واقعات سنائے اور ان میں سے کئی تو وہ تھے جن میں آپ نے نہایت کم سنی کی عمر میں تعلق باللہ کا تجربہ حاصل کیا مثلاً ’’حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کا وقت قریب ہے اور حضرت مولانا نورالدین جماعت کے پہلے خلیفہ ہوں گے‘‘۔
اس کے بعد حضورؒ نے بعض بزرگ صحابیات کے رؤیا بیان فرمائے۔ مثلاً اہلیہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی نے اُس زمانہ میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ گھوڑے سے گرگئے تھے اور سخت چوٹیں آئی تھیں اور بظاہر زندگی کی امید نہ تھی۔ رؤیا میں دیکھا کہ وہ سخت گھبراہٹ کے عالم میں بے چین ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ ظاہر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تین دن بعد یہ واقعہ ہو گا۔ اس سے ان کو گھبراہٹ ہوئی کہ شاید حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی زندگی تین دن باقی رہ گئی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو شفا دی اور تین سال کے بعد آپؓ کی وفات ہوئی۔ اس طرح تین دن سے مراد تین سال تھی۔
محترمہ زرینہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد افضل صاحب آف اوچ شریف نے دیکھا کہ جلسہ سالانہ پر ربوہ گئی ہوں۔ جلسہ گاہ اتنی بھر گئی ہے کہ لوگ دکانوں اور چھتوں پر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی زیارت کر لوں۔ وہ حضورؓ کے پاس گئیں اور عرض کیا، حضور جلسہ سے خطاب فرمائیں تو حضورؓ نے فرمایا: ’’اب میرا حق نہیں ناصر کا حق ہے‘‘۔
مکرم صوبیدار بدرعالم اعوان صاحب کی بیٹی نے 1974ء میں خواب دیکھا کہ کسی بڑی دعوت کا انتظام ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اور آپ کی حرم محترمہ حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ تشریف لاتے ہیں۔ حضورؒ فرماتے ہیں کہ آج تو ہم آپ کے بلانے پر آئے ہیں مگر پھر شاید نہ آ سکیں۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ نہ ہوں گے تو کون ہوگا؟ فرمایا ’’طاہر‘‘۔ سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے فرمایامیں پہلے سے ہی اس جہاں میں نہ رہوں گی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ اس خواب میں صرف ایک بات بیان نہیں کی گئی بلکہ اس کو یقین کے مرتبہ تک پہنچانے کے لئے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات کا بھی ذکر ہے۔
مکرمہ نعیمہ بیگم صاحبہ نے 1982ء میں خط لکھا کہ ’’چار سال قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ شہر سرگودھا میں احمدیوں کے خلاف جھگڑا ہوا۔ میں کہتی ہوں (خواب میں) ’’میاں طاہر کہاں ہیں؟‘‘ کسی دوسرے نے کہا وہ سیالکوٹ میں ہیں۔ یہاں ہوتے تو جماعت کی خاطر جان لڑا دیتے۔ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے بعد امام بننا ہے‘‘۔ حضورؒ نے فرمایا یہ امر واقعہ ہے کہ میں ان دنوں میں ربوہ میں نہیں تھا بلکہ باہر گیا ہوا تھا۔‘‘
محترمہ امتہ النصیر صاحبہ آف کراچی لکھتی ہیں کہ عاجزہ نے 17سال پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات سے چند سال قبل حضرت امّ ناصر صاحبہ کو خواب میں دیکھا کہ بہت بڑا کمرہ خوبصورت اور روشن ہے۔ آپؓ فرماتی ہیں آج ناصر دولہا بنا ہے پھر (حضرت مرزا طاہر احمدصاحب کی طرف اشارہ کرکے فرماتی ہیں 🙂 اس کے بعد ان کی باری ہے۔‘‘
