احیائے موتٰی کا حیرت انگیز نشان
کچھ سال پہلے ہالینڈ کے جلسہ سالانہ میں محترم چودھری ریاض احمد صاحب (شہیدِ شب قدر) کے خسر محترم ڈاکٹر عبدالرشید خان صاحب نے واقعہ شب قدر کے حوالے سے کچھ واقعات بیان کئے تھے جو واقعات ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا؍ اگست 1998ء میں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کا حوالہ دیئے بغیر منقول ہیں-
محترم خانصاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میرا ایک زیر تبلیغ دوست دولت خان میرے پاس آیا اور ربوہ جانے کی خواہش ظاہر کی- میں اُسے ربوہ لے گیا جہاں دارالضیافت میں تین دن قیام کیا لیکن اِس عرصہ میں اُس نے احمدیت کے بارہ میں کوئی بات نہیں کی بلکہ آخری دن صرف یہ کہا کہ وہ بیعت کرنا چاہتا ہے- میں نے کہا بیعت کرنا آپ کا حق ہے لیکن اس کے بعد یہ یہ ابتلاء آسکتے ہیں اسلئے اچھی طرح سوچ لیں- اُس نے بتایا کہ اُس کے ماما فضل ربی نے (جو جامعہ دارالعلوم کا پرنسپل ہے) خطبہ جمعہ میں کہا تھا کہ قادیانی جب بنتے ہیں تو انہیں قرآن شریف پر نہلایا جاتا ہے اور قرآن شریف پر سے گزر کر وہ قادیانی بنتے ہیں- لیکن جب وہ ربوہ پہنچا تو اُس نے آنحضورﷺ کی مدح میں اور قرآن شریف کی تعظیم میں جو اقتباسات پڑھے اُس نے اُسے قبول احمدیت پر مجبور کردیا- چنانچہ جلد ہی اُس نے باقاعدہ بیعت کرلی اور پھر اُسے دعوت الی اللہ کا جنون ہوگیا- اُس کا مطالعہ اتنا گہرا تھا کہ کوئی ملاّں اُس کے سامنے بات نہیں کر سکتا تھا- جب مقامی ملاّں عاجز آگئے تو باہر سے مولوی منگوائے گئے اور وہاں ساڑھے تین سو آدمی جمع ہوگئے- وہاں ایک بڑے پیر صاحب نے ہماری بات سُن کر کہا کہ اگر یہ احمدیت ہے تو میں بھی احمدی ہوں- اِس کے بعد پورے علاقہ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ یہاں اب احمدیت پھیل جائے گی اور مولویوں نے وہاں کے ایک بااثر آدمی افتخار خان کو خط لکھا اور مجھ پر کفر کا فتویٰ لگایا کہ میری وجہ سے احمدیت وہاں پھیل رہی ہے اور مَیں اور دولت خان واجب القتل ہیں-
جب مجھے پتہ چلا تو میں رات ساڑھے گیارہ بجے افتخار کے پاس گیا، وہاں اور مولوی بھی جمع تھے- رات دو بجے تک اُسے احمدیت کے بارے میں بتاتا رہا پھر سکوٹر پر پشاور آگیا- مَیں نے اُسے کہا تھا کہ سارا خرچہ ہم دیں گے آپ اپنے مولویوں کو بلائیں اور بحث کروائیں- جب دشمنوں نے دیکھا کہ ہم کسی طرح ڈرتے نہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ بحث کے لئے تیار ہیں لیکن شرائط میں یہ شرط بھی ہوگی کہ جو فریق ہار گیا اُسے قتل کر دیا جائے گا- اس شرط کا مقصد یہ تھا کہ ہم خوف سے بحث کی طرف آنے سے انکار کردیں لیکن ہم نے یہ شرط مان لی اور کہا کہ تم بے شک ہمیں قتل کر دینا لیکن اگر تم لوگ ہار گئے تو ہم تمہیں قتل نہیں کریں گے بلکہ تم صرف مسجد میں جاکر اپنے احمدی ہونے کا اعلان کردینا- اور اِس ثبوت کے لئے کہ کون ہارا اور