اختتامی خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ برموقع جلسہ سالانہ قادیان 2009ء
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد تقویٰ پر چلتے ہوئے احمدیوں نے
خلافت احمدیہ کے ساتھ جڑے رہنے کا عہد کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ
کے ساتھ اپنی تائید ونصرت کے وعدے کے مطابق جماعت کی وسعت کو
اسی طرح جاری رکھا، جماعت کی مضبوطی اور استحکام کے نئے سے نئے باب کھلتے چلے گئے اور آج تک کھل رہے ہیں اور خدا کے فضل سے آئندہ بھی کھلتے چلے جائیں گے
جب تک کامل اطاعت کے نظارے نظر آتے رہیں گے ان برکات سے فیض پاتے چلے جائیں گے
جن کو ا س زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کے لئے مقدر کیاہے ۔
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
الحمدللہ آج قادیان کا جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا جو کام اس بستی کے اس شخص کے سپرد کیا گیا تھا جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں فنا تھا، جس نے
اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں پھیلانے ، دنیا سے شرک ختم کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانے کے لئے اپنی تمام تر طاقتیں خرچ کر دیں۔ وہ دعائوں کے ذریعے عرش کو ہلا دینے کے ساتھ ساتھ ظاہری اور دنیاوی تدبیریں بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بروئے کار لایا اور اس تبلیغ کا حق بھی ادا کر دیا جس کا آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ یٰٓاَ یُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِک (المائدۃ:68)اے رسول Oدنیا کی راہنمائی کے لئے، دنیا کو خدائے واحد کا راستہ دکھانے کے لئے، انسانوں کو اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے جو پیغام تجھ پر خداتعالیٰ نے اتارا ہے اس کو کھول کر دنیا تک پہنچا دے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس خاتم الانبیاء اور افضل الرسل نے اس پیغام کے پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔ اپنی قوت قدسی سے ایسے جاں نثار بھی پیدا کئے جنہوں نے پھر وہ معیار حاصل کئے کہ جنہیں دیکھ کر انسان حیران و ششدر رہ جاتا ہے۔ وہ مٹی کے ڈھیر سونے کے پہاڑ بن گئے۔ بداخلاقیوں اور گناہوں میں ڈوبے ہوئے تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے لگے۔ ذرا ذرا سی بات پر تلواریں نکالنے والے تکبر سے پُر سرعاجزی اور انکساری اور قربانیوں کی مثال بن گئے اور پھر جس کام کو لے کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں مبعوث ہوئے تھے اس کی سرانجام دہی کے لئے اپنی جان، مال، و قت اور عزت کو قربان کر دیا اور کرتے چلے گئے اور کئی صدیاں یہی صورت حال رہی جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور جب اندھیری راتوں کے بعد سِرَاجًا مُّنِیْرًا کی روشنی سے منور کرکے آپ کے غلام صادق کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھیجا، جو اس چھوٹی سی بستی قادیان کا رہنے والا تھا جس کی دنیا کے نقشے پر کوئی حیثیت نہیں تھی، جہاں آنے جانے کے لئے ذرائع نقل و حمل نہیں تھے تو جیسا کہ میں نے کہا اس غلام صادق نے پھر اس تبلیغ کا حق ادا کر دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لئے مبعوث فرمایا تو ساتھ ہی یہ تسلی بھی دی کہ یہ کام جو تیرے سپرد کیا گیا ہے اس سے پریشان مت ہو۔ کوئی ضرورت نہیں پریشانی کی۔ اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِبْنَ رَسُولِ اللّٰہِ۔مَیں تیرے ساتھ ہوںاے رسول اللہ کے بیٹے۔
(تذکرہ صفحہ 400 ایڈیشن چہارم 2004ء)
پھر آپ کو الہام ہوا کہ اِنِّی مَعَکَ حَیْثُ مَا کُنْتَ وَ اِنِّیْ نَاصِرُکَ وَ اِنِّی بُدُّکَ اللَّا زِمُ وَعَضُدُکَ الْاَ قْوٰی ۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 383)
توُ جہاں بھی ہو مَیں تیرے ساتھ ہوں مَیں تیری مدد کروں گا مَیں ہمیشہ کے لئے تیرا چارہ اور سہارا اور تیرا نہایت قوی بازو ہوں۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ مجھے حکم ہوا کہ اَن ْاَدْعُوَ الْخَلْقَ اِلَی الْفُرْقَانِ وَدِیْنِ خَیْرِ الْوَرٰی ۔مَیں لوگوں کو قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی طرف دعوت دوں۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 383)
