اصحابِ احمدؑ کا تعلق باللہ

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مارچ و اپریل 2021ء)

فرخ سلطان محمود

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۔ (الانعام:104)
یعنی اللہ تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے، انسانی عقل ازخود اُس تک نہیں پہنچ سکتی لیکن وہ خود انسانی عقل پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔
اس آیت میں معرفتِ الٰہی اور تعلق باللہ کا مسئلہ بڑے ہی لطیف اور جامع الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی۔
یعنی اے رسول! ہم نے تجھے اپنی تلاش میں دنیا و مافیہا سے گُم پایا تو ہم نے آگے بڑھ کر خود ہدایت کے سامان کئے۔
بے شک آنحضرت ﷺ کا مقدّس وجود ایک طرف تو اپنے خالقِ حقیقی کے عشق میں فنا ہوکر تعلق باللہ کی بہترین مثال تھا اور دوسری طرف اپنے ربّ کی مخلوق کی بے لَوث ہمدردی کا سمندر بھی آپؑ کے قلبِ صافی میں موجزن تھا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے ایسی پاکیزہ جماعت آپؐ کو عطا فرمائی جو قرآن کریم کی تعلیمات اور سنّت نبویؐ کے مطابق اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کرکے تعلق باللہ کی شاندار روایات قائم کرنے والی تھی۔ قرونِ اولیٰ کے ان روشن ستاروں کی روشنی جب بُعدِزمانہ کے باعث مدہم ہونے لگی تو مالکِ ارض و سما نے اپنی بے پایاں رحمت کے طفیل حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام صادق کو مبعوث فرماکر، تعلق باللہ کی زندگی بخش روایات کو ازسرنَو زندہ کردینے والی ایک اَور جماعت پیدا فرمائی۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعویٰ فرمایا:
’’مجھ سے خداتعالیٰ باتیں کرتا ہے اور مجھ سے ہی نہیں جوشخص میری اتباع کرے گا اور میرے نقش قدم پر چلے گا اور میری تعلیم کو مانے گا اور میری ہدایت کو قبول کرے گا خداتعالیٰ اس سے بھی باتیں کرے گا۔‘‘
(ضرورۃالامام۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ475)
دراصل مامور من اللہ کی بعثت کا مقصد ہی تعلق باللہ کا قیام ہوتا ہے۔ اور یہی وہ رسّی ہے جسے مضبوطی سے پکڑ کر انسان اپنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی استعدادوں کو جِلا بخش سکتا ہے۔ اصحابِ احمد کی زندگیوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ کے حصول کی جدوجہد میں نمازوں اور ذکرالٰہی کی عادت کے علاوہ عام زندگی میں احکامِ الٰہی پر عمل کرنا بھی ناگزیر ہے، کیونکہ معرفتِ الٰہی میں ترقی کا گُر اپنی پیدائش کی اصل غرض کو پیش نظر رکھنا ہے یعنی وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ۔
اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی کامل فرمانبرداری اختیار کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا ہی عبادت کہلاتا ہے۔ چنانچہ جو اِس گُر کو اپنے روزمرّہ امور میں پیش نظر رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کا کفیل و کارساز ہوتا ہے، اُن کی مقبولیت کے نشانات دنیا پر ظاہر کرتا ہے، استجابتِ دعا کا معجزہ عطا کرتا ہے اور ہمیشہ اپنی حفاظت کے حصار میں رکھتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی یعنی کنکریوں کی مٹھی جو تُو نے دشمن پر پھینکی تھی وہ دراصل مَیں نے پھینکی تھی۔ اور یہ بھی کہ مَنْ عَادَلِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ یعنی جو میرے ولی کا دشمن ہو مَیں اُس کو کہتا ہوں کہ اب میری لڑائی کے لئے تیار ہوجا۔
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’تعلق باللہ‘‘ کے عنوان سے اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
وہی اُس کے مقرّب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں
نہیں رہ اُس کی عالی بارگہ تک خودپسندوں کو
یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اُس سے قربت کو
اُسی کے ہاتھ کو ڈھونڈو جلاؤ سب کمندوں کو
(درّثمین۔ منقول از ضمیمہ تریاق القلوب صفحہ 1مطبوعہ 1902ء)

اس نہایت پُرمعارف کلام میں حضور علیہ السلام نے تعلق باللہ کے حصول کے لئے ہر قسم کی نیکی کی عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ اپنے آقا کی نصائح کو حرز جان بنالینے کے نتیجے میں دورِ آخرین کے روشن ستاروں نے وہ پاکیزہ ادائیں اپنائیں کہ خداتعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ اُن پر بھی جلوہ گر ہوا اور خداتعالیٰ کی تائید و نصرت اور قبولیتِ دعا کے بے شمار نشانات سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب کی زندگیوں میں نہایت شان سے ظاہر ہوتے رہے۔ بلکہ اس کثرت سے ظاہر ہوئے کہ ہزاروں واقعات زینتِ قرطاس بنائے ہی نہیں جاسکے۔ پس امر واقعہ تو یہی ہے کہ سینکڑوں ’’اصحابِ احمد‘‘ کے ہزاروں واقعات میں سے محض چند واقعات کا انتخاب اس موضوع کا حق ادا کرہی نہیں سکتا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے والی ایسی بہت سی خواتین (صحابیات) کے تعلق باللہ کے بے شمار واقعات بھی تاریخ احمدیت میں محفوظ ہیں۔ اُن کے اپنے ربّ سے ہم کلام ہونے اور قبولیتِ دعا کے ایمان افروز واقعات ہمیشہ قارئین اور سامعین کے ازدیادِ ایمان کا باعث بنتے چلے جائیں گے۔
خداتعالیٰ کرے کہ خلافتِ احمدیہ کے سائے تلے احمدی نسلوں میں قیامت تک ایسے زندہ تعلق باللہ کی مثالیں ملتی چلی جائیں جن کی خوشبو سے دنیابھر کی سعید روحیں فیضیاب ہونے کے لئے آنحضورﷺ کے غلام صادق کی غلامی قبول کرنا اپنے لئے باعثِ عزّ و شرف جانیں۔ آمین
وہ ’اصحاب احمد‘ جو منصبِ خلافت پر فائز ہوئے

سیّدنا حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب (خلیفۃالمسیح الاوّلؓ)

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایسا مخلص صدیق اور سلطان نصیر قرار دیا ہے جو دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کو عطا فرمایا تھا۔
(ماخوذ از حیات نُور، مصنّفہ محترم عبدالقادر صاحب سوداگر مل، باب سوم صفحہ 113)

امر واقعہ یہ ہے کہ اصحابِ احمد میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا مبارک وجود ستاروں کے جھرمٹ میں چاند کی مانند تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آپؓ کو آغاز جوانی میں ہی عرفان الٰہی حاصل ہوچکا تھا جس کی وجہ سے آپ خدا کے ہوچکے تھے اور خدا آپ کا۔ غیر معمولی تعلق باللہ کی وجہ سے حضورؓ کی ہر ضرورت کے پورا ہونے کا غیب سے سامان ہوجاتا تھا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے:
’’میری آمدنی کا راز خدا نے کبھی کسی کو بتانے کی اجازت نہیں دی۔‘‘
(اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان28؍اکتوبر1909ء۔ روزنامہ الفضل ربوہ 24؍جون2005ء صفحہ3)
٭ حضورؓ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ:
’’خداتعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ مَیں اگر کہیں جنگل بیابان میں بھی ہوںتب بھی خداتعالیٰ مجھے رزق پہنچائے گا اور مَیں کبھی بھوکا نہیں رہوں گا۔‘‘
(حیات نُور، مصنّفہ محترم عبدالقادر صاحب سوداگر مل، باب سوم صفحہ 274)
٭ حضورؓ کے تعلق باللہ کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ قادیان میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے کچھ صحابہ جمع تھے۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید بھی وہاں موجود تھے جو کسی ضرورت کے پیش نظر اپنی جگہ سے اُٹھ کر ذرا باہر گئے۔ اتنے میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ تشریف لے آئے اور خالی جگہ پاکر حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی جگہ پر بیٹھ گئے۔ جب حضرت صاحبزادہ صاحب واپس آئے تو کچھ غصّے کے انداز میں کہا کہ مولوی صاحب آپ کو معلوم نہیں کہ دوسرے کی جگہ پر نہیں بیٹھنا چاہیے! حضرت مولوی صاحبؓ اس جگہ سے اُٹھنے ہی والے تھے کہ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ نہیں نہیں آپ بیٹھے رہیں۔ ابھی ابھی مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’اللہ کے پیارے بندوں سے نہیں جھگڑتے۔‘‘
(اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان28؍اکتوبر1909ء۔ روزنامہ الفضل ربوہ 24؍جون2005ء صفحہ3)
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو جو ضرورت ہو اُسی وقت پوری ہوجاتی ہے۔ ایک دفعہ میرے سامنے ایک آدمی آیا اس نے دو سو روپیہ بطور امانت دو سال کے لئے دیا اور کہا کہ میں دو سال کے بعد آکر آپ سے لے لوں گا۔ ایک شخص جس نے ایک سو روپیہ قرض مانگا ہوا تھا۔ وہ بھی پاس ہی بیٹھا ہوا تھا، آپ نے ایک سو روپیہ اسے دے دیا اور رسید لے کر اس تھیلی میں رکھ لی اور تھیلی روپوں کی گھر بھجوا دی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہی امانت رکھوانے والا پھر آیا اور کہا کہ میرا ارادہ بدل گیا ہے وہ روپے مجھے دے دیں۔ آپ نے فرمایا کب جاؤگے؟ اس نے کہا ایک گھنٹے کو۔ آپ نے فرمایا اچھا تم یکّہ وغیرہ کرو اور ایک گھنٹہ کو آکر مجھ سے روپیہ لے لینا۔ مَیں اس وقت آپ کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ آپؓ نے فرمایا: دیکھو انسان پر بھروسا کرنا کیسی غلطی ہے۔ میں نے غلطی کی۔ خدا نے بتلادیا کہ دیکھو تم نے غلطی کی۔ اب دیکھو میرا مولا کیسے میری مدد کرتا ہے۔ پھر وہ ایک سو روپیہ ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کو مل گیا اور آپ نے اسے دے دیا۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت، مرتبہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب، جلد سوم صفحہ 556 و 557)
٭ ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ دارالضعفاء یا نورہسپتال کے چندہ کے لئے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؓ نے فرمایا: میرے پاس اس وقت کچھ نہیں۔ مگر حضرت میر صاحبؓ نے کئی بار اصرار کیا تو حضورؓ نے کپڑا اٹھایا اور وہاں سے ایک پاؤنڈ اٹھا کر دے دیا اور فرمایا:
’’اس پر صرف نورالدین نے ہاتھ لگایا ہے۔‘‘
(ماخوذ از تاریخ احمدیت، مرتبہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب، جلد سوم صفحہ 556)
٭ ایک دن عبد المحیی عرب صاحبؓ نے 40 روپے قرض چاہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ آج سے پندرھویں دن آکر لے لیں۔ جب وقت آیا تو اتوار کا دن تھا۔ کوئی منی آرڈر نہ پہنچا، نہ کہیں سے روپیہ آیا۔ شام کے قریب حضرت اپنا کوٹ اور واسکٹ لٹکاکر وضو کے لئے گئے۔ عبدالمحیی صاحب نے آپ کے کوٹ اور واسکٹ کی جیبیں دیکھیں اور خالی پائیں مگر جب آپؓ وضو کر کے واپس آئے تو کوٹ واسکٹ پہنا اور 40 روپے نکال کر عبد المحیی صاحب کو دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ ہے جس سے کوئی واقف نہیں۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت، مرتبہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب، جلد سوم صفحہ 556 و 557)
٭ جب حضورؓ پنڈدادنخان میں مدرس تھے تو ایک مرتبہ افسر مدارس نے آپؓ سے کسی بات پر کہا کہ آپ کو ڈپلومے کا گھمنڈ ہے۔ اس پر آپؓ نے گھر سے اپنا ڈپلومہ منگواکر اسی وقت ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اُس افسر سے فرمایا کہ آپ نے اس کو باعثِ غرور، تکبر اور موجبِ روزی سمجھا ہے۔ میں نے اس کو پارہ پارہ کر کے دکھایا ہے کہ میرا ان چیزوں پر بھروسا نہیں۔
(ماخوذ از حیات نُور، مصنّفہ محترم عبدالقادر صاحب سوداگر مل، باب سوم صفحہ 182)
٭ قریشی امیر احمد صاحب بھیروی کی شہادت ہے کہ ہمارے سامنے حضورؓ کی خدمت میں چھٹی رساں کتابوں کا ایک VP لایا جو سولہ روپے کا تھا۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ کتابیں مجھے پیاری ہیں اور میں نے بڑے شوق سے منگوائی ہیں لیکن اب ان کی قیمت میرے پاس نہیں ہے لیکن میرے مولا کا میرے ساتھ ایسا معاملہ ہے کہ سولہ روپے آئیں گے اور ابھی آئیں گے۔ چنانچہ ہم بیٹھے ہی تھے کہ ایک ہندو اپنا بیمار لڑکا لے کر آیا۔ حضرت نے نسخہ لکھ دیا۔ ہندو ایک اشرفی اور ایک روپیہ رکھ کر چل دیا۔ آپ نے اسی وقت سجدۂ شکر کیا اور فرمایا کہ میں اپنے مولا پر قربان جاؤں کہ اس نے تمہارے سامنے مجھے شرمندہ نہیں کیا اگر یہ شخص مجھے کچھ بھی نہ دیتا تو میری عادت ہی مانگنے کی نہیں۔ پھر ہوسکتا تھا کہ وہ صرف ایک روپیہ دیتا یا اشرفی ہی دیتا۔ مگر میرے مولا نے اسے مجبور کیا کہ میرے نورالدین کو سولہ روپے کی ضرورت ہے اس لئے اشرفی کے ساتھ روپیہ بھی ضرور رکھو۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت، مرتبہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب، جلد سوم صفحہ 556)
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اپنے تعلق باللہ کا ایک واقعہ یوں بیان فرمایا ہے کہ مَیں کشمیر میں دربار کو جارہا تھا۔ یار محمد خاں ایک شخص میری اردلی میں تھا۔ اس نے راستہ میں مجھ سے کہا کہ آپ کے پاس جو یہ پشمینہ کی چادر ہے یہ ایسی ہے کہ مَیں اس کو اوڑھ کر آپ کی اردلی میں بھی نہیں چل سکتا۔ مَیں نے اس سے کہا کہ تجھ کو اگر بُری معلوم ہوتی ہے تو میرے خدا کو تجھ سے بھی زیادہ میرا خیال ہے۔
جب مَیں دربار میں گیا تو مہاراجہ نے کہا کہ آپ نے ہیضہ کی وبا میں بڑی کوشش کی ہے آپ کو تو خلعت ملنا چاہیے۔ چنانچہ ایک قیمتی خلعت دیا۔ اس میں جوچادر تھی وہ نہایت ہی قیمتی تھی۔ مَیں نے یار محمد خاں سے کہا کہ دیکھو ہمارے خدا کو ہمارا کیسا خیال ہے۔
٭ حضورؓ فرماتے ہیں کہ جموں میں حاکم نام ایک ہندو پنساری ہمیشہ نصیحتاً کہا کرتا تھا کہ ہر مہینہ ایک سو روپیہ پس انداز کرلیا کریں، یہاں مشکلات پیش آجاتی ہیں۔ میں ہمیشہ یہی کہتا کہ ایسے خیالات کرنا اللہ تعالیٰ پر بدظنّی ہے۔ جس دن میں وہاں سے علیحدہ ہوا اس دن وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آج شاید آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہوگی۔ میں نے کہا میں تمہاری نصیحت کو جیسا پہلے حقارت سے دیکھتا تھا آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں۔ ابھی وہ مجھ سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ خزانہ سے چار سو اسّی روپیہ میرے پاس آئے کہ یہ آپ کی اُن دنوں کی تنخواہ ہے۔ اس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ نوردین تم پر نالش تھوڑا ہی کرنے لگا تھا!۔ ابھی وہ اپنے غصہ کو فرو نہ کرنے پایا تھا کہ ایک رانی صاحبہ نے بہت سا روپیہ بھجوایا اور کہا کہ یہ ہمارے جیب خرچ کا روپیہ ہے، جس قدر موجود تھا سب کا سب حاضر خدمت ہے۔ پھر تو اس کا غضب بہت ہی بڑھ گیا۔
مجھ کو ایک شخص کا ایک لاکھ 95 ہزار روپیہ دینا تھا۔ اس پنساری نے اشارہ کیا کہ بھلا جن کا آپ کو قریباً دو لاکھ روپیہ دینا ہے وہ آپ کو بدوں اس کے کہ اپنا اطمینان کر لیں کیسے جانے دیں گے؟ اتنے میں اُنہی کا آدمی آیا اور بڑے ادب سے کہنے لگا کہ میرے پاس ابھی تار آیا ہے، میرے آقا فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو تو جانا ہے، ان کے پاس روپیہ نہ ہوگا اس لئے تم ان کا سب سامان گھر جانے کا کردو اور جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو دے دو اور اسباب کو اگر وہ ساتھ نہ لے جا سکیں تو تم اپنے اہتمام سے بحفاظت پہنچوادو۔
میں نے کہا مجھ کو روپیہ کی ضرورت نہیں۔ خزانہ سے بھی روپیہ آگیا ہے اور ایک رانی نے بھی بھیج دیا ہے اور اسباب مَیں سب ساتھ ہی لے جاؤں گا۔
وہ ہندو پنساری کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ پر میشروں کے یہاں بھی کچھ لحاظ داری ہوتی ہے۔ ہم لوگ صبح سے لے کر شام تک کیسے کیسے دُکھ اٹھاتے ہیں تب کہیں بڑی دقّت سے روپیہ کا منہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ اُس احمق کو دیکھو اپنے روپیہ کا مطالبہ تو نہ کیا اَور دینے کو تیار ہوگیا۔
مَیں نے کہا خداتعالیٰ دلوں کو جانتا ہے، ہم اس کا روپیہ انشاء اللہ بہت جلد ادا کردیں گے۔ تم ان بھیدوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔‘‘
(ماخوذ از مرقات الیقین فی حیات نورالدین، صفحہ 190)
بعد میں مہاراجہ کو آپؓ کے ساتھ زیادتی کا احساس ہوا تو اُس نے جنگلات کا ٹھیکہ اس شرط کے ساتھ دیا کہ منافع میں سے نصف مولوی صاحبؓ کو دیا جائے گا۔ اس پر پہلے ہی سال جو رقم آپؓ کو ملی وہ ایک لاکھ 95 ہزار روپے تھی اور اتنا ہی آپؓ پر قرض تھا جو آپؓ نے ادا فرمادیا۔ لیکن اگلے سال جب ٹھیکیدار منافع کی رقم لے کر آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکار فرمادیا کہ گزشتہ سال تو قرض دینا تھا لیکن اپنی ذات کے لئے مَیں یہ رقم قبول نہیں کرسکتا۔
(ماخوذ از حیات نُور، مصنّفہ محترم عبدالقادر صاحب سوداگر مل، باب سوم صفحہ 180 تا 182)
٭ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور گئے ہوئے تھے۔ حضورؑ نے وہاں سے کہلا بھیجا کہ مولوی نور الدین صاحبؓ اور شیخ یعقوب علی صاحب فوراً پہنچ جائیں۔ چنانچہ ہم دونوں دوبجے دوپہر یکّے پر بٹالہ کی طرف چل پڑے۔ اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ حضرت مولوی صاحب کہا کرتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں کبھی بھوکا نہیں رہوں گا‘‘۔ آج ہم بے وقت چلے ہیں، پتہ لگ جائے گا کہ رات کو ان کے کھانے کا کیا انتظام ہوتا ہے۔
بٹالہ میں مقامی جماعت کی طرف سے ایک مکان بطور مہمان خانہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں ہم دونوں چلے گئے۔ حضرت مولوی صاحبؓ ایک چارپائی پر لیٹ کر کتاب پڑھنے لگ گئے۔ قریباً شام چھ بجے ایک اجنبی شخص آیا اور کہنے لگا: میں نے سنا ہے کہ آج مولوی نورالدین صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں۔ پھر آپؓ سے کہنے لگا: حضور! آج شام کی دعوت میرے ہاں قبول فرمائیے، مَیں ریلوے میں ٹھیکیداری کرتا ہوں اور میری ٹرین کھڑی ہوئی ہے اور میں نے امرتسر جانا ہے۔ میرا ملازم حضور کے لئے کھانا لے آئے گا۔ آپؓ نے فرمایا: بہت اچھا۔ چنانچہ شام کو اُس کا ملازم بڑا پُرتکلّف کھانا لایا جسے ہم دونوں نے سیر ہو کر کھالیا۔ پھر ہم اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں چلے آئے۔ گاڑی رات کے دس بجے کے بعد آتی تھی۔ میں نے آپؓ کا بستر کھول دیا تاکہ آپؓ آرام فرمالیں۔ جب بستر کھلا تو اس کے اندر سے دو پراٹھے نکلے جن کے ساتھ قیمہ رکھا ہوا تھا۔ میں سخت حیران ہوا کہ یہ خدا کی طرف سے اَور کھانا بھی آگیا۔ پھر مَیں نے چلتے وقت کا اپنے دل کا حال حضور ؓ کو بتایا تو آپؓ نے فرمایا:
’’شیخ صاحب اللہ تعالیٰ کو آزمایا نہ کرو اور خدا سے ڈرو۔ اُس کا میرے ساتھ خاص معاملہ ہے۔‘‘
(ماخوذ از حیات نُور، مصنّفہ محترم عبدالقادر صاحب سوداگر مل، باب سوم صفحہ 273 تا 275)
٭ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ تحریر کرتے ہیں کہ میری زوجہ اوّل کی خطرناک بیماری کے ایام میں مجھے بڑی پریشانی رہی تھی اور یہ بات میرے دماغ اور دل پر حاوی تھی کہ حضرت خلیفہ اولؓ کی دعا اور علاج سے مریضہ کو شفا ہوجائے گی۔ دیگر وجوہات کے علاوہ بڑی وجوہات یہ تھیں کہ آپؓ میرے مُرشد ہیں اور باخدا ہیں اور پھر طبیب بھی اعلیٰ درجے کے ہیں۔ چنانچہ مَیں حضور کو بار بار دعا کے لئے عرض کیا کرتا تھا۔

