اعجاز مسیحائی از ’’درویشان احمدیت‘‘

فضل الٰہی انوری صاحب

(مطبوعہ انصارالدین جولائی تا اگست 2013ء)

’’درویشان احمدیت‘‘ سے انتخاب

ذیل میں محترم فضل الٰہی انوری صاحب کی کتاب ’’درویشانِ احمدیت‘‘ کی جلد سوم کے اُس باب سے چند واقعات ہدیۂ قارئین ہیں جو تصرفات الٰہیہ کے نتیجہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے بعض غلاموں کے بارہ میں مخالفین احمدیت کے قاتلانہ منصوبوں کی ناکامی کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے عاجز بندوں کی حفاظت کے لئے قدرت کے عجیب و غریب کرشمے دکھاتا ہے۔ کبھی ان پر اپنی وحی نازل کرکے خبردار کرتا ہے کہ یہاں ٹھہرنا خطرناک ہے جس طرح ایک بار جب آنحضرت ﷺ کسی دعوت پر تشریف لے گئے تو دشمن نے منصوبہ بنایا کہ جب آپؐ اپنے مخصوص مقام پر تشریف فرما ہوں گے تو اوپر سے ایک پتھر گرا کر آپؐ کو ہلاک کردیا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپؐ کو بتادیا کہ یہاں بیٹھنا خطرناک ہے چنانچہ آپؐ خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ کافی انتظار کے بعد جب لوگ آپؐ کے پاس گئے تو آپؐ نے وحی کے بارہ میں انہیں بتایا۔ اس پر تحقیق کی گئی تو سب کچھ درست نکلا۔ کچھ اسی طرح کے واقعات آنحضور ﷺ کے غلاموں کے ساتھ بھی ہوتے رہتے ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کا خدا آج بھی اپنے پیاروں کی حفاظت کررہا ہے۔

حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ
چنانچہ ’’درویشان احمدیت‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک بار حضرت مسیح موعودؑ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور میں تھے۔ جب آپؑ واپس قادیان تشریف لانے والے تھے تو آپؑ کو الہاماً بتایا گیا کہ ’’راستہ بٹالہ والا خطرناک ہے‘‘۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ قادیان سے ایک رتھ بٹالہ بھجوادیا گیا تھا، آپؑ نے فرمایا: ’’یکے لے آؤ‘‘۔ آپؑ کے خدام کو پروگرام کی اس اچانک تبدیلی کی کوئی وجہ معلوم نہ تھی تاہم حکم کی تعمیل میں فوراً تین یکوں کا انتظام کیا گیا جن پر آپؑ اور چند خدام سوار ہوکر کچے راستہ سے قادیان روانہ ہوگئے۔ راستہ میں آپؑ نے اپنے الہام کے بارہ میں لوگوں کو بتادیا۔ دوسری طرف رتھ پر بھی چند احباب سوار ہوئے اور بٹالہ کے راستہ سے قادیان روانہ ہوئے۔ جب یہ اصحاب نہر کے پُل پر پہنچے تو وہاں ایک میلہ لگا ہوا دیکھا۔ دراصل یہ ایک بناوٹی میلہ تھا اور اس میں شامل بٹالہ اور مسّانیاں کے مخالفین کا یہ پروگرام تھا کہ جب حضورؑ کی رتھ نہر کے پُل پر پہنچے تو حملہ کرکے حضورؑ کو نہر میں پھینک دیا جائے۔ چنانچہ رتھ کے پہنچنے پر اُن مخالفین نے پُل کے دونوں طرف سے حملہ کردیا لیکن جب دیکھا کہ رتھ میں مرزا صاحب نہیں ہیں بلکہ دوسرے لوگ ہیں تو پیچھے ہٹ گئے اور اپنے کئے پر معذرت کرنے لگے۔