پس اللہ تعالیٰ نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو قادیان کی چھوٹی سی بستی میں مبعوث فرما کر قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی طرف بلانے کا کام سپرد کیا، اس تبلیغ کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی جس کا حکم دے کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا گیا تھا تو ساتھ ہی اس فکر کو دور کرنے کے لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اتنے عظیم کام کی سرانجام دہی کی ذمہ داری کا سن کر پریشان نہ ہو جائیں یہ تسلّی بھی کروا دی کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ توُ جہاں بھی ہو گا مَیں تیری مدد کروں گا۔ اس لئے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ بے فکر ہو کر اس کام کے سرانجام دینے کے لئے کمر بستہ ہو جا اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس جری اللہ نے اسلام کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ تبلیغ کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مخلصین اور متقین کی ایک جماعت اپنے صحابہ میں قائم فرما دی کہ وہ بھی اپنی زندگیوں میں عظیم الشان پاک تبدیلیاں لا کر اس پیغام کو آگے پہنچانے والے بن گئے۔ عبادتوں کے معیار قائم کئے۔ اعلیٰ اخلاق کے معیار قائم کئے۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے کے معیار قائم کئے۔ محبت اور پیار اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے چلے گئے۔ تبلیغ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں اور یہ جاگ ایک سے دوسرے کو لگتی چلی گئی۔ یہ نیکیوں کے کام آگے بڑھتے چلے گئے اور صرف اپنے قریبی ماحول کی اصلاح اور قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ برصغیر ہندو پاک کی حدود سے نکل کر بلکہ ایشیا کی حدود سے بھی نکل کر یورپ اور امریکہ میں بھی یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کے لئے منصوبہ بندی کرنے لگے اور کوششیں بھی کیں اور پہنچے بھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں اپنوں کی تربیت کے لئے تقویٰ میں بڑھنے اور اعلیٰ اخلاق سیکھنے کے لئے جلسوں میں توجہ دلائی ہے۔ جلسوں کے انعقاد کے لئے بہت بڑا مقصد یہی تھا۔ وہاں اس جلسے کی غرض بیان کرتے ہوئے یہ بات بھی بیان فرمائی کہ ’’جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات۔ جلد اوّل صفحہ 281 جدید ایڈیشن ۔مطبوعہ ربوہ)
پس اس چھوٹی سی بستی جو آج بھی ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں ابھی تک ریل بھی نہیں ہے اب ریل لانے کے لئے وہاں کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے کسی زمانے میں آئی تھی وہ ختم ہو گئی۔ اس کے رہنے والے عاشق صادق نے جو اللہ اور رسول کے عشق میں فنا تھے جس کے سپرد اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کا کام کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے تسلی کے الفاظ کے بعد پوری طرح تسلی میں تھا کہ اس کام نے تو اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہونا ہی ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اس لئے قطع نظر اس کے کہ وسائل ہیںیا نہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ریل اور سڑک کا انتظام ہے یا نہیں۔ قطع نظر اس کے کہ پیغام پہنچانے کے لئے مال و زر کی فراوانی ہے یا نہیں اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ پہلے سالانہ جلسہ میں صرف 75 افراد شامل ہوئے تھے اور ایسے کاموں کی سرانجام دہی کے لئے افرادی قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لوگوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس بات کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی اور فرمایا کہ ہم نے اس جلسے میںیورپ اور امریکہ میں پیغام حق پہنچانے کے لئے منصوبہ بندی بھی کرنی ہے۔ کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جو اس عظیم الشان نبی کے ماننے والے ہیں جو محسن انسانیت ہے جس کے دل میں خدا کی مخلوق کے لئے ہمدردی اور تڑپ تھی جس نے اپنی جان کو اس کام کے لئے ہلکان کر لیا تھا۔ جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتا تھا۔ جو اپنی سجدہ گاہوں کو اس لئے تر کرتا تھا کہ تمام دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدائے واحد کی پہچان کرتے ہوئے اس کے آگے جھکنے والی اور اس کا حقیقی عبد بن جائے۔
پس اگر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہے تو اپنے اندرپاک تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ یورپ، امریکہ، ایشیا ، افریقہ، آسٹریلیا اور جزائر کے رہنے والے سب انسانوں سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوئے انہیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانا ہے۔ انسانیت سے ہمدردی کے خالص جذبے کے تحت انہیں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی قرآنی تعلیم سے آگاہ کرنا ہے۔ انہیں اپنے پیدا کرنے والے اور رب العالمین اور اِلٰہِ النَّاس خدا کے سامنے جھکنے کی طرف توجہ دلانی ہے۔ مذہب کے نام پر نفرتوںکی خود ساختہ دیواریں گرا کر دنیا کے ہر انسان سے خالص ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوئے اُسے محبت و پیار اور بھائی چارے کی قرآنی تعلیم کے اسلوب سکھانے ہیں۔ پس اس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے صحابہ نے کوشش کی جیسا کہ مَیں نے کہا یورپ اور امریکہ تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہی آپ کا پیغام پہنچ گیا تھا۔آپ کے صحابہ پہنچے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے یہ کام بھی ان جاں نثاروں نے جو اس زمانے کے امام اور مسیح دوراں کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے اس قوت قدسی کی وجہ سے کیاجو آقا کی کامل غلامی اور عشق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس غلام صادق کو بھی عطا فرمائی تھی ۔ اور پھر اس قوت قدسی کے چشمہ رواں نے اپنے صحابہ کو اس طرح فیضیاب اور سیراب کیا کہ وہ بھی اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کا خطاب پا کر اوّلین سے مل گئے۔ عبودیت کے اعلیٰ ترین معیار قائم ہوتے چلے گئے۔ تقویٰ میں ترقی کی منازل طے ہوتی چلی گئیں۔ جان، مال ،وقت اور عزت کی قربانی کے لئے بے چین رہنے لگے۔ انسانیت کی ہمدردی کے جذبے دل میں موجزن ہونے لگے۔ اپنے بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو ئی اور صرف جذبات اور علم تک ہی یہ باتیں محدود نہیں رہیں بلکہ یہ لوگ پھر اس کی عملی تصویر بن گئے اور اس تقویٰ کی وجہ سے وہ مقام حاصل کیا کہ زمانے کے امام اور مسیح و مہدی دوران سے خوشنودی کی سند بھی حاصل کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ صدہا لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے۔ مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسر آتا ہے۔ ان کی کوئی جائیداد نہیں مگر ان کے لاانتہا اخلاص اورارادت سے محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے جو ان سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہتی ہے یا جس کے آثار ان کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ایمان کے ایسے پکے اور یقین کے ایسے سچے اور صدق و ثبات کے ایسے مخلص اور باوفا ہوتے ہیں کہ ا گر ان مال و دولت کے بندوں اور دنیاوی لذات کے دلدادوں کو اس لذّت کا علم ہو جائے تو اس کے بدلے میںیہ سب کچھ دینے کو تیار ہو جاویں‘‘۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 584 مطبوعہ ربوہ)
پس یہ انقلاب تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں میں پیدا فرمایا کہ اخلاص و وفا میں ایسے بڑھے کہ کسی بات کی ہوش نہیں رہی۔ فکر تھی تو صرف یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بنیں۔ فکر تھی توصرف یہ کہ ہمارے تقویٰ کے معیار اونچے اور بلند ہوتے چلے جائیں اور جو پہلے ہی خدا والے تھے، جو پہلے ہی تقویٰ پر چلنے والے تھے، جن کا خدا سے ایک خاص تعلق تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رئویا اور خوابوں میں دیکھ کر ملاقات کرکے روح کی تسکین کے سامان پیدا کرتے تھے ان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی قوت قدسی نے کیا اثر ڈالا۔ وہ تو پہلے ہی بڑے نیکی کے معیار پر پہنچے ہوئے تھے، اس کا بھی قصہ سُن لیں۔
ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت مولانا حکیم نورالدین خلیفۃ المسیح الاول سے پوچھا کہ آپ تو پہلے ہی خدا والے ہیں آپ کو مرزا صاحب کی بیعت میں آ کر کیا ملا؟ تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے اسے جواب دیا کہ پہلے مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار سونے کی حالت میں، خواب میںکیا کرتا تھا۔ مرزا صاحب کی بیعت میں آ کر یہ دیدار اب جاگتے میں بھی ہونے لگا ہے۔ یہ انقلاب ہے جو مرزا صاحب نے مجھ میں پیدا کیا۔
(حیات نورباب چہارم صفحہ 194 مطبوعہ ربوہ)
پس یہ قوت قدسی کا جاری فیض تھا جس سے اور بھی بہت سے فیضیاب ہوئے۔ یہ تقویٰ تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ساتھ جڑنے سے اتباع رسول اور عشق رسول کے نئے سے نئے راستے متعین کر دئیے اور پھر اللہ تعالیٰ ان سے پہلے سے بڑھ کر محبت کرنے لگا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرکے رَضِیَ اللّٰہ عَنْھُمْ کا درجہ پا گئے۔ انہوں نے اس بات کا حقیقی فہم و ادراک حاصل کیا کہ فَاتَّقُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ(آل عمران:51) کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔ پس یہ وہ راز تھا جو انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب تر کرتا چلا گیا کہ اصل تقویٰ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی کامل اطاعت ہے اور جو شخص خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اس کام کی تکمیل کے لئے آیا ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی پیغام ہے، جو آپؐ کا ہی کام ہے، اس کی کامل اطاعت تو وہ وہ نظارے دکھاتی ہے جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس چھوٹی سے بستی میں رہنے والے ایک شخص نے جب خداتعالیٰ کے حکم سے اپنے مسیح ومہدی ہونے کا اعلان کیا تو تمام تر مخالفتوں کے باوجود کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ مسلمان علماء سے لے کر غیر مسلم مخالفین حتیٰ کہ بعض سرکاری افسران اور بعض عدالتوں کے ججوں نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔ لیکن اپنی تمام تر طاقتیں صرف کرنے کے باوجود یہ جتنے بڑے بڑے لوگ تھے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ بلکہ نقصان کیا پہنچانا ہے جماعت احمدیہ کی ترقی کی رفتار میں ذرہ بھر بھی فرق نہ ڈال سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید کا وعدہ آپ کے ساتھ ہے۔ نہ یہ کہ تھا بلکہ ہے اور انشاءاللہ تعالیٰ جب تک احمدی تقویٰ پر قائم رہیں گے یہ وعد ہ ہمیشہ ساتھ رہے گا۔ پھر یہی بستی تھی جس میں آپ کی وفات کے بعد تقویٰ پر چلتے ہوئے مومنین نے خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کا عہد کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق جو اس نے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا تھا جماعت کی وسعت کو اسی طرح جاری رکھا۔ جماعت کی مضبوطی اور استحکام کے نئے سے نئے باب کھلتے چلے گئے اور آج تک کھل رہے ہیں اور انشاء اللہ کھلتے چلے جائیں گے۔ لیکن شرط تقویٰ ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے اپنی جان، مال، وقت اورعزت کو قربان کرنے کا عہد ہے اور اس پر عمل ہے۔ جب تک یہ قائم رہے گا، جب تک آپ کے دل اس عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام تر استعدادوں کو بروئے کار لاتے رہیں گے، جب تک کامل اطاعت کے نظارے نظر آتے رہیں گے ان برکات سے فیض پاتے چلے جائیں گے جن کو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے لئے مقدر کر دیا ہے۔ پس اپنی حالتوں پر ہر وقت نظررکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو ضرورت ہے کہ اپنی حالتوں پر نظررکھے۔ آج دیکھیں جیسا کہ مَیںنے کہا اُس زمانے میں قادیان کی اس چھوٹی سی بستی میں بیٹھ کر جو جلسے ہوتے تھے،ان میں زمانے کے امام یہ منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ یورپ اور امریکہ کی ہمدردی کے لئے کس طرح ہم بہترین لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں۔ اُس وقت دشمن ہنستا ہو گا کہ چند سو آدمیوں کا پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میںیہ باتیں کرنا ایک بَڑ مارنے کے سوا کچھ نہیں ۔ لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ فکر نہ کر، منصوبہ بندی کر۔ اب یہ کام تجھ سے اورتیرے پیاروں کی جماعت سے ہی سرانجام پانا ہے اور تسلی رکھ کہ اِنِّیْ مَعَکَ حَیْثُ مَاکُنْتَ وَاِنّیْ نَاصِرُکَ ۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں جہاںبھی تو ہو گا اور میں تیری مدد کروں گا اور جب میری مدد آتی ہے اور جب میں کسی کا چارہ ساز اور سہارا بنتا ہوں اور قوی بازو بن جاتا ہوں تو دنیا کی روکیں اور دنیا کے ٹھٹھے اور ہنسی سب بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ ان ہنسی ٹھٹھوں کی کوئی وقعت نہیں رہتی جو دشمن کررہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری طرف سے وہ خلاف توقع باتیں واقع ہو جاتی ہیں جن تک دنیا والوں کی سوچ پہنچ ہی نہیں سکتی۔
آج آپ دیکھیںاللہ تعالیٰ کس شان سے اِنّیْ مَعَکَ حَیْثُ مَاکُنْتَپورافرما رہا ہے۔ جب حالات کی وجہ سے خلیفۂ وقت کو اس بستی، مسیح موعود کی بستی قادیان سے ہجرت کرنی پڑی تو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی حفاظت کے سامان پیدا فرمائے اور نہ صرف سامان پیدا فرمائے بلکہ ترقی کی رفتار میںبھی فرق نہ آیا بلکہ کئی گنا بڑھ گئی اور یہی نہیں بلکہ نامساعد حالات کے باوجود اس زمانے میں جب احمدیوں کو اس بستی کو چھوڑنا پڑا تو 313درویشان قادیان میں رہے اور درویشان قادیان جو حفاظت کے لئے وہاں رہے تھے ان کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ نے فرمائی اور دارالمسیح اور شعائراللہ کی حفاظت کے بھی سامان فرمائے۔ پھر پاکستان کے حالات کی وجہ سے خلافت کو وہاں سے ہجرت کرکے یہاں لندن آنا پڑا تو اللہ تعالیٰ کی معیت اور تائید اور نصرت کے نئے سے نئے باب کھلنے لگے۔کہاںوہ و قت جب وسائل بھی پورے نہیں تھے تو اس بستی میں بیٹھ کر یورپ اور امریکہ کی ہمدردی کے منصوبے زیر غور تھے اور کہاں آج جب اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو یورپ ، امریکہ اور دنیا کے ایک 195 ممالک میں بیٹھ کر ان کی ہمدردی کے منصوبے بنانے کی توفیق دے رہا ہے۔