استقامت کے شہزادے
حضرت خبابؓ لوہار تھے اور کفار اُن کی بھٹی میں سے دہکتے ہوئے کوئلے نکال کرزمین پر بچھا دیتے تھے اور پھر حضرت خبابؓ کو اُن کوئلوں پر لٹاکر کوئی بدبخت آپؓ کی چھاتی پر چڑھ جاتا تھا تاکہ آپؓ حرکت نہ کرسکیں۔ چربی کے جلنے کی بو آیا کرتی اور دہکتے ہوئے کوئلے اُس مظلوم کے نیچے ٹھنڈے ہو جاتے لیکن ظالم کا دل نہ پسیجتا۔… ایسے میں بھی جب بعض صحابہؓ نے خدمت رسالت میں حاضر ہوکر کفار مکہ کے لئے بددعا کرنے کی درخواست کی تو آنحضورﷺ کا چہرہ جوش سے تمتما اٹھا اور فرمایا کہ دیکھو تم سے پہلے وہ لوگ گزرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ نوچ کر ہڈیوں تک صاف کردیا گیا مگر وہ اپنے دین سے متزلزل نہیں ہوئے اور وہ بھی جن کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دو ٹکڑے کردیا گیا مگر ان کے قدموں میں لغزش نہیں آئی۔ دیکھو خدا مجھے ضرور غلبہ دے گا…۔ چنانچہ پھر اسی سرزمین مکہ میں آپؐ ایک فاتح کی حیثیت سے دس ہزار صحابہ کے ساتھ داخل ہوئے اور اسلام نے شرک اور کفر کو شکست دی اور اُن کفار کی گردنیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جُھک گئیں جو مسلمانوں کو دکھ دینے میں پیش پیش تھے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍اپریل سے متعدد اقساط پر مشتمل ایک مضمون مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے جس میں آنحضرتﷺ اور آپؐ کے ابتدائی صحابہ کی طرف سے ایمان کی خاطر پیش کی جانے والی قربانیوں کے زندۂ جاوید نمونے پیش کئے گئے ہیں۔
آنحضرتﷺ کے اصحاب کو تیروں ، تلواروں اور نیزوں سے شہید کیا گیا، صلیب دے کر شہید کیا گیا، جلتے انگاروں پر لٹایا گیا، عین دوپہر کے وقت گرم پتھروں پر گھسیٹا گیا، زدو کوب کیا گیا اور مار مار کر لہولہان کردیا گیا۔ الٹا لٹکا کر نیچے آگ جلائی جاتی، لوہے کی زرہیں پہناکر دھوپ میں کھڑا کیا جاتا۔ انہیں بھوکا اور پیاسا رکھا گیا، قیدوبند کی صعوبتیں دی گئیں، سوشل بائیکاٹ ہوا، جائیدادیں چھین لیں، ماؤں سے بچے جدا کردیئے، ہجرت پر مجبور کیا گیا، مقدس حاملہ عورتوں کے حمل گرائے گئے، نام بگاڑے گئے، مساجد شہید کی گئیں اور نماز پڑھنے سے روکا گیا۔ غرض روزانہ نئے ستم ایجاد کئے گئے لیکن استقامت کے شہزادوں نے اذیتوں کے سارے پتھر اپنے پائے استقامت سے روند ڈالے اور توحید کا پرچم سربلند رکھا پس خدا نے ان کے نام زندۂ جاوید کردیئے۔
حضرت عمارؓ کے والد یاسرؓ یمن سے آکر مکہ میں آباد ہوئے تھے اور ابو حذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سمیہؓ کی شادی اُن کے ساتھ کردی تھی۔ یہ خاندان ابتدا میں ہی مسلمان ہوگیا اور بنو مخزوم نے ان پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی۔ حتی کہ ابو جہل نے حضرت سمیہؓ کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر ان کو شہید کردیا۔ یہ اسلام میں پہلی شہادت تھی۔ حضرت یاسرؓ بھی جلد ہی انتقال کرگئے اور حضرت عمارؓ ایک لمبے عرصہ تک کفار کے مظالم کا نشانہ بنائے جاتے رہے۔ قریش آپؓ کو انگاروں پر لٹادیتے اور پانی میں غوطے دیتے لیکن آپؓ کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی۔