اسی طرح یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ بعض اوقات دشمن پر خوف نازل کرکے اُسے اُس کے بدارادوں سے باز رکھتا ہے۔ مثلاً جب آنحضرت ﷺ کو ابوجہل کے پاس کسی غریب شخص کا قرض واپس دلوانے کے لئے جانا پڑا تو اُس نے بلاچون و چرا وہ قرض ادا کردیا اور جب قریش نے اُسے طعنہ دیا کہ تم محمدؐ سے ڈر گئے تو وہ کہنے لگا کہ مَیں نے محمدؐ کے ساتھ ایک بدمست اونٹ کھڑا دیکھا اور مجھے خوف تھا کہ مَیں نے ذرا بھی پس و پیش کی تو وہ مجھ پر حملہ کردے گا۔
’’درویشان احمدیت‘‘ میں حضرت مصلح موعودؓ کے حوالہ سے یہ واقعہ بیان ہوا کہ ایک دفعہ ایک ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھا، قادیان میں کسی بارات کے ساتھ آیا۔ یہ شخص علم توجہ کا بڑا ماہر تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم لوگ قادیان آئے ہوئے ہیں، چلو مرزا صاحب سے ملتے چلیں۔ اس کا منشا یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈال کر آپؑ سے بھری مجلس میں کوئی بیہودہ حرکات کرائے۔ جب وہ مسجد میں حضورؑ سے ملا تو اُس نے اپنے علم سے آپؑ پر اپنا اثر ڈالنا شروع کیا مگر تھوڑی دیر کے بعد یکلخت کانپ اٹھا، مگر سنبھل کر بیٹھ گیا اور پھر اپنا کام شروع کردیا۔ حضرت صاحب اپنی گفتگو میں لگے رہے۔ مگر پھر اُس کے بدن میں ایک سخت لرزہ آیا اور اُس کی زبان سے بھی کچھ خوف کی آواز نکلی۔ مگر وہ سنبھل گیا۔ خدا کا مامور اپنے گردو پیش سے بے پرواہ محو گفتگو تھا کہ اچانک اس ہندو نے ایک چیخ ماری اور مسجد سے نکل بھاگا اور بغیر جوتا پہنے بھاگتا چلا گیا۔ لوگ پیچھے دوڑے اور اُس کے ہوش ٹھکانے آنے پر وجہ معلوم کی۔ وہ کہنے لگا کہ مَیں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں اور اس ارادہ سے آیا تھا کہ مرزا صاحب سے کوئی لغو حرکت کرادوں لیکن جب مَیں نے توجہ ڈالی تودیکھا کہ میرے سامنے کچھ فاصلہ پر ایک شیر بیٹھا ہے۔ مَیں اُسے دیکھ کر کانپ گیا۔ لیکن پھر اپنے جی کو ملامت کی کہ یہ میرا وہم ہے اور پھر توجہ ڈالنی شروع کی۔ دیکھا کہ وہی شیر میرے سامنے اور قریب آگیا ہے اس پر میرے بدن پر سخت لرزہ آیا مگر مَیں پھر سنبھل گیا اور جی میں اپنے آپ کو بہت ملامت کی کہ یونہی میرے دل میں وہم سے خوف پیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ پھر اپنا دل مضبوط کرکے توجہ ڈالنی شروع کی اور پورا زور لگایا تو ناگہاں دیکھا کہ وہی شیر میرے اوپر کود کر حملہ آور ہوا ہے۔ اُس وقت مَیں نے بے خود ہوکر چیخ ماری اور وہاں سے بھاگ اٹھا۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

یہ ہندو بعد میں حضرت مسیح موعودؑ کا بہت معتقد ہوگیا تھا اور جب تک زندہ رہا، آپؑ سے خط و کتابت بھی کرتا رہا۔ ایک بار ایک احمدی دوست نے اُس سے سوال کیا کہ اُس نے یہ نتیجہ کیسے نکالا کہ حضرت مرزا صاحب ایک خدا رسیدہ انسان ہیں اور یہ کیوں نہ سمجھا کہ آپؑ بھی مسمریزم کے بہت بڑے ماہر ہیں۔ اُس نے جواب دیا کہ مسمریزم کے لئے توجہ کا ہونا ضروری ہے جو کامل سکون اور کامل خاموشی کو چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو اپنے اصحاب سے باتوں میں مشغول تھے یعنی اُن کی قوّت ارادی کا اس میں دخل نہیں بلکہ کوئی آسمانی طاقت ہے جو اُن کی حفاظت کر رہی ہے۔
