احمدی خواتین کی شجاعت
حضرت سیدہ امّ طاہررضی اللہ عنہا کے بارہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:-
’’جب کوئی نازک موقع آتا میں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کرسکتا تھا ان کی نسوانی کمزوری اس وقت دب جاتی چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں‘‘۔
یہ صفات کسی نہ کسی حد تک سب احمدی خواتین کا طرّہ امتیاز ہیں جنہوں نے نہ صرف جسور اور غیور نسلیں پیدا کی ہیں بلکہ احمدی مردوں کے شانہ بشانہ عظیم خدمات بھی انجام دیں۔ چنانچہ تحریک شدھی ہو یا حفاظت مرکز یا دین کے دفاع کی ضرورت، ان خواتین کے کارنامے تاریخ میں نمایاں ہیں۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31؍دسمبر 1996ء میں شامل اشاعت محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ کے مضمون میں ایسے کئی واقعات شامل ہیں جب احمدی خواتین پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے حتیٰ کہ انہوں نے جانیں قربان کردیں۔
ایسا وقت بھی آیا جب ظالموں کے خوف سے اگر مردوں نے ایمانی کمزوری دکھائی تو ان کی عورتوں نے احمدیت کی خاطر اپنے مردوں سے لا تعلقی کا اظہار کردیا۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ مردوں نے بھی عورتوں کی ایمانی جرأت دیکھ کر ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ برطانیہ وجرمنی 1996ء کے مواقع پر ایسی احمدی خواتین کے صبروثبات، استقامت اور شجاعت متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد فرمایا تھا:-
’’ان واقعات کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے، ہماری ذمہ داری ہے، ہماراقرض ہے‘‘۔