استاذی المحترم پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب
(مطبوعہ رسالہ ’طارق‘ لندن 1993 ٕ)
(تحریر: ناصر محمود پاشا)
1978ء میں جب ہم نے سکول کی پابندیوں سے کالج کی آزادی کی جانب قدم بڑھایا تو جہاں خوشی کا ایک بھرپور جذبہ ذہن میں موجزن تھا وہاں اس وقت کے اپنے کالج (تعلیم الاسلام کالج ربوہ) کے ماحول کو دیکھ کر دل میں شدید دُکھ اور غم کا احساس بھی پیدا ہوتا تھا۔ کیونکہ یہ تو وہ کالج تھا جسے ہمارے بزرگوں نے نہایت نامساعد حالات کے باوجود، شب و روز کی انتھک محنت سے پروان چڑھایا تھا اور نصابی و غیرنصابی سرگرمیوں کا مرکز بناکر اسے مُلک بھر کے تعلیمی اداروں میں ایسا ممتاز مقام دلوادیا تھا کہ ’’تعلیم الاسلام کالج‘‘ سے میدان عمل میں داخل ہونے والا طالبعلم بھی یہ جانتا تھا کہ اُس کی مادرعلمی کی نیک نامی ہی اُس کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت اور روشن مستقبل کے لئے ضمانت بن جائے گی۔ ڈریس کوڈ سے لے کر اخلاق کے عملی مظاہرہ تک ہر چیز میں تعلیم الاسلام کالج کے اساتذہ اور طلباء نمایاں نظر آتے تھے۔ لیکن (1972ء میں کی جانے والی نیشنلائزیشن اور پھر1974ء میں کی جانے والی نہادنہاد اسلامائزیشن کے بعد) یہی تعلیمی ادارہ مذہبی نفرت پھیلانے والوں کے کسب معاش کا ذریعہ بن چکا تھا۔ اور کالج کی تاریخ میں یہ وہ عجیب سال آئے تھے جب اپنے ہی کالج میں احمدی طلباء اقلیت بن کر رہ گئے تھے۔ ایسے میں بلاوجہ مظاہرے، ہڑتالیں اور احتجاج روزمرّہ کا معمول بن گئے تھے۔ نصابی سرگرمیاں کس طرح جاری رہ سکتی تھیں جب کالج نصف سال سے زیادہ یا تو بند رہا کرتا تھا یا جزوی طور پر اس کا تعلیمی نظام مخصوص سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ’’طلباء‘‘ کے نام نہاد احتجاج کی نذر ہوجایا کرتا تھا۔ اگر کوئی احتجاج میں شامل نہ ہو تو نہ سہی لیکن کلاسوں کا بائیکاٹ زبردستی کروادیا جاتا تھا۔ کبھی ایسے اساتذہ کو بھی زچ کرکے کلاس روم چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا تھا جو کلاس لینے پر مُصر ہوتے تھے اور احتجاج کرنے والوں کے رویّوں پر ہی سراپا احتجاج کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ اِن قابل احترام اساتذہ میں ایسے بھی شریف النّفس وجود تھے جو اگرچہ احمدی نہیں تھے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو دیانتداری سے ادا کرنے کے خواہشمند تھے۔
ایسے ہی ایک احتجاج کی پاداش میں (جس میں ہماری پوری کلاس کمرہ امتحان کا بائیکاٹ کرنے والوں میں شامل ہوگئی تھی) ہر طالبعلم کو پانچ روپے جرمانے کی سزا ہوئی۔ اُس دَور کے لحاظ سے پہلے تو ہمیں بڑی گھبراہٹ ہوئی کیونکہ سفید پوشی ہی اوڑھنا بچھونا تھا اور ایسے میں پانچ روپے کی رقم بھی اچھی خاصی نظر آتی تھی جس کا حصول جرمانے کے نام پر تو یقینا مشکل تھا، لیکن جلد ہی یہ خبر عام ہوگئی کہ جو طالبعلم بھی اس جرمانے کی معافی کے لئے درخواست لے کر پرنسپل صاحب کے پاس جاتا ہے اُسے کچھ سرزنش کے ساتھ جرمانہ معاف کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں جو مسئلہ درپیش تھا وہ یہ تھا کہ اُن دنوں قائمقام پرنسپل کے فرائض محترم سید سلطان محمود شاہد صاحب سرانجام دے رہے تھے جن کے ہمارے بزرگوں سے ایسے محبت کے ذاتی تعلقات اُستوار تھے کہ محترم شاہ صاحب نہایت شفقت کے ساتھ ہر لحاظ سے ہماری سرپرستی اور رہنمائی فرمایا کرتے تھے (اللہ تعالیٰ اُن کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے)۔ چنانچہ اس خوف کے پیش نظر کہ کہیں یہ بات کالج کی چاردیواری سے نکل کر گھر تک نہ پہنچ جائے، ہم نے درخواست لکھ کر جیب میں ڈال لی اور اس انتظار میں رہنے لگے کہ کسی دن محترم شاہ صاحب رخصت پر جائیں تو اُن کی قائمقامی میں جو بھی وہاں بیٹھیں اُن سے جرمانہ معاف کروا لیا جائے۔ اسی پروگرام کے تحت روزانہ دو چار بار پرنسپل صاحب کے کمرہ کے سامنے سے گزرنا ہمارا معمول بن گیا۔ پھر چند ہی روز بعد ایک صبح محترم پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب پرنسپل کی کرسی پر تشریف فرما نظر آئے اور اس طرح دیرینہ مراد پوری ہوتی نظر آئی۔ ڈرتے ڈرتے اجازت لے کر کمرہ میں داخل ہوئے اور نہایت عاجزی سے درخواست پیش کی۔ محترم خان صاحب نے درخواست پڑھی، ایک بھر پور نظر ہمارے چہرہ پر ڈالی جسے ہم نے پہلے ہی اس متوقع صورتحال کے پیش نظر نہایت عاجزانہ شکل بنا کر تیار کیا ہوا تھا۔ پوچھا: ’’کیا کیا تھا؟‘‘۔
کسی تفصیل سے بچنے کے لئے مسکین سی آواز میں عرض کیا ’’بس جی غلطی ہوگئی تھی.‘‘
آپ نے درخواست منظور کر لی لیکن واپس ہمیں دینے سے پہلے نام ایک بار پھر پڑھا اور اس بار ذرا بلند آواز میں پڑھا: محمود احمد ملک۔ اور پھر پوچھنے لگے ’’کن کے بیٹے ہو؟‘‘۔
گویا جس بات کا ڈر تھا وہی ہوگئی!۔
جیسے ہی ہم نے اپنے اباجان (محترم ملک محمد احمد صاحب) کا نام لیا تو محترم خان صاحب نے ایک دَم بے حد خوشی کا اظہار کیا اور پھر ہمارا انٹرویو شروع ہوگیا۔ کس کلاس میں ہو؟، کیا مضامین ہیں؟، میٹرک میں کتنے نمبر تھے؟ پچھلے امتحان کے نمبر کیا تھے؟ اور آئندہ کس چیز میں تعلیمی مدد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے… وغیرہ وغیرہ۔ پھر فرمایا: ’’ابھی تک تو آپ کے نمبر بہت اچھے ہیں، اب آئندہ ملتے رہا کریں‘‘۔ ہم نے شکریہ کہہ کر اجازت لی اور آئندہ ملتے رہنے کا وعدہ کرکے کمرے سے باہر نکل آئے۔ اس طرح محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم سے ہمارا پہلا تعارف ہوگیا۔
اس کے بعد چونکہ کالج میں ہماری غیرنصابی سرگرمیاں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئیں تو ہم نمبروں کے لحاظ سے اتنے خوش قسمت نہیں رہے کہ خود ڈاکٹر خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی تعلیمی قابلیت پر فخر کا اظہار کرتے۔ چنانچہ اگر کبھی سامنا ہو بھی جاتا تو کوشش ہوتی کہ ہماری تعلیم کا ذکر درمیان میں نہ آئے اور کوئی اَور بات کرکے جلد سے جلد اِدھر اُدھر ہونے کی کوشش کرتے لیکن ایک بات یقینی نظر آتی تھی کہ محترم خان صاحب کو اس بات کا بے حد شوق تھا کہ طالبعلموں کا وقت ضائع نہ ہو اور وہ پڑھائی کو ذاتی ذمہ داری کے طور پر محسوس کرکے دیانتداری سے محنت کیا کریں۔