یا تو وہ وقت تھا کہ دشمن دعووں کو ہنسی ٹھٹھے میںاڑاتا تھا اور آج پاکستان کے مُلّاں بھی شور مچا رہے ہیں کہ حکومت قادیانیوں کی کارروائیوں کو روکے کہ یہ پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر جگہ دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ ان دنوںمیں( دو تین دن پہلے) ہندوستان میں بھی مولویوں نے جلوس نکالا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کی کارروائیوں کو حکومت روکے اور ان کا قادیان میں جو جلسہ ہو رہا ہے اس کو بند کرے۔ حکومت ان مُلاّئوں کی حکومت نہیں جن کی عقل ماری گئی ہے جن کوسوائے دشمنی، بغض اور عناد اور کینہ کے کچھ پتہ ہی نہیں۔ آج ہر عقلمند حکومت کو پتہ ہے، ان کے علم میں ہے کہ اگر دنیا کے امن و سکون کو خطرہ ہے تو ان تقویٰ سے عاری نام نہاد مُلاّئوں سے خطرہ ہے جنہوںنے مختلف قسم کی تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں اور آج اگر محبت اور امن کی ضمانت کہیں مل سکتی ہے تو واحد جماعت احمدیہ ہے جو’’ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا نعرہ لگاتی ہے۔ ہم تو ان مخالفین کے لئے بھی یہ جذبہ ہمدردی رکھتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور یہ اپنے بدانجام سے بچ جائیں۔
پھر اِنّیْ مَعَکَ َکاخدائی وعدہ ایک اور رنگ میں کس طرح پورا ہو رہا ہے کہ آج یورپ میں بیٹھ کر خدا کے مسیح کی آواز کو آسمانی لہروں کے ذریعے قادیان میں بھیجا جا رہا ہے اور قادیان سے نعرئہ تکبیر اور اَللّٰہُ اَکْبَر کی آواز ان لہروں پر سوار امریکہ میںبھی گونج رہی ہے اور یورپ میں بھی گونج رہی ہے، ایشیا میں بھی گونج رہی ہے اور افریقہ میں بھی گونج رہی ہے، آسٹریلیا میںبھی گونج رہی ہے اور جزائر میںبھی گونج رہی ہے۔ دنیا کا وہ کونسا خطہ ہے جہاں سے مسیح پاک علیہ السلام کا یہ پیغام دنیا کی ہمدردی کے لئے دنیا کو نہیں پہنچ رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ پیغام دنیا کی ہمدردی کے لئے دنیا میںہر جگہ پہنچ رہا ہے کہ ؎
آئو لوگو کہ یہیں نورِ خدا پائو گے
لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225)
پس یہ کوئی انسانی کام نہ تھا۔یہ اس خدا کا کام ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ جس نے اپنے فرستادے سے وعدہ کیا کہ اِنّیْ بُدُّک اللَّازِمُ وَعَضُدُکَ الْا َقْوٰی کہ مَیں ہمیشہ کے لئے تیرا چارہ اور سہارا اورتیرا نہایت قوی بازو ہوں۔ اور آج تک اللہ تعالیٰ نہایت قوی سہارا بن کر اپنی قدرت کے نظارے ہمیںدکھاتا چلا جا رہا ہے۔ الٰہی جماعتوں پر آزمائشیں بھی آتی ہیں۔ ابتلا بھی آتے ہیں۔ نقصان بھی ہوتے ہیں لیکن خداتعالیٰ دشمن کو ا س کے اس مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتا کہ وہ خداتعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے نظام کو یا اس کے کام کو ختم کر سکے۔ پانی کے آگے روکیں بناتے رہو۔ جو پانیمسلسل جاری ہے وہ اپنے راستے بناتا چلا جاتا ہے۔ پتھر بھی اس کو روک نہیں سکتے پتھروں کو بھی کاٹتا چلا جاتا ہے۔ پہاڑوں کو بھی کاٹتا چلا جاتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقصدکے حصول میں روک نہیں بن سکتی۔ دنیا کے بڑے سے بڑے ملک اپنی تمام تر طاقتوں اور وسائل کے باوجود بارشوں اور سیلابوں کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔
آج کل یہیں دیکھ لیں کہ اس ملک میں بھی اور بعض اور جگہ بھی بارشوں اور موسمی حالات نے کیا کیا تباہیاں پھیلائی ہوئی ہیں۔ تو اس پانی کو کس طرح روکا جا سکتاہے جو خداتعالیٰ کی خاص تائید لئے ہوئے ہے اور جب وہ اترتا ہے تو پھر سیراب کرتا چلا جاتا ہے اور بہتا چلا جاتا ہے۔ پس بے وقوف ہیں وہ جوسمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی ترقی کو انسان کی کوئی کوشش روک سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اس دنیا سے اپنے رخصت ہونے کی غمناک خبرجماعت کو سنائی تو ساتھ یہ بھی تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے جو میرے سے وعدہ کیا ہے یہ صرف میرے ساتھ نہیں۔ اگر تم مومن رہے، اگر تم میں تقویٰ قائم رہا، اگر میری بیعت کا حق ادا کرنے والے بنے رہے تو سن لو کہ خداتعالیٰ تمہیں خوشخبری دیتا ہے کہ ’’مَیں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیںقیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا‘‘۔(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-305)