’’درویشان احمدیت‘‘ کے اس باب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد صحابہ اور اگلی نسل کے بہت سے بزرگوں کے واقعات بھی درج ہیں جن میں سے چند منتخب واقعات ہدیۂ قارئین ہیں:
٭ حضرت راجہ عطا محمد صاحبؓ کشمیر کے اوّلیں صحابہ میں سے تھے۔ آپؓ اپنی اعلیٰ علمی و انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر ریاست کشمیر میں وزیر بھی رہے۔ جب آپؓ بیعت کرنے کے بعد قادیان سے واپس جارہے تھے تو راستہ میں گڑھی حبیب اللہ کے رئیس خان محمد حسین خان کے ہاں مقیم ہوئے۔ وہاں کے ملّاؤں نے پہلے ہی احمدیوں کے خلاف قتل کا فتویٰ دے رکھا تھا۔ ملّاؤں نے محمد حسین کو اپنے ساتھ ملاکر آپؓ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ آپؓ کو اس منصوبہ کی کچھ خبر نہ تھی لیکن رات سوئے تو خواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے آکر فرمایا کہ ’’راجہ صاحب! آپ کے قتل کا منصوبہ کیا گیا ہے، آپ اس وقت اٹھ کر یہاں سے چلے جائیں‘‘۔ چنانچہ آپؓ نے اُٹھ کر اپنے ساتھیوں کو جگایا اور خاموشی سے سفر پر روانہ ہوگئے۔ صبح نماز کے بعد دیکھا کہ گڑھی کے رئیس کا وزیر گھوڑا دوڑائے پیچھے آرہا ہے اور کھانا بھی ساتھ لایا ہے۔ اُس نے آپؓ کو جان کی سلامتی کی مبارکباد دی اور ملّاؤں کی شرارت کا سارا قصہ سنایا اور تعجب سے پوچھا کہ آپؓ کو اس منصوبہ کا کیسے علم ہوا۔ آپؓ نے سارا واقعہ سنایا ۔ چنانچہ بعد میں خان محمد حسین نے بھی اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی اور آئندہ جب آپؓ اُس کے پاس ٹھہرے تو اُس نے آپؓ کی عزت و مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
یہ بات بھی اہم ہے حضرت راجہ عطا محمد صاحبؓ جب پہلی بار قادیان حاضر ہوکر حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت اور بیعت سے مشرف ہوئے تو آپ آنکھوں میں موتیابند کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ حضور علیہ السلام نے آپؓ کو لاہور جاکر علاج کروانے کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ آپ کی آنکھیں انشاء اللہ بالکل اچھی ہوجائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپؓ علاج کے بعد دوبارہ قادیان تشریف لے گئے اور پھر کچھ عرصہ بعد واپس کشمیر روانہ ہوئے۔ آپؓ اُن چند ابتدائی صحابہؓ میں سے تھے جنہیں حضور علیہ السلام نے اپنے نام پر بیعت لینے کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ آپؓ نے 14؍اپریل 1904ء کو وفات پائی۔
