اصحاب رسولؐ کی باہمی محبت و اخوت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر1999ء میں شامل اشاعت مکرم نصراللہ خان ناصر صاحب کے ایک تفصیلی مضمون میں صحابہ رسولؐ کی باہمی محبت و اخوت اور ایثار کا ذکر ہے۔
قرآن کریم عربوں کی اسلام سے پہلی اور بعد کی حالت کا نقشہ یوں کھینچتا ہے کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے مگر اُس نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کردی، پس تم اس کی اس عظیم نعمت سے ایک دوسرے کے بھائی بند ہوگئے۔
محبت و اخوت کی بڑی مثال تو مؤاخات کا منظر ہے جب مکہ سے خالی ہاتھ آنے والے مہاجرین کو انصار مدینہ کا بھائی بنادیا۔ پہلے روز 90؍اشخاص کے درمیان رشتہ اخوت قائم ہوا۔ انصار و مہاجرین کی طرف سے اس سلسلہ اخوت پر جس اخلاص و وفا کے ساتھ عمل ہوا وہ حقیقی اخوت سے بھی بڑھ کر ہے۔ کئی انصار نے اپنے زراعت کے کام میں مہاجر بھائی کو برابر کا شریک کرلیا، اپنے باغات تقسیم کرلئے۔
سعدؓ بن الربیع نے اپنا سارے سامان کا نصف اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے سامنے رکھ دیا اور جوش محبت میں یہاں تک کہہ دیا کہ میری دو بیویاں ہیں، مَیں اُن میں سے ایک کو طلاق دیتا ہوں اور تم اس سے شادی کرلو۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور اُن کے لئے دعا کی۔ پھر بازار کا راستہ پوچھا اور تجارت شروع کردی۔ جلد ہی وہ امیر کبیر آدمی بن گئے اور پھر ایک انصاری لڑکی سے شادی کرلی۔
اس سلسلہ اخوت کا اثر وراثت تک تھا چنانچہ فیصلہ تھا کہ اگر کوئی انصار فوت ہو تو اس کا ترکہ بحصہ رسدی اسکے بھائی مہاجر کو بھی ملے۔ یہ سمجھوتہ غزوہ بدر تک قائم رہا جب احکامِ وراثت کا نزول ہوا۔
صحابہؓ کے جذبۂ ایثار کا نقشہ اس واقعہ سے کھینچا جاسکتا ہے جب ایک جنگ میں حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل، حضرت حارثؓ بن ہشام اور حضرت سہیلؓ بن عمرو جان کنی کی حالت میں تھے۔ ایسے میں ایک شخص نے حضرت عکرمہؓ کو پانی پیش کیا تو انہوں نے حضرت سہیلؓ کو پلانے کے لئے کہا اور انہوں نے حضرت حارثؓ کی طرف اشارہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تینوں نے اس حالت میں جام شہادت نوش کیا کہ وہ ایثار کے جذبہ کے تحت پانی نہ پی سکے۔
قرآن کریم میں صحابہؓ کا انداز قربانی یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے نفس پر اپنے بھائی کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ خود نقصان اٹھائیں۔
ایک بار ایک مسلمان نے اپنے باغ کی دیوار بنانے کے لئے کسی شخص کا درخت خریدنا چاہا لیکن اُس نے انکار کردیا۔ آنحضورؐ نے درخت کے مالک سے فرمایا کہ اگر تم یہ درخت دیدو تو جنت میں اس کے عوض تمہیں درخت ملیں گے۔ چونکہ یہ بات حکماً نہ کہی گئی تھی اس لئے اُس شخص نے درخت دینا پسند نہ کیا۔ جب یہ بات ایک صحابی حضرت ثابتؓ بن مداح کو معلوم ہوئی تو وہ اُس شخص کے پاس گئے اور اپنا باغ اُسے دے کر درخت کا سودا کرلیا اور پھر آنحضورﷺ کی خدمت میں وہ درخت پیش کردیا۔ جب حضرت ثابتؓ کی بیوی کو اس کا علم ہوا تو خوشی سے بولیں کہ کیا ہی نفع مند سودا ہے۔
اسی طرح ایک بار ایک یتیم لڑکے نے ایک باغ پر دعویٰ کیا۔ آنحضورﷺ نے اُس لڑکے کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ رو پڑا۔ آپؐ کا دل اتنا پسیجا کہ آپؓ نے باغ کے مالک کو کہا کہ اگرچہ فیصلہ تمہارے حق میں ہوا ہے لیکن اگر تم یہ باغ اس لڑکے کو دیدوگے تو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ تمہیں جنت میں دے گا۔ مگر اس شخص کو حضورؐ کا مشورہ قبول کرنے میں تأمّل ہوا تو ایک صحابی حضرت ابوالدحداحؓ نے اپنا زیادہ عمدہ باغ دے کر اُس شخص سے باغ حاصل کیا اور آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کردیا تاکہ اُس لڑکے کو دیدیا جائے۔