آپ کے پیرو کون ہیں؟ وہ جنہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ کے جاری نظام خلافت کو پکڑ لیا۔ خلافت سے وفا اور اطاعت کا تعلق رکھا۔ یہ عہد کیا کہ مَیں نظام خلافت کے قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گا۔ اور جو یہ عہد کرنے والے ہیں انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ کہ ’’ وہ ہمارا خدا وعدوںکا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے‘‘ ۔(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 306)کوخداتعالیٰ نے پورا فرمایا اور پورا فرماتا چلا جا رہا ہے اور جماعت کا بچہ بچہ اس کاگواہ ہے۔ بلکہ غیر بھی یہ بات کرنے پر مجبور ہیں کہ خداتعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ لگتی ہے۔ پس خداتعالیٰ کا یہ فعل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سینوںمیں تقویٰ قائم رہے گا۔ اور کیونکہ یہ خداتعالیٰ کا وعدہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے کہ یہ خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت ہمیشہ قائم رہے گی۔ (ماخوذ از رسالہ الوصیت ۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ 305)جو وعدے خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے وہ پورے کرکے دکھلا رہا ہے اور دکھائے گا بھی انشاء اللہ تعالیٰ۔ پس خلافت احمدیہ کا سلسلہ تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے جاری رہنا ہے۔ اگر کسی میں تقویٰ کی کمی ہو گی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو محروم کر سکتا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کوئی احمدی اس سے محروم ہو۔ لیکن نظام خلافت انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے ہمیشہ قائم رہے گا۔
پس ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ اپنے دلوںمیں تقویٰ قائم کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی شدت سے اور دردسے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ فرمایا: ’’تقویٰ اختیار کرو تا بچ جائو۔ آج خدا سے ڈرو تا اس دن کے ڈر سے امن میں رہو‘‘ ۔(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 303)یعنی آخرت کے دن کے ڈر سے ڈرو۔ خدا سے ڈرنے والے وہی ہیں جو اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پھر ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے۔ وہی پانی جس سے تقویٰ پرورش پاتی ہے تمام باغ کو سیراب کر دیتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ ہیچ ہے۔ اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے‘‘۔
(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت سے فیض پانے کے لئے، آپ کی جماعت کا حقیقی حصہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے دلوں میں تقویٰ قائم رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کی ایک جگہ یوں بھی وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلف حقوق، ریا، عجب، حقارت، بخل کے ترک کرنے میں پکا ہو تواخلاق رذیلہ سے پرہیز کرکے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے ۔ لوگوں سے مروت، خوش خلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے‘‘۔( اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تلاش کرے)۔’’ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ 680 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس صرف برائیوں کو نہ کرنا ہی تقویٰ نہیں۔ بے شک برائیاں نہ کرنے والا نیک تو کہلا سکتا ہے۔ برائیوں سے بچنے والا تو کہلا سکتا ہے لیکن تقویٰ کے معیار حاصل کرنے والا وہ نہیں کہلا ئے گا جب تک کہ نیک اخلاق میں ترقی نہ کرے۔
پس فرمایا کہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش نہ آئو تو تقویٰ نہیں ہے۔ اعلیٰ اخلاق اور انسانی ہمدردی ہی ہے جو مخلوق کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ جو دوسروں کے دل نرم کرکے دشمنوں کو بھی اپنے قریب لے آتی ہے۔ آج دنیا طرح طرح کے فسادوں میں مبتلا ہے۔ اگر ہر احمدی صرف نعرے کی حد تک ہی نہ کہتا پھرے کہ’’ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ بلکہ حقیقت میں ہمدردی مخلوق کا عملی اظہار کرے۔اپنوں میں بھی اور غیروں میں بھی اپنی خوش اخلاقی اور ہمدردی کا اظہار کرے اور خداتعالیٰ کی خاطر یہ کام کرے تو یہ تقویٰ ہے جو خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بناتا ہے۔ اور اس بات کی آج دنیا کو ضرورت ہے جب کہ ہر جگہ نفسانفسی اور فساد پھیلا ہوا ہے۔ اس فساد میں محبتوں اور بھائی چارے اور ہمدردیٔ مخلوق کی فصلیں اگانا ہر احمدی کا کام ہے اور جلسوں کے انعقاد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک بہت بڑا مقصدیہ بھی تھا۔ آپ جلسہ کا مدعا اور مطلب بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیںکہ:
’’ نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں ایک دوسرے کے لئے نمونہ بن جائیں‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 360 مطبوعہ ربوہ)