٭ حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ عالم بے بدل ہونے کے علاوہ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ آپ کو رؤیائے صالحہ اور کشوف کی بنا پر قبول احمدیت کی سعادت عطا ہوئی۔ اس پر علاقہ کے علماء کو سخت دھچکا لگا اور آپؓ کے خلاف قتل کی سازش ہونے لگی۔ چنانچہ علاقہ کے ایک رئیس ’خواجہ فتح جو‘ کو اُکسایا گیا کہ وہ ایک مباحثہ میں بلاکر دھوکہ سے آپؓ کو قتل کروادے۔ رئیس نے آپؓ کے ماموں زاد بھائی اکرم خان کو ساتھ ملایا اور ایک بڑی رقم پولیس کو بھی دی تاکہ وہ اس معاملہ سے دُور رہے۔ لیکن خدا کی تقدیر بھی حرکت میں آچکی تھی چنانچہ اکرم خان جب پولیس کو رقم دے کر واپس آرہا تھا تاکہ مباحثہ میں شامل ہوکر اپنا کام کرے تو راستہ میں ایک رات گزارنے کے لئے اپنی بیٹی کے ہاں ٹھہرا۔ لیکن صبح اُس کے بیدار نہ ہونے پر دروازہ توڑا گیا تو وہ اس حالت میں تھا کہ پاجامہ میں ایک پاؤں ڈالنے کے بعد دوسرا پاؤں ڈالتے ہوئے اُس کا دَم نکل گیا تھا۔
٭ حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ ’’سبز پگڑی والے‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ جب آپؓ تحریک شدھی میں ہندو بنانے والوں کا مقابلہ کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر تشریف لے گئے تو آگرہ کے قریب گاؤں میں مسلمانوں نے آریوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ آپؓ بھی مناظرہ دیکھنے کے لئے وہاں تشریف لے گئے لیکن مسلمان علماء وہاں نہ آئے۔ اس پر مسلمانوں نے آپؓ سے درخواست کی کہ آپؓ ہی ان آریوں سے بات کریں ورنہ ہماری سبکی ہوجائے گی۔ چنانچہ آپؓ نے مناظرہ میں آریہ پنڈتوں کو لاجواب اور شرمسار کردیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر آریوں نے ایک خفیہ میٹنگ بلائی کہ آپؓ کی موجودگی میں تو ہم کسی مسلمان کو شدھ نہیں کرسکیں گے اس لئے آپؓ کو راستہ سے ہٹایا جائے۔ چنانچہ ایک ٹھاکر بھوپ سنگھ کو یہ لالچ دے کر آپٖؓ کے قتل پر آمادہ کیا گیا کہ اُس کا دو ہزار روپیہ کا قرض معاف کردیا جائے گا۔ دوسری طرف اس پنچایت کی خفیہ کارروائی کی خبر آپؓ کو ایک ایسے رئیس نے پہنچادی جس کی بیٹی کا آپؓ نے کچھ عرصہ پہلے علاج کیا تھا اور وہ آپؓ کا ممنون احسان تھا۔ اس کے بعد بھوپ سنگھ بھی آپؓ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ مولوی صاحب! کدھر کا دورہ کرنا ہے۔ پھر کہا کہ اُس نے ایک محفل میں ناچ کا پروگرام رکھا ہے اور آپؓ بھی اُس میں آئیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں تو دوسروں کو بھی اس کام سے روکتا ہوں اس لئے خود کیسے آسکتا ہوں۔ اس پر وہ چلا گیا لیکن پھر پتہ چلا کہ رات کو محفل میں آگے بیٹھنے پر اُس کی کچھ نوجوانوں سے لڑائی ہوگئی۔ لوگوں نے وہاں تو بیچ بچاؤ کروادیا لیکن اگلے روز جب بھوپ سنگھ لوہار کی دکان پر بیٹھا تھا کہ تین نوجوان وہاں پہنچے اور لاٹھیاں مار مار کر بھوپ سنگھ کا کام تمام کردیا۔

حضرت مولوی محمد حسین صاحب

