اصحاب احمدؑ کا قیامِ لیل
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25 ستمبر 2004ء میں مکرم عبد السمیع خانصاحب کے تحریر کردہ ایک مضمون میں اصحاب احمدؑ کی رات کی عبادات اور نماز تہجد میں باقاعدگی کا تذکرہ ہے۔ اس مضمون کا ایک حصہ قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 22؍اپریل کے کالم “الفضل ڈائجسٹ” کی زینت بن چکا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سوتے وقت اپنے سرہانے دعا کرانے والوں کی لسٹ رکھ لیتے اور تہجد میں اٹھ کر دعا کرتے۔ ایک دفعہ آپ کے پاس دق کا ایک لاعلاج بیمار آیا۔ فرمایا کل دکھانا۔ رات کو نماز تہجد میں مریض کے لئے بہت دعا کی جس پر اس کی صحت کی آپ کو الہاماً بشارت ملی۔ صبح آپ نے یہ خوشخبری سنائی۔ چنانچہ حضور کے تجویز کردہ نسخہ کے چند روز استعمال کے بعد وہ بالکل تندرست ہوگیا۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ کو نماز کی محبت گھٹی میں پلائی گئی تھی۔ اور بچپن ہی سے عبادت اور نوافل کی طرف بہت زیادہ توجہ تھی۔ حضرت شیخ غلام احمد صاحب فرماتے ہیں: ’’مرزا محمود احمد صاحبؓ کو باقاعدہ تہجد پڑھتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی کہ وہ بڑے لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں‘‘۔
حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ نے بھی آپؓ کو تہجد کی نماز میں لمبے لمبے سجدے اور خشوع و خضوع سے دعائیں کرتے ہوئے دیکھا تو ان کے دل میں ایک عجیب سوال پیدا ہوا۔ حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ: ’’آپؓ کے اس جوانی کے عالم میں جبکہ ہر طرح کی سہولت اپنے گھر میں حاصل ہے، زمینداری بھی ہے اور ایک شاہانہ قسم کی زندگی بطور صاحبزادہ ، شہزادہ بسر کر رہے ہیں تو میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ آپ کو کس ضرورت نے مجبور کیا ہے کہ وہ تہجد میں آکر لمبی لمبی دعائیں کریں۔ یہ بات میرے دل میں بار بار یہ سوال پیدا کرتی تھی لیکن حضرت ممدوح سے پوچھنے کی جرأت نہ پاتا تھا۔ لیکن ایک دن جرأت کر کے جبکہ وہ حضرت خلیفہ اولؓ کی صحبت سے اٹھ کر اپنے گھر کو جارہے تھے، راستہ میں السلام علیکم کر کے روک لیا اور اپنی طرف متوجہ کر لیا اور نہایت عاجزی سے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں معافی مانگ کر پوچھا کہ وہ مقصد جس کے لئے آپ تہجد میں لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ اور نیز عرض کیا کہ میں بھی اس غرض کے لئے دعا کروں گا تاکہ وہ غرض آپ کو حاصل ہوجائے۔ اس کے جواب میں حضرت ممدوح نے مسکرا کر فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کی دعا کرتے ہیں کہ خدا کے راستے میں جو انہوں نے کام کرنا ہے اس کے لئے انہیں مخلص دوست اور مددگار میسر آجائیں‘‘۔
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت مصلح موعودؓ کی چشمدید گواہی ہے: ’’حضرت مصلح موعودؓ کی تہجد کی نماز بعض دفعہ اتنی لمبی ہوجاتی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ اتنا لمبا وقت آپ کھڑے کس طرح رہتے ہیں۔ میں نے سجدہ کی نسبت قیام میں آپ کو زیادہ دعائیں کرتے دیکھا ہے۔ بعض دفعہ ایک ایک رکعت میں ڈیڑھ دو گھنٹے کھڑے رہتے ہیں۔ تہجد میں آپ کا عموماً یہ طریق تھا کہ ایسے وقت میں تہجد پڑھتے کہ تہجد کی نماز کے ختم ہونے اور صبح کی نماز میں خاصا وقت ہوتا۔ تہجد پڑھ کر لیٹ جاتے اور تھوڑا سا سو بھی لیتے اور پھر اٹھ کر صبح کی نماز پڑھتے‘‘۔
٭ حضرت اماں جانؓ کے متعلق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں: ’’آپؓ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جانؓ نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق وشوق سے ادا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دلوں میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی۔ بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقعہ ملتا تھا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں۔ میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ (فداہ نفسی) کی یہ پیاری کیفیت کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے حضرت اماں جان کو بھی اپنے آقا سے ورثے میں ملی تھی‘‘۔
٭ حضرت میاں عبد الرشید صاحبؓ نے بیان کیا کہ: ’’لنگے منڈی میں ہمارے مکانوں کے سامنے جو چھوٹی سی مسجد ہے اس وقت حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی مسجد کہلاتی تھی۔ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب نے کابل جاتے ہوئے اسی مسجد میں قیام فرمایا تھا۔ آپ سارا دن اور ساری رات عبادت میں مشغول رہتے۔ جب انہیں ہمارے والد صاحب کہتے کہ آپ آرام بھی کیا کریںتو آپ فرماتے کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا کہ اس نے مجھے اس انسان کی زیارت کا موقعہ عطا فرمایا جس کی انتظار صدیوں سے ہورہی تھی۔
٭ حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ بھیروی فرماتے ہیں: ’’میرے والدین سخت حنفی تھے۔ بندہ کو امرتسر جناب قاضی سید امیر حسین صاحب مرحوم کے پاس آنے سے احمدیت کا علم ہوا۔ بندہ نے حضرت مسیح موعود کی صداقت کے لئے ماہ رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اعتکاف کے ایام میں بہت دعا استخارہ کی۔ اور دعا میں یہ درخواست تھی کہ مولیٰ کریم مجھے اطلاع فرما کہ جس حالت میں اب ہوں یہ درست ہے یا جو اس وقت حضرت مسیح موعود کا دعویٰ ہے وہ درست ہے۔ اس پر مجھے دکھلایا گیا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں لیکن رُخ قبلہ کی طرف نہیں ہے اور سورج کی روشنی بوجہ کسوف کے بہت کم ہے۔ جس سے تفہیم ہوئی کہ تمہاری موجودہ حالت کا نقشہ ہے۔ دوسرے روز نماز عشاء کے بعد پھر رو رو کر بہت دعا کی تو حضرت مسیح موعود ؑ نے خواب میں فرمایا کہ اصل دعا کا وقت جوف اللیل کے بعد کا ہوتا ہے۔ جس طرح بچہ کے رونے پر والدہ کے پستان میں دودھ آجاتا ہے۔ اسی طرح پچھلی رات گریہ وزاری خدا کے حضور کرنے سے خدا کا رحم قریب آجاتا ہے۔ اس کے بعد بندہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی اختیار کر لی اس کے بعد حضور کی پاک صحبت کی برکت سے یہ فائدہ ہوا کہ ایک روز نماز تہجد کے بعد خاکسار سجدہ میں دعائیں کررہا تھا کہ غنودگی کی حالت ہوگئی جو ایک کشفی رنگ تھا۔ ایک پاکیزہ شکل فرشتہ میرے پاس آیا۔ جس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت سفید کوزہ پانی سے بھرا ہوا اور ایک ہاتھ میں ایک خوبصورت چھری تھی۔اس نے چھری سے میرے سینہ کو چاک کیا اور اس کوزہ کے صاف پانی سے اس کو خوب صاف کیا لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی خوف کی حالت پیدا ہوئی۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے خیال کیا کہ اب میں نے صبح کی نماز ادا کرنی ہے اور یہ تمام بدن چیرا ہوا ہے۔ ہاتھ پاؤں کو ہلانا شروع کیا تو کوئی تکلیف معلوم نہ ہوئی اور حالت بیداری پیدا ہوگئی۔ اس کے بعد نماز فجر ادا کی۔ … بعد میں بھی آپ ساری عمر نماز تہجد پر کاربند رہے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانیؓ فرماتے ہیں: ’’نماز تہجد کا ان دنوں زیادہ التزام ہوا کرتا تھااور قریباً سبھی لوگ نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔ تہجد کی نماز کے بعد لوگ اپنی اپنی جگہ دعا واستغفار میں مشغول رہتے حتیٰ کہ اذان ہوجاتی تھی۔ اذان سن کر دو رکعت سنت بھی عموماً اپنے اپنے ڈیروں ہی پر پڑھ کر مسجد آتے اور جماعت کی انتظار میں خاموش ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے‘‘۔
٭ حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحبؓ نے ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں 10خاص باتوں کا تذکرہ کیا۔ ان میں سے 2 باتیں یہ ہیں:
1۔ قریباً تمام احمدی تہجد گزار ہوتے تھے۔ ہائی سکول کے بورڈ کا ایک طبقہ قیام اللیل کرتا، نماز نیم شب پڑھتا۔ اپنے معصوم چہروں پر اشکوں کے موتی بہاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا۔
2۔ صبح کو قرآن پاک کی تلاوت سے درودیوار گونجتے تھے۔
٭ زمانہ خلافت اولیٰ میں رمضان شریف میں قادیان کا روحانی نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔اس بے مثال کیفیت کا کسی قدر تصور دلانے کے لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ستمبر 1912ء میں ایک نوٹ میں لکھا: ’’ تہجد کے وقت مسجد مبارک کی چھت پر اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ صوفی تصور حسین صاحب خوش الحانی سے قرآن شریف تراویح میں سناتے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحبؓ بھی قرآن شریف سننے کے لئے اسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ تراویح ختم ہوئیں تو تھوڑی دیر میں اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌمِّنَ النَّوْم کی آواز بلند ہوتی ہے۔
٭ حضرت چوہدری اللہ بخش صاحبؓ تہجد کے پابند تھے۔ آخری ایام میں سردی کی لمبی راتوں میں رات 2بجے ہی نماز تہجد شروع کر دیتے تھے۔
٭ حضرت چوہدری غلام قادر صاحبؓ آف سیالکوٹ بیعت سے پہلے نماز کے بالکل تارک تھے۔ بیعت کے بعد عابد شب بیدار بن گئے۔
٭ حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ بہت عابد آدمی تھے۔ تمام رات عبادت کرتے رہتے تھے اور سوتے کم تھے اور جاگتے زیادہ تھے، بڑھاپا اور کمزوری میں عموماً گھر میں رہتے تھے اور وظیفہ کرتے رہتے تھے حتی کہ پاؤں سوج جاتے تھے۔
٭ حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ آف کریام کی وفات پر منشی برکت علی صاحب نے لکھا:’’اکثر حصہ رات کا یہ بزرگ نماز اور دعاؤں میں گزارتے تھے‘‘۔