ہمدردی بھی ہو، بھائی چارہ بھی ہو اور پیار بھی ہو اور اس حد تک ہو کہ آپ لوگ نمونہ بن جائیں۔ دنیا دیکھے اور کہے کہ یہ لوگ ہیں جو دنیا میںحقیقی امن پیدا کرنے والے ہیں۔
پھر متقی کا یہ کام ہے کہ اس کا خداتعالیٰ سے سچی وفا اور صدق کا تعلق ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور عبادت کے اعلیٰ معیار حاصل کئے گئے ہوںاور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک خداتعالیٰ کا حقیقی خوف نہ ہو۔ دل خداتعالیٰ کی خشیت سے پُر نہ ہو۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جسے دل میں لگانا ضروری ہے اور تقویٰ کی جڑ یںجب دل میں مضبوطی سے جگہ پکڑ لیں تو حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ رہے گی اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ رہے گی۔ زہد اور خدا ترسی اور خدا خوفی کی طرف بھی قدم بڑھیں گے۔ نیکیوں کی تلقین اور برائیوں سے روکنے والے بھی بنیں گے ۔ امانتوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ رہے گی۔ امانت ایک وسیع لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ اپنی تمام تر ذمہ داریوں کے امین بنیں اور امین بن کر ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ چاہے وہ جماعتی ذمہ داریاں ہیں، چاہے وہ ذاتی ذمہ داریاں ہیں یا دنیاوی ذمہ داریاں ہیں یا اپنے کاموں کی ذمہ داریاں ہیں ہر ایک امانت کاحق ادا کرنا ہے ۔ تقویٰ کے درخت جو ہیں وہی ہیں جن پر عاجزی، انکساری، سچائی، درگزر، شکر اور صبر کے پھل لگتے ہیں۔ تقویٰ ہی ہے جو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ دنیا آجکل کیوںانصاف سے عاری ہوئی ہوئی ہے۔ کیوں بڑی قومیں چھوٹی قوموں پر ظلم کر رہی ہیں۔ کیوں امیر غریب پر ظلم کر رہا ہے۔ اس لئے کہ دلوں میں تقویٰ نہیں ۔جو پالیسیاں بنتی ہیں وہ خداتعالیٰ کے خوف سے عاری ہوتے ہوئے بنائی جاتی ہیں۔ پس آج اگر کسی سے انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں تو وہ ایک احمدی ہی ہے۔ اور وہ احمدی ہی ہے جو تقویٰ پر چلنے والا اور اس پر قدم مارنے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے والا ہے۔ قرآن کو اپنے اوپر لاگو کرنے والا ہے ۔عہدوں کو پوراکرنے اور نیکیوں میں بڑھنے کے معیار بھی تقویٰ سکھاتا ہے۔ پس اس کی ضرورت ہے اوریہ باتیں اگر ہم اپنے اندر پیدا کرلیں جو صرف اور صرف تقویٰ کا درخت ہمارے دلوں میں مضبوطی سے قائم کرنے سے ہی پیدا ہو سکتی ہیںتو ہم ان لوگوںمیں شمار ہوں گے جن کو خداتعالیٰ کی تائیدات حاصل ہوتی ہیں۔ ہم ان لوگوں میں شمار کئے جائیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حقیقی پیروکار ہیں۔ ہم اس حقیقی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔ پس آج ہمیںاپنے دلوں کو ٹٹولتے ہوئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ آج اگر ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورے ہونے کے نظارے اپنی زندگیوں میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے محاسبے بھی کرنے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے ہوئے ہمیشہ صراط مستقیم پر چلنے کی دعائیں اپنے لئے اور اپنی نسلوںکے لئے مانگنی ہوں گی۔ اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا جو نئے آنے والوں کی تربیت کی صورت میں بھی ہم پر پڑنے والی ہیں اور پڑ رہی ہیں ۔ہمارے نیک نمونے اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار ہی نئے آنے والوں کو بھی نیکیوں اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار کی طرف توجہ دلانے والے ہوں گے۔ پس نئے آنے والے احمدیوں کی تربیت کے لئے بھی پرانے احمدیوں کو اپنے رویوں اور اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ صرف جماعت کی تعداد بڑھنے سے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ مقصد تو تب پورا ہو گا جب حقیقی پیرئووں کی تعدادبڑھے گی۔ تقویٰ پر قائم لوگوں کی تعداد بڑھے گی۔ پس اس جلسے سے اٹھنے سے پہلے یہ عہد کریں کہ ہم نے اس بستی کے فیض سے حقیقی رنگ میں فیضیاب ہونے کے لئے اس جلسے کی برکات سے برکتیں سمیٹنے کے لئے آج کے بعد بھی اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہنا ہے۔ اپنے تقویٰ کے معیار بلند کرنے ہیں اور اس کے لئے کوشش کرتے چلے جانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے کے لئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا کے ہر کونے میںپہنچانا ہے ۔