غزوہ احد کے قریب دس صحابہ کو ظالمانہ طور پر شہید کیا گیا جن میں سے ایک حضرت خبیبؓ نے شہادت سے قبل دو نفل ادا کئے اور یہ شعر پڑھے کہ ’’جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جاؤں تو مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں کس پہلو پر گرتا ہوں۔ میری یہ سب قربانی اللہ کی رضا کے لئے ہے وہ اگر چاہے گا تو میرے ریزہ ریزہ اعضاء میں بھی برکت ڈال دے گا‘‘۔ اسی زمانہ میں ستّر صحابہ کو دھوکہ سے تبلیغ کے بہانے بلاکر انتہائی سفاکی سے شہید کردیا گیا۔ اُن کے سردار حضرت حرامؓ بن ملحان کو جب پشت کی طرف سے نیزہ مارا گیا تو انہوں نے خون سے چلو بھر کر اپنے منہ اور سر پر پھیر کر فرمایا ’’ربّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا‘‘۔
حضرت عروہؓ بن مسعود ثقفی کو 9ھ میں ایک بدبخت نے اس وقت تیر سے شہید کردیا جب وہ اپنے گھر میں فجر کے وقت اذان دے رہے تھے۔ حضرت فروہؓ بن عمرو فلسطین کے علاقہ میں قیصر روم کے عامل تھے۔ جب مسلمان ہوئے تو قیصر نے انہیں واپس بلاکر قید کردیا اور پھر صلیب دے کر شہید کردیا۔ حضرت حبیبؓ بن زید کو مسیلمہ کذاب نے اپنی بغاوت کے زمانہ میں پکڑلیااور اُن کا ایک ایک عضو کاٹ کر شہید کردیا۔
حضرت ابوبکرؓ اسلام لائے تو مشرکین نے انہیں مارنا شروع کیا۔ بدبخت عتبہ بن ربیعہ نے اپنے جوتے سے چہرے پر اتنے وار کئے کہ چہرہ پہچانا نہ جاتا تھا۔ جب آپؓ کی تبلیغ سے حضرت طلحہؓ بھی مسلمان ہوگئے تو نوفل بن خویلد نے دونوں کو پکڑکر ایک رسی میں بندھوادیا اور تکالیف پہنچائیں۔ ایک صحابی کا بیان ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ حضرت طلحہؓ کے ہاتھ گردن میں باندھ کر کچھ لوگ انہیں کھینچے پھرتے ہیں اور اُن کی والدہ اُن کے پیچھے غراتی اور گالیاں دیتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ حضرت عمر کے بہنوئی حضرت سعیدؓ بن زید ایمان لائے تو آپ انہیں رسیوں سے باندھ دیتے تھے۔ حضرت عمرؓ جیسے جری شخص کو بھی مسلمان ہونے پر مسجد حرام میں پیٹا گیا۔ حضرت زبیرؓ بن عوام اسلام لائے تو آپؓ کی عمر آٹھ برس تھی۔ آپ کا چچا آپ کو چٹائی میں لپیٹ کر لٹکادیتا اور نیچے آگ جلاکر دھواں دیتا۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ مسلمان ہوئے تو دشمنوں نے ان کے ہاتھ گردن سے باندھ کر زدوکوب کیا، بال کھینچے اور گھسیٹتے ہوئے مکہ میں لائے۔ حضرت عثمانؓ بن مظعون نے اسلام قبول کیا تو ایک مشرک نے اُن کی آنکھ پر مکہ مار کر ڈیلہ باہر نکال دیا۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود کو خانہ کعبہ میں قرآن پڑھنے پر اتنا مارا گیا کہ چہرے پر نشان پڑگئے۔ حضرت ابوذرؓ غفاری کو مسجد حرام میں اتنا پیٹا گیا کہ وہ لہولہان ہوکر بیہوش ہوگئے۔
آنحضرتﷺ کی بیٹی حضرت زینبؓ کو مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت ھبار بن اسود نے نیزہ مار کر گرادیا جس سے اُن کا حمل ساقط ہوگیا۔ حضرت بلالؓ کو کفار مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے، ان کا آقا امیہ بن خلف تپتی دوپہر میں انہیں ریت پر لٹاکر سینہ پر پتھر رکھ دیتا۔ حضرت خبابؓ کی مالکن ام انمار لوہا گرم کرکے آپؓ کے سر پر رکھ دیتی۔ آپؓ نے آنحضورﷺ سے اُس کی شکایت کی تو اُس کے سر میں ایک بیماری ہوگئی اور آپؓ نے اُس کے مظالم سے نجات پائی۔
صفوان بن امیہ کے غلام حضرت ابوفکیہہؓ اسلام لائے تو وہ اور اُس کا بھائی آپؓ کو رسی سے باندھ کر گرم پتھروں پر گھسیٹتے اور گلا گھونٹتے۔ باقی قبیلہ بھی اُن پر اتنے ظلم کرتا کہ آپؓ اپنے حواس کھو بیٹھتے۔
آخر کفار مکہ نے 7نبوی میں ایک معاہدہ لکھ کر مسلمانوں کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا اور انہیں شعب ابی طالب نامی ایک گھاٹی میں محصور کردیا۔ اس دوران صحابہؓ نے بعض اوقات درختوں کے پتے کھاکر گزارہ کیا۔ حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیںکہ ایک رات میرے پاؤں کے نیچے کوئی چیز آئی جو تر اور نرم معلوم ہوتی تھی، میری بھوک کا یہ عالم تھا کہ میں نے فوراً اُسے نگل لیا اور آج تک مجھے پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ ایک دوسرے موقعہ پر اُنہیں سوکھا ہوا چمڑا مل گیا جسے وہ پانی میں نرم کرکے بھون کر کھاگئے۔
