ازواج مطہرات کی تعلیم و تربیت
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اے اہل بیت! یقینا اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کردے اور تمہیں اچھی طرح پاک کردے۔ (احزاب:34)
اس وعدہ کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو جو پاکیزگی اور رفعت بخشی اس میں رسول اﷲ ﷺ کی بے انتہا محنت اور بے قرار دعاؤں کا بہت دخل ہے۔ آپؐ جہاں اُن کے تمام مادی حقوق ادا کرتے وہاں ان کی تربیت پر بھی گہری نگاہ رکھتے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍اکتوبر 2004ء میں مکرم عبدالسمیع خانصاحب کے قلم سے ایک مضمون ازواج مطہرات کی تعلیم و تربیت کے عنوان سے شامل اشاعت ہے۔
آنحضورﷺ کی زندگی حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے حسین توازن کا مرقع تھی۔حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ حضورؐ کام کاج میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے اور ان کی خدمت میں مشغول رہتے مگر جونہی نماز کا وقت آتا تو آپ نماز کے لئے نکل کھڑے ہوتے۔
آنحضرت ﷺ نے ایک مثالی گھرانے کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا: اﷲ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جو رات کو اٹھے، نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے۔ اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑکے تاکہ وہ اٹھ کھڑی ہو۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھی، نماز پڑھی اور اپنے میاں کو جگایا۔ اگر اس نے اٹھنے میں پس وپیش کیا تو اس کے چہرے پر پانی چھڑکا تاکہ وہ اٹھ کھڑا ہو۔
رسول اﷲ ﷺ پر آغاز میں حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت علیؓ ہی ایمان لائے تھے کہ آپؐ نے ان کے ساتھ نماز باجماعت کی ادائیگی کا سلسلہ شروع فرمادیا اور پھر عمر بھر سفروحضر، بیماری و صحت، امن و جنگ غرض کہ ہر حالت عسر و یسر میں اس فریضہ کی بجا آوری میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہونے دی۔ اور یہی مبارک عادات آپ نے اپنی دیگر ازواج میں بھی پیدا فرما ئیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور ؐ رات کو نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے اٹھتے اور عبادت کرتے تھے جب طلوع فجر میں تھوڑا سا وقت باقی رہ جاتا تو مجھے بھی جگاتے اور فرماتے تم بھی وتر ادا کرلو۔
اسی طرح آپؓ فرماتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں تو بطورخاص آپ خود بھی کمر ہمت کس لیتے اور بیویوں کو بھی اہتمام کے ساتھ عبادت کے لئے جگاتے تھے۔
ایک رات آنحضرت ﷺ نماز تہجد کے لئے اٹھے تو وحی الہٰی کے ذریعہ سے آپؐ کو آئندہ کے فتنوں کی کچھ خبریں بتائی گئیں۔ اس پر گھبراہٹ کے عالم میں آپؐ اپنی بیویوں کو نماز اور دعا کے لئے جگانے لگے اور فرمایا ان حجروں میں سونے والیوں کو جگاؤ۔ اور پھر اس نصیحت کو مزید اثر انگیز بنانے کے لئے یہ پُرحکمت جملہ فرمایا کہ: دنیا میں کتنی ہی عورتیں ہیں جو ظاہری لباسوں کے لحاظ سے بہت خوش پوش ہیں مگر قیامت کے دن جب یہ لباس کام نہ آئیں گے اور صرف تقویٰ کی ضرورت ہوگی تو وہ اس لباس سے عاری ہوںگی۔
رسول اﷲ ﷺ جگانے کی خاطر بعض اوقات پائوں کا انگوٹھا پکڑ کر ہلاتے یا پانی کا چھینٹا دیتے۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کے حضور ؐ میرے حجرہ میں تہجد ادا کرتے جہاں جگہ اتنی کم تھی کہ میں حضورؐ کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور جب حضورؐ سجدہ کرنے لگتے تو میں پاؤں سکیڑ لیتی۔
ایک بار آدھی رات کو حضرت عائشہؓ نے حضور کو بستر پر نہ پایا تو تلاش کرتے کرتے ایک ویران قبرستان میں پہنچ گئیں ۔ جہاں حضور ؐ شدت الحاح اور گریہ سے تڑپ رہے تھے ۔