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ

ایک روز بوقتِ عصر مسجد اقصیٰ کی سیڑھیوں پر حضورؓ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی جوان کو پیٹ درد محسوس ہوتی ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ ذرا چلنے پھرنے یا ورزش کرنے سے دُور ہوجائے گی۔ جب دُور نہیں ہوتی تو اپنی بیوی سے ذکر کرتا ہے جو کہتی ہے کہ مَیں ابھی چائے وغیرہ تیار کرکے دیتی ہوں اس سے آرام ہوجائے گا۔ جب اس سے بھی آرام نہیں آتا تو محلّے کے کسی طبیب سے دوائی پیتا ہے، پھر بھی آرام نہیں ہوتا۔ تو شہر کے بڑے طبیب کے پاس جاتا ہے۔ اس کے علاج سے بھی آرام نہیں آتا تو اُسے خیال آتا ہے کہ علاج سے تو شفا نہیں ہوئی تو وہ کسی بزرگ باخدا کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا حال عرض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا کے علاج و معالجہ سے تو کچھ نہیں ہوا، اگر حضور نے دعا کی تو امید ہے شفا ہوجائے گی۔ مگر جب اس باخدا بزرگ کی دعاؤں سے بھی فائدہ نہیں ہوتا تو وہ خدا کے حضور سجدہ میں گر کر کہتا ہے کہ اے خدا مَیں نے سارا جہان دیکھ لیا مگر میری مصیبت دُور نہیں ہوئی۔ اب تیرے دروازے پر آیا ہوں، اب تُو رحم فرما اور میرے گناہ بخش کر مجھے شفا دے۔ تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے اور اسے شفا دیتا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری اہلیہ کو معجزانہ طور پر شفا عطا فرمائی۔ بعد میں حضورؓ کے صاحبزادے محترم میاں عبدالحی صاحب ایک روز خاص طور پر میرے غریب خانہ پر تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی اہلیہ کو شفا کیسے ہوئی ہے؟ پھر مجھے بتایا کہ ایک روز اباجان (حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ) گھر میں تشریف لائے اور فرمایا کہ فضل احمد کو اپنی بیوی سے بڑی محبت ہے اور ہمیں فضل احمد سے محبت ہے۔ ان کی بیوی کا ہر چند ہم نے علاج کیا مگر فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ان کے لئے اب اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں۔
یہ کہہ کر حضورؓ ایک مصلیٰ پر جو صحن میں پڑا تھا سجدہ میں گر گئے اور بڑی دیر تک دعا کی جس کے بعد وہ صحت یاب ہونے لگیں۔
(ماخوذ از مضمون بعنوان حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی یادیں مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین مئی وجون 2010ء)
٭ حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنے آخری ایام مرض میں اپنے صاحبزادے محترم میاں عبد الحی صاحب کو درس قرآن دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ:
’’اب ہم جارہے ہیں۔ جب کبھی مشکل پیش آئے خدا سے دعا کرنا کہ اے نورالدین کے خدا! جس طرح تُو نے نورالدین کی حاجت روائی کی ہے، میری بھی مشکل دُور کر۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس طرح تمہاری ضرورت بھی پوری کر دے گا۔‘‘
(ماخوذ از تاریخ احمدیت، مرتبہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب، جلد سوم صفحہ 557)
الغرض حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی زندگی کا ہر دن اور ہر لمحہ تعلق باللہ کا زندہ نشان تھا جس کا کسی قدر بیان آپؓ کی سوانح حیات ’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ میں ملتا ہے۔

سیّدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد (خلیفۃالمسیح الثانیؓ)

حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کا مبارک وجود اُس عظیم الشان پیشگوئی کو نہایت شان سے پورا کرنے والا تھا جس کا ایک ایک لفظ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور موعود فرزند کے تعلق باللہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چنانچہ بچپن سے ہی حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی ہر پہلو سے تعلق باللہ، توکّل علی اللہ اور قبولیتِ دعا سے مزیّن نظر آتی ہے۔ حضورؓ خود فرماتے ہیں:

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

جب مَیں گیارہ سال کا ہواتو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں خداتعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں اور اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟ مَیں رات دیر تک اس مسئلے پر سوچتا رہا۔ آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے۔ وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچے کو اس کی ماں مل جائے۔ میرا سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہوگیا۔ پھر ایک عرصہ تک یہ دعا کرتا رہا کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ اب دعا میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔
(ماخوذ از سوانح فضل عمر جلد اوّل، مؤلفہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ، صفحہ 96)
چنانچہ تعلق باللہ کی نعمت کے طفیل پھر آپؓ کی لڑکپن کی راتیں بھی اکثر دعائیں کرتے ہوئے سجدہ ریز گزرنے لگیں۔ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظؓ کا بیان ہے کہ ایک رات جب حضورؓ کو مسجد میں سربسجود نہایت الحاح سے دعا میں گریہ و زاری کرتے ہوئے پایا تو آپؓ کی دعا کا مجھ پر بھی ایسا اثر ہوا کہ مَیں بھی اسی دعا میںلگ گیا کہ یا الٰہی! یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے۔ (ماخوذ از سوانح فضل عمر جلد اوّل، مؤلفہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ، صفحہ 151)
حضورؓ کے تعلق باللہ کا ثبوت یہ بھی ہے کہ آپؓ کو بچپن ہی سے بکثرت سچی خوابیں آنے لگیں اور الہام بھی ہوا اور بچپن میں ہی رؤیت الٰہی کا شرف بھی پایا۔ جس کا ذکر آپؓ نے اپنی تقاریر میں بارہا فرمایا۔
اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کو بھی یہ احساس تھا کہ اس بچے کے ساتھ خداتعالیٰ کا خاص تعلق ہے۔ چنانچہ جن دنوں کلارک کا مقدمہ درپیش تھا تو حضور علیہ السلام نے آپؓ کے بچہ ہونے کے باوجود آپؓ کو بھی دعا اور استخارہ کرنے کے لئے فرمایا۔ چنانچہ بعدازاں آپؓ نے اپنی رؤیا بھی حضورعلیہ السلام سے بیان فرمائی جس میں دشمن کی ناکامی کی خبر دی گئی تھی۔
(ماخوذ از سوانح فضل عمر جلد اوّل، مؤلفہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ، صفحہ 152 تا 154)
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ زندگی میں اور خصوصاً آپؓ کے باون سالہ دورِ خلافت میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے واقعات ملتے ہیں جب آپؓ کی دعاؤں نے گویا کہ مُردے زندہ کردیئے اور ایسے کام بنادیئے جو بظاہر ناممکن تھے۔
٭ حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ پر 1948ء کی ایک صبح دل کا ایسا شدید حملہ ہوا کہ ڈاکٹر زندگی سے نااُمید ہو گئے۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ ایسا دورۂ قلب ہم نے کتابوں میں تو پڑھا ہے لیکن اس کا مریض پہلی بار دیکھا ہے۔ حضرت نواب صاحبؓ کا دل ساقط ہو چکا تھا اور زندگی کے آثار تقریباً ختم ہوچکے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت امّاں جانؓ کی دعائیں قبول کیں اور زندگی کی رَو پھر سے چلنی شروع ہو گئی۔ چنانچہ حالت سنبھلنی شروع ہوئی لیکن اس کے بعد ایک لمبا عرصہ تک آپ کو خفیف حرکت کی اجازت بھی نہیں تھی۔ کئی بار حالت خطرناک ہوئی اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے دعاؤں سے نازک وقت ٹال دیا۔ حتّٰی کہ کئی ماہ بعد آپؓ قدم اٹھانے کے قابل ہوئے اور پھر 13 سال تک معجزانہ طور پر صحتمند زندگی گزاری۔
(مضمون ’’خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا‘‘ مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 24 مئی 2002ء)
٭ محترمہ سعیدہ خانم صاحبہ کی ایک دو سالہ بیٹی کے پاؤں کے انگوٹھے پر چوٹ لگنے سے ہڈی کو نقصان پہنچا اور زخم ناسور بن گیا۔ ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کا خطرہ ظاہر کیا۔ ایسی حالت میں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا جاتا رہا اور حضورؓ کی طرف سے جواب بھی ملتا رہا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُسی دوا میں شفا ڈال دی جو وہ پہلے بھی بیسیوں دفعہ استعمال کرچکے تھے۔ (ایضاً)
٭ مکرم شیخ فضل حق صاحب کا ایک لڑکا پیدائش کے آٹھ نو ماہ بعد سخت بیمار ہوگیا۔ ہر قسم کا علاج تین سال تک ہوتا رہا یہاں تک کہ ٹانگیں جواب دے گئیں۔ لوگ تعویذ کے لئے کہتے مگر انہوں نے کہا خواہ یہ مر جائے تعویذ نہیں دوں گا۔ آخر حضرت مصلح موعودؓ کو دعا کے لئے لکھا۔ آپؓ نے جواباً فرمایا ’’اللہ تعالیٰ عزیز کو صحت دے گا‘‘۔ یہ جواب ملنا تھا کہ بیماری میں فرق پڑنے لگا اور شفا ہوگئی۔ (ایضاً)
٭ بلاشبہ سینکڑوں بے اولاد جوڑوں کو خدا تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کے تعلق باللہ کا نشان دکھایا اور حضورؓ کی دعاؤں سے اولاد عطا فرمائی۔ یہ معجزات دنیا کی مختلف قوموں اور خطوں میں رہنے والے احمدیوں کو دکھائے گئے۔
مکرم فتح محمد صاحب مٹھیانی لکھتے ہیں کہ گاؤں میں ہم پانچ دوست احمدی ہوئے تو شدید مخالفت شروع ہوگئی اور مخالفین نے بحث میں عاجز آکر کہا کہ کیا ہوا اگر یہ احمدی ہوگئے، ان کو ملتی تو لڑکیاں ہی ہیں۔ اتفاق سے اُس وقت ہم پانچوں کے لڑکیاں ہی تھیں اور اولاد نرینہ نہ تھی۔ اس بات کا میرے دل پر بڑا صدمہ ہوا اور میں نے حضرت مصلح موعودؓ سے دعا کے لئے عرض کیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ خداوند تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم سب کو نرینہ اولاد سے نوازا۔ (ایضاً)
٭ حضورؓ کے تعلق باللہ کا نشان غیروں نے بھی بارہا دیکھا۔ مثلاً گاؤں بھاگی ننگل نزد قادیان میں ایک شخص لچھمن سنگھ رہتا تھا جس کے ہاں اولاد نہ ہوتی تھی۔ ایک روز اس نے حضرت منشی امام الدین صاحبؓ (والد محترم چودھری ظہور احمد صاحب سابق ناظر دیوان) سے کہا کہ میرے لئے حضرت صاحبؓ سے دعا کروائیں کہ خدا مجھے لڑکا دے دے۔ اگر مرزا صاحبؑ سچے ہوں گے تو میرے ہاں اولاد ہو جائے گی۔ منشی صاحب نے قادیان آ کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں یہ عرض کیا تو حضورؓ نے فرمایا:
’’میں دعا کروں گا اور انشاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہوگی۔‘‘
چنانچہ اُس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جو میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والا اپنے گاؤں کا پہلا نوجوان تھا۔ (ایضاً)
٭ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ رقمطراز ہیں کہ 1929ء میں نمونیہ کی وجہ سے مَیں داخلِ شفا خانہ کیا گیا۔ میری زندگی کی امید منقطع ہوگئی تھی مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دعا اور توجہ سے دوبارہ زندگی پائی۔
اسی طرح 1957ء میں بندشِ بول سے بیمار ہوکر کوئی ایک ماہ سے اوپر شدید بیمار رہا۔ ایک وقت مجھ پر ایسا آیا کہ میری آنکھیں پتھرا گئیں اور نزع کی سی کیفیت وارد ہوگئی۔ چھت کی ایک کڑی پر میری نظر تھی لیکن حرکت نہ کرسکتا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ اور دوسرے بہت سارے بزرگ میرے حق میں دعائیں کرتے تھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا منشا تھا کہ لاہور لے جاکر علاج کروایا جائے لیکن پسرم محمداحمد نے عرض کیا کہ حالت تو ایسی نازک ہے کہ بس اڈّہ تک لے جانے پر ہی وفات ہوجائے گی۔ ایک روز میاں غلام محمد صاحب اختر عیادت کے لئے آئے۔ میری حالت بہت نازک تھی۔ مَیں نے چشم پُرآب ہوکر کہا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں میری طرف سے بعد السلام علیکم عرض کریں کہ:
بادشاہوں کے ہاں شادی وغیرہ خوشی کی تقریبات پر قیدی رہا کئے جاتے ہیں۔ حضور کے خاندان میں بھی ایک ایسی تقریب ہے۔ مَیں مرض کا اسیر ہوں۔ دعا کرکے مجھے مرض سے آزاد کرائیں۔
بعد میں اختر صاحب نے بتایا کہ جب مَیں نے پیغام عرض کیا تو حضورؓ کے چہرہ سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضورؓ نے دعا کی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کا یہ نشان دکھایا کہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے آلہ کے ساتھ پیشاب خارج کیا جاتا تھا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے خیال آیا کہ خود پیشاب کرکے دیکھوں۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب پیشاب خود ہی خارج ہوگیا اور بعد ازاں باقاعدہ آنے لگا۔
(ماخوذ از اصحاب احمد جلد سوم، حالات زندگی حضرت شیخ فضل احمد بٹالویؓ)
٭ ایک مخلص احمدی محمد زین الدین صاحب ٹیکسٹائل برآمد کیا کرتے تھے۔ 1944ء میں وہ اپنا مال سیلون بھجوانے کے لئے جب ہندوستان کی ایک بندرگاہ پر پہنچے تو انہیں یہ معلوم کرکے شدید صدمہ ہوا کہ مال بردار جہاز جنگی مقاصد کے لئے طلب کرلئے گئے ہیںاور سیلون کے لئے جہازرانی بند ہوگئی ہے۔اس کا مطلب تھا کہ اُن کا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوجاتا۔ نہایت پریشانی کے عالم میں انہوں نے فوراً حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے ٹیلیگرام ارسال کیا۔ اگلے ہی روز سیلون سے ٹیلیگرام آیا کہ اُن کا سامان سیلون پہنچ چکا ہے۔ حیرت میں ڈوبے ہوئے جب وہ بندرگاہ پہنچے تو متعلقہ افسر نے بتایا کہ ایک جہازجو سمندر میں تھا، اس کا ہمیں علم نہیں تھا۔ جیسے ہی وہ جہاز بندرگاہ سے لگا ہم نے سامان اس پر لاد دیا اور وہ اب سیلون پہنچ گیا ہے۔
مکرم زین العابدین صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ نومبر 1949ء میں پہلی بار حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے خود حاضر ہوا تو عرض کیا کہ میں نیوی میں سیلر(Sailor)ہوں۔ حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ پروموشن کہاں تک ہوسکتی ہے؟عرض کیا: لیفٹیننٹ کمانڈر تک۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اُن دنوں نیوی کی وسعت کے لحاظ سے پروموشن بہت کم ملا کرتی تھی لیکن میں حضورؓ کی دعا کے عین مطابق لیفٹیننٹ کمانڈر بن کر ریٹائرڈ ہوا۔
(مضمون ’’خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا‘‘ مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 24 مئی 2002ء)
٭ پس ایسے ہزاروں واقعات ہیں جب حضرت مصلح موعودؓ کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کے تعلق باللہ کی قبولیت کی تصدیق فرمادی۔ چنانچہ مکرم ماسٹر محمد حسن آسان صاحب دہلوی کی ایک صاحبزادی اچانک بیمار ہوگئیں تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُس کی تپدق اس درجہ پر ہے کہ مریضہ لاعلاج ہے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی گئی تو حضورؓ کا جواب آیا:
’’میں نے دعا کی ہے اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا۔‘‘
علاج شروع کرنے کے چند دن کے بعد مریضہ کو ڈاکٹر کو دکھایا تو ڈاکٹر نے معائنہ کرکے کہا کہ ماسٹر صاحب! آپ غلطی سے اپنی دوسری بیٹی لے آئے ہیں، اس کو تو تپدق نہیں ہے۔ ماسٹر صاحب نے اصرار کیا کہ یہ وہی بچی ہے۔ ڈاکٹر نے دوبارہ تفصیلی معائنہ کیا اور کہا کہ رپورٹ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس بچی کو کبھی تپ دق ہوئی ہی نہیں۔
(مضمون ’’خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا‘‘ مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 24 مئی 2002ء)
٭ اسی قسم کا معجزہ بیان کرتے ہوئے حضرت چودھری اسداللہ خان صاحب سابق امیر جماعت لاہور بیان کرتے ہیں کہ تقسیم ملک سے چند سال پہلے میں شدید بیمار ہوگیا اور پیشاب کی جگہ خون کے اخراج سے اس قدر کمزوری ہوگئی کہ پہلو بدلنا بھی ممکن نہ رہا۔ ایک دن حضرت مصلح موعودؓ عیادت کے لئے تشریف لائے اور باتوں باتوں میں فرمایا: ’’آپ کا جلسہ پر جانے کو تو جی چاہتا ہوگا!‘‘میں نے آبدیدہ ہوکر عرض کیا ’’وہ کون احمدی ہے جو جلسہ پر جانا نہ چاہے۔‘‘
اس پر حضورؓ نے اپنی مبارک آنکھیں اٹھاکر میری طرف دیکھا اور حضورؓ کی گردن سے نہایت خوبصورت سرخی چہرہ کی طرف بڑھنی شروع ہوئی کہ حضورؓ کا چہرہ، گردن، پیشانی اور کان سرخ، خوبصورت اور چمکدار ہوگئے۔ حضورؓ نے شہادت کی انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’آپ انشاء اللہ ضرور جلسہ پر آئیں گے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد حضور ؓ تشریف لے گئے تو مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی۔ پیشاب کیا تو اس میں ذرہ بھر بھی خون کی آلائش نہیں تھی۔ اس کے بعد میں تیزی سے رُوبہ صحت ہوا اور جلسہ سے تین چار روز قبل ہی قادیان میں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ ( ’’خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا‘‘ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 24 مئی 2002ء)
٭ ڈھاکہ کے محترم فیض عالم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان کی اہلیہ ایک لاعلاج نسوانی مرض میں مبتلا تھیں اور ہر قسم کے علاج کے باوجود مرض بڑھتا جا رہا تھا حتّٰی کہ زندگی سے بھی مایوسی ہوگئی۔ آخر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعائیہ خط لکھ کر حالات عرض کئے تو حضورؓ نے جواباً فرمایا: ’’اچھی ہو جائے گی۔‘‘
اسی دوران اہلیہ نے خواب میں حضرت مصلح موعودؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دعا کو دوا کے طور پر استعمال کرتی جاؤ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے (ڈاکٹروں کے نزدیک لاعلاج) بیماری سے کامل صحت ہوگئی اور پھر اولاد بھی عطا ہوئی۔
(مضمون ’’خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا‘‘ مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 24 مئی 2002ء)
٭ حضرت سیدہ مہر آپا فرماتی ہیں کہ جن دنوں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو حکومت نے احمدیت کے جرم میں قید کر رکھا تھا۔ انہی گرمیوں کی ایک شام رات کے کھانے کے وقت حضرت مصلح موعودؓ نے گرمی کی شدّت اور بے چینی کا اظہار فرمایا تومیرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا:
’’پتہ نہیں ناصر اور میاں صاحب کا اس گرمی میں کیا حال ہوگا، خدا معلوم انہیں کوئی سہولت بھی میسر ہے یا نہیں۔‘‘
حضورؓ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔ وہ صرف اس جرم پر ماخوذ ہیں کہ ان کا کوئی جرم نہیں۔ اس لئے مجھے اپنے خدا پر کامل یقین و ایمان ہے کہ وہ جلد ہی ان پر فضل کرے گا۔‘‘
اس کے بعد آپؓ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپؓ عشاء کی نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ گریہ و زاری کا وہ منظر مَیں بھول نہیں سکتی اور اس کیفیت کو قلمبند نہیں کرسکتی۔ اس گریہ میں تڑپ اور بے قراری بھی تھی اور ایمان و یقینِ کامل بھی تھا…۔ پھر یہی منظر تہجد کے وقت دیکھا… اگلی صبح جو پہلا تار ملا وہ یہ خوشخبری لئے ہوئے تھا کہ دونوں اسیران رہا ہوچکے ہیں۔
(مضمون ’’خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا‘‘ مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 24 مئی 2002ء)
٭ حضرت چودھری اسداللہ خان صاحب حصولِ تعلیم کے لئے برطانیہ تشریف لے گئے لیکن ماحول کے فرق کی وجہ سے طبیعت اس قدر بوجھل ہوئی کہ واپسی کے لئے سیٹ بھی بُک کروالی۔ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی سرزنش بھی آپ کے ارادہ کو تبدیل نہ کرسکی۔ لیکن روانگی سے چند روز قبل جب حضرت مصلح موعودؓ کا یہ پیغام پہنچا کہ اگر تعلیم حاصل کئے بغیر آگئے تو مَیں ناراض ہو جاؤں گا تو دل کی کایا پلٹ گئی اور پھر تعلیم حاصل کرنے میں ایسے مگن ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین سالہ کورس دو سال میں مکمل کرلیا۔
حضرت چودھری صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ کمرۂ امتحان سے باہر آکر جب مَیں نے دوسرے طلبہ کے ساتھ اپنے جوابات کا موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ میرا پرچہ اچھا نہیں ہوا۔ چنانچہ میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا تو حضورؓ نے جواباً تحریر فرمایا:
’’میں دعا کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور کامیاب فرمائے گا۔‘‘
مَیں نے حضورؓ کا یہ جواب نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی اپنے دوستوں کو دکھادیا۔ چنانچہ جب نتیجہ نکلا تو میرے نمبر سب دوستوں میں زیادہ تھے۔
(مضمون ’’خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا‘‘ مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 24 مئی 2002ء)
٭ محترم غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹر الفضل قادیان بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے 31؍دسمبر 1914ء کو میرا نکاح پڑھایا۔ اس کے بعد کئی سال تک میرے ہاں نہ اولاد ہوئی اور نہ ہی مَیں نے حضورؓ کی خدمت میں درخواست دعا کی کہ حضورؓ کو تو معلوم ہی ہے لیکن 1922ء میں حضورؓ کا ایک مکتوب اخبار میں شائع ہوا جس میں درج تھا کہ انسان کو دعا پر مخفی طور پر یقین نہیں ہوتا۔ وہ خود تو بعض دفعہ دعا کرلیتا ہے مگر دوسرے کو کہتے ہوئے اباء کرتا ہے۔ کبھی دوسرے سے دعا کی تحریک مخفی تکبر کی وجہ سے نہیں کی جاتی۔ کبھی شیطان اس کے متعلق دھوکا دے دیتا ہے جس سے انسان دعا کروانا چاہتا ہے کہ مَیں ایسا مقبول نہیں کہ کوئی میرے لئے دعا کرے یا مَیں اس کے وقت کو کیوں ضائع کروں۔ یا پھر شامت اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جس کو فوائد سے محروم رکھنا چاہے تو اس کی توجہ اس شخص سے پھیر دیتا ہے جس سے وہ اپنے مطلب کو حاصل کر سکتا ہے۔
اگر پہلی کوئی اَور وجہ نہ ہو تو آخری تو ضرور ہی ہوگی۔
حضورؓ کا یہ ارشاد اخبار میں پڑھنے کے بعد مَیں نے حضورؓ کی خدمت میں درخواستِ دعا کی تو اس کے بعد جلد ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں لڑکی عطا فرمائی جبکہ ہماری شادی کو ساڑھے آٹھ برس ہو چکے تھے۔
(روزنامہ ’’الفضل‘‘ قادیان 28؍دسمبر 1939ء۔ حضرت مصلح موعودؓ کا تعلق باللہ)
٭ حضرت مصلح موعودؓ کے تعلق باللہ کا ایک واقعہ حضرت چوہدری غلام حسین صاحبؓ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
مَیں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے اکثر حالات جو ابھی سربستہ راز ہوتے ہیں، حضرت صاحبؓ پر کھولے جاتے ہیں۔ میں نے ہر آڑے وقت میں حضرت مصلح موعودؓ سے رجوع کیا اور جتنا جلد ہوسکا دعا کے لئے لکھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے اس محبوب کی ایسی خاطر منظور ہے کہ اِدھر لفافہ لیٹربکس میں گیا اور اُدھر مشکل حل ہونی شروع ہوگئی۔ چند روز پہلے مَیں نے 25 روپے حضورؓ کی نذر کرنا چاہے مگر آپؓ سندھ تشریف لے جاچکے تھے اس لئے مَیں نے وہ روپیہ الگ کرکے بطور امانت رکھ دیا۔ اچانک محاسب صاحب کی استفساری چٹھی مجھے پہنچی کہ حضورؓ نے سندھ سے بذریعہ فون دریافت فرمایا ہے کہ آیا مَیں نے کوئی روپیہ حضور کی امانت میں جمع کروایا ہے؟
مَیں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ نذر اس مالک حقیقی کے حضور قبول ہو گئی۔
(مضمون ’’خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا‘‘ مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 24 مئی 2002ء )