آج اس جلسے میں قادیان میں اٹھارہ18 انیس19 ہزار احمدی بیٹھے ہوئے ہیںجو دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔اگر آج ہر ایکیہاں سے اپنے دلوں میں پاک انقلاب پیدا کرنے کا عہد کرکے اٹھے تو مسیح الزمان کی ان دعائوں کا یقینا وارث ہو گا جو آپ نے شاملین جلسہ کے لئے کی ہیں۔ لیکن باقی دنیا کے احمدی یہ نہ سمجھیں کہ ہم ان سے محروم ہیں۔ آج مسیح پاک کی دعائوں سے اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے احمدیوں کو ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے سے جوڑ کر ایک کر دیا ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں اور گریہ و زاری ہی تھی جو آج سے ایک سو پندرہ بیس سال پہلے ہمدردی کے جذبے سے کی گئی منصوبہ بندی کے فیض سے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام سے خلیفہ ٔوقت کی آواز میں دنیا کو فیضیاب کر رہی ہے۔ پس جہاں جہاں بھی یہ آواز پہنچ رہی ہے اور جس احمدی کے کان میں بھی یہ الفاظ پڑ رہے ہیں وہ بھی اس پیغام کا اسی طرح مخاطب ہے جس طرح قادیان میں شامل ہونے والے اٹھارہ بیس ہزار احمدی ۔اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا عہد کرکے اور آپ کے مشن کو آگے بڑھانے کے مصمم ارادے کی وجہ سے یقینا وہ سب جو ایم ٹی اے کے ذریعے سے سن رہے ہیں وہ بھی آپ کی دعائوں کے وارث بن رہے ہوں گے۔ پس ایک جوش اپنے اندر پیدا کریں ۔ ایک تڑپ اپنے اندرپیدا کریں۔ دعائوں سے اپنی سجدہ گاہوں کو تر کر دیں اور خاص طور پر وہاں جو پاکستان کے احمدی شامل ہیں جو مسیح پاک کی بستی میںآئے ہوئے ہیں اپنی بقیہ راتوں کو جو بھی یہاں گزارنی ہیں اس طرح زندہ کریںکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوں کی قبولیت کے دھارے محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو آسمان سے اپنے اوپر اترتے ہوئے نظر آئیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ آپ کی دعائیں ہی ہیں جنہوںنے پاکستان کی قسمت بھی بدلنی ہے اور دنیا کی قسمت بھی بدلنی ہے۔ پس نہ صرف جلسے پر آئے ہوئے پاکستانی احمدی بلکہ ہر پاکستانی احمدی اگر اپنے حالات میں تبدیلی چاہتا ہے، پاکستان میں تبدیلی چاہتاہے تو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائیں ۔پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے کیا نظارے دکھاتا ہے۔ یہی کام قادیان میں رہنے والے ہر احمدی کا ہے کہ اس بستی میں رہنے کا حق ادا کرے۔ اس کے تقدس کو قائم کرے اور دنیاداری کی باتوں کو بھول جائے۔ اگر شعائراللہ اور مسیح موعود کی بستی کے گلی کوچے آپ میں انقلاب پیدا نہیںکر رہے، آپ کے تقویٰ کے معیار بلند نہیں ہو رہے تو فکر کریں کہ یہ باتیں شامت اعمال کانتیجہ نہ ہوں۔ قادیان میں رہنے والیکتنے خوش نصیب ہیں جو دیار مہدیٔ دوراں میں رہ رہے ہیں جس کے لئے ہماری آنکھیں ترستی ہیں۔ دل بے چین ہوتے ہیں ۔
پس اے قادیان میں رہنے والو! اگر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا فضل حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ دنیا کا ہر احمدی ڈرتے ڈرتے دن بسرکرنے والا ہو اور تقویٰ سے رات بسرکرنے والا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوں سے فیض پاتا چلا جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مبارک ہیں وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جاتی ہے۔
(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 282 مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمارے لئے سیدھی راہیںکھلی رکھے اور ہم مبارک لوگوں میں شامل رہیں۔
دعا کے بعد یہ جلسہ اختتام کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ تمام شاملین جلسہ کو باحفاظت اپنے اپنے گھروں میں پہنچائے۔ واپس جائیں تو وہاں بھی اپنی حفاظت میں رکھے۔ خاص طورپر پاکستان کے حالات بہت خطرناک ہیں۔ ہر پاکستانی احمدی کی، ہر پاکستا نی کی اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ جلسے کے نیک اثرات کو ہمیشہ آپ کے دلوں میں قائم رکھے۔ خداتعالیٰ ہر آن آپ کے ساتھ ہو۔اجر عظیم بخشے۔ رحم کرے اور مشکلات اور اضطراب کی حالت آپ سب پر آسان کر دے۔ ہندوستان کے بعض علاقوں کے احمدی اور خاص طورپر پاکستان کے احمدی تو سالہاسال سے مشکلات میں گرفتار ہیں اور بعض علاقوں میں اور عمومی طو ر پر اب تو ہر ایک کے لئے پریشانیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کے ہمّ و غم دور کر دے۔ ہرتکلیف سے مخلصی عطاکرے۔ آپ کی مرادات کی راہیں آپ پر کھولے۔ روز آخرت میں ان بندوں کے ساتھ اٹھائے جن پر اس کا فضل اور رحم ہے۔ اے خدا! اے ذوالمجد و العطاء اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہریک طاقت اور قوت تجھی کو ہے۔ آمین ثم آمین
(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 282 مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ بعض دعائیں مَیں نے شامل کی ہیں۔ بیچ میں سے بعض میں الفاظ میں تبدیلی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمارے حق میں یہ تمام دعائیں قبول فرماتا چلا جائے۔ آمین
اب دعا کر لیں۔