حضرت عائشہؓ نے رسول اﷲ ﷺ کی نماز تہجد کی کیفیت یوں بتائی کہ حضور ﷺ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ مگر اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ مجھے اﷲ کی ایک ایسی صفت کا علم ہے جس کا نام لے کر دعا کی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے وفور شوق سے عرض کیا کہ پھر مجھے بھی وہ صفت بتادیں۔ آپؐ نے فرمایا میرے خیال میں تمہیں بتانا مناسب نہیں ۔ اس پر حضرت عائشہؓ جیسے روٹھ کر ایک طرف جا بیٹھیں کہ خود ہی بتائیں گے مگر جب آنحضرت ﷺ نے کچھ دیر تک نہ بتایا تو عجب شوق کے عالم میں خود اٹھیں ، رسول کریم ؐ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! بس مجھے ضرور وہ صفت بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ دراصل اس صفت کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے دنیا کی کوئی چیز مانگنا درست نہیں اس لئے میں بتانا نہیں چاہتا۔ تب حضرت عائشہؓ پھر روٹھ کر الگ ہوگئیں۔ اور وضو کرکے مصلیٰ بچھاکر بآواز بلند یہ دعا کرنے لگیں کہ اے میرے مولیٰ! تجھے اپنے سارے ناموں اور صفتوں کا واسطہ ۔ ان صفتوں کا بھی جو مجھے معلوم ہیں اور ان کا بھی جو میں نہیں جانتی کہ تُو اپنی اس بندی کے ساتھ عفو کا سلوک فرما۔ آنحضرت ﷺ پاس بیٹھے دیکھتے اور مسکراتے جاتے اور پھر فرمایا: اے عائشہ! بیشک وہ صفت انہی صفات میں سے ہے جو تم نے شمار کر ڈالیں۔
بیویوں کے دل میں توحید باری کی عظمت کے قیام کا خیال آپؐ کو بوقت وفات بھی تھا۔ چنانچہ آپ ؐ کی آخری بیماری میں جب کسی بیوی نے حبشہ کے ایک گرجا کا ذکر کیا جو ماریہ (حضرت مریم ؑ) کے نام سے موسوم تھا تو اپنی بیماری کی تکلیف دہ حالت میں بھی آپؐ نے فرمایا: برا ہو ان یہودیوں اور عیسائیوں کا جنہوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کے مزاروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔
گویا بالفاظ دیگر یہ پیغام دیا کہ تم لوگ میری قبر کو شرک گاہ نہ بنادینا، میرے بعد توحید پر قائم رہنا۔
حضرت ابن عمرؓ نے ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ آپ مجھے آنحضرت ﷺ کی کوئی ایسی بات بتائیں جو آپ کو بہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہو۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ رو پڑیں اور لمبے عرصہ تک روتی رہیں اور جواب نہ دے سکیں۔ پھر فرمایا کہ آپ ؐ کی ہر بات ہی عجیب تھی۔ کس کا ذکر کروں اور کس کا ذکر نہ کروں۔ ایک رات میرے ہاں باری تھی حضور ؐ میرے پاس تشریف لائے۔ بستر میں داخل ہوئے اور فرمایا: اے عائشہ ! کیا مجھے اس بات کی اجازت دیں گی کہ میں اپنے ربّ کی عبادت میں یہ رات گزاروں۔ میں نے عرض کی: یا رسول اﷲ! یقینا، مجھے تو آپؐ کا قرب پسند ہے اور آپؐ کی خوشنودی مقصود ہے۔ اس پر حضور ؐ اٹھے، مشکیزہ سے وضو کیا پھر نماز پڑھنے لگے اور قرآن کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا۔ آپ کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ پھر آپ ؐ بیٹھ گئے اور خدا کی حمد اور تعریف کی اور پھر رونا شروع کر دیا۔ پھر آپ ؐ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور پھر رونے لگے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کے آپؐ کے آنسوئوں سے زمین تر ہوگئی اور اسی حالت میں وہ رات گزر گئی۔ اور جب صبح کے وقت حضرت بلال ؓ نماز کے لیے بلانے آئے تب بھی آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ رو رہے ہیں، کیا آپ کے متعلق ا ﷲ نے یہ خوش خبری نہیں دی کہ اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے گئے۔ آپ ؐ نے فرمایا: اے بلال! کیا میں خدا تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔
ایک دفعہ حضرت امّ سلمہؓ کے گھر میں کچھ عورتیں اکیلی اکیلی نماز پڑھ رہی تھیں۔ آپؐ نے دیکھا تو امّ سلمہؓ کو فرمایا: جب زیادہ عورتیں ہوں تو ایک درمیان میں کھڑی ہو کر امامت کروالیا کرے۔
نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے ۔ حضرت حفصہ ؓ نے بھی اپنا خیمہ لگا لیا۔ ان کی دیکھا دیکھی حضرت زینب ؓ بنت حجش نے خیمہ لگوالیا۔ صبح رسول ؐ اﷲ نے کئی خیمے دیکھے تو پوچھا کہ کس کے خیمے ہیں۔ آپ ؐ کو بتایا گیا کہ ازواج کے ہیں تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ یہ (ریس کرنے کو) نیکی سمجھتے ہو۔ پھر اس سال آپ ؐ نے اعتکاف رمضان میں نہیں بلکہ شوال میں فرمایا۔
آنحضورﷺ کی کوشش تھی کہ ازواج مطہرات باہمی محبت سے زندگی بسر کریں لیکن اگر طبعی جذبات کے ماتحت کوئی بیوی ایسا قدم اٹھاتی جس سے دوسری بیوی کی حق تلفی ہوتی یا جذبات کو ٹھیس پہنچتی تو حضور ؐ سختی سے اس کا نوٹس لیتے۔
حضرت عائشہ ؓ آپؐ کو بہت محبوب تھیں۔ ایک دفعہ انہوں نے حضرت صفیہ ؓ کو اپنی چھنگلی دکھا کر ان کے پستہ قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹھگنی (چھوٹے قد والی) کا طعنہ دیدیا۔ آنحضرت ؐ کو معلوم ہوا تو آپؐ نے بہت سرزنش کی اور فرمایا: یہ ایسا سخت کلمہ تم نے کہا کہ سمندر کے پانی میں بھی اس کو ملا دیا جائے تو وہ کڑوا ہوجائے ۔
ایک بار حضرت زینب بنت حجشؓ نے حضرت صفیہ ؓ کو یہودن کہہ دیا ۔ اگرچہ ان کا نسب یہود ابن یعقوب تک منتہی ہوتا ہے مگر کہنے کا انداز ایسا تھا کہ حضور ؐ دو تین ماہ تک اُن کے حجرہ میں نہ گئے۔ وہ غم سے نڈھال ہو کر مایوس ہو چکی تھیں اور سمجھتی تھیں کہ اب کبھی آنحضرت ؐ کا چہرہ نہ دیکھ سکیں گی۔ حضرت زینب نے توبہ کی تو پھر آپؐ نے عفو سے کام لیا۔
حضرت صفیہ ؓ کھانا پکانے کی ماہر تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ کی باری کے دوران انہوں نے کھانا بھجوایا ۔ حضرت عائشہ ؓ کو غیرت آئی تو کھانا لانے والی لونڈی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کھانا گرا دیا اور برتن ٹوٹ گیا۔ حضرت عائشہ ؓ سے شدید محبت کے باوجود حضور ؐ نے اس فعل پر اظہار نا پسندیدگی فرمایا۔ آپ ؐ نے اپنے ہاتھوں سے برتن کے ٹکڑے اکٹھا کر کے جوڑے اور پھر حضرت عائشہ ؓ سے اس کے ساتھ کا برتن منگویا۔ حضور ؐ نے ٹوٹا ہوا برتن حضرت عائشہ ؓ کے سپرد کر دیا اور صحیح سالم برتن حضرت صفیہ ؓ کو بھجوادیا ۔
آنحضرت ؐ کی تعدد ازدواج کی ایک حکمت امت کی تربیت بھی تھی۔ خصوصاً عورتوں سے متعلق مسائل میں وہ رسول اﷲ ؐ اور امت کے درمیان ایک عملی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق فرمایا: ’’آدھا دین عائشہ سے سیکھو‘‘۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ رسول اﷲ ؐ کی وفات کے 48 سال بعد تک زندہ رہیں۔ حضرت حفصہؓ، حضرت ام حبیبہ ؓ، حضرت صفیہ ؓ، حضرت میمونہ ؓ، حضرت جویریہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ نے بھی خلافت راشدہ کے بعد تک عمر پائی۔
ایک بار حضرت جبریل نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا خدیجہ سے ربّ کائنات کا اور میرا سلام کہہ دیجئے اور ان کو ایک ایوان جنت کی بشارت دیں جو خالص مروارید سے بنا ہے جس کے اندر کوئی رنج و الم نہیں۔
ایک دوسری حدیث میں رسول اﷲ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: یہ جبریل ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا میرا سلام بھی ان تک پہنچادیں۔
ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا مجھ پر عائشہ ؓ کے بستر میں وحی نازل ہوتی ہے ۔
حضرت حفصہ ؓ کے متعلق جبریلؑ نے فرمایا ’’وہ روزے رکھنے والی، بہت نمازیں پڑھنے والی اور جنت میں بھی آپ کی زو جہ ہے‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’ امر واقعہ یہ ہے کہ سب سے حسین معاشرہ کی جنت جو نازل ہوئی وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ میں نازل ہوئی۔ آپ نے بہترین اسوہ ہر آنے والی نسل کے لئے پیچھے چھوڑا … آج مغربی قوموں کا امن بھی اٹھ چکا ہے اور مشرقی قوموں کا امن بھی اٹھ چکا ہے۔ آج نہ روس عائلی جنت کی ضمانت دے سکتا ہے اور نہ امریکہ عائلی جنت کی ضمانت دے سکتا ہے اور وہ ایک ہی ہے اور صرف ایک ہی ہے یعنی ہمارا آقا حضرت محمدﷺ جو آج معاشرہ کی جہنم کو جنت میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔‘‘