باب دوم:
’’اصحاب احمد کا تعلق باللہ‘‘ بزبان حضرت مسیح موعودؑ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی متعدد کتب میں اپنے مخلص اصحاب کا نہایت محبت سے ذکر کرتے ہوئے اُن کی عبادات، تقویٰ اور تعلق باللہ کو خصوصیت سے بیان فرمایا۔ ایک جگہ فرمایا:
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے۔ … مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدے میں روتے اور تہجد میں تضرّع کرتے ہیں ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں۔‘‘ (انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 315)
حضور علیہ السلام نے جن صحابہ کرام کے تعلق باللہ کو بیان کرتے ہوئے اُن کے اخلاص، قربانیوں اور تقویٰ پر روشنی ڈالی ہے ان میں سرفہرست حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی ذات گرامی ہے جن کے بارے میں حضور علیہ السلام اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کے عربی حصہ میں فرماتے ہیں:
(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور ربّ العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ ہے اور اُن مخلص دوستوں کا خلاصہ ہے جو دین کے بارے میں میرے دوست ہیں۔ اس کا نام نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے… اور جب وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا اور میری نظر اُس پر پڑی تو مَیں نے اس کو دیکھا کہ وہ میرے ربّ کی آیات میں سے ایک آیت ہے اور مجھے یقین ہوگیا کہ میری اسی دعا کا نتیجہ ہے‘‘۔
حضور علیہ السلام کے الفاظ ’’وہ میرے ربّ کی آیات میں سے ایک آیت ہے‘‘ بلاشبہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کے غیرمعمولی تعلق باللہ کے آئینہ دار ہیں اور اس کی اَن گنت مثالیں آپؓ کی سوانح حیات ’’مرقات الیقین‘‘ کی زینت ہیں۔ اسی طرح حضرت اقدسؑ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی بیان فرمودہ تفسیر کو آسمانی تفسیر بیان فرمایا اور اس سے استفادے کی تلقین فرمائی۔ نیز اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ کاش جماعت کا ہر فرد ’’نورالدین‘‘ بن جائے، فرمایا ؎

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقیں بودے

٭… حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید کے بارے میں حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا دلائل کے ساتھ دنیا میں شائع ہوا تو خوست علاقہ حدود کابل میں ایک بزرگ تک، جن کا نام اخوند زادہ مولوی عبداللطیف ہے کسی اتفاق سے میری کتابیں پہنچیں…چونکہ وہ بزرگ نہایت پاک باطن اور اہل علم اور اہل فراست اور خداترس اور تقویٰ شعار تھے اس لئے ان کے دل پر ان دلائل کا قوی اثر ہوا اور ان کو اس دعویٰ کی تصدیق میں کوئی دقّت پیش نہ آئی۔ … اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ درحقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا۔اوردرحقیقت ان راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈرکراپنے تقویٰ اوراطاعت الٰہی کو انتہاء تک پہنچاتے ہیں۔اورخدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس وخاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کوتیار ہوتے ہیں۔اس کی ایمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر مَیں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو مَیں ڈرتاہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو۔‘‘
(تذکرۃالشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20۔ مطبوعہ لندن صفحہ 2 تا 10)
ایک اور مقام پر آپؓ کے تعلق باللہ سے متعلق حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ بزرگ معمولی انسان نہیں تھا …۔ لیکن باایں ہمہ کمال یہ تھا کہ بے نفسی اور انکسار میں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنا فی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پاسکتا۔‘‘ (تذکرۃالشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20۔ مطبوعہ لندن صفحہ 46-47)
٭…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تعلق باللہ اور محبت الٰہی کے ضمن میں درجنوں اصحاب کا تذکرہ فرمایا ہے۔ مثلاًحضرت حکیم فضل دین صاحب بھیرویؓ کاذکر یوں فرماتے ہیں:
’’حبّی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی۔ حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نورالدین کے دوستوں میں سے ان کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت با اخلاص آدمی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ان کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حبّ لِلّٰہ کی شرط بجا لارہے ہیں۔… ان کی فراست نہایت صحیح ہے۔ وہ بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور ان کا خیال ظنون فاسدہ سے مصفّٰی اور مزکّٰی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ536)
٭… اسی طرح حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’حبی فی اللہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس خاندان ریاست مالیر کوٹلہ قادیان میں جب وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے، پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں ان کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نما زپڑھتے ہیں اور منکرات اور مکروہات سے بالکل مجتنب ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد 3 صفحہ526)
٭… پھر حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ یوں فرماتے ہیں:
’’حبی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب۔ یہ جوان صالح، کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے۔ استقامت کے آثار و انوار اُس میں ظاہر ہیں۔ وفاداری کی علامات اور امارات اس میں پیدا ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے۔ اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار اصولِ فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مَرکَب ہے دونوں سیرتیں اس میں پائی جاتی ہیں۔ جزاھم اللہ خیرالجزاء۔‘‘ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3صفحہ533-532)
٭…حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ جہلمی اور حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی کے تعلق باللہ اور دعوت الی اللہ کی سچی تڑپ کا اظہار حضور علیہ السلام نے کئی بار فرمایا اور انہی دونوں بزرگوں کی وفات کے بعد مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا۔ … اسلام پرجو اندرونی اور بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے دفاع میں عمر بسر کردی۔باوجود اس قدر بیماری اورضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی۔‘‘ (سیرت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ مرتبہ محمود مجیب اصغر صاحب صفحہ108)
٭… حضرت حاجی احمد جی صاحبؓ آف داتہ ضلع ہزارہ کو حضور علیہ السلام نے اپنے 313؍اصحاب میں شامل فرمایا ہے۔ وہ حق کی تلاش میں نہایت جانفشانی سے سرگرداں رہے اور آخر خاص طور پر حج پر گئے اور دعا کی۔ واپسی کے سفر میں جب آپؓ پنجاب میں سے گزرے تو ایک جگہ کشفی حالت طاری ہوئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور قادیان کا نام بھی بتایا گیا اور آواز آئی کہ اتنا سفر کیا ہے تو اب اس شخص سے بھی ملتے جاؤ۔ آپؓ بیدار ہوئے تو کسی راہ گیر سے راستہ پوچھ کر قادیان کی طرف چل دیے۔ حضرت اقدسؑ اس وقت چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؓ نے دیکھتے ہی کہا: سبحان اللہ! یہ وہی مبارک پُرنُور چہرہ ہے جسے مَیں نے کشف میں دیکھا ہے۔ حضور علیہ السلام نے بڑی محبت سے آپؓ کو مصافحے کا شرف بخشا اور فرمایا کہ مَیں نے ابھی ابھی جس کو دیکھا ہے یہ وہی شخص ہے جو میری طرف آ رہا ہے۔ پھر حاجی صاحبؓ نے سب حال خدمت اقدس میں عرض کیا تو حضورؑ نے فرمایا کہ بے شک خدا نیک روحوں کو میری طرف بھیجے گا۔
(ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اکتوبر و نومبر 2010ء۔ تحریر مکرمہ صفیہ بیگم رعنا صاحبہ)
٭…حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیّرؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں جبکہ ہائی سکول میں مدرس تھا اور کھیلوں کا انچارج تھا تو ایک رات مَیں نے تہجد میں دعا کی تو مجھے لکھا ہوا دکھلایا گیا کہNo tournaments, No games۔ یہ الہام دوسروں کو بتادیا لیکن اس کے بعد مَیں بیمار ہو کر ٹورنامنٹ میں شامل نہیں ہو سکا۔ لیکن جو ٹورنامنٹ کے دن تھے ان میں متواتر شدید بارش ہو جانے کی وجہ سے گورداسپور ٹورنامنٹ کمیٹی نے ٹورنامنٹ بالکل بند کر دیا۔ ہمارے طلباء کو بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے ٹیچر کا الہام پورا ہو گیا۔ وہ اللہ اکبر کے نعرے مارتے ہوئے جب قادیان آئے تو اس الہام کی تمام تفصیل حضرت اقدسؑ کے حضور پہنچی۔ اس پر حضورؑ نے مجھے لکھا: ’’آپ کا الہام بڑی صفائی سے پورا ہوا۔ یہ آپ کی صفائی قلب کی علامت ہے۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 11 صفحہ 312-313 )
حضور علیہ السلام نے بارہا اپنے اصحابؓ کے تعلق باللہ اور دعاؤں کی قبولیت کی تصدیق فرمائی۔ اور دعاؤں کی قبولیت کو تعلق باللہ کے ساتھ لازم و ملزوم کردیا۔ چنانچہ ایک مقام پر فرمایا کہ:
’’دعا کرنا مرنا ہوتا ہے۔… پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ جب دعا کی جاتی ہے حتیٰ کہ روح گداز ہو کر آستانہ الٰہی پر گر جاتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے اور الٰہی سنّت یہی ہے کہ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو خدا وند تعالیٰ یا تو اسے قبول کرتا ہے اور یا اسے جواب دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد نمبر2صفحہ630۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
یعنی اس دعا کی قبولیت ہو گی یا پھر اللہ تعالیٰ ایسی رہنمائی فرما دیتا ہے جو اگر دعا مانگنے والے کی خواہش کے مطابق نہ بھی ہو تب بھی تسلی اور تسکین کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔ پس اصحابِ احمدؑ کی قبولیتِ دعا دراصل ان کے اُس تعلق باللہ کی آئینہ دار ہے جو اپنے غلاموں میں پیدا کرنے کے لئے حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لائے تھے۔

باب سوم
چند دیگر ’اصحاب احمد‘ کا تعلق باللہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے جو ایک عظیم الشان برکت آپؑ پر ایمان لانے والوں کو عطا ہوئی وہ بلاشبہ تعلق باللہ کے وہ روح پرور نظارے تھے جو اصحاب احمد کی زندگیوں میں روزمرّہ نشانات کے طور پر ظاہر ہوئے۔ محض چند منتخب اصحاب کے بیان فرمودہ واقعات بطور مثال درج ذیل ہیں:


٭…حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ راجیکی فرماتے ہیں:
’’گجرات شہر کے قیام کے بعد ایک دفعہ ضلع گوجرانوالہ میں جبکہ میں اپنے سسرال موضع پیرکوٹ میں تھا میری بیوی کے بھائی میاں عبداللہ خان صاحب کو ایک طاعون والے گاؤں میں سے گزرنے سے طاعون ہوگئی۔ جب غیراحمدی لوگوں کو معلوم ہوا تو کہنے لگے مرزائی تو کہا کرتے ہیں کہ طاعون کا عذاب مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اب بتائیں کہ پہلے ان کے ہی گھر میں طاعون کیوں پھوٹ پڑی۔ مَیں نے جب ان کی ہنسی اور تمسخر کو دیکھا اور شماتت اعداء کا خیال کیا تو بہت دعا کی۔ چنانچہ رات مَیںنے خواب میں دیکھا کہ ہمارے مکان کے صحن میں طاعون کے جراثیم بھرے پڑے ہیں مگر ان کی شکل گجرات والے جراثیم سے مختلف ہے یعنی ان کا رنگ بھورا اور شکل دو نقطوں کی طرح ہے۔ اس وقت مجھے گجرات والے جراثیم کی بات یاد آگئی کہ جو شخص استغفار کرے ہم اسے کچھ نہیں کہتے چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی استغفار پڑھنا شروع کردیا۔ اس پر یہ جراثیم مجھے کہنے لگے کہ ہماری قسم بہت سخت ہے اس لئے ہم سے استغفار کرنے والے بھی نہیں بچ سکتے۔ تب میں نے حیران ہوکر دریافت کیا کہ پھر آپ سے بچنے کی کیا صورت ہے تو انہوں نے کہا ہمیں حکم ہے کہ جو شخص لاحول ولا قوۃ اِلّاباللہ العلی العظیم پڑھے اُسے ہم کچھ نہ کہیں۔ اس خواب سے بیدار ہوکر صبح میں نے تمام رشتہ داروں اور دیگر احمدیوں کو یہ خواب سنایا اور لاحول پڑھنے کی تلقین کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے میاں عبداللہ خان صاحب کو بھی شفا دی اور دوسرے احمدیوں کو بھی محفوظ رکھا مگر غیراحمدیوں میں کثیرالتعداد لوگ اس عذاب کا شکار ہوگئے۔
انہی دنوں میں نے پیرکوٹ میں ایام طاعون کی تباہی کے جوش کی حالت میں یہ بھی خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ تحصیلدار کے لباس میں آیا ہے اور مجھ سے بھی آکر ملا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ ہم گاؤں سے لگان وصول کر رہے ہیں۔ پھر ایک فرشتہ عورت کی شکل میں آیا اور مجھ سے ملا اس کا نام دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ میرا نام ’’سکینہ‘‘ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے واقعی ھُوَالَّذِیۡٓ اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمؤۡمِنِیۡنَ کے مطابق ہمیں تو سکون و اطمینان بخشا مگر گاؤں کے لوگوں سے پے در پے موت کے حملوں کے ذریعے خوب لگان وصول کیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
(سوانح حیات حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ۔’’حیات قدسی‘‘ صفحہ 98 تا 100)
٭… حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ راجیکی فرماتے ہیں کہ مکرم شیخ فضل احمد صاحبؓ بٹالوی کی پہلی شادی اُن کے رشتہ داروں میں ہوئی تھی۔ ان کے ہاں جب اس بیوی سے ایک عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے مجھ کو دعا کی تحریک کی۔ جب میں دعا کرتا ہوا رات کو سویا تو مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ شیخ صاحب کے مکان پر حضرت نبی کریمﷺ کی خچر بغلۃ الشھباء بندھی ہوئی ہے۔ اس خواب کی مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ شیخ صاحب موصوف کی اہلیہ محترمہ گو بوجہ فطری سعادت کے آنحضرتﷺ سے مخلصانہ تعلق رکھتی ہیں لیکن خچّر کی عمومی سرشت کے مطابق ناقابل اولاد ہیں۔ چنانچہ میں نے اس رؤیا سے مکرمی شیخ صاحب کو اطلاع دیدی اور اس کی تعبیر سے بھی آگاہ کردیا۔ اس کے بعد سالہاسال گزرنے کے باوجود اُن کی اہلیہ محترمہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ … بعد ازاں شیخ صاحب موصوف نے حکیم سراج الحق صاحب احمدی آف ریاست پٹیالہ کی دختر سے شادی کی جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی بچے تولد ہوئے جو اپنے والدین کے لئے قرۃالعین ہیں۔
(ماخوذ از سوانح حیات حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ۔’’حیات قدسی‘‘ جلد چہارم صفحہ 10)
٭…حضرت میاں محمد ظہورالدین صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن مَیں فاقہ کی حالت میں دن کے بارہ بجے لیٹا ہوا تھا کہ میری بیوی مجھے دبانے لگ گئی۔ اس حالت میں مجھے نیند آ گئی۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک عورت نیلے کپڑوں والی میرے گھر پر آئی ہے۔ ایک ہاتھ پر دودھ کا کٹورا بھرا ہوا رکھے ہوئے آئی ہے اور آکر اُس نے مجھے دیا اور کہا کہ میاں جی! مَیں یہ دودھ آپ کے واسطے لائی ہوں، آپ اس کو پی لیں۔ جب اس کو پینے لگا تو عورت نے کہا کہ اس میں شکر ڈالی ہوئی ہے، آپ اس کو ملا لیں۔ جب مَیں دودھ میں شکر ملانے لگا (خواب میں) تو کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی۔(جاگ آ گئی)۔ میری بیوی جو میرے جسم کو دبا رہی تھی، کہنے لگی، کیا آپ ڈر گئے ہیں؟ مَیں نے کہا۔ ڈرا نہیں، ایک خواب دیکھا ہے اور وہ خواب مَیں نے اپنی بیوی کو سنا دیا۔ اور مَیں پھر بھول گیا۔ (ابھی تھوڑی دیر گزری تھی) پانچ منٹ گزرے تھے کہ اسی طرح نیلے کپڑے پہنے ہوئے ہاتھ پر دودھ کا کٹورا رکھے ہوئے ایک عورت میرے گھر پر آئی۔ وہ عورت میرے ایک شاگرد کی ماں تھی۔ آکر اُس نے مجھے دودھ کا کٹورا دیا اور کہا کہ آپ اس کو پی لیں۔ جب مَیں پینے لگا تو اُس نے کہا کہ اس میں شکر ڈالی ہوئی ہے، آپ اس کو ملالیں۔ میری بیوی اس واقعہ کو بغور دیکھ رہی تھی۔ مسکرا کر کہنے لگی، یہ تو آپ کا خواب ہے جو مجھے آپ پہلے سنا چکے ہیں، لفظ بلفظ پورا ہو رہا ہے۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11 صفحہ362-363 روایات حضرت میاں محمد ظہورالدین صاحب ڈولیؓ)
٭…حضرت امیر محمد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ 18؍ دسمبر 1912ء کی رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جسے میں سینہ سے لگا کر درود شریف پڑھ رہا ہوں اور پتاشے تقسیم کر رہا ہوں۔ لڑکا خوبصورت تو ہے مگر دُبلا اور کمزور ہے۔ لہٰذا 15؍ فروری 1913ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزند عطا کیا جس کا نام حضرت خلیفہ اولؓ نے عبداللہ خان رکھا۔ جس کی کمزوری اب چوبیس سال کی عمر میں بھی برابر چلی آ رہی ہے۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 143 از روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)
٭…حضرت عبدالستار صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میری بیوی نے خواب سنائی کہ مجھے حضرت صاحب نے دو روپے دئیے ہیں۔ چند روز بعد جب مقدمہ فتح ہوا تو حضرت صاحب نے مجھے دو روپے دئیے۔ اس طرح وہ خواب پورا ہوا اور مَیں نے اپنی بیوی کو وہ دونوں روپے دے کر خواب پورا کر دیا۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 188 روایات حضرت عبدالستار صاحبؓ)
٭…حضرت ماسٹر سردار عبدالرحمن صاحبؓ (سابق مہر سنگھ) تعلق باللہ کی ایک زندہ مثال تھے۔ آپؓ نے قبول احمدیت کے بعد اپنے والدین اور بھائیوں سے کہا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ ’’اگر تم لوگ مسلمان ہوجاؤگے تو تمہاری اولاد آگے چلے گی ورنہ تمہاری نسل ختم ہو جائے گی اور اب میں اس خاندان کا نیا آدم ہوں۔‘‘ چنانچہ ان کے سب بھائی میّا سنگھ، گلاب سنگھ، پرتاب سنگھ لاولد فوت ہوگئے اور حضرت سردار عبدالرحمن صاحبؓ کو خداتعالیٰ نے 6 بیٹے اور 7 بیٹیاں عطا فرمائیں۔
ایک بیٹا 1906ء میں پیدا ہوا اور آپؓ کی اہلیہ کو خواب میں پہلے ہی بتادیا گیا کہ لڑکا ہوگا اس کا نام نذیر احمد رکھنا۔ چنانچہ پیدائش کے کچھ ہفتے بعد وہ بچے کو لے کر حضرت مسیح موعودؑ کے پاس گئیں اور اپنی خواب بھی سنائی۔ حضورؑ نے بچے کو گود میں لے کر پیار کیا اور فرمایا: ایک نذیر تو دنیا سے سنبھالا نہیں جاتا ایک اور نذیر آگیا ہے۔
حضرت ماسٹر سردار عبدالرحمن صاحبؓ کا ارادہ اپنے اس بیٹے کو بی اے کروانے کا تھا لیکن آپؓ کو خواب میں بتایا گیا کہ نذیر احمد کو ڈاکٹر بنائو وہ ڈاکٹر بن جائے گا۔ چنانچہ آپؓ کے کہنے پر بیٹے نے کالج کی تعلیم ترک کردی اور امرتسر اور آگرہ کے میڈیکل کالجوں میں گئے لیکن داخلہ نہ ملا۔ انہوں نے اس صورتحال کی اطلاع دی تو حضرت ماسٹر صاحبؓ نے اُنہیں لکھا کہ تم پروفیسروں سے ملتے رہو، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ضرور پورا ہوگا خواہ کوئی لڑکا فوت ہو جائے یا کسی کو کالج سے نکال دیا جائے۔ چنانچہ وہ اپنے والد کی ہدایت کے مطابق روزانہ پرنسپل سے پوچھتے رہے۔ ایک دن پرنسپل نے کہا کہ تم کیوں وقت ضائع کرتے ہو؟ اب تو ویٹنگ لِسٹ کا وقت بھی گزرچکا ہے۔ اس پر آپؓ نے اُسے بتایا کہ میرے والد صاحب کو یہ الہام ہوا تھا۔ وہ حیران ہو کر بولا: کیا اس زمانہ میں بھی الہام ہوتا ہے؟
انہی دنوں حضرت ماسٹر صاحبؓ کو کشفی حالت میں آگرہ کا ایک ہندو لڑکا دکھایا گیا جسے پرنسپل نے کہا: ’’نکل جاؤ، ہم نہیں مانگتا‘‘۔ یہ کشف بعینہٖ پورا ہوا اور کسی بدتمیزی پر پرنسپل نے ایک لڑکے کو وہی الفاظ کہتے ہوئے کالج سے نکال دیا۔ اُس وقت اتفاق سے سردار نذیر احمد صاحبؓ بھی وہاں تھے چنانچہ پرنسپل نے ان کو داخلے کی پیشکش کردی۔ اگرچہ پڑھائی کے چند ماہ گزرچکے تھے لیکن دعا اور محنت سے آپ مسلسل تین سال تک سالانہ امتحانات میں اوّل آتے رہے۔ چوتھے سال کے فائنل امتحان میں ان کو پریکٹیکل کے 35 نمبر ملے تو ان کو فکر ہوئی کہ اس طرح شاید اوّل نہ آسکوں اور میڈل نہ ملے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ماسٹر صاحبؓ کو بڑی پریشانی کا خط لکھا تو آپؓ نے جواباً تحریر فرمایا:’’ہمارا خدا بڑا قادر ہے، ہم دعا کریں گے۔ کیا پتہ تمہارے مارکس 35کی بجائے 53 ہوجائیں۔‘‘
چنانچہ یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا اور لکھنے والوں نے غلطی سے 35کی بجائے 53 نمبر لکھ دئیے اور اس طرح حضرت سردار نذیر احمد صاحبؓ اوّل قرار پائے۔
(ماخوذ از مضمون مطبوعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍جولائی 2011ء۔تحریر محمود مجیب اصغر)
٭ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی سوانح میں متعدد واقعات ایسے تحریر ہیں جن میں خداتعالیٰ نے محض دعا کے نتیجے میں ناقابل علاج امراض سے لوگوں کو شفا عطا فرمادی۔ آپؓ کے بارے میں آپؓ کی صاحبزادی محترمہ طیبہ صدیقہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ آپؓ ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے۔ ریٹائرڈ ہوکر قادیان میں رہائش پذیر ہوئے۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میری وفات جمعہ کی صبح آٹھ بجے ہو گی یا شام آٹھ بجے‘‘۔ چنانچہ 18؍جولائی بروز جمعہ آپؓ کی وفات ہوئی۔
(روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍ اگست 1996ء)
٭… حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ؓنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ایک خواب دیکھا تھا جس میں حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ بھیروی کے خلیفہ بننے اور اُن کی بیعت کرنے کا ذکر تھا۔ آپؓ نے یہ رؤیا اُسی وقت کئی دوسرے احباب کو بتا بھی دی جو بعد میں بڑی شان سے پوری ہوئی۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 74-75 از روایات حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ؓ)
٭… حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ کو اپنے تعلق باللہ پر ایسا ناز تھا کہ ایک دفعہ جوش صداقت سے مغلوب ہوکر فرمایا کہ مَیں نے جب تک نوکری کی اورجس طرح اپنے فرض کو ادا کیا ہے اورجس دیانت سے کیا ہے اور جو فیصلے کئے ہیں اور جس صداقت اور ایمانداری کے ساتھ کئے ہیں اور پھرجس طرح ہر قسم کی نجاستوں سے اپنے دامن کوبچا یا ہے سب باتیں ایسی ہیں کہ اگر ان سب کو سامنے رکھ کر مَیں اپنے خدا سے دعا کروں تو ایک تیراندازکا تیر خطا کرسکتا ہے لیکن میری وہ دعا ہرگز خطا نہیں کرسکتی۔ (بحوالہ مضمون حضرت منشی اروڑے خان صاحب مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ 22؍ستمبر 2003ء)
٭… حضرت میاں محمد دین صاحبؓ پٹواری (بلانی کھاریاں۔ یکے از 313) عملاً دہریہ ہوچکے تھے۔ لیکن آپ نے جب ’’براہین احمدیہ‘‘ پڑھی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر آپ کو کامل یقین ہو گیا اور معاً دہریت کافور ہوگئی۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ یہ 19؍جنوری 1893ء کی شدید سرد رات تھی۔ کتاب ختم کی تو آدھی رات کا وقت تھا جب مَیں نے صحن میں رکھے گھڑے کے سرد پانی سے غسل کیا۔ لاچہ (تہ بند) دھویا اور گیلا لاچہ باندھ کر ہی نماز پڑھنی شروع کی اور لمبی نماز پڑھی اور بعدازاں کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ بعدازاں بیعت کی توفیق پائی۔
(ماخوذ از حضرت میاں محمد دین صاحبؓ پٹواری مطبوعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم نومبر 2011ء)
٭… حضرت مرزا غلام رسول صاحبؓ جوڈیشل کمشنر کے ریڈر تھے اور افسران آپ کی قانون دانی کے قائل اور آپ کی محنت، دیانت اور پاکیزگی کے معترف تھے۔ اُس دوران ہائیکورٹ کے انگریز چیف جج مسٹر فریزر نے رشوت لینے میں آپؓ سے مدد لینا چاہی تو آپؓ نے صاف انکار کردیا۔ اس پر آپؓ کی ملازمت خطرے میں پڑگئی۔ دعا کرنے پر آپؓ کو ایک وظیفہ بتایا گیا جسے چند دن کرنے کے بعد آپؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپؓ کی آنکھیں انگارے کی طرح سرخ ہوگئی ہیں اور جس شخص کو آپ دیکھتے ہیں وہ مرجاتا ہے، اسی اثناء میں انگریز چیف جج بھی آپ کے سامنے آگیا اور مر گیا۔ اس رؤیا کے چند ہی روز بعد اس جج کو تپدق ہوگئی اور وہ کبھی واپس نہ آنے کے لئے ولایت چلا گیا۔
(حضرت مرزا غلام رسول صاحبؓ جوڈیشل کمشنر۔مطبوعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5اکتوبر 2011ء)
٭…حضرت میاں محمد نواز خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ 1906ء میں سیالکوٹ میں طاعون کا از حد زور و شور تھا۔ ہر طرف مُردے ہی مُردے نظر آتے تھے۔ محمدشاہ اور میں دونوں ایک کمرے میں رہتے تھے۔ مجھے بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ تب میں نے دعا کی کہ یا مولا! مَیں نے تو تیرے مامور کو مان لیا ہے اور مجھے بھی گلٹی نکل آئی ہے۔ خدا کی قدرت کہ صبح تک وہ گلٹی غائب ہو گئی اور میرا ساتھی محمد شاہ مرا پڑا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر10صفحہ نمبر143)
٭…حضرت چودھری امیر خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ 1915ء کو میرے اکلوتے بچے عبداللہ خان کو قادیان میں طاعون نکلی اور بخار نے اس شدّت سے زور پکڑا کہ نازک حالت ہوگئی۔ بچے کی ماںجو کئی دنوں سے اُس کی تکلیف کو دیکھ دیکھ کر جاں بہ لب ہو رہی تھی، زار زار رو دی اور بچے کو میرے پاس دے دیا۔ سخت گرمی کا موسم اور مکان کی تنگی اور تنہائی اَور بھی گھبراہٹ کو دوبالا بنا رہی تھی۔ مَیں نے بچے کو اُٹھا کر اپنے کندھے سے لگا لیا۔ بچے کی نازک حالت اور اپنی بے کسی، بے بسی کے تصور سے بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس اضطراری حالت میں بار بار دعا کی کہ اے خدا! اے میرے پیارے خدا! اس نازک وقت میں تیرے سوا اَور کوئی غمگسار اور حکیم نہیں، صرف ایک تیری ہی ذات ہے جو شفا بخش ہے۔ غرضیکہ میں اس خیال میں ایسا مستغرق ہوا کہ یکایک دل میں خیال ڈالا گیا کہ تو قرآنِ کریم کی دعا قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ پڑھ کر بچے کے سرپر سے اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے کی طرف لا اور بار بار ایسا کر۔ چنانچہ مَیں نے بچشم تر اسی طرح عمل شروع کیا یہاں تک کہ چند منٹوں میں بچے کا بخار اُتر گیا۔ صرف گلٹی باقی رہ گئی جو دوسرے دن آپریشن کرانے سے پھوٹ گئی اور چار پانچ روز میں بچے کو بالکل شفا ہو گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر6صفحہ نمبر150-151)