حضرت عثمانؓ ایمان لائے تو آپؓ کے چچا حکم بن ابی العاص نے آپؓ کو پکڑ کر باندھ دیا۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر مسلمان ہوئے تو آپؓ کو قید کردیا گیا، آخر آپؓ نے حبشہ کی راہ لی۔ حضرت خالدؓ بن سعید ایک خواب کی بنا پر اسلام لے آئے تو آپ کے والد نے انہیں شدید زدوکوب کیا اور ایک کوڑے سے اُن کے سر پر اتنی ضربیں لگائیں کہ کوڑا ٹوٹ گیا پھر انہیں بھوکا پیاسا قید کردیا جہاں سے تین دن کے بعد یہ موقع پاکر فرار ہوگئے اور حبشہ ہجرت کرگئے۔ عیاسؓ بن ابی ربیعہ مسلمان ہوئے تو ابوجہل اور حارث بن ھشام نے انہیں پکڑ کر قید کردیا۔ پھر ان کے ساتھ ہی حضرت سلمہؓ بن ھشام اور حضرت ولید (خالد بن ولید کے بھائی) کو بھی قید کردیا گیا۔ ولیدؓ کسی طرح فرار ہوگئے اور پھر آنحضرتﷺ کے ارشاد پر خفیہ طور پر دونوں قیدی ساتھیوں کو اپنے ہمراہ لے کر مدینہ چلے گئے۔
قریش کے سردار سہیل بن عمرو کے بیٹے ابوجندلؓ مسلمان ہوئے تو سہیل نے انہیں کئی برس تک بیڑیاں پہنا کر قید میں رکھا۔ حتی کہ صلح حدیبیہ کے وقت وہ فرار ہوئے لیکن پھر آنحضورﷺ کے حکم پر دوبارہ مصائب میں گرفتار ہوئے لیکن پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔
ایک اور صحابی رسولﷺ حضرت عبداللہؓ بن حذافہ کا ایمان افروز واقعہ بھی اپنے اندر ایک عجب شان رکھتا ہے۔ آپؓ کو حضرت عمرؓ کے دور میں رومیوں نے گرفتار کرلیا اور بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے عیسائی ہونے کے لئے پہلے کئی قسم کا لالچ دیا اورپھر کئی طرح سے موت کی دھمکی دی۔ آپؓ کو خوفزدہ کرنے کے لئے جسمانی تکلیف بھی دی اور آپؓ کی آنکھوں کے سامنے دوسرے مسلمانوں کو بھی اذیت پہنچائی لیکن جب آپؓ کی استقامت دیکھی تو آپؓ کی نظروں کے سامنے ابلتے ہوئے پانی کی دیگ میں ایک مسلمان کو پھنکواکر شہید کردیا اور پھر آپؓ کو عیسائیت کی دعوت دی لیکن انکار کرنے پر آپؓ کو بھی دیگ میںپھینکنے کا حکم دیا۔ جب آپؓ کو دیگ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو آپؓ کے آنسو نکل آئے۔ بادشاہ نے سمجھا کہ شاید موت سے خوفزدہ ہیں چنانچہ اُس نے پھر عیسائیت کا پیغام پیش کیا لیکن آپؓ نے اپنے آنسوؤں کی وجہ یوں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے سوچا کہ ابھی مجھے دیگ میں ڈال دیا جائے گا اور میری ایک ہی جان ہے جو چلی جائے گی جبکہ میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے بالوں کی تعداد کے برابر میری جانیں ہوتیں جو سب راہِ خدا میں آگ میں ڈال دی جاتیں۔ … بالآخر بادشاہ نے کہا اگر تم میرے سر کو بوسہ دو گے تو میں تمہیں آزاد کردوں گا۔ اس پر حضرت عبداللہؓ نے تمام مسلمان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ لیا اور سوچا کہ اس کے سر کو بوسہ دینے سے اگر سب کو رہائی نصیب ہوتی ہے تو کیا حرج ہے۔ چنانچہ تمام قیدی رہا ہوکر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے۔ حضرت عمرؓ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا کہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ عبداللہؓ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دے اور اس کا آغاز میں کرتا ہوں۔