جیتا ہے یہ طریقہ ہم نے پیش کیا کہ ساری بحث ریکارڈ کرلی جائے گی تاکہ اگر احمدی قتل کئے جائیں تو وہ ریکارڈ حکومت کو پیش کردیا جائے تاکہ کسی پر الزام نہ آئے- پہلے مولویوں نے یہ بات مان لی لیکن پھر مولویوں کو ہوش آئی کہ وہ تو ہمارے عام آدمی کے ساتھ بھی بحث نہیں کرسکتے اور اگر کوئی احمدی عالم آگیا تو وہ اُن کا کیا حشر کرے گا- … آخر انہوں نے شرط لگائی کہ مَیں بحث کی جگہ پر نہیں جاؤں گا- اُن کا خیال تھا کہ یہ ڈرتا نہیں اس لئے اگر یہ نہیں آئے گا تو کوئی بھی نہیں آئے گا- لیکن مَیں نے یہ شرط بھی مان لی اور کہا کہ میں وہاں نہیں آؤں گا لیکن وہیں کہیں موجود رہوں گا- چنانچہ جب ہم وہاں پہنچ گئے تو قریباً ایک گھنٹہ پہلے وہاں کی تقریباً دس مسجدوں میں ملاّؤں نے اعلان کروادیا تھا کہ مفتی محمود نے اِن لوگوں کو کافر بنایا ہے اس لئے ہم اِن سے بات نہیں کریں گے-
ہم وہاں پہنچے تو وہاں آٹھ دس گاؤں جمع تھے- رات ساڑھے بارہ بج گئے تو میری درخواست پر ایک بزرگ احمدی حاجی بختیار احمد نے احمدیت کے بارے میں ایک مضمون مجمع کو پڑھ کر سنایا اور تین گھنٹے کا یہ مضمون ریکارڈ کرلیا گیا- پھر مَیں پشاور آگیا اور دولت خان کو پولیس نے تحفظ دینے کے نام پر گرفتار کرلیا – چنانچہ مَیں شب قدر گیا- کچہری میں اشتہار لگے تھے کہ قادیانی واجب القتل ہیں- مجسٹریٹ نے کہا دو دن کے لئے عدالت میں چھٹی ہے اسلئے ہم دو دن بعد نو تاریخ کو آئیں-
پہلے ہم ایک احمدی دوست کی کار میں کچہری جایا کرتے تھے لیکن نو تاریخ کو ہم نے ایک ٹیکسی کروالی اور جب کچہری کی طرف چلے تو دیکھا کہ راستہ میں ہزاروں لوگ جمع ہیں جنہیں سوات، دیر اور بڑی دور دور سے منگوایا گیا تھا- وہ اُس گاڑی کو تلاش کر رہے تھے جس میں ہم وہاں جایا کرتے تھے لیکن اُنہیں ٹیکسی کا خیال نہیں آیا- ہم کچہری کے احاطے میں پہنچے تو وہاں بھی کئی ٹولیاں کھڑی تھیں- ابھی دس پندرہ منٹ گزرے تھے کہ دولت خان کا بھائی آیا اور اُس نے آتے ہی مجھے تھپڑ مارا اور گریبان سے پکڑ کر کئی لوگ مجھے گھسیٹتے ہوئے مجمع میں لے گئے اور اپنی طرف سے انہوں نے مجھے جان سے مار دیا- اُس وقت اگرچہ میرا جسم بے حس تھا لیکن میرا دماغ پوری طرح کام کر رہا تھا اور میں اُن کی تمام باتیں سُن رہا تھا- پھر انہوں نے میرے داماد ریاض شہید کو پکڑا اور کچہری کی طرف لے گئے اور مجھے بعد میں عینی شاہدوں نے بتایا کہ ریاض کو شہید کرکے اُس کی لاش کو مسخ کیا گیا اور اُس کے گلے میں رسّی ڈال کر ایک ریڑھے سے باندھ کر بازاروں میں گھسیٹا گیا اور اُس کی آنکھیں نکالی گئیں- اُس کے جسم کا سارا گوشت اتر گیا تھا- چند دن پہلے ہی اُس نے اپنی اہلیہ کو رات کو اٹھا کرکہا تھا کہ میں تم سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں، تم نے بچوں کا خیال رکھنا ہے اور رونا پیٹنا نہیں اور میرے جسم پر گوشت نہیں ہوگا-
