اداریہ: نَحْنُ اَنْصَارُاللہ
اداریہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مئی جون 2024ء
نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہ
فہرست مضامین
show
مئی جون 2024ء کا شمارہ پیش ہے۔ آج سے ٹھیک چالیس سال قبل مئی 1984ء کے آغاز کے ساتھ ہی خلافتِ احمدیہ کا سورج بھی پاکستان سے ہجرت کے مراحل طے کرتے ہوئے برطانیہ کی سرزمین سے طلوع ہورہا تھا۔ خداتعالیٰ کی خاطر کی جانے والی اس ہجرت پر آج چالیس سال مکمل ہوگئے ہیں۔ گویا اُس روز جو بچہ پیدا ہوا تھا وہ اپنی عمر کے لحاظ سے مجلس انصاراللہ میں شامل ہورہا ہے۔
اگرچہ گزشتہ سواسو سال میں جماعت احمدیہ کی مسلسل روزافزوں ترقیات روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن گذشتہ چالیس سالوں میں سرزمینِ انگلستان میں مرکزِ خلافت کے قیام کے بعد سے تاریخ گواہ ہے کہ خلافتِ احمدیہ کی برکات ایک نئی عظمت، شوکت، قوّت، سطوت، سرعت اور برق رفتاری کے ساتھ زمین کے کناروں تک پھیلتی چلی گئیں۔ ہر آنے والا سال ایسی نئی منازل کی نوید دیتا چلاگیا جس نے تاریخ احمدیت کے سنہری دَور میں بیش بہا کامیابیوں کو رقم کرتے ہوئے احمدیت کا سفر کئی گُنا تیزتر کردیا۔ بےشک یہ خداتعالیٰ کی غیرمعمولی تائید ہی تھی جس نے خلافت احمدیہ کو ہمیشہ ابتلاؤں میں تسکین اور امن کا ذریعہ بنایا اور جماعتِ مومنین کو ان ابتلاؤں میں سےمعجزانہ کامیابی سے گزار کر نہایت شیریں پھلوں سے اس کا دامن بھر دیا۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک
گذشتہ چالیس سال کے دورانیے میں خلافت احمدیہ کے وفادار عشاق ایک بابرکت دَورِ چہارم کے نہایت تابناک اختتام کے چشمدید گواہ بنتے ہوئے خلافتِ خامسہ کے نہایت پاکیزہ اور ترقیات کے ایک نئے دَور میں عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ داخل ہوئے۔ ہر احمدی اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے جاری کی جانے والی قدرت ثانیہ یعنی خلافتِ احمدیہ کی برکات کا تسلسل کبھی بھی منقطع نہیں ہؤا۔ اگرچہ دنیابھر میں کئی مقامات پر مظلوم احمدیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ محض خدا اور اُس کے رسولﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے موعود پر ایمان لانے کی پاداش میں سینکڑوں احمدیوں کو جامِ شہادت بھی نوش کرنا پڑا، ہزاروں پابندِ سلاسل بھی ہوئے، اَن گنت اپنے دنیاوی حقوق بلکہ بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کیے گئے۔ لیکن صبر و ثبات کے کوہِ گراں ہر ستم پر اِنَّالِلّہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہتے ہوئے منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہے۔ اہلِ بصیرت جانتے ہیں کہ صدق و صفا کے پیکر اور عشق و وفا کے پجاریوں سے اعجازوکرامات کا سلسلہ کیونکر ظاہر ہوتا رہا۔ فقط اس لیے کہ یہ عشّاق آنحضورﷺ کی بشارات کے مطابق ظاہر ہونے والے مسیح و مہدی پر ایمان لانے کا شرف اور مقصدِ حیات پاچکے تھے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے غلامِ صادق کے بعد جاری سلسلہ خلافت علیٰ منہاج نبوت سے وابستہ ہوکر اپنے ربّ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی دنیا وی خواہشات و جذبات کو قربان کرتے چلے جانے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ اس عظیم الشان جماعت کے افراد کی خلافتِ احمدیہ کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے پیش کی جانے والی قربانیوں کی غیرمعمولی داستانیں تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جاتی رہیں گی اور آئندہ احمدی نسلیں بھی ہر آنے والے ابتلا کے موقع پر انہی داستانوں سے ہمت، حوصلہ، اطاعت اور جرأت کے نشان پاکر خلافتِ احمدیہ کے حضور سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنا قدم بڑھاتی چلی جائیں گی۔ ان شاءاللّٰہ
برادرانِ کرام! ماہ مئی دنیابھر کے احمدیوں کو یومِ خلافت کے حوالے سے اُن کی ذمہ داریوں کی یاددہانی تو کرواتا ہے۔ لیکن انگلستان کے رہنے والوں پر یہ ذمہ داری دوہری ہے۔ اس سرزمین پر بسنے والا ایک طبقہ تو وہ ہے جس نے انصارِ مدینہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے آقا کو خوش آمدید کہا اور پھر خلافتِ احمدیہ کے جانثار غلام بن کر اپنا سب کچھ پیش کرتے ہوئے سلطانِ نصیر بننے کا حق ادا کردیا۔ جبکہ دوسرا گروہ اُن عشّاق کا ہے جو اپنے آقا کی پاکستان سے ہجرت کے بعد اپنی بےقرار روحوں کو قرار دینے کے لیے اور اپنی پیاسی روحوں کو سیراب کرنے کی خاطر کشاں کشاں اپنے آقا کے پیچھے پیچھے چلا آیا اورچودہ سو سال پہلے کے مہاجرین مکّہ کی یاد تازہ کردی۔ دراصل خلافت احمدیہ کے عشّاق کی یہ وہ پہلی ہجرت تھی جو محض دین کی خاطر ہوئی اور جس میں دونوں گروہوں (انصار و مہاجرین) نے محبت، اطاعت، فدائیت اور قربانی کے وہ مظاہرے پیش کیے جنہوں نے قرونِ اولیٰ کی قربانیوں کی یاد تازہ کردی۔ پہلی ہجرت جس میں قادیان دارالامان سے عارضی جدائی اختیار کرنی پڑی تھی وہ جغرافیائی حالات اور ارضی تقسیم کے تابع تھی اور وہاں مہاجرین کی ایک جماعت ہی تھی جس نے خلیفۂ وقت کے ارشاد کو مقصدِحیات بنالیا اور دیکھتے دیکھتے بےآب و گیاہ سرزمین ربوہ کو سرسبزوشاداب نخلستان میں بدل کر تاریخِ عالم میں ایک نیا باب رقم کیا۔
قارئین محترم! اگر ہم یا ہمارے والدین خلافتِ احمدیہ کی محبت میں ارض انگلستان میں پہنچ کر یہاں آبسے تھے تو اس نسبت سے ایک نہایت اہم ذمہ داری ہم پر زائد عائد ہوتی ہے۔ یعنی احمدیت کے وہ تمام فدائی پروانے جو اپنے محبوب آقا کے عشق کو حرزِ جاں بنائے ہوئے شمع خلافت کی محبت میں اُس کا قرب پانے کی تمنّا لیے دیوانہ وار ارضِ انگلستان میں آبسے تھے، اس نسبت سے اُن سب کو اپنے عہد کی حفاظت و وفا کا احساس دنیا میں پھیلی ہوئی عالمگیر جماعتِ احمدیہ کے ہر فرد کی نسبت زیادہ ہونا چاہیے۔ یہ عہد کیا ہے؟ خلافتِ احمدیہ کی بےمثال اطاعت کرتے ہوئے نیک راہوں پر چلتے چلے جانے کی سعی کرنا اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایسی روشن مثالیں قائم کردینا کہ وہ ہمارے عملی نمونہ کو نہ صرف اپنے لیے نصب العین قرار دیں بلکہ ہمارے بعد ہماری روحوں پر محبت سے سلامتی کی دعاؤں کے نذرانے بھی پیش کرنے والے ہوں۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ ہمارا عہد کیا ہے؟ عبادت کا اعلیٰ معیار، اخلاقی حالت میں ترقی، دعوت الی اللہ، روحانی مدارج کا حصول… …… جی ہاں یہ سب کچھ ۔ لیکن خوشنما اور خوبصورت پاکیزہ اداؤں کے یہ سارے پھول اگر ایک ہی گلدستے میں پیش کیے جائیں۔ یا یوں کہیے کہ مثبت خصوصیات کے حامل یہ قیمتی چمکدار موتی اگر کسی انمول ہار میں پروکر زیبِ تن کرنا چاہیں تو اس کے لیے اپنے اُس عہد کو غور سے پڑھ لیں جسے خداتعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی رسالت کو گواہ بناکر ہم نے بارہا دہرایا ہے کہ:
’’مَیں اقرار کرتا ہوں کہ اسلام احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کے لیے ان شاءاللّٰہ تعالیٰ آخر دم تک جدوجہد کرتا رہوں گا اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہوں گا۔ نیز مَیں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا۔‘‘
پس انصارِ مدینہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہماری صرف ایک ذمہ داری ہے کہ جب اور جس وقت ہمارا امام نیکی کی جس راہ کی طرف بھی ہمیں بلائے، ہم صدقِ دل اور خلوصِ نیت کے ساتھ اُسی اطاعت کا اظہار کریں جس کی توقع خدا اور اُس کے رسولﷺ نے ہم سے کی ہے۔ جب امام کی خواہش ہو کہ دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دیں تو ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اپنے حالات کے مطابق اس حکم پر عمل پیرا ہونے کی ہرممکن کوشش کرے۔ جب امام وقت کی آرزو ہو کہ کسی خاص مقصد کے لیے مالی قربانی پیش کی جائے تو اپنے حالات کے مطابق ہر احمدی قربانی پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے۔ جب خلیفۂ وقت آواز دے کہ کسی خاص تحریک کے لیے اپنا قدم بڑھاؤ تو ہم میں سے ہر شخص دین کو دنیا پر مقدّم کرتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ اطاعت کا اعلیٰ معیار قائم کرے۔
الغرض اطاعت ہی وہ جوہر ہے جو تمام نیکیوں کے حسن کو قائم رکھتا ہے۔ ایک خوشنما گلدستے اور دیدہ زیب ہار کی خوبصورتی کا حقیقی مرکز دراصل اطاعت ہی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ امامِ وقت کے تمام تر ارشادات (جو خطبات، خطابات اور پیغامات کی شکل میں آتے ہیں) کے سننے اور اُن پر عمل کرنے کے لیے محبت کی تمام راہیں اختیار کریں۔ گویا کچھ ایسے گوش برآواز ہوجائیں کہ ہماری روح اس امر کی تصدیق کرے کہ ہم نے سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کا حق ہر پہلو سے ادا کرنے کی عاجزانہ کوشش کی ہے۔ بےشک ہم انصار اپنی زندگیوں کے اُس دَور میں سے گزر رہے ہیں جہاں ہمیں اپنے ربّ سے ملاقات کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تیاری کرنے کی ضرورت نسبتاً زیادہ ہے۔
اے ہمارے ربّ! ہم عاجز بندوں پر رحم فرما اور ہمیں ہمارے عہد کو پورا کرنے کی توفیق دے اور ہمارے تقصیر بھرے تھوڑے نیک اعمال پر راضی ہوجا اور ہمارا انجام بخیر کر۔ آمین اللّٰھمّ آمین