٭…حضرت چوہدری امیر خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میری بیوی کے پاؤں کا تین بار آپریشن بھی کامیاب نہ ہوا تو گینگرین کی وجہ سے انگریز نرس نے ٹخنے تک پاؤں کاٹنے کی اجازت مانگی اور پھر اُسے آپریشن کے لیے لے گئی۔ مَیں وہیں وضو کر کے نفلوں میں دعا میں مصروف ہو گیا کہ اے خدا! تیری ذات قادر ہے تُو جو چاہے سو کر سکتا ہے۔پس تو اس وقت پاؤں کو کاٹنے سے بچا لے۔ کیونکہ یہ تو عمر بھر کا عیب لگ جائے گا۔ تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔ اور اسی خیال میں سجدہ کے اندر سر رکھ کر دعا میں انتہائی سوز و گداز کے ساتھ مستغرق ہوا کہ عالمِ محویت میں ہی ندا آئی، یہ آواز آئی کہ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ اور جب اس آواز کے ساتھ ہی مَیں نے سجدہ سے سر اُٹھایا تو نرس نے آکر بتایا کہ سول سرجن صاحب فرماتے ہیں کہ اس دفعہ مَیں خود زخم کو صاف کرتا ہوں اور پاؤں تو کسی وقت بھی کاٹا جاسکتا ہے۔
(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر6صفحہ نمبر121-122روایت حضرت چوہدری امیر خان صاحب ؓ)
٭… حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ بٹالوی بیان فرماتے ہیں کہ اواخر1934 ء میں فوج میں بار بار کے تبادلوں سے میری طبیعت اُکتاگئی اور میں چاہتا تھا کہ کسی طرح مجھے پنشن مل جائے اور مَیں بقیہ زندگی قادیان میں گزاروں۔ سواللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کردی اور میں طبّی لحاظ سے ناقابل ملازمت قرار دیا گیا اور ستمبر 1935ء میں اپنے گھرقادیان آگیا۔ اگلے روز یہاں میں نے کمرہ بند کر کے دعا مانگی کہ الٰہی! تُو مجھے اپنے رحم خاص سے میری خواہش کے مطابق قادیان لے آیا ہے۔ اب ایک اَور نظر رحم کرکہ مجھے کسی کے دَر پر رزق اور ملازمت وغیرہ کے لئے جانا نہ پڑے حتّٰی کہ خلیفہ کے در پر بھی نہ لے جائیو اور اپنے فضل سے ہی میرے رزق کے سامان کریو۔ دعا کے بعد مَیں نے کمرے کا دروازہ کھولا تو ایک دوست کو کھڑے پایا جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی چٹھی لائے تھے جس میں مرقوم تھا کہ آپ مجھے کسی وقت آکر ملیں۔ میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ یہ قبولیت دعا کا نشان ہے۔ ملاقات میں حضرت میاں صاحبؓ نے فرمایا کہ میں احمدآباد سینڈیکیٹ کا سیکرٹری ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے دفتر میں کام کریں۔ مَیں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ تعمیلِ ارشاد کی۔ مجھے علاوہ پنشن تیس روپے ماہوار الاؤنس ملنے لگا۔ نیز احمدیہ سٹور کا مینجر بھی مقرر کیا گیا اور پندرہ روپے الاؤنس مقرر ہوا۔ اس طرح مجھے اتنی ہی آمدنی ہونے لگی جتنی ملازمت میں تھی۔
( رسالہ ’’انصارالدین ستمبر واکتوبر 2010ء)
٭…حضرت امیر خان صاحبؓ انجمن میں تیس روپے ماہوار پر ملازم تھے۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1925ء میں انجمن میں تخفیف ہوئی اور مَیں بھی تخفیف میں آگیا۔ سخت تنگی میں سوائے خدا کے آستانے کے اَور کوئی چارۂ کار نہ دیکھا۔ چنانچہ درد دل سے دعا کی۔ اسی دوران رمضان میں خاص دعا اور اعتکاف کی توفیق بھی ملی تو الہام ہوا کہ ’’دَم وَٹ زمانہ کٹ، بھلے دن آون گے‘‘۔ جب اس بشارت پر بھی عرصہ گزر گیا اور تنگی نے بہت ستایا تو فارسی میں بشارت ہوئی:’’غم مخور زا نکہ در ایں تشویش خور می وصل یارمی بینم‘‘۔ اس کے چند دن بعد خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکا عطا کیا اور پھر محکمہ اشتمال اراضیات میں بمشاہرہ 90؍روپے ماہوار سب انسپکٹر بھی ہوگیا۔
(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر6صفحہ نمبر152-151)
٭… حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ سکنہ جموں فرماتے ہیں کہ (شدید تنگی کے دوران) مَیں نے پیدل کشمیر جاتے ہوئے راستہ میں ایک جنگل میں نماز پڑھ کر اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوۡذُبِکَ مِنَ الۡھَمِّ وَالۡحُزۡنِ والی دعا نہایت زاری اور انتہائی اضطراب سے پڑھی۔ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری روزی کا سامان کچھ ایسا کر دیا کہ مجھے کبھی تنگی نہیں ہوئی اور باوجود کوئی خاص کاروبار نہ کرنے کے غیب سے ہزاروں روپے میرے پاس آئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ ، رجسٹر نمبر12صفحہ نمبر68)
٭… حضرت مولوی برہان الدین جہلمی صاحبؓ کی نظر سے جب ’’براہین احمدیہ‘‘ گزری تو اسے پڑھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ 1886ء میں آپ قادیان پہنچے لیکن حضورؑ اُس وقت ہوشیارپور میں بغرض چلّہ کشی مقیم تھے۔ چنانچہ آپؓ ہوشیارپور چلے گئے اور حضورؑ کی رہائشگاہ کا بڑی مشکل سے پتہ چلایا۔ وہاں پہنچ کر خادم کے ذریعہ اپنے نام اور مقصد سے اندر اطلاع بھجوائی۔ جب خادم اندر گیا تو آپ کو فارسی میں الہام ہوا جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے ہیں، اب یہاں سے نہ ہٹیں۔ چنانچہ خادم نے جب واپس آکر عدم فرصتی کی معذرت کی اور کہا کہ پھر کسی وقت تشریف لائیں تو آپ نے کہا کہ میرا گھر دُور ہے اس لئے دروازہ پر ہی بیٹھ کر انتظار کرتا ہوں۔ اس پر خادم دوبارہ اندر گیا تو اندر حضورؑ کو عربی میں الہام ہوا کہ مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنی چاہیے۔ اس پر حضورؑ نے آپ کو اندر بلالیا اور بہت خندہ پیشانی سے ملے۔ آپؓ نے چند روز وہاں قیام کیا اور پھر حضورؑ سے بیعت کے لئے درخواست کی لیکن حضورؑ نے فرمایا کہ مجھے بیعت لینے کا حکم نہیں ملا۔ ( روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جولائی 2001ء )
٭…حضرت عبدالستار صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے خواب آئی کہ حضورؑ ہمارے گھر چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ گاؤں والے مجھے سخت تکلیف دے رہے ہیں،آپ دعا فرمائیں۔ اس پر حضورؑ نے پنجابی میں فرمایا کہ مَیں تو یہی کام کرتا ہوں۔ دوبارہ مَیں نے اپنے لئے دعا کے لئے عرض کی تو حضورؑ نے میرے بائیں بازو کو پکڑ کر ایک ہاتھ سے دعا کرنی شروع کر دی۔ مَیں نے بھی دعا کرنی شروع کر دی۔ اسی دوران بہت سخت زلزلہ آگیا اورمَیں گرنے لگا تو حضور کو زور سے پکڑکر بغل گیر ہو گیا اور مجھے جاگ آ گئی۔ پھر صبح سویرے میں قادیان آیا تو حضورؑ نے بڑے باغ میں خیمہ لگایا ہوا تھا اور باہر ٹہل رہے تھے۔ مَیں نے سلام عرض کیا اور اجازت لے کر اپنا خواب سنایا۔ اس پر حضورؑ نے تین دفعہ فرمایا: ’’تم بچائے جاؤ گے‘‘۔ جب مَیں گاؤں آیا تو میری بیوی اور لڑکی کو طاعون ہو گئی۔ لوگوں نے کہا کہ دس بارہ آدمی روز مررہے ہیں، تمہاری (احمدیوں کی) میت کوکون اُٹھائے گا؟ مَیں نے جواب دیا کہ ہم کو خدا کو سونپو۔ میری بیوی قریب المرگ ہوئی تو مَیں نے وضو کر کے دعا کی کہ اے مولیٰ! ہماری قبر کھودنے والا اور اُٹھانے والا اور غسل دینے والا بھی کوئی نہیں۔ میرے پاس سنگترے تھے، مَیں وہی چھیل کر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا رہا۔ اچانک اُسے دست آئے اور ساتھ ہی بخار بھی ٹوٹ گیا۔ پھر لڑکی کے پھوڑے پر آک (پودے) کا دودھ لگایا تو اُس کو بھی آرام آ گیا۔ تب مجھے حضورؑ کی بات یاد آئی کہ ’’تم بچائے جاؤ گے۔‘‘ (تینوں اللہ کے فضل سے بچائے گئے۔) (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر6صفحہ نمبر183-184روایت حضرت عبدالستار صاحب ؓ)
٭…حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت صاحب کے دروازے پر دربان تھا۔ ایک روز حضورؓ نے مجھے حکم دیا کہ یہ قرآن شریف حکیم فضل دین صاحبؓ کے پاس لے جاؤ اور فلاں مضمون کی آیت دریافت کر کے اُس پر نشان کر کے لے آؤ۔ مَیں نے چاہا کہ مَیں خود ہی وہ آیت نکال کر پیش کر دوں جس کی حضورؑ کو تلاش تھی۔تب مَیں نے وہیں کھڑے کھڑے دعا کی کہ وہ آیت مجھے ہی بتلا دی جائے اور پھر قرآن شریف کھولا تو میری پہلی نظر ہی اُس آیت پر پڑی جو حضرت اقدسؑ کو مطلوب تھی۔ مَیں نے عرض کی کہ حضور! آیت یہ موجود ہے۔ … حضورؑ نے میرے ہاتھ سے قرآن شریف لے کر اس آیت کو دیکھا اور فرمایا کہ ہاں یہی ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر11روایت حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ)
٭…حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی بیان فرماتے ہیں کہ جلسہ مذاہب عالم میں پڑھے جانے والے مضمون ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے بارے میں حضرت صاحب کا الہام جب پڑھا کہ ’میرا مضمون بالا رہا‘ تو مَیں اُن دنوں بہت بیمار اور بہت زیادہ کمزور تھا۔ لیکن حضورؑ کا یہ بھاری دعویٰ دیکھا تو خیال آیا کہ بجز تائید الٰہی یہ بات کون کہہ سکتا ہے! چنانچہ افتاں و خیزاں (گرتاپڑتا) جلسہ گاہ میں پہنچا۔ پہلے والے لیکچر بھی سنے مگر سب پھیکے اور بے اثر۔ لیکن جب حضرت صاحب کا مضمون شروع ہوا تو تِل رکھنے کی جگہ نہ تھی اور سامعین پر ایسا سکوت تھا کہ ذرا بھنک نہیں آتی تھی۔ یہاں تک کہ بعض اَور لوگوں نے بھی اپنے اوقات آپؑ کا مضمون سننے کے لئے وقف کر دئیے اور دو دن ایامِ مقررہ سے زائد کئے گئے۔ جب یہ مضمون آخر میں پہنچا تو مَیں نے اسی جگہ ہاتھ اُٹھاکر دعا کی کہ یا اللہ! اگر یہ تیرا وہی بندہ ہے جس کی نسبت تیرے پیارے رسول ﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہے تو اُس کی برکت سے مجھے اس بیماری سے شفا بخش دے۔ الغرض جلسہ ختم ہونے کے بعد جب مَیں باہر نکلا تو اللہ کی قسم! مجھے ایسا معلوم ہوا کہ مجھے کوئی بیماری نہ تھی اور پھر اس بیماری نے کبھی عود نہ کیا۔
(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر247-248روایت حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ)
٭…حضرت اللہ بخش صاحب ؓبیان کرتے ہیں کہ کرم دین کے مقدمے میں پہلے چندُو لال آریہ منصف تھا۔ میرے ایک آریہ دوست نے مجھے خبر دی کہ ہماری کمیٹی میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ مرزا صاحب کو سخت سزا دی جائے۔ میں نے جاکر یہ خبر حضرت صاحب کی خدمت میں بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ دعا کرو۔ مَیں واپس آگیا۔ اگلے روز صبح کی نماز کے وقت مسجد میں درود شریف پڑھ رہا تھا کہ میرے دائیںکان میں جو قریباً بند ہے زور سے آواز آئی کہ چندو لال فیصلہ سنانے سے پہلے مر جائے گا۔ پھر مَیں نے حضرت صاحب کی خدمت میں آکر یہ خواب بیان کی تو آپؑ نے فرمایا کہ یہ مبشر خواب ہے اَور دعا کرو۔ اس کے بعد نئے مجسٹریٹ آتمارام کی شکل بھی رؤیا میں دکھائی گئی جو ٹانگ سے کچھ معذور تھا اور جب مَیں نے عدالت میں اُس کو دیکھا تو پہچان لیا۔
(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر145تا147)
٭… حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ بٹالوی فرماتے ہیں کہ 1916 ء میں فوج کی ملازمت کے دوران ایک روز مَیں اپنے ساتھی کلرک بابو ہری سنگھ کے ساتھ دفتر سے گھر کی طرف آرہا تھا۔ ان کے ساتھ اکثر مذہبی گفتگو رہتی تھی۔ انہوں نے پوچھا: کیا آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے؟ مَیں نے کہا کہ آپ سوال کی تصحیح کر کے یہ پوچھیں کہ کیا آپ کا میرے مقابل پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ تعلق ہے؟ انہوں نے کہا یوں ہی سہی۔ اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے ثبوت طلب کیا۔ میں نے کہا کہ ’’آپ میرے ہاتھ سے ڈسچارج ہوں گے‘‘۔ بات تو میرے منہ سے نکل گئی اور میں خود حیرت میںڈوب گیا کہ یہ کیا بات میرے منہ سے نکلی تھی۔ ادھر یہ سکھ بھی حیران تھا کہ یہ کیا جواب ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان تھوڑے عرصہ میں اُن کی آنکھوں میں تیز ککرے پڑگئے اور وہ کئی ماہ تک شفاخانہ میں داخل رہے۔ وہ صحت یاب ہوئے تو مَیں رخصت لے کر قادیان آگیا اور وہ کور کے ہمراہ راولپنڈی آگئے۔ میں رخصت کے بعد جب راولپنڈی میں کور کے دفتر پہنچا تو بابو ہری سنگھ نے کہا کہ افسر آپ پر مہربان ہے۔ اُس کو کہیں کہ وہ مجھے ہسپتال لے جاکر طبی طور پر مجھے ناقابل ملازمت قرار دلادے تاکہ مجھے پنشن مل جائے۔ چنانچہ میرے کہنے پر افسر نے ایسا ہی کیا۔ جب ان کی ملازمت سے فراغت اور پنشن کے کاغذات بن گئے تو اچانک بنوں والی بات مجھے یاد آگئی اور میں نے ان کو کہا کہ لو بابو صاحب آج وہ بات پوری ہوگئی کہ آپ میرے ہاتھ سے ڈسچارج ہوں گے اور یہ اسلام کی سچائی کا ثبوت ہے۔
( رسالہ ’’انصارالدین ستمبر واکتوبر 2010ء)
٭…حضرت مرزا غلام نبی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ بیعت کے بعد حضرت صاحب کے الہامات پر مخالفین کے تبصرے پڑھ کر مجھے پریشانی ہوتی تھی۔ ایک دن مَیں نے خدا کے حضور دعا کی تو اچانک دوپہر کے وقت مجھ پر حالتِ غنودگی طاری ہوئی اور آسمان سے ایک نیلگوں رنگ کا گھوڑا اترتا ہوا معلوم ہوا۔ جوں جوں وہ زمین کے نزدیک آتا تھا اُس کا رنگ شوخ ہوتا جاتا تھا۔ اُس کی گردن سے بجلی کی طرح ایک شعلہ نکلتا تھا۔ میرے دل پر یہ القاء ہوا کہ یہ تمہارے مرشد کا نشان ہے۔ عنقریب یہ روشنی زمین تک پہنچے گی اور دشمنوں کا رنگ زرد کر دے گی۔ اس کے چند ماہ بعد حضرت صاحب کا روشن ستارے والا نشان جو حقیقۃالوحی میں درج ہے، وہ نمودار ہوا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر225)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشن ستارے والی پیشگوئی 31 مارچ 1907ء کی شام کو پوری ہوئی جب آگ کا ایک بہت بڑا شعلہ، جس سے دل کانپ اٹھے، آسمان پر ظاہر ہوا اور ایک ہولناک چمک کے ساتھ قریباً سات سو میل تک جابجا زمین پر گرتا دیکھا گیا۔ اور ایسے ہولناک طور پر گرا کہ ہزارہا مخلوقِ خدا اس کے نظارہ سے حیران ہوگئی اور بعض بیہوش ہوکر زمین پر گر پڑے۔ اکثر لوگوں کا بیان ہے کہ وہ آگ کا آتشی گولہ تھا جو نہایت مہیب اور غیر معمولی صورت میں نمودار ہوا اور ایسا دکھائی دیا کہ وہ زمین پر گرا اور پھر دھواں ہو کر آسمان پر چڑھ گیا…۔
(ماخوذ از حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 518)
٭… اصحاب احمد کی قبولیتِ دعا کے متفرق نشانات کو بیان کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو دعا کے بعد نشانات کی طرف اشارہ کرتا تھا اور پھر وہ نشانات ظاہر بھی ہوئے اور اس طرح یہ اُن کے ایمان میں ترقی کا باعث بنتے تھے۔ پس دعاؤں کی قبولیت اور روشن نشانوں سے اللہ تعالیٰ نے اُن صحابہ کے ایمانوں کو مزید مضبوط اور صیقل کیاہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دعاؤں کی حقیقت اور آداب کا جوادراک صحابہ کو حاصل ہوا، یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ وہ ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں بھی روشن نشانوں کے ذریعہ قبولیت دعا کے نشان دکھائے۔ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان میں مضبوط ہو اور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنے والا ہو۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15؍ جون 2012ء)