ایک روز حسب معمول کالج (اولڈکیمپس) میں پڑھائی کا نظام کسی احتجاج کا شکار ہوگیا تو چند دوستوں کے ساتھ مَیں بھی نیو کیمپس (ڈگری کالج) چلا گیا تاکہ اگر ممکن ہو تو ٹیوب ویل پر نہانے سے لطف اندوز ہوا جائے۔ لیکن ابھی ہم اپنی سائیکلوں پر سوار ہوکر عمارت کے سامنے سے گزر ہی رہے تھے کہ محترم خان صاحب نے جو کسی کام سے برآمدے میں سے گزر رہے تھے (غالباً میرا نام لے کر) آواز دی۔ باقی دوست کہنے لگے کہ آج تو صرف تمہاری وجہ سے ہم بھی پکڑے گئے ہیں۔
بہرحال ہم سب محترم خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کے استفسار پر کالج کا احوال عرض کیا کہ کس وجہ سے تعلیم کا سلسلہ بظاہر چند روز کے لئے منقطع ہوگیا ہے۔ یہ سن کر آپ نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ اُن کے ہمراہ عمارت کے اندر آجائیں۔ دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سوچا کہ شاید کوئی وقارعمل جیسی خدمت کا موقع ملنے جا رہا ہے۔ لیکن لمبے برآمدہ سے گزرتے ہوئے محترم خان صاحب ہمیں نیوکیمپس کی لائبریری میں لے گئے اور وہاں ہمارے مضامین سے متعلقہ جدید تحقیق پر لکھی جانے والی چند کتب کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ ایک بلندپایہ عالَم اور اپنے مضمون کے ماہر ہم F.Sc. میں پڑھنے والوں سے اس طرح سنجیدگی سے گفتگو فرما رہا تھا کہ آپ کی انکساری اور طلباء کی ترقیات کے لئے عملی کوششوں کی ایک جھلک ہمیں پہلی بار قریب سے محسوس ہوئی۔ اُس وقت تو بے شک اُن کی طویل ہوتی ہوئی نصائح سے اُلجھن محسوس ہورہی تھی لیکن امرواقعہ یہ ہے کہ آج بھی اگر ہم ماضی کی اُن یادوں میں کھوجاتے ہیں تو محترم خان صاحب کی شفیق اور ہمدرد شخصیت کے زیر اثر بے اختیار اُن کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ تفصیل سے کتابوں کے بارہ میں بتانے کے بعد انہوں نے میری طرف اشارہ کر کے لائبریرین صاحب سے فرمایا کہ ان کو جس کتاب کی بھی ضرورت ہودے دیا کریں۔ مجھ جیسے ناچیز کے لئے ان کا یہ سلوک کتنا دل کو موہ لینے والا تھا، اس کے بیان سے قلم قاصر ہے۔ یقینا ایسا ہی سلوک وہ اپنے بہت سے شاگردوں کے ساتھ کیا کرتے تھے کیونکہ اُن کی زندگی میں تو نیوکیمپس کا ہر طالبعلم اور استاد اُن کا بے حد احترام کرتا ہی تھا لیکن اُن کی وفات پر غیرازجماعت دوستوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی جس طرح دکھ کا اظہار کیا اور اُن کے جنازہ اور تدفین کے بعد دعا میں بھی شامل ہوئے۔ اُس سے پتہ چلتا ہے کہ محترم خان صاحب کی شفقتوں نے اُنہیں کس قدر مقبول شخصیت بنا دیا تھا۔