حضرت حمزہؓ غزوہ احد میں شہید ہوئے تو اُنکی حقیقی بہن حضرت صفیہؓ نے حضرت زبیرؓ کو دو چادریں دیں تاکہ حضرت حمزہؓ کو کفنادیا جائے۔ حضرت زبیرؓ نے دیکھا کہ حضرت حمزہؓ کے پہلو میں ایک انصاری کو کفن میسر نہیں ہے چنانچہ آپؓ نے گوارا نہ کیا کہ اپنے ماموں کو دو چادریں پہنادیںا ور دوسرا بھائی بے کفن پڑا رہے۔ چنانچہ ایک چادر ان کو دیدی۔ لیکن سیدالشہداء کے لئے ایک چادر ناکافی تھی۔ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہوجاتا۔ آنحضورؐ نے دیکھا تو فرمایا کہ سر ڈھانپ دو اور پاؤں پر گھاس ڈال دو۔
حضرت قیسؓ بن عبادہ کے کثرت سے لوگ مقروض تھے۔ ایک بار آپؓ بیمار ہوئے تو آپکو علم ہوا کہ مقروض عیادت کیلئے آتے ہوئے شرماتے ہیں۔ اس پر آپؓ نے اعلان عام فرمادیا کہ مَیں نے سب کا قرض معاف کردیا۔ ایک موقع پر حضرت کثیرؓ بن صلت نے آپؓ سے تین ہزار کا قرض لیا۔ جب وہ واپس کرنے آئے تو حضرت قیسؓ نے فرمایا کہ وہ کوئی چیز دے کر واپس نہیں لیا کرتے۔
حضرت طلحہؓ نے بنوتمیم کے کئی محتاجوں کی کفالت کی اور مقروضوں کا قرض ادا کیا۔ ایک شخص کا تیس ہزار درہم قرض بھی سارا ادا کیا۔
حضرت ابوشریح ؓنے یہ اعلانِ عام کررکھا تھا کہ میری کھانے پینے کی اشیاء ہر کوئی بلاتکلف استعمال کرسکتا ہے، کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔
حضرت سعید بن العاصؓ بنوامیہ کے رئیس تھے۔ آپؓ کبھی کسی کا سوال ردّ نہ فرماتے۔ اور اگر کچھ پاس نہ بھی ہوتا تو یہ تحریر دیدیتے کہ بعد میں آکر وصول کرلے۔
حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس ایک ضعیف خاتون نے آکر کہا کہ میرے گھر میں چوہے نہیں ہیں۔ مراد یہ تھی کہ اُن کے گھر میں غلّہ اور اناج موجود نہیں۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ اس کا سوال کرنے کا طریق بہت عمدہ ہے اور پھر اس کا گھر خوردنی اشیاء سے بھر دیا۔
حضرت زبیر بن العوامؓ بہت متمول تھے اور آپؓ کے پاس کام کرنے کے لئے متعدد خادم تھے۔ لیکن آپؓ کی فیاضی اس قدر تھی کہ بائیس لاکھ کے مقروض ہوگئے تھے۔ قیس بن ابی حازم کا بیان ہے کہ مَیں نے بغیر کسی غرض کے ہمدردانہ خرچ کرنے والا اُن سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا۔
ایک دفعہ حضرت علیؓ کا ایک معاند مدینہ آیا۔ اُس کے پاس زاد راہ اور سواری نہ تھی۔ لوگوں نے اسے حضرت امام حسینؓ کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ اُس نے حضرت امام حسینؓ سے سوال کیا تو آپؓ نے دونوں چیزوں کا انتظام کردیا۔ کسی نے عرض کیا کہ آپؓ نے ایسے شخص کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے جو آپؓ کے والد ماجد سے دشمنی رکھتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: کیا مَیں اپنی آبرو نہ بچاؤں!۔
ایک دفعہ حضرت حسنؓ نے ایک شخص کو مسجد میں دعا کرتے ہوئے دیکھا کہ خدایا مجھے دس ہزار درہم دے۔ آپؓ گھر واپس آئے اور اُسے اتنی رقم بھجوادی جس کے لئے وہ دعا کر رہا تھا۔
حضرت حسنؓ ایک دفعہ کھجوروں کے ایک باغ میں آئے تو دیکھا کہ ایک حبشی غلام روٹی کھا رہا ہے، اس طرح کہ ایک لقمہ وہ خود کھاتا ہے اور دوسرا ایک کتے کو دیتا ہے یہاں تک کہ اُس نے آدھی روٹی کتے کو کھلادی۔ آپؓ نے اُس سے اُس کے مالک کا نام دریافت کیا اور فرمایا کہ جب تک مَیں واپس نہ آؤں، یہیں رہنا۔ جب آپؓ واپس آئے تو اُس سے فرمایا کہ مَیں نے تمہیں اور اس باغ کو خرید لیا ہے اور اب مَیں تمہیں آزاد کرکے یہ باغ تمہارے نام ہبہ کرتا ہوں۔ غلام نے یہ بات سنی تو کہا کہ آپؓ نے جس خدا کے لئے مجھے آزاد کیا ہے، مَیں اُسی کی راہ میں یہ باغ صدقہ کرتا ہوں۔