محترمہ امۃالرشید صاحبہ آف ربوہ نے قریباً 1940ء میں خواب دیکھا تھا جس میں ہاتفِ غیبی انہیں بتاتا ہے کہ ’’خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد ہوں گے‘‘۔ انہوں نے یہ خواب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھجوایا تو حضورؓ کا یہ جواب آیا کہ: ’’امام جماعت کی موجودگی میں ایسے رؤیا و کشوف صیغۂ راز میں رہنے چاہئیں۔‘‘
حضورؒ نے ایک خاتون کا یہ خواب بھی بیان فرمایا کہ ’’حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ بن گئے ہیں اور ایک لڑکا آتا ہے اور پیچھے آکر سر پر پگڑی رکھ دیتا ہے‘‘۔ حضورؒ نے فرمایا کہ بالکل ایسے ہی ہوا عزیزم میاں لقمان احمد صاحب آئے اور میری ٹوپی اتار کر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی پگڑی میرے سر پر رکھ دی۔
شیخ عبدالرحمن صاحب قانون گو کپورتھلہ کی اہلیہ محترمہ نے 1936ء میں تحریر فرمایا کہ میں درد شقیقہ سے شدید بیمار رہتی تھی مجھے آپا جان حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ خواب میں دکھائی دیں۔ ان سے میں نے اپنی تکلیف بیان کی ۔ آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھا کرو:
رَبِّ کُلِّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ…
وہ بتاتی ہیں کہ خواب ہی میں نے یہ دعا پڑھنی شروع کردی اور صبح تک میری تکلیف کا نام و نشان تک نہ تھا۔
حضورؒ نے متعدد خواتین کے خواب سنائے جن میں قبل از وقت خبریں دی گئی تھیں۔ نیز فرمایا کہ جب میں شروع میں انگلستان آیا تو مجھے کئی فکریں تھیں۔ تاہم مَیں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جماعت سے میں نے کوئی گزارہ نہیں لینا۔ جس روز مَیں نے اپنے دل میں فیصلہ کیا اُس رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ’’تم سے نورالدین کا سا سلوک کیا جائے گا‘‘۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ سے اللہ تعالیٰ کا ایک خاص سلوک تھا کہ بغیر مانگے اور طلب کئے عین ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ ان کی ہر ضرورت پوری فرما دیا کر تا تھا۔ دوسرے یا تیسرے دن (حضورؒ کی حرم محترم) آصفہ بیگم صاحبہ نے خواب دیکھا اور بڑا مسکرا کر مجھے اپنا خواب سنایا کہ مسجد اقصیٰ میں حضرت مہر آپا صاحبہ مٹھائی تقسیم کر رہی ہیں اور بتاتی ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو بتایا ہے کہ ’’میں تجھے نورالدین بنا رہا ہوں‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خطاب کے آخر میں فرمایا: ’’احمدیت کو ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے اس کے لئے ہمیں بہت زادراہ کی ضرورت ہے اور سب سے اچھا زادراہ تقویٰ ہے۔ اپنے تقویٰ کی حفاظت کریں …۔ اصل زندگی وہ ہے جس میں خدا کی طرف سے ہم کلام ہونے والے فرشتے نازل ہوں اور وہ کہیں کہ کوئی غم اور فکر نہ کرو۔ یہ خدا کی طرف سے مہمانی ہے۔ ہم اس دنیا میں بھی ساتھ ہیں اس دنیا میں بھی ساتھ ہوں گے۔ ہم نے اتنا متقی بننا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو رؤیا و کشوف کثرت سے ہوں۔ ہم اللہ سے ہم کلامی پائیں اور خداکے قرب کے نظارے دیکھیں۔ ایک ایسی احمدی نسل اگر آج پیدا ہوجائے تو آنے والے 100سا ل کی حفاظت کی ضمانت حاصل ہو جائے گی۔ … نسلاً بعد نسلٍ تعلق باللہ کی حفاظت کریں۔ یہ مذہب کی جان ہے۔‘‘