بی ایس سی کے لئے میرے مضامین میں فزکس کا مضمون بھی شامل تھا۔ اس وجہ سے ہم براہ راست محترم خانصاحب کے ڈیپارٹمنٹ میں آگئے اور اس طرح اُن کی شفقت کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ بات ان میں بہت نمایاں تھی کہ نہایت شفیق اور نرم دل ہونے کے باوجود تعلیم کے معاملہ میں طالبعلم سے کسی نرمی کا سلوک نہیں کیا کرتے تھے۔ ظاہری رُعب تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو عطا کیا ہوا تھا لیکن اُن کی اپنے نصب العین اور ادارہ کے ساتھ سچّی وفاداری اور طلباء کی بہبود کے لئے بھرپور مساعی نے اُن کے لئے دلوں میں ایک محبت بھی پیدا کردی تھی۔ محترم خانصاحب کی ظرافت سے اُن کے طلباء محظوظ بھی ہوتے لیکن اُن کے سامنے زیادہ بولنے کی ہمّت کبھی پیدا نہیں ہوئی۔
B.Sc. کے فائنل امتحان سے چند ماہ قبل ایک روز ماڈرن فزکس کے ایک استاد نے اچانک ٹیسٹ لیا اور ساری کلاس کو کسی معمولی سی بات پر سخت سرزنش کی۔ ہم طلباء نے، جو سالہاسال سے اولڈکیمپس میں ہونے والی ہڑتالوں سے متأثر تھے، اپنے استاد کی سرزنش کو ازخود ہی ناقابلِ قبول قرار دے کر اُن کی کلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ چنانچہ اگلے روز جب ہمارے وہ محترم استاد فیصل آباد میں واقع اپنے گھر سے لمبا سفر کرکے ہمیں پڑھانے کے لئے ربوہ آئے اور وقت پر کلاس روم میں تشریف لائے تو وہ خالی مِلا۔ ساری کلاس باہر گھاس پر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف رہی۔ ہمارے محترم استاد نے اپنے شاگردوں کے رویّے کی شکایت اُسی وقت محترم خانصاحب سے کردی۔ چنانچہ اُسی وقت ایک کارکن کو بھیج کر ہمیں محترم خانصاحب کے دفتر میں حاضر ہونے کا حکم ملا۔ محترم خان صاحب کے سامنے وہ محترم استاد تشریف فرما تھے جو شکایت کنندہ تھے۔ جب ہماری کلاس کی حاضری ہوئی اور آپ نے ہمیں بہت پیار سے سرزنش کی، ہمارے مسائل بھی سُنے اور ہمارے لئے ٹائم ٹیبل وغیرہ میں کچھ آسانی بھی پیداکی تاکہ مختلف مضامین کے پریکٹیکلز Overlap نہ ہوں۔ لیکن ساری شفقتوں کے اظہار کے باوجود نہایت سختی سے یہ واضح کر دیا کہ استاد کے خلاف شاگردوں کی زبان سے وہ کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور ہمیں مجبور کیا کہ پوری کلاس اپنے استاد سے اپنے رویّہ پر معافی بھی مانگے۔ چنانچہ ساری کلاس منہ لٹکائے ہوئے اور ہمارے استاد اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ واپس کلاس رُوم میں پہنچے اور پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے بعد طلباء میں سے کبھی کسی کو فزکس کی کلاس میں ایسی حرکت کی جرأت نہیں ہوئی۔
اسی طرح اگر محترم خانصاحب کے علم میں یہ بات آجاتی کہ کسی مضمون کے استاد نہیں آئے ہیں تو آپ طلباء کو دوسری تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف کردیتے اور کبھی خود بھی کلاس لے لیتے۔
بی ایس سی کے دو سالوں کے دوران مجھے احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ربوہ کے نائب صدر کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی اور اس حوالہ سے بھی محترم خانصاحب کی شفقتوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا جنہوں نے طلباء کی تعلیمی استعداد کو بڑھانے اور کالج میں ہونے والی پڑھائی میں کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمیشہ ہی نہایت مفید مشوروں سے نوازا۔ مذکورہ دو سالوں کے دوران برادرم منصور احمد انجم صاحب اور برادرم محمود احمد اشرف صاحب ایک ایک سال کے لئے بطور صدر ایسوسی ایشن اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔
اس عرصہ میں ایسوسی ایشن نے عام پبلک کے لئے علمی لیکچرز کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا تھا جس کا پہلا لیکچر محترم خانصاحب نے ہی ارشاد فرمایا تھا اور اپنے بہت مشکل سائنسی موضوع کو عام فہم اور سادہ زبان اور انداز میں ڈھالنے کے لئے بہت محنت کی تھی۔ ایسوسی ایشن کے یہ خصوصی لیکچرز اور ایسوسی ایشن کی دیگر تقریبات اکثر مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے ہال میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ (جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن پاکستان کے پیٹرن تھے اور مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے صدر بھی تھے۔ حضورؒ کے احمدی طلباء پر احسانات کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔)
محترم پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب کے شاگردوں اور ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد احمدی نہیں تھی۔ یہ لوگ مختلف شہروں سے ربوہ آتے اور تعلیم حاصل کرتے یا بطور استاد اس تعلیمی ادارہ سے منسلک ہوجاتے۔ اس کا اندازہ ہمیں محترم خانصاحب کی زندگی میں ہی کئی واقعات سے ہوچکا تھا کہ نہ صرف آپ کس قدر ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ کسی قسم کی تفریق کے بغیر ہر ایک سے شفقت کا سلوک فرماتے ہوئے حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ غیرازجماعت اساتذہ اور طلبہ بھی جس طرح آپ کا احترام کیا کرتے تھے وہ بھی غیرمعمولی تھا۔
محترم خانصاحب کی وفات کے بعد ہم چند دوستوں کی مجلس میں شعبہ فزکس کے ہی ہمارے ایک غیرازجماعت استاد نے نہایت محبت کے ساتھ محترم خانصاحب کا ذکر کیا کہ کس طرح انہوں نے ہمیشہ طلباء اور جونیئر اساتذہ کی حوصلہ افزائی اور مدد کی اور اس بات کا خیال رکھا کہ کسی مجبوری کے باعث کوئی بھی ترقیات سے محروم نہ رہ جائے، بعد میں ایک احمدی دوست سے جب مَیں نے اُن کی محترم خانصاحب کے لئے عقیدت کا ذکر کیا تو مجھے علم ہوا کہ یہ غیرازجماعت محترم استاد ہمارے ساتھ ہی محترم خانصاحب کی نماز جنازہ میں بھی شامل تھے اور قبر پر دعا میں بھی شامل ہوئے اور اس دوران جذبات کی شدّت کا اظہار ان کے آنسوؤں سے ہو رہا تھا۔ اگرچہ محترم خانصاحب کے جنازے کے وقت اور تدفین کے وقت کئی غیرازجماعت احتراماً وہاں موجود تھے اور یہ اس بات کی گواہی تھی کہ اُن کے سر پر دست شفقت رکھنے والا ایک ایسا وجود آج اُن سے جدا ہو رہا ہے جس کی شفقتوں کے کئی پہلو ہمیشہ اُن کے دل میں زندہ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ محترم خانصاحب کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے۔