اصحاب احمدؑ کی قبولیت دعا
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍ستمبر 2003ء میں مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب نے ایسے واقعات مرتب کئے ہیں جن میں حضرت مسیح موعودؑ کے اصحاب کی دعاؤں کی برکت سے مختلف افراد کی مقدمات میں بریت کا ذکر ملتا ہے۔
مکرم بابو اللہ بخش صاحب ریلوے گارڈ، نورپور روڈ سٹیشن (ضلع کانگڑہ) پر متعین تھے۔ ایک اعلیٰ افسر کو بلاٹکٹ سفر کرنے پر آپ نے چارج کیا تو اُس نے مشتعل ہوکر پہلے آپ کے گھر چوری کروادی اور پھر ایک تانگہ والے سے تحصیلدار کی عدالت میں مقدمہ بھی کروادیا۔ تحصیلدار بھی آپ کا مخالف تھا۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا تو حضور ؓ نے دعا کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ چنانچہ جلد ہی تحصیلدار کے تبادلہ کے احکام آگئے اور اُس نے یہ سوچ کر کہ مقدمہ جھوٹا ہے جو اگلا تحصیلدار ضرور خارج کردے گا، خود ہی آپ کو باعزت بری کردیا۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ اپریل 1950ء میں محترم نواب احمد نواز جنگ صاحب کو سرکاری حراست میں لے لیا گیا۔ چونکہ وہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں اس لئے اُن کے لئے دعا کی خاص تحریک پیدا ہوئی۔ مئی کے پہلے ہفتہ میں کشف میں دیکھا کہ مَیں سیٹھ صاحب کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہوں کہ نواب صاحب جلد رہا کردیئے جائیں گے۔ چنانچہ 18؍مئی کے الفضل کے ذریعہ اُن کی رہائی کی اطلاع مل گئی۔
حضرت مولوی محمد ابراہیم بقاپوری صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ 20؍اپریل 1953ء کو حضرت بوزینب صاحبہ (بیگم حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ) نے کہا کہ حضرت امی جان نے کہا ہے کہ عزیز ناصر احمد اور اس کے چچا جان حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی رہائی کے واسطے دعا کریں۔ چنانچہ دعا کرنے پر زبان پر جاری ہوا: پانچ دن یا پانچ ہفتے یا پانچ ماہ۔ اس خوشخبری کی اطلاع دیدی گئی۔ الحمدللہ پانچ ہفتے گزرنے پر ہر دو صاحبزادگان رہائی پاگئے۔
آپؓ مزید فرماتے ہیں کہ مئی 1928ء میں مکرم چودھری غلام رسول بسرا صاحب نے اُن کی زمین کے مقدمہ میں کامیابی کے لئے دعا کرنے کو کہا۔ دعا کی تو الہام ہوا: ’’ننجیک ۔ دس ہاڑ‘‘۔ یعنی دس ہاڑ کو فتح ہوگی۔ لیکن مقدمہ نے اتنا طول پکڑا کہ ایک سال کا عرصہ لگ گیا اور جب دوسرے سال کا دس ہاڑ آیا تو عین اُسی روز مقدمہ کا فیصلہ اُن کے حق میں سنایا گیا۔
حضرت مولوی بقاپوری صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ 1954ء میں ایک دفعہ میرے لڑکے محمد اسماعیل پر محکمہ کی طرف سے غلط الزام لگاکر معطل کردیا گیا۔ دعا کی تو متعدد رؤیا اور الہاموں میں مجھے انجام بخیر اور اُس کے بحال ہونے کا بتایا گیا چنانچہ اسی طرح ہوا۔ اسی طرح ایک موقعہ پر آواز آئی ’’پانچ ماہ بعد‘‘۔ چنانچہ انکوائری تو 17؍مئی 1955ء کو ختم ہوگئی لیکن فیصلہ حکمت الٰہی سے 17؍اکتوبر 1955ء کو سنایا گیا اور وہ بری ہوگیا۔
حضرت فیض الدین صاحبؓ کے دادا میاں حسن صاحب نے سیالکوٹ کی مشہور مسجد کبوتراں والی بنوائی تھی اور اس مسجد اور ملحقہ مکانات کے آپ وارث تھے۔ اس مسجد میں امامت بھی آپؓ کرواتے تھے۔ ایک دوسری مسجد جو گلی کے دوسرے سرے پر واقع تھی وہ بھی آپؓ کو ملی جس کو آپؓ نے غیراحمدیوں کو نماز پڑھنے کے لئے دیدیا۔ انہوں نے بجائے ممنون ہونے کے آپؓ کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا کہ آپؓ نے مسجد کے بانس بیچ دیئے ہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ اس طرح آپ کا عمل دخل ختم کرواکے پہلے مسجد پر اور پھر ملحقہ جائیداد پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں۔ جب مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو بے شمار گواہ جھوٹ کو سہارا دینے کے لئے عدالت میں پیش ہو رہے تھے لیکن حضرت مولوی صاحبؓ عدالت کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے دعا میں مصروف تھے اور انتظار تھا کہ حاکم کب بلاتا ہے۔ لیکن حاکم نے آپؓ کو بلائے بغیر مقدمہ خارج کردیا۔ جس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک گواہ نے جب حلف اٹھایا تو عدالت کی میز پر دو روپے نکال کر رکھ دیئے اور کہا کہ مجھے مسجد کا سامان بیچنے کا تو علم نہیں لیکن مجھے ان دو روپوں کے عوض یہاں لایا گیا ہے۔ چنانچہ مجسٹریٹ نے جھوٹی شہادتوںکے طومار کو ایک طرف پھینک کر مقدمہ خارج کردیا۔