٭ حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ملکانہ میں قیام کے دوران ایک دفعہ نواب بقاء اللہ خان صاحب نے مجھے رقعہ بھیجا کہ میرے ماموں مولوی ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں چند دوستوں کے ہمراہ چلا گیا اور وہاں نواب صاحب کے ماموں سے بات ہوئی تو وفات عیسیٰ کے عقلی دلائل پر انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس پر نواب صاحب طیش میں آگئے کہ میرے ماموں کی ہتک ہوئی ہے اور مَیں قادیانی مولوی کو قتل کردوں گا۔ چنانچہ وہ اندر سے بندوق لے آئے جسے میرے ساتھ آئے ہوئے دوستوں نے چھین لیا۔ اس پر وہ تلوار کے ساتھ حملہ آور ہوئے۔ لڑکوں نے وہ تلوار بھی چھین لی۔ پھر دو لڑکے مجھے میرے گھر چھوڑ گئے۔ یہ نواب صاحب اکثر حضرت اقدس علیہ السلام کو گالیاں بھی دیا کرتے تھے۔ بعد میں ان کو سزا اس طرح ملی کہ ایک ہندو نے جس کے ساتھ اُن کی پرانی دشمنی چلی آرہی تھی خود ہی اپنی ٹانگ میں گولی مارکر شور مچادیا کہ نواب صاحب نے اُن کو گولی ماردی ہے۔ اس پر نواب صاحب پر مقدمہ دائر ہوگیا اور انہیں بہت مالی نقصان اٹھانا پڑا اور چار سال کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔
٭ حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ کشمیر کے علاقہ بھدرواہ میں پہنچے مجھے دو ہی دن ہوئے تھے کہ ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ ایک پٹھان عبدالرحمن خان نے آپؓ کے قتل کی ذمہ داری لی ہے۔ مَیںنے کہا کہ اگر میری موت مجھے بھدرواہ لے کر آئی ہے تو مجھے کیا انکار ہوسکتا ہے۔ آپ کا شکریہ کہ مجھے اطلاع دی ہے اب یہ احسان کریں کہ اُس پٹھان کی نشاندہی بھی کردیں۔ چنانچہ اُس نوجوان نے مجھے ایک درزی کی دکان پر عبدالرحمن خان کو اشارہ سے دکھادیا اور مَیں واپس چلا آیا۔ واپسی پر مَیں دریا کے کنارے دعا کرتا چلا جارہا تھا کہ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو عبدالرحمن پٹھان بھی آرہا تھا۔ مَیں وہیں کھڑا ہوگیا۔ جب وہ میرے پاس پہنچا تو مَیں نے کہا: خانصاحب آپ کی طبیعت اچھی ہے۔ اُس نے کہا: اچھی ہے۔ مَیں نے کہا: آپ کا اسم شریف عبدالرحمن خان ہے؟ اُس نے حیرت سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا۔ مَیں نے کہا کہ آپ جیسا میرا ایک دوست کرنل عبدالرحمن خان ہے اس لئے محبت سے مَیں نے آپ کو اُسی نام کا سمجھا۔ وہ کہنے لگا کہ مَیں تو آپ کا مخالف ہوں۔ مَیں نے کہا کہ لیکن میرے دل میں تو آپ کی محبت جوش مار رہی ہے۔ اسی طرح باتیں کرتے ہوئے مَیں نے اُسے آنحضور ﷺ کی حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں پیشگوئیاں بھی بتائیں تو وہ حیران ہوکر پوچھنے لگا کہ کیا آپ رسول پاکؐ کو مانتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ رسول پاکؐ کو منوانے کے لئے ہی تو مرزا صاحب آئے ہیں۔ کچھ مزید باتوں کے بعد وہ کہنے لگا کہ مَیں نے ابھی بیعت تو نہیں کی لیکن مَیں اب غیراحمدی بھی نہیں رہا۔ پھر وہ بولا کہ مغرب کے وقت ایک دوست کے ساتھ میرے ڈیرہ پر آئے گا۔ چنانچہ وہ آیا اور رات دو بجے تک گفتگو جاری رہی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے چار افراد کی بیعت پر منتج ہوئی۔ اور پھر ایک قلیل عرصہ میں بھدرواہ کے 35 افراد نے بیعت کرلی جن میں پڑھے لکھے نوجوان زیادہ تھے