اسلامی معاشرہ میں عورت کا کردار
درج بالا موضوع پر مکرمہ مریم چودھری صاحبہ کا ایک مضمون ماہنامہ ’’ریویو آف ریلجنز‘‘ اگست 1995ء میں شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار نے مختلف ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں آزادی نسواں کے بارے میں قوانین کے اجراء کی تاریخ بیان کرنے کے بعد ثابت کیا ہے کہ سب سے پہلے یعنی 1400 سال قبل وحی الٰہی کی بنیاد پر انسانی فطرت کے مطابق عورت کے تمام حقوق و فرائض کو بالتفصیل بیان کرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔ چنانچہ عورتوں کے لئے وراثت، جائیداد، تعلیم ، طلاق اور دوبارہ شادی وغیرہ کے حقوق کے قوانین قریباً دو صدیوں سے حکومتی سطح پر نافذ ہونے شروع ہوئے ہیں مثلاً برطانیہ میں 1882ء میں پہلی دفعہ شادی شدہ عورتوں کو جائیداد بنانے کا حق دیا گیا۔ جبکہ اٹلی میں یہ حق 1919ء میں دیا گیا۔اسی طرح اٹلی میں عورت کو طلاق لینے کا حق 1923ء ، ناروے میں 1909ء، نیوزی لینڈ اور سوئٹزرلینڈ میں 1912ء، پرتگال میں 1915ء، میکسیکو میں 1917ء، کیوبا میں 1918ء ، تسمانیہ میں 1919ء اور سویڈن میں 1920ء میں پہلی بارکو دیا گیا۔ امریکہ میں نام نہاد عزت کے نام پر عورت کو اتنا ارزاں کردیا گیا ہے کہ سارا معاشرہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر رہ گیا ہے جبکہ اسلام ہر قدم پر عورت کی عزت اور وقار کی حفاظت کرتا ہے۔