باب چہارم
چند صحابیاتِ احمد کے تعلق باللہ کے واقعات

سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشارِ نورانیت اس حد تک ہو گا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہوجائے گا اور نابالغ بچے نبوت کریں گے اور عوام النّاس روح القدس سے بولیں گے اور یہ سب کچھ مسیح موعود کی روحانیت کا پرتَو ہوگا۔‘‘ (’’ضرورۃالامام‘‘۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ475)
تاریخ احمدیت میں کثرت سے ایسے واقعات محفوظ ہیں جو تعلق باللہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحابیات کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان میں سے محض چند بطور نمونہ درج ذیل ہیں:
٭… حضرت امّاں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ آپؓ کی نیکی اور دینداری کا مقدّم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا آپؓ تہجد اور نماز اشراق کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کرتیں کہ دیکھنے والے دل میں ایک خاص کیفیت محسوس کرتے۔ بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں۔ مَیں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کا یہ پیارا قول کہ ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘ یہی کیفیت حضرت اماں جانؓ کو اپنے آقاؑ سے ورثہ میں ملی تھی یہاں تک کہ چھٹی کے دنوں میں بھی نماز کا وقت باتوں میں ضائع نہیں فرماتی تھیں بلکہ مقررہ اوقات میں تنہا ٹہل کر دعا یا ذکر الٰہی کرتی تھیں۔ سب سے زیادہ آپؓ کی زبان مبارک پر یہ مسنون دعا آتی:’’یَا حَیُّ یَا قَیُّوۡمُ بِرَحۡمَتِکَ اَسۡتَغِیۡثُ‘‘۔
(ماخوذ از احمدی خواتین کا تعلق باللہ۔روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جولائی 2009ء)
٭… حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب مَیں قادیان آتا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت اماں جانؓ کی دعوت کرتا۔ ایک بار سارے خاندان کی دعوت کی۔ کھانا کچھ لنگر میں پکوایا۔ زردہ، پلاؤ، کباب وغیرہ حضرت اماں جانؓ نے اندر تیار کرائے۔ پروگرام کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور مَیں نے مسجد میں کھانا کھانا تھا۔ جب ہم کھانا کھانے لگے تو مَیں نے پیغام بھیجا کہ ہمارے ساتھ تیرہ احباب اَور بھی مدعو ہیں۔ اماں جانؓ نے فرمایا کہ یہ تمہاری غلطی ہے۔ باقی کھانا تو کافی ہے لیکن زردہ صرف چار پلیٹ کا ہے۔ پھر آپؓ نے اپنے دوپٹہ کا پلّو دیگچہ کے منہ پر ڈال کر جلدی جلدی سترہ رکابیوں میں زردہ ڈال دیا اور پھر دیگچہ پر تھال دے دیا۔ کھانے سے فراغت کے بعد آپؓ نے میری بیوی سے فرمایا: دیکھ، زردہ کتنا باقی ہے؟ اُس نے دیکھا کہ جس قدر پہلے تھا، اُسی قدر باقی ہے۔ آپؓ نے فرمایا: یہ گھر لے جا اور قدرت اللہ کو کہنا کہ شام اور کل صبح تک کھاوے۔
سنور میں قیام کے دوران حضرت اماں جانؓ سے مَیں نے عرض کیا کہ دالان میں سیاہ رنگ کے کیڑے مکوڑے نکل کر تکلیف کا باعث ہوتے ہیں۔ مَیں نے کئی بار کوشش کی لیکن یہ کسی نہ کسی جگہ سے نکل آتے ہیں۔ فرمایا: آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ عرض کیا: حضور دعا فرماویں کہ یہ مکان چھوڑ جاویں۔ فرمایا: اب مَیں کیڑوں کے لئے دعا کرتی پھروں؟ عرض کیا: حضور کی مرضی۔ اس پر آپؓ آگے بڑھیں اور جہاں کیڑے نکل رہے تھے، وہاں کھڑے ہوکر کیڑوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’ارے بھئی! تم اِن کو کیوں تکلیف دیتے ہو؟ پرے چلے جاؤ‘‘۔ اس واقعہ کے بعد تیس سال تک وہ مکان میرے قبضہ میں رہا مگر اس میں پھر کیڑے نہ آئے۔
(ماخوذ از حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ مطبوعہ ماہنامہ مصباح ربوہ اپریل 2000ء)
٭…خدا تعالیٰ کے لئے حضرت امّاں جانؓ بہت غیرتمند تھیں۔ آپؓ کی بہو حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ اپنے والد صاحب کی وفات کی خبر سن کر بے ہوش ہو گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ہوش آیا تو دیکھا کہ حضرت سیدہ اماں جانؓ میرا سر اپنی گود میں رکھے دعائیں کر رہی ہیں۔ میرے مونہہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے: ’’اللہ میاں میرے چھوٹے چھوٹے بھائی ہیں، ان کا کیا ہوگا…؟‘‘ حضرت اماں جانؓ یہ سنتے ہی بولیں:’’تمہارے ابا رازق نہ تھے، اُن کی زندگی میں بھی خدا تعالیٰ ہی بچوں کا رازق تھا، اُن کے بعد بھی وہی اُن کا کفیل ہوگا۔‘‘
حضرت امّاں جانؓ کے تعلق باللہ کا اظہار اس واقعہ سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ حضرت سیدہ مہر آپا کی والدہ ماجدہ کی دو بیٹیاں تھیں اور بظاہر بیماری کی وجہ سے اُن کے والد صاحب کو دوسری شادی کا مشورہ دیا جا رہا تھا۔ تب انہوں نے حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں ساری بات عرض کر کے دعا کی درخواست کی تو آپؓ نے فرمایا: ’’تم دعائیں، علاج اور صدقات سے کام لیتی جاؤ۔ خدا تعالیٰ تمہیں نرینہ اولاد سے نوازے گا، ان شاء اللہ، اور ایسا ہوتے ہوئے میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں تین بیٹوں سے نوازا۔ (ماخوذ از ’’ہراول دستہ‘‘ از محترمہ ستارہ مظفر صاحبہ)
٭… حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی عبادت کا اپنا انداز تھا۔ خود فرماتی ہیں: ’’میں نے سجدے مخصوص کئے ہوئے ہیں اور اس میں ایک سجدہ تو اس حصۂ جماعت کے لیے بھی مخصوص ہے جس نے کبھی مجھے دعا کے لئے لکھا بھی نہیں تھا۔‘‘
آپؓ بلاناغہ عشاء کے بعد قرآن مجید کی تلاوت فرماتیں اور رات کو بارہ بجے کے بعد ہی عموماً سوتیں۔ چار سال کی عمر سے ہی تہجد پڑھ رہی تھیں۔ ظاہری شان و شوکت تو اللہ تعالیٰ کی ودیعت تھی۔ لیکن باطنی طہارت و مجاہدات میں آپ کا اپنا عمل اور کوشش بھی شامل تھی۔ آپ نے اپنے نفس کو کچل دیا تھا۔ آپ فرمایاکرتی تھیں کہ ’’میری تو یہ حالت ہے کہ بستر پر کروٹ بدلتی ہوں تو ہر کروٹ پر احباب جماعت کیلئے دعا کرتی ہوں۔‘‘(ماخوذ از احمدی خواتین کا تعلق باللہ۔ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جولائی 2009ء)
٭… حضرت سیّدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے متعلق اُن کی بیٹی مکرمہ فوزیہ شمیم صاحبہ رقمطراز ہیں: ’’خداتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے بے حد محبت تھی۔… خدا تعالیٰ کی ذات پر بے انتہا توکّل اور دعائوں پر بے حد یقین تھا۔ صحت کی حالت میں گھنٹوں عبادت میں گزارتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چار سال کی عمر میں آپ کو اپنے مولیٰ کے سپرد کرگئے اور حقیقۃً ساری زندگی اپنے مولا کی گود میں رہیں۔ بسا اوقات کسی چیز کی خواہش کرلیتیں اور وہ غیب سے آجاتی۔ پھر تحدیث نعمت کے طورپر بار بار اس کا ذکر کرتیںا ور خوش ہوتیں۔ غیراللہ پر بھروسہ کرنے سے سخت نفرت تھی۔‘‘ (ایضاً)
٭… حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہؓ (والدہ حضرت سیدہ امّ طاہرؓ) کے بارہ میں اُن کے محترم خاوند حضرت سیدولی اللہ شاہ صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
آپؓ نے بچپن سے آخرعمر تک اپنی زندگی عبادت الٰہی میں گزاری۔ بچپن اور جوانی میں اپنوں اور دوسروں میں پارسا کے لقب سے مشہور تھیں۔ بیعت کے بعد آپ کی عبادت اور ذکر الٰہی کی کیفیت پانی کی مچھلی کی سی تھی۔ آپؓ دن رات انتھک دعائیں اور ذکر الٰہی کرنے والی اور تقویٰ اور طہارت کا بہترین اسوہ تھیں۔ رات کو بارہ ایک بجے کے بعد آپؓ بیدار ہو جاتیں اور صبح تک عبادت الٰہی میں مشغول رہتیں۔ دن رات کا بڑا حصہ عبادت و ذکر الٰہی میں بسر ہوتا۔ سخت بیماری کی حالت میں بھی آپؓ ایسا ہی کرتیں۔ جب گھر میں کوئی حکم الٰہی کا ذکر کرتا کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر اپنی جان کو تکلیف نہ دو تو فرماتیں: میری جان کو تو اس سے راحت ہوتی ہے۔ آخری مرض تک باجماعت نماز ادا کرتی رہیں۔ کئی کئی گھنٹے کی عبادت سے بھی تھکاوٹ محسوس نہ کرتیں۔ آپ دوسروں کو بتاتیں کہ نماز تو وہ ہوتی ہے جب انسان عرش معلی پر جا کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرے۔ مَیں نماز سے سلام نہیں پھیرتی جب تک میری روح اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ نہیں کرتی اور جب یہ حالت ہوتی ہے تو مَیں اس وقت اسلام اور ساری جماعت احمدیہ کیلئے دعاؤں میں لگ جاتی ہوں۔
آپؓ بیعت سے پہلے بھی صاحب حال تھیں۔ پیغمبروں، اولیاء اور فرشتوں کی زیارت کر چکی تھیں۔ خواب میں دیکھنے سے حضرت صاحب پر ایمان پیدا ہو گیا تھا اور مجھ سے کہا کہ مجھے تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان جانا چاہیے اور سخت بیقراری ظاہر کی کہ ایسے مقبول شخص کی صحبت سے جلدی فائدہ اٹھانا چاہیے، زندگی کا اعتبار نہیں۔ آپؓ کے اصرار پر مَیں تین ماہ کی رخصت لے کر مع اہل و عیال قادیان پہنچا۔ حضرت صاحب کو کمال خوشی ہوئی اور حضورؑ نے اپنے قریب کے مکان میں جگہ دی۔ (ماخوذ از احمدی خواتین کا تعلق باللہ۔روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جولائی 2009ء)
٭… حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ (امّ طاہر) کے تعلق باللہ سے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ:
زُہد و تقویٰ میں بہت بلند مقام پر فائز تھیں۔ بہت دعا گو، عبادت گزار، قرآن مجید کی عاشق صادق تھیں۔ ظاہری اور باطنی دونوں احترام ملحوظ رکھتیں۔ آنحضرت ﷺ کی جاںنثار، حضرت مسیح موعودؑ کی فدائی تھیں۔ تلاوت اور درود شریف سے خاص شغف تھا۔ نماز بہت اہتمام سے ادا فرماتیں۔ تلاوت قرآن کریم اہل زبان کے تلفظ سے کرتیں۔ جب بھی موقع ملتا حضرت اقدسؑ کی کتب پڑھتیں۔
٭…حضرت سیّدہ اُمّ طاہرؓ کے بارے میں مکرمہ صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ رقمطراز ہیں کہ آپاجان بہت عبادت گزار اور تہجد گزار تھیں۔ آپؓ کی دعاؤں میں بہت درد تھا۔ بعد نمازفجر نہایت خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتیں۔ رمضان شریف میں عبادت کا رنگ قابل رشک تھا۔ کئی شب روزہ دار افراد کو اپنے ہاں رکھتیں۔ موسم گرما کی ایک رات ناقابل فراموش ہے جب آپا جان اور عائشہ پٹھانی اہلیہ مولوی غلام رسول صاحبؓ معمولاً تہجد میں درد بھری دعائیں کر رہی تھیں کہ میں نے دیکھا کہ چندھیا دینے والی روشنی سے ہمارا صحن منور ہو گیا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ یہ لیلۃالقدر کی روشنی ہے۔ میں نے لیٹے لیٹے شور مچاد یا کہ میرے لئے بھی دعا کریں۔ عائشہ پٹھانی نے بعد میں مجھے بتایا کہ یہ روشنی مجھے نظر آئی تھی اور مَیں اس وقت میاں طاہر احمد صاحب کے لئے دعا کر رہی تھی۔ آپا جان کہتی تھیں کہ رشید کے بولنے نے مجھے سب کچھ بھلا دیا اور میں نے اس کے لئے دعا کرنی شروع کر دی۔ میں بھی یہ روشنی دیکھ رہی تھی جو چند سیکنڈ رہی اور مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ جب تم نے یہ نظارہ دیکھا تھا تو تم نے خود اٹھ کر دعا کیوں نہ کی؟…
آپا جان کی قبولیت دعا کے بہت سے واقعات ہیں۔ مثلاً ایک خاتون کی شادی پر بارہ سال گزر چکے تھے اور وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھی اور وہ اپنے اس یقین کا اظہار کرتی کہ ’’آپ دعا کریں تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا۔ آپ دعا کرنے کا وعدہ کریں‘‘۔ آپؓ نے وعدہ کر لیا۔ پھر آپ خود بھی دعا کرتیں اور عموماً روزانہ حضورؓ سے بھی کہتیں۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور اسے بیٹی عطا کی۔
(ماخوذ از احمدی خواتین کا تعلق باللہ۔روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جولائی 2009ء)
٭… حضرت حسین بی بی صاحبہؓ (حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی والدہ) نے عبادات اور زہد و تقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور رؤیاو کشوف کی نعمت سے سرفراز ہوئیں۔ حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ نے قبول احمدیت سے قبل آپ کو رؤیا میں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کروادی اور آپ کی قبول احمدیت کی طرف راہنمائی فرمائی۔ چنانچہ آپؓ نے اپنے خاوند سے بھی پہلے ایمان لانے کی توفیق پائی اور بعد میں خلافت ثانیہ کی شناخت بھی بذریعہ رؤیا کی اور اپنے مرحوم خاوند سے پہلے ایمان لانے کی توفیق پائی۔ آپؓ کے بارے میں حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’جب بھی طاعون کا دورہ شروع ہوتا تو والدہ صاحبہ کو قبل ازوقت خواب کے ذریعہ اس کی اطلاع دی جاتی اور وہ اُسی وقت سے دعاؤں میں لگ جاتیں اور پھر افاقہ کی صورت ہوتی تو بھی خواب کے ذریعہ انہیں اطلاع دی جاتی۔ اسی طرح ہمارے متعلقین میں خوشی اور غم کے مواقع پر انہیں قبل از وقت خبر دی جاتی۔ سلسلہ کے اور بعض اوقات دنیا کے بڑے بڑے واقعات سے بھی انہیں اطلاع دی جاتی۔ باواجھنڈاسنگھ صاحب ریٹائرڈ سینئر جج نے میرے پاس بیان کیا کہ جب 1936ء کی گرمیوں میں مَیں شملہ میں ٹھہرا ہوا تھا تو ایک دن تمہاری والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ قصور میں ہیضہ کی خبر ملنے پر مجھے بہت تشویش تھی اور مَیں بہت دعا کر رہی تھی۔ رات مجھے خواب میں بتایا گیا کہ ایک ہفتہ کے بعد قصور میں ہیضہ کی وارداتیں بند ہو جائیں گی۔ باوا صاحب فرماتے تھے مَیں اخباروں میں دیکھتا رہا اور پورے ایک ہفتہ کے بعد قصور میں ہیضہ کی وارداتیں بند ہوگئیں۔
ان کے خواب روز روشن کی طرح واضح ہوتے تھے جو من و عن پورے بھی ہو جاتے۔ انہوں نے خواب میں اپنے میاں حضرت چوہدری نصراللہ خانصاحبؓ کو فرماتے ہوئے دیکھا کہ ’’میاں مجھے تو جمعہ کے دن چھٹی ہوگی‘‘۔ اس پر والدہ صاحبہ نے مجھ سے فرمایا کہ چھٹی کے لفظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جمعہ کا دن شروع ہوتے ہی رخصت ہوجائیں گے اس لئے ڈاکٹر خواہ کچھ کہیں تم ابھی سے انتظام کرلواور جمعرات کی شام تک تمام تیاری مکمل کر لو تاکہ ان کے رخصت ہوتے ہی ہم انہیں قادیان لے چلیں … اپنے بہن بھائیوں کو اطلاع کر دو۔ والد کے کفن کی چادریں منگوا لو۔ صندوق بھی جمعرات کی شام تک تیار کرنے کی تاکید کر دو۔ موٹریں کرایہ پر لے لو اور انہیں ہدایت دے دو کہ نصف شب کے بعد آجائیں۔ میں نے اُن کی ہدایت کے مطابق سب انتظام کردیا۔
اُن کا اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق تھا اور ’’اِنِّیۡ قَرِیۡبٌ‘‘ کی آوازیں ان کے کان میں آتی تھیں۔
(ماخوذ از احمدی خواتین کا تعلق باللہ۔روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جولائی 2009ء)
٭… حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’احمدی خواتین میں بڑی بڑی اولیاء اللہ پیدا ہوئی ہیں۔ بعض ایسی ہیں جن کو خداتعالیٰ الہامات سے نوازتا رہا ہے۔ کشوف عطا فرماتا ہے۔ سچے رؤیا دکھاتا ہے۔ مصیبت کے وقت ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور قبولیت سے متعلق پہلے سے اطلاع دی کہ یہ واقعہ اس طرح ہو گا اور اسی طرح ہوا۔ یہ وہ آخری منزل ہے جس کی طرف ہر احمدی خاتون کو لے کر ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ تعلق باللہ کے سوا مذہب کی اَور کوئی جان نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادت بھی اللہ سے محبت اور تعلق پیدا کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔‘‘ (جلسہ سالانہ جرمنی 1992ء میں مستورات سے خطاب)
٭…احمدی خواتین کے تعلق باللہ کے اِسی مضمون کو حضورؒ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 1993ء میں خواتین سے خطاب میں مزید آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اپنے بندوں پر فرشتوں کا نزول کریں گے اور ابتلاؤں کے زمانہ میں استقامت اختیار کرنے کے نتیجہ میں یہ پھل زیادہ عطا کیا جائے گا۔ نزولِ ملائک کی علامات جماعت احمدیہ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اور صحابہ کے واقعات کثرت سے جماعت کے لٹریچر میں موجود ہیں۔ یہ واقعات محض ماضی کا اور تاریخ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ آج خواتین کے خطاب میں، مَیں صرف خواتین کے تعلق باللہ کے واقعات سناؤں گا۔…‘‘
حضورؒ نے سب سے پہلے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے بعض واقعات سنائے جن میں سے بعض تو وہ تھے جن میں آپؓ نے نہایت کم سنی کی عمر میں تعلق باللہ کا تجربہ حاصل کیا۔ مثلاً ’’حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کا وقت قریب ہے اور حضرت مولانا نورالدین جماعت کے پہلے خلیفہ ہوں گے۔‘‘
اس کے بعد حضورؒ نے بعض دیگر بزرگ صحابیات کے رؤیا بیان فرمائے۔ مثلاً حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی کی اہلیہ محترمہ نے اُس زمانہ میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ گھوڑے سے گرگئے تھے اور سخت چوٹیں آئی تھیں اور بظاہر زندگی کی امید نہ تھی۔ رؤیا میں دیکھا کہ وہ سخت گھبراہٹ کے عالم میں بے چین ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ ظاہر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تین دن بعد یہ واقعہ ہو گا۔ اس سے ان کو گھبراہٹ ہوئی کہ شاید حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی زندگی تین دن باقی رہ گئی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو شفا دی اور تین سال کے بعد آپؓ کی وفات ہوئی۔
(ماخوذ از احمدی خواتین کا تعلق باللہ۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جولائی 2009ء)
٭…حضرت نواب بی بی صاحبہؓ نے بھی اپنی عبادت اور محبتِ الٰہی سے تعلق باللہ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ آپؓ نے بھی اپنے خاوند سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی توفیق پائی۔ کچھ عرصہ بیعت کو خفیہ رکھا اور بعدازاں اپنے خاوند کا شدید تشدّد بھی ایک عرصے تک صبر سے برداشت کیا یہاں تک کہ وہ بھی احمدی ہوگئے۔ جب ابھی آپؓ نے اپنی بیعت ظاہر نہیں کی تھی تو مقامی احمدیہ مسجد کو پختہ کروانے کے لئے چندہ اکٹھا کیا گیا لیکن آپؓ کے پاس پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ اسی اثناء میں آپؓ کے خاوند نے اپنا ایک بَیل بیچ کر معین رقم آپؓ کو رکھنے کے لئے دی تو آپؓ نے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اُس رقم میں سے پانچ روپے مسجد کی تعمیر کے لئے دے دیے۔ چند دن بعد خاوند نے جب رقم مانگی تو آپؓ نے کمرے میں جاکر دروازہ بند کرکے بہت دعا کی کہ مولا! تُو ہی اب میری عزت رکھ سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بشاشت عطا فرمادی تو وہ رقم لاکر اپنے خاوند کو دے دی۔ اُنہوں نے رقم گنی اور جاکر بَیل خرید لیا۔ بَیل کے مالک نے بھی دو افراد سے رقم گنوائی تو پوری نکلی۔
ایک صبح آپؓ نے اپنے بیٹے کو (جو مقامی سکول میں استاد تھے) کہا کہ اپنے بھائی کے گاؤں جلدی جاؤ کیونکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہے اور فرمایا کہ سیدھے وہاں جانا ورنہ تم اپنے بھائی کو نہیں مل سکوگے۔ تاہم بیٹے نے بے دلی سے سائیکل اٹھائی اور پہلے اپنے سکول جاکر رخصت لی اور پھر بھائی کے گاؤں پہنچا تو علم ہوا کہ دس منٹ پہلے اُن کے بھائی کی وفات ہوچکی تھی۔
ایک مرتبہ آپؓ کے بیٹے نے آپ کو نئے کپڑے سلوا کر دیے جو آپؓ نے پہننے کے فوراً بعد اُتار کر کسی غریب عورت کو دے دیے۔ اس پر آپ کا بیٹا سخت ناراض ہوا تو آپؓ افسردہ ہوکر اُسے کہنے لگیں آئندہ کبھی تم مجھے کپڑے نہ لاکر دینا۔ اسی اثناء میں دروازے پر دستک ہوئی اور ایک آدمی ٹوکری اٹھائے آیا اور کہنے لگا کہ فلاں عورت نے ماں جی کے لئے مٹھائی اور دو سوٹ بھیجے ہیں، وہ آپ سے اولاد نرینہ کے لئے دعا کرواتی تھی اور آج اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹا دیا ہے۔
آپؓ کے ایک بیٹے آدھی رات کو اچانک اتنے بیمار ہوئے کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور کفن دفن کا انتظام شروع ہوگیا۔ لیکن آپؓ وضو کرکے جائے نماز پر سجدہ ریز ہو گئیں۔ گریہ وزاری اور بے قراری انتہا پر تھی۔ سب لوگ ماں جی کی ضعیف العمری کے باعث پریشان تھے کہ وہ آدھی رات سے سجدہ میں پڑی ہیں، نہ کھاتی ہیں نہ پیتی ہیں اور ایک ہی التجا اپنے ربّ سے کئے جارہی ہیں کہ اللہ میاں! مجھے میرا پتر(بیٹا) دے دے۔ سہ پہر کو جب دن ڈھلنے لگا تو آپؓ سجدہ سے اُٹھ گئیں اور کہنے لگیں اللہ میاں نے میرا پتّر مجھے واپس کر دیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد بیٹے کو ہوش آگیا۔ لیکن اُن کا حافظہ ختم ہوچکا تھا۔ چلناپھرنا تین چار ماہ کے بعد بحال ہونا شروع ہوا اور یادداشت بھی واپس آنے لگی۔ بعدازاں وہ لمبا عرصہ زندہ رہے، اچھی صحت بھی پائی۔ سکول میں پڑھاتے رہے اور بالآخر ریٹائر ہوکر پنشن بھی لیتے رہے۔
دسمبر کی ایک رات آپؓ نے اُٹھ کر اپنے کمرے کا دروازہ کھول دیا اور کہا کہ مجھے کسی نے آواز دی ہے۔ پھر بستر پر لیٹ کر بتایا کہ میرا آخری وقت آگیا ہے۔ فجر کی اذان شروع ہوئی تو آپؓ کی روح پرواز کرگئی۔
(حضرت نواب بی بی صاحبہؓ از حمیداللہ ظفر۔مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ 27فروری 2012ء)

حرف آخر … ایک قیمتی نصیحت

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’احمدیت کو ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے اس کے لئے ہمیں بہت زادراہ کی ضرورت ہے اور سب سے اچھا زادراہ تقویٰ ہے۔ اپنے تقویٰ کی حفاظت کریں …۔ اصل زندگی وہ ہے جس میں خدا کی طرف سے ہم کلام ہونے والے فرشتے نازل ہوں اور وہ کہیں کہ کوئی غم اور فکر نہ کرو۔ یہ خدا کی طرف سے مہمانی ہے۔ ہم اِس دنیا میں بھی ساتھ ہیں اُس دنیا میں بھی ساتھ ہوں گے۔ ہم نے اتنا متقی بننا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو رؤیا و کشوف کثرت سے ہوں۔ ہم اللہ سے ہم کلامی پائیں اور خداکے قرب کے نظارے دیکھیں۔ ایک ایسی احمدی نسل اگر آج پیدا ہوجائے تو آنے والے 100سا ل کی حفاظت کی ضمانت حاصل ہو جائے گی۔ … نسلاً بعد نسلٍ تعلق باللہ کی حفاظت کریں۔ یہ مذہب کی جان ہے۔‘‘
(جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 1992ء کے دوسرے روز مستورات سے ارشاد فرمودہ خطاب)

اپنا تبصرہ بھیجیں