ایسے مصائب کے زمانہ میں بعض ایسے معجزات بھی ہوئے جن کی وجہ سے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے والے مشرکین کے دل کی کایا پلٹ گئی۔ حضرت ابوامامہؓ اپنی قوم کو تبلیغ کر رہے تھے اور قوم انکاری تھی۔ اس موقع پر انہیں سخت پیاس لگی۔ قوم نے انہیں پانی پلانے سے انکار کردیا۔ آپؓ سخت گرمی میں پتھروں پر لیٹ گئے اور بعید نہیں تھا کہ شدّت پیاس سے آپکی جان نکل جاتی کہ ایک آدمی نے خواب میں آپؓ کو نہایت لذیذ پانی پلایا اور یہ معجزہ ساری قوم کے اسلام قبول کرنے کا باعث بنا۔ اسی طرح ایک صحابیہ حضرت امّ شریکؓ کو تبلیغ کے جرم میں مشرکین نے تین دن بھوکا پیاسا اور دھوپ میں باندھ کر رکھا اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ سے یہ سلوک فرمایا کہ رؤیا میں ٹھنڈا اور میٹھا پانی پلایا جو آپؓ نے اپنے اوپر بھی چھڑک لیا۔ مشرکین نے یہ جب آپؓ کی حالت دیکھی اور رؤیا سنی تو ایمان لے آئے۔
آنحضورﷺ کے دعویٰ سے قبل آپؐ کی دو صاحبزادیوں کے نکاح ابولہب کے دو بیٹوں سے ہوچکے تھے۔ جب آپؐ نے توحید کا اعلان کیا تو ابولہب نے اُن دونوں کو طلاق دلوادی۔ یہ دونوں مقدس خواتین پھر یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ کے عقد میں آئیں۔
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی۔ جب آپؓ مسلمان ہوئے تو آپؓ کی والدہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا لیکن آپؓ نے جواب دیا کہ اگر تجھ میں ہزار جانیں بھی ہوں اور وہ ایک ایک کرکے نکل جائیں تو بھی میں کسی قیمت پر دین سے جدا نہیں ہوسکتا۔ یہ استقامت دیکھ کر آپؓ کی والدہ نے کھانا پینا شروع کردیا۔
حضرت ابوسلمہؓ نے مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا تو آپؓ کی اہلیہ اور بیٹے کو اُن کے قبیلہ نے روک کر قید کردیا۔ بعد میں بیٹے کو بھی ماں سے حضرت ابوسلمہؓ کے قبیلہ والوں نے لے لیا اور اس طرح بیوی کو خاوند سے اور بیٹے کو ماں سے جدا کردیا۔ حضرت ام سلمہؓ روزانہ صبح ویرانوں میں نکل جاتیں اور سارا دن آنسو بہاتیں۔ سارا سال اسی طرح گزرگیا آخر ایک آدمی کو ان پر رحم آیا اور انہیں بچہ واپس کرکے مدینہ جانے کی اجازت دیدی گئی۔ اور آپؓ اکیلی بچے کو لے کر مدینہ پہنچیں۔ یہی ام سلمہؓ اپنے خاوند کی شہادت کے بعد آنحضورﷺ کے عقد میں آئیں اور امّ المومنین کہلائیں۔
مسلمان ہونے کے جرم میں حضرت خبابؓ کی اجرت دینے سے عاص بن وائل نے انکار کردیا۔ حضرت صہیبؓ نے جب ہجرت کرنا چاہی تو کفار نے کہا کہ تم مکہ میں محتاج ہوکر آئے تھے لیکن یہاں آکر دولتمند ہوگئے ہو اب یہ مال لے کر تم یہاں سے نہیں جاسکتے۔ اس پر حضرت صہیبؓ نے سارا مال کفار کو دے دیا اور مدینہ ہجرت کی۔ حضرت عبداللہ ذوالبجادین ایمان لائے تو قوم نے سارے کپڑے چھین لئے۔ آپؓ کی ماں نے ایک چادر انہیں دی جس کے دو حصے کرکے ایک کی آپ نے تہبند بنائی اور دوسرا قمیص کے طور پر اوپر لے لیا اور انہی کپڑوں میں مدینہ ہجرت کی۔ کئی اور صحابہؓ بھی اپنی جائیدادیں اور مال و دولت چھوڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں مدینہ پہنچے۔ خود آنحضورﷺ کی ساری جائیداد پر عقیل نے جو اُس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے قبضہ کرلیا اور آپؐ کی عالی ظرفی یہ تھی کہ فتح مکہ کے بعد بھی جائیداد کی واپسی کا مطالبہ نہ کیا۔
آج ان اصحابِ رسولؐ کے تمام دشمن ملیامیٹ ہوچکے ہیں لیکن صحابہؓ کوعزت اور فخر کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ یہی تاریخ ہے جو آج بھی دہرائی جارہی ہے۔ یہی قربانیاں ہیں جن کے مقدّر میں فنا نہیں لکھی گئی اور یہی عظمتیں ہیں جو ناقابل تسخیر ہیں۔