جب مخالفین کو اطمینان ہوگیا کہ دونوں مرگئے ہیں تو وہ خوشی کا اظہار کرنے لگے- میرے جسم کو ایک پِک اَپ میں پھینک کر چارسدہ ہسپتال بھجوادیا- ہسپتال میں میرے مُردہ جسم کی تلاشی لی گئی- میرے پاس وکیل وغیرہ کو دینے کے لئے دس پندرہ ہزار روپیہ تھا- میں نے ڈاکٹر کو کہا کہ تُم مجھ سے پیسے لو اور اسی سوزوکی پِک اَپ میں مجھے پشاور ریفر کردو- اُس نے ساڑھے تین چار ہزار روپیہ لیا باقی پولیس والوں نے لے لیے اور مجھے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے آئے جہاں احمدی ڈاکٹر بھی تھے- میری پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور دونوں ہاتھ فریکچر تھے- ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ میں چند منٹ کا مہمان ہوں- مجھے ہسپتال میں بھی بیڑیاں لگی ہوئی تھیں- احمدی ڈاکٹر نے ایس ایس پی کو فون کیا کہ کیا اِس پر کوئی چارج ہے تو اُس نے کہا کہ نہیں ، یہ صرف تحفظ کے لئے لگائی ہوئی ہیں- جب انہوں نے بیڑیاں کھولیں تو میں گھر منتقل ہوگیا جو اسپتال سے دو تین سو گز کے فاصلہ پر تھا- صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب حضور انور کی نمائندگی میں وہاں آئے اور اُن کی دعوت پر میں ربوہ آگیا-
دارالضیافت ربوہ میں میری رپورٹ کا سُن کر کہ یہ محض چند گھنٹوں کا مہمان ہے، وہاں آکسیجن، ایمبولینس اور ڈاکٹر موجود تھے- جب میں وہاں پہنچا تو میں نے کہا کہ میں ہسپتال پیدل جاؤں گا- اور جب وہ مجھے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں لے جانے لگے تو میں نے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بالکل ٹھیک ہوں اور آپ حضور کو بھی فیکس کردیں تاکہ حضور کو تکلیف نہ ہو- پھر صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب کو میں نے اپنا جسم دکھایا جو چھلنی ہوچکا تھا تو وہ کہنے لگے کہ یہ انسانی طاقت سے بعید ہے، ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم آپ کو کیا دیں، کیا نہ دیں- میں نے کہا صرف چلنے پھرنے کی اجازت دیدیں- اگلے روز وہ اپنے گھر سے ایک چمچ اور ایک شہد کی بوتل لے کر آئے اور چمچ سے شہد نکال کر پیالی میں حل کرکے مجھے دیا اور جب میں نے پی لیا تو بتایا کہ یہ وہ چمچ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے صحابہ کو استعمال کراتے تھے اور یہ وہ شہد ہے جو حضرت ام المومنین ؓ نے حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو دیا تھا جو ویسے ہی محفوظ پڑا تھا- دونوں پہلے کبھی استعمال میں نہیں آئے اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ آپ سے زیادہ مستحق اور کوئی نہیں ہوسکتا-
میرے زخمی ہونے کے بعد مجھے نہ چارسدہ میں کوئی دوا دی گئی نہ ربوہ میں اور یہاں ہالینڈ میں ڈاکٹر حیران ہیں کہ اس کی چار پانچ پسلیاں، دونوں ہاتھ اور گھٹنا فریکچر ہیںتو یہ چلتا پھرتا کیسے ہے- میں کہتا ہوں یہ مسیح موعودؑ کا معجزہ ہے کہ وہ آکر مُردوں کو زندہ کرے گا- یہ مسیح موعودؑ کی زندہ نشانی ہے-