اداریہ: کارڈف (ویلز) میں پہلی احمدیہ مسجد کی تعمیر

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی اگست 2024ء)

سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے اصحاب نے حقیقی اسلام کا پیغام دیار مغرب میں پہنچانے کے لیے جو بےلَوث قربانیاں پیش کی تھیں اُنہیں ہمارے ربّ نے قبولیت کا شرف عطا فرمایا ہے۔ مثلاً ماموریت کے ابتدائی ایام میں ہی حضرت مسیح موعودؑ نے بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوتِ اسلام پر مشتمل بذریعہ رجسٹر ڈ ڈاک مختلف اقوام کے پیشوائوں ، امیروں اور والیان ممالک کے نام ارسال فرمائے ان میں برطانیہ کے شہزادہ ولی عہد ( دی پرنس آف ویلز)، وزیراعظم برطانیہ مسٹر گلیڈ سٹون اور شہزادہ بسمارک کو بھی خطوط لکھے ۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۵۶ )

William Ewart Gladstone
British Prime Minister
حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ

خلافتِ اولیٰ میں برطانیہ میں پہلے احمدی مبلغ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ تشریف لائے اور پھر خلافتِ ثانیہ میں وقفے وقفے سے بہت سے اصحاب احمد کو دعوت الی اللہ میں اُن کے مددگار کے طور پر یہاں بھجوایا جاتا رہا۔ ان کی مساعی سے انگلستان کے علاوہ سکاٹ لینڈ اور ویلز کے چیدہ چیدہ مقامات پر بھی تبلیغی کاوشیں جاری رہیں۔ ویلز (Wales) کی سیاسی تاریخ یوں ہے کہ ۱۲۸۴ء میں انگلستان کی عملداری میں آچکاتھا جِس کی وجہ سے ان دو ممالک کے درمیان سیاسی وجوہا ت کی بنا پر اتحاد کی صورت پیدا ہو گئی تھی جو آہستہ آہستہ مستحکم ہوتی گئی یہاں تک کہ۱۵۳۶ء میں ان کے مابین ایک ایسا مضبوط تر سیاسی جوڑ عمل میں آیا کہ دو الگ الگ ملک ہونے کے باوجود انگلینڈ اینڈ ویلز کے نام سے گویا ایک ہی نام کی مملکت بن گئی۔ ویلز جب علیحدہ تھا تو وہاں کا حاکم اعلیٰ پرنس آف ویلز کہلاتا تھا لیکن دونوں ممالک کے یکجا ہونے کے بعد یہ نشان انگلستان کے شاہی خاندان کے ولی عہد شہزادہ کے لیے مختص ہو گیا اور تب سے یہ امتیازی نشان بدستور انگلستان کے ولی عہد شہزادہ کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ ویلز کا صدر مقام کارڈف (Cardiff) ہے۔ چنانچہ اُس دَور میں کارڈف (ویلز) میں ایک خاتون عائشہ نور نے بیعت کی اور تبلیغ کے کام میں جوش اور ولولہ سے حصہ لینے لگیں ۔ ان کی تبلیغ کو اللہ تعالیٰ نے پھل لگایا۔ ایک خاتون جو ایک عرب کی بیوی تھیں اور ان کا نام میبل ایما علی( Mrs. Mabel Emma Ali )تھا ا ن کے ذریعہ مسلمان ہوئیں۔ ان کا اسلامی نام صفیہ رکھا گیا۔ مسز صفیہ میبل ایما علی لکھتی ہیں:’’ میں محسوس کرتی ہوں کہ تبدیلی مذہب کے وقت سے گویا ایک نئی دنیا میں داخل ہوگئی ہوں۔ لاریب اسلام بہترین مذہب ہے۔ میں اپنے بیٹے کی بھی اسی دین کے مطابق تربیت کروں گی۔‘‘ (الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۲۰ء)
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے قلب مبارک میں تبلیغ اسلام کا اس قدر جوش پایا جاتا تھا کہ ولی عہد شہزادہ ویلز جو تخت نشینی کے بعد ایڈورڈ ہشتم کہلائے (اور دستبرداری کے بعد ڈیوک آف ونڈ سر) دسمبر ۱۹۲۱ء میں جب ہندوستان آئے تواُن کی آمد پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تصنیف لطیف ’’ تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ کے ذریعہ اُنہیں دعوت اسلام دی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی صداقت کے نشان کے طور پر اُنہیں ان الفاظ میں تحریک فرمائی کہ ’’ آپ اپنے رسوخ سے کام لے کر پادریوں کو تیار کریں جو اپنے مذہب کی سچائی کے اظہار کے لیے بعض مشکل امور کے لیے دعائیں مانگیں اور بعض ویسے ہی مشکل امور کے لیے جماعت احمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور دعاکرے مثلاً سخت مریضوں کی شفا کے لیے جن کو بذر یعہ قرعہ اندازی کے آپس میں تقسیم کر لیا جائے۔ پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کی سنتا ہے اور کس کے منہ پر دروازہ بند کر دیتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرسکیں اور ہرگز نہ کریں گے کہ ان کے دل محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی برکتیں ان سے چھین لی گئی ہیں تو پھر اے شہزادہ! آپ سمجھ لیں کہ خدا نے مسیحیت کو چھوڑ دیا ہے اور اسلام کے ساتھ اپنی برکتیں وابستہ کردی ہیں۔‘‘ (تحفہ شہزادہ ویلز بحوالہ انوارا لعلوم جلد نمبر ۶ صفحہ ۵۲۹ طبع اول)
شہزادہ نے یہ کتاب بڑے ادب و احترام کے ساتھ قبول کی اور ان کے چیف سیکرٹری مسٹر ڈی مانٹمورنسی نے شہزادہ کی طر ف سے بہت بہت شکریہ کے ساتھ اس کتاب کی رسیدگی کی اطلاع حضرت مولانا ذوالفقارعلی خان صاحب کو قادیان میں بذریعہ خط دی۔ ( ریویو مارچ تا مئی ۱۹۲۱ء)
اس کتاب کے ۴ درجن نسخے انگلستان بھجوائے گئے۔ حضرت مولوی مبارک علی صاحب (بی اے بی ٹی بوگرابنگال) مبلغ انچارج برطانیہ یکم جون ۱۹۲۲ ء کی رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:’’ تحفہ شہزادہ ویلز کی چاردرجن کتب مرکز سے موصول ہوئیں۔ چند کاپیاں فروخت کی گئیں، باقی نسخے صاحب علم ، معزز لوگوں ، لندن کے بڑے بڑے اخباروں کے ایڈیٹروں کے علاوہ پروفیسر بی ۔ ایچ ۔ براؤن (کیمبرج) پروفیسر نکلسن (کیمبرج) پروفیسر سر ٹی ۔ ڈبلیو۔ آرنلڈ مصنف ’’دعوت اسلام‘‘، لارڈ بلفور، لارڈ ہیڈلے، وزیراعظم، وزیر ہند، سائنسدان اور محقق علوم طبعیات Sir Olivor Lodge ، اور سر آرتھر کانن ڈائل ( یورپ میں تحریک روحانیت کے ایک بڑے لیڈر) کو تحفۃً پیش کیے گئے۔‘‘ (الفضل ۶ ؍جولائی ۱۹۲۲ء)
اخبار ڈیلی ٹیلی گراف لندن نے اپنی ۶ ؍جون ۱۹۲۲ ء کی اشاعت میں تحریر کیا:
’’ پرنس آف ویلز کو سیاحت ہند کے دوران جو متعدد ایڈریس پیش کیے گئے ان میں سے ایک جماعت احمدیہ کے معزز اراکین کی طرف سے بھی تھا۔ یہ جماعت خالص مذہبی جماعت ہے جو تقریباً تیس سال ہوئے پنجاب میں قائم کی گئی تھی۔ اس کے بڑے بڑے عقائد میں سے ایک عقیدہ جس کی بنیاد خالص اسلامی احکام پر رکھی گئی ہے یہ ہے کہ ہر اس حکومت کی وفادار رعایا رہے گی جس کے ماتحت مذہبی آزادی حاصل ہو۔ یہ ایڈریس پیش کرنے والے اراکین نے بیان کیا کہ یہ حقیقی آزادی چونکہ انہیں گورنمنٹ برطانیہ کے ماتحت حاصل ہے اس لیے وہ اس سے بے وفائی نہیں کرسکتے۔‘‘

الغرض ویلز اور ویلش قوم کے ساتھ جماعت احمدیہ کا تعلق بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ جماعت احمدیہ کا اس ملک میں باقاعدہ قیام ۔ تاہم خلافت احمدیہ کی برطانیہ ہجرت کے بعد جو عظیم الشان ترقیات خدا تعالیٰ نے احمدیت کو عطا فرمائی ہیں اُن میں یورپ بھر میں بڑی بڑی جماعتوں کا قیام اور اُن کے ذریعے احمدیہ مساجد کی کثرت سے تعمیر ’تاریخ احمدیت‘ کا ایک روشن باب ہے۔ دراصل یہی وجہ ہے کہ ویلز میں احمدیہ مسجد اور مرکز تبلیغ کے قیام کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ لیکن اس راہ میں حائل مشکلات (جن کا مختصر بیان گزشتہ ایک شمارے میں کیا جاچکا ہے) کے نتیجے میں یہ منصوبہ قریباً دس سال تک التوا کا شکار رہا۔ اگرچہ لمبی قانونی مشکلات اور مخالفت کی غیرمتوقع صورتحال سے اندازۂ خرچ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا اور اس کے لیے مزید عطایا کا حصول ناگزیر ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایک سو سال قبل جب مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا تو اس مسجد کی تعمیر کے لیے گراں قدر قربانی پیش کرنے کی سعادت پانے والوں میں اکثریت ایسے غرباء اور سفیدپوش درویش صفت احمدیوں کی تھی جنہیں پیٹ بھر کر روٹی بھی میسر نہیں تھی اور تن ڈھانپنے کے لیے اکثر اُن کے پاس اتنے ہی کپڑے ہوتے تھے جتنے موسم کی شدّت سے بچنے کے لیے ضروری ہوا کرتے تھے۔ ان … میں ہماری وہ مائیں بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر یا پہلے سے کی ہوئی کسی بچت کو اپنی ذاتی ضروریات کی بجائے خلیفہ وقت کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے خداتعالیٰ کے حضور نہ صرف پیش کردیا بلکہ اپنے آنسوؤں سے اپنے ربّ کے حضور گریہ کناں بھی ہوئیں کہ وہ اس عاجزانہ کاوش کو قبول فرمالے اور اسلام احمدیت کی ترقی کے لیے پیش کی جانے والی یہ ادا محبوبِ حقیقی کی نگاہ میں محبوب ٹھہرے۔
قارئین محترم! گزشتہ ایک صدی کی عظیم الشان ترقیات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے آج ہم گواہی دے سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے غریب اور بیکس جماعت کی پیش کی جانے والی اِن حقیر قربانیوں کی قبولیت کے لیے شدّت جذبات سے بہنے والے آنسوؤں کو اپنی رحمت سے قبول فرماتے ہوئے اُن کی اولادوں کو ایسی برکتوں اور نعمتوں کا وارث بنادیا ہے جن کا شمار بھی شاید ممکن نہیں۔ اپنے ربّ کے ان بےپایاں احسانات پر ہم آج جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے۔ لیکن غور طلب امر یہ بھی ہے کہ کیا شکرگزاری کا یہ احساس ہم میں احساس ذمہ داری بھی پیدا کرتا ہے۔ کیا ہم آج اپنی نسلوں کو دائمی برکات کا وارث بنانے کے لیے خود بھی قربانیوں کے اعلیٰ معیار پیش کرنے کی توفیق پارہے ہیں۔ اور اپنے ربّ کے حضور ایسی عاجزانہ قربانیاں پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جنہیں ہمارا ربّ قبول فرماکر ہماری اولادوں کے لیے امن و سلامتی اور خیروبرکت کی راہیں مزید کشادہ کرتا چلا جائے۔


یاد رہے کہ کارڈف میں مسجد کی تعمیر ہماری منزل نہیں ہے بلکہ جاری رہنے والی ترقیات کا محض ایک زینہ ہے۔ یہ ہماری ذمہ داریوں کا صرف عشرعشیر ہے۔ انگلستان کے احمدیوں کا فرض ہے کہ خلفائے احمدیت کے دلوں میں تبلیغ اسلام اور قرآن کریم کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کا جو جوش پایا جاتا ہے اُسے اپنے دلوں میں بھی محسوس کریں اور اُسی درد دل کے ساتھ اپنے ہر ہم وطن تک حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے سعی کریں اور جہاں بھی ممکن ہو خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے لیے مساجد تعمیر کرتے چلے جائیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ارشاد ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ حضورؓ فرماتے ہیں:

’’اگر آپ انگلستان کی تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انگلستان کی ترقی غیر معمولی مشکلات کے موقع پر ایسے حوادث کے ذریعے ہوتی رہی ہے جسے گو بعض اتفاق حسنہ کہہ دیں لیکن بصیرت رکھنے والے انسان ان میں خدا تعالیٰ کے فضل کا جلوہ دیکھتے ہیں۔ اتفاق حسنہ ایک منفرد واقعہ کا نام ہوتا ہے لیکن انگلستان کی پچھلی چھ سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کے غیر معمولی حوادث جن کے ذریعے سے انگلستان کی بعض تاریک ترین گھڑیاں بعد میں اس کی روشن ترین ساعتیں ثابت ہوئی ہیں، ایک لمبے سلسلہ میں منسلک ہیں۔ جن کی کڑیوں کو الگ الگ دیکھ کر گو اتفاق حسنہ کہا جا سکے لیکن جنہیں مجموعی نظر سے دیکھ کر خدا تعالیٰ کی مشیت کے سوا کسی اَور سبب کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ کی یہ خاص نگاہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انگلستان سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے اور وہ کام وہی ہے جو بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے بذریعہ الہام بتایا۔ یعنی ایک دن انگلستان اسلام کو قبول کرکے اس طرح خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا وارث ہونے والا ہے جس طرح اس نے دنیا کی بادشاہت سے ورثہ پایا ہے۔ انگلستان جس قدر بھی خوش ہو بجا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کہ نگاہ میں پسندیدہ ٹھہرا۔ وہ ایک دلہن ہے جسے آسمانی دولھا نے اپنے لیے پسند کرلیا، ایک موتی ہے جو جوہری کی نگاہ میں جچ گیا، ایک درخت ہے جسے باغباں نے باغ کے وسط میں لگایا۔ ‘‘ (دارالانوار جلد 12 صفحہ 42)

(محمود احمد ملک)

اپنا تبصرہ بھیجیں