اصحاب احمد کی مہمان نوازی اور سخاوت
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 8 مارچ 2019ء)
ماہنامہ ’’خالد‘‘ جنوری 2012ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض صحابہ کی مہمان نوازی اور سخاوت سے متعلق مکرم نداء الظفر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے میاں نجم الدین صاحب مہتمم لنگرخانہ کو ایک بار بلاکر فرمایا کہ ’’بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں، ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لئے مناسب یہ ہےکہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردیوں کا موسم ہے چائےپلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حُسنِ ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو‘‘۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؒ کے ارشاد پر مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ نے یتامیٰ، مساکین اور طلباء کے لئے جماعت میں 2100 روپے چندہ کی تحریک کرتے ہوئے لکھا کہ ایک سو روپے حضورؓ نے اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کیا ہے۔
٭ جناب خان سعداللہ خان صاحب ایڈووکیٹ لکھتے ہیں کہ 18-1917ء میں مجھے پندرہ یوم بطور مہمان حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ہاں قیام کا موقع ملا۔ رات کا کھانا کھاکر اُن کی بیٹھک میں سو جاتا تھا۔ صبح جب اُٹھتا تو میرے نزدیک میز پر پینے کے لئے پانی کا جگ، وضو کے لئے پانی کا لوٹا اور تولیہ موجود ہوتا جو حضرت میاں صاحب فجر کی نماز کے لئے مسجد جانے سے پہلے رکھ دیا کرتے تھے۔ بچپن کی لاپروائی میں کبھی خیال نہ آیا تھا کہ اتنا خیال کون رکھتا ہے۔ اسی طرح دوپہرکا کھانا ہم اکٹھے کھایا کرتے تھے۔ ایک دن مہمان خانہ میں پٹھانوں نے مجھےکھانے کے لئے ٹھہرالیا۔ چنانچہ مَیں نے کھانا کھاکر اُن کے ساتھ کافی وقت گفتگو میں مصروف رہا۔ پھر باہر نکلا تو بازار میں کسی نے بتایا کہ میاں صاحب کا ملازم مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔ مَیں آپؓ کے گھر پہنچا تو دسترخوان پر کھانا پڑا تھا اور میاں صاحب مع ایک اَور دوست میرے انتظار میں بیٹھے تھے۔ مَیں نے سلام عرض کرکے کہا کہ مَیں نے تو روٹی کھالی ہے۔ آپؓ کے ماتھے پر کسی قسم کے ملال کے آثار نہ تھے، ہنس کر فرمایا کہ اب ہمارے ساتھ بھی شامل ہوجائیں۔ چنانچہ مَیں کھانے میں شامل ہوگیا لیکن بچپن کی لاپروائی کے باعث معذرت تک نہ کرسکا۔
٭ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ہر مہمان کو اپنا رشتہ دار ہی سمجھتے۔ آپؓ شادی سے کچھ ہی عرصہ بعد قادیان آبسے تھے۔ جلسہ سالانہ پر بہت سے مہمان آپؓ کے ہاں ٹھہرتے جن کے لئے آپؓ ساٹھ ستّر بستروں کا انتظام سالہاسال تک کرتے رہے۔ ناشتہ لسّی وغیرہ سے کرواتے۔ کھانا لنگر سے آتا لیکن آپؓ مہمانوں کی ضروریات پتہ کرنے کے لئے بار بار پوچھتے رہتے۔کوئی بیمار ہوجاتا تو خود نُورہسپتال لے جاتے اور ڈاکٹر صاحب سے اپنی موجودگی میں نسخہ تجویز کرواتے۔ اگر فرصت نہ ہوتی تو ڈاکٹر کے نام خاص توجہ کے لئے رقعہ لکھ دیتے نیز پرہیزی کھانا اور دودھ وغیرہ کا انتظام گھر میں کرتے۔
٭ حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ نہایت اخفاء کے ساتھ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے آپؓ کی اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی۔ آپؓ کی وفات پر علم ہوا کہ کئی یتیم لڑکے اور بیوہ عورتیں ہر ماہ اپنی ایک مقررہ تاریخ پر رقم لینے کے لئے آیا کرتے تھے اور آپؓ کا یہ جذبہ اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ صدقہ و خیرات کے لئے قرض بھی لے لیتے تھے۔