اردو کی خودنوشت سوانح عمریوں میں احمدی احباب کا ذکر
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جون 1999ء میں ’’اردو کی خودنوشت سوانح عمریوں میں شامل بعض احمدی احباب کا ذکر‘‘ ، مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
اگرچہ بیسویں صدی کے آغاز سے جماعت احمدیہ کا نام مختلف انداز سے اردو ادب میں شامل رہا ہے۔ مثلاً سر رضا علی اپنی خود نوشت سوانح ’’اعمال نامہ‘‘ میں علی گڑھ سکول کے ماحول کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
’’علی گڑھ میں مختلف فرقوں کے طلباء کے تعلقات بڑے خوشگوار تھے۔ سنی، شیعہ، مقلد، غیرمقلد کا کوئی سوال نہ تھا … احمدی فرقہ نیا نیا تھا جس کے بارہ میں ہم طالبعلموں کو صرف اتنا علم تھا کہ اس کے بانی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی آریوں کے مقابلہ میں ناموس اسلام قائم رکھنے میں مشغول و مصروف ہیں‘‘۔
اسی طرح منفرد ناول نگار عبدالحلیم شرر اپنے ایک ناول میں ایک احمدی کے کردار کا ذکر کرتے ہیں کہ جب وہ احمدی بطور گواہ کسی کے سامنے پیش ہوا تو اُس کے بارہ میں سب نے گواہی دی کہ یہ شخص مرزا غلام احمد قادیانی کا پیروکار ہے اسلئے اس کے سچ بولنے میں کوئی شبہ نہیں۔
لیکن بعض خودنوشت سوانح میں احمدی احباب کا ذکر اُن کا نام لے کر کیا گیا ہے، مثلاً:-
٭ صاحبِ اسلوب شاعر، ادیب اور صحافی جناب عبدالمجید سالک صاحب کی سرگذشت میں بہت سے احمدی احباب کا ذکر موجود ہے۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب، محترم چودھری محمد ظفراللہ خانصاحب، قاضی محمد اسلم صاحب، عبدالرحیم درد صاحب، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ انہوں نے اپنے برادر اکبر اور اپنے والد محترم کا بھی ذکر کیا جو احمدی تھے۔ اسی طرح بعض احمدی احباب کے ارتحال پر انہوں نے تعزیتی شذرے بھی لکھے۔ ان میں حضرت نواب محمد علی خانصاحب، حضرت حکیم عبیداللہ بسمل صاحب اور حضرت حکیم عبدالعزیز خاں صاحب (طبیہ عجائب گھر والے) شامل ہیں۔
٭ جناب دیوان سنگھ مفتون نے اپنی کتاب ’’ناقابل فراموش‘‘ میں دو احمدی احباب کا ذکر بڑے احترام سے کیا ہے۔ ایک میجر حبیب اللہ شاہ صاحب سپرنٹنڈنٹ جیل اور دوسرے گیانی عباداللہ صاحب۔ محترم شاہ صاحب کے بارہ میں وہ لکھتے ہیں:-
’’یہ بزرگ بہت شریف، دیانتدار اور مذہبی خیال کے بزرگ تھے۔ قادیان کی احمدی جماعت کے پیشوا کے عزیزوں میں سے تھے۔ قیدیوں کے بہت ہمدرد تھے۔ ہمیشہ ہی میرے احساس کا خیال کرتے رہے‘‘۔
اسی طرح گیانی صاحب کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ قادیان کے ایک احمدی مربی گیانی عباداللہ (جو سکھ لٹریچر پر اتھارٹی ہیں) نے میری درخواست پر ایک طویل خط لکھا جس میں دوسرے سکھ لٹریچر کے علاوہ گوروگرنتھ صاحب کے بھی حوالے دے کر ثابت کیا کہ گورو صاحبان رام صاحب کے معترف تھے۔
٭ کنور مہندر سنگھ بیدی براہ راست بابا نانک کی سترھویں پشت میں سے ہیں۔ آپ کی خودنوشت ’’یادوں کا جشن‘‘ میں احمدی ڈاکٹر قاضی محمد بشیر اور ان کے صاحبزادے پروفیسر سرجن ڈاکٹر مسعود کا ذکر اس رنگ میں ہے کہ بیدی صاحب کے بھائی کو سر میں پھوڑا نکل آیا جو دماغ کو دباتا تھا اور ڈاکٹروں نے اُن کی زندگی سے مایوسی کا اظہار کردیا تھا۔ ڈاکٹر محمد بشیر صاحب نے اپنی بیماری کے باوجود ہسپتال تشریف لاکر مریض کا آپریشن کیا اور خدا تعالیٰ نے مریض کو کامل شفا عطا فرمادی۔
٭ بریگیڈئر صدیق سالک اپنی خودنوشت ’’سیلیوٹ‘‘ میں جنرل اختر حسین ملک کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
’’ناشتے کی میز پر میری ملاقات میجر جنرل اختر حسین ملک سے ہوئی۔ انہوں نے تعارف میں پہل کی … انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ اپنی سٹاف کار میں راولپنڈی جا رہے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا :
“Capt. Salik! Would you like to give me the pleasure of your company upto Rawalpindi”
یعنی کیپٹن سالک! کیا راولپنڈی تک آپ مجھے اپنی محبت سے نوازیں گے۔ (میں تو اس کا ترجمہ یوں کرتا کہ کیا آپ راولپنڈی تک مجھے رفاقت کا شرف بخشیں گے) جملہ معترضہ کے طور پر کسی کا شعر یاد آگیا ؎
آپ سے جھک کے جو ملتا ہوگا
اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا
…راستے میں وہ مجھ سے میرے پیشے کے متعلق باتیں کرتے رہے… اور مجھے اعتراف ہے کہ ان تمام موضوعات پر ان کی معلومات مجھ سے کہیں زیادہ جدید اور معتبر تھیں۔ میں ایک عرصے تک اس سفر کے نشے میں رہا‘‘۔
ایک اَور ملاقات کا ذکر کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ’’میرا تاثر یہ تھا کہ یہ فوجی لیڈر غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ یہ لکیر کا فقیر نہیں، کچھ کر گزرنے کا ملکہ رکھتا ہے۔ اسے آئندہ سالوں میں نظر میں رکھنا چاہئے کہ اس کی ابلتی ہوئی صلاحیتیں کس طرف اظہار پاتی ہیں‘‘۔
اس کے بعد مصنف نے 1965ء کی جنگ کے حوالہ سے جنرل صاحب کی عسکری ذہانت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد لکھا ہے:-
’’چند ایسے سوالات ابھرے جن کے جوابات ہنوز واضح نہیں ہیں مثلاً ستمبر کے ابتدائی دنوں میں اکھنور کی جانب پاک فوج کی پیش قدمی کیوں روک دی گئی اور عین لڑائی کے دوران میجر جنرل اختر حسین ملک کو کمانڈ سے ہٹا کر میجر جنرل یحییٰ خان کو ان کی جگہ کیوں لگایا گیا؟‘‘
٭ نامور ادیب، شاعر و نقاد ڈاکٹر وزیر آغا اپنی خودنوشت ’’شام کی منڈیر سے‘‘ میں اپنے سکول کے ایک ساتھی (محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب) کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:-
’’جلسہ تقسیم انعامات میں سب سے زیادہ انعامات ایک چھوٹے قد کے لڑکے کو ملے جو اس وقت میٹرک کا طالبعلم تھا۔ اسے انعام میں کتابوں کا اتنا بڑا ڈھیر ملا کہ اُس سے اٹھایا نہیں جاتا تھا۔ کالج کے بیشتر اساتذہ کھسر پھسر کر رہے تھے کہ یہ لڑکا جینئس ہے، ریاضی اور سائنس اس کے مضامین تھے جن میں وہ اپنی کلاس سے میلوں نہیں بلکہ صدیوں آگے تھا‘‘۔
٭ ضمیر جعفری صاحب کی ڈائری ’’ضمیر حاضر ضمیر غائب‘‘ میں بعض احمدی احباب کا ذکر ہے مثلاً فیض چنگوی صاحب کا اور جنرل اختر حسین ملک صاحب کے خسر چودھری عبدالغفور صاحب کا۔
٭ پروفیسر آل احمد سرور کی خودنوشت ’’خواب باقی ہیں‘‘ میں مشہور احمدی ادیب ڈاکٹر اختر اورینوی کا ذکر یوں کیا گیا ہے:-
’’پٹنے یونیورسٹی میں اردو کے استاد تھے، پڑھے لکھے آدمی تھے۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی ان کی خاصی شہرت تھی، بہت اچھے خطیب بھی تھے۔ ان کی بیوی شکیلہ اختر بھی ایک ممتاز افسانہ نگار تھیں… بڑے اچھے خطیب تھے ایک مرتبہ پٹنے کے گوردوارے میں انہوں نے گروگوبند پر ایسی اچھی تقریر کی کہ ان کو ایک کرپان نذر کی گئی‘‘۔
٭ جوش ملیح آبادی اپنی خودنوشت میں ایک احمدی دوست کا ذکر یوں کرتے ہیں:-
’’میاں محمد صادق! دراز قامت، ژرف نگاہ، شب رنگ، صباح طینت، لاہور کے باشندے، … عقیدے کے لحاظ سے قادیانی، نواہی سے بیزار، اوامر کے پابند، نماز پنجگانہ کے بغیر سانس لینے کو گناہ سمجھنے والے، سخن سنج، شاعر نواز، اخلاص شعار، مردم شناس، عہدے کے اعتبار سے شب یلدا، اور پاکیزگی طبع و شرافت نفس کے نقطہ نظر سے صبح صادق! … وہ شدت کے ساتھ دیندار تھے…‘‘۔
٭ مشہور براڈ کاسٹر اخلاق احمد دہلوی اپنی کتاب ’’میرا بیان‘‘ میں احمدی ادیب قمر اجنالوی کے تاریخی ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
’’قمر اجنالوی دریا کو کوزے میں بند کرنے کی بجائے کوزہ میں سے دریا نکالتے ہیں۔ …اصل میں وہ قلم ہی ایسے موضوع پر اٹھاتے ہیں جس میں ڈوب کر اور اس کی تہ میں پہنچ کر یہ آپ کے لئے موتی رول سکیں … ان کی تحریر میں وہ گرفت اور موہنی ہے جو آپ کو پکڑ کر بٹھا لیتی ہے … جناب قمر اجنالوی ایک معتبر مؤرخ اور محقق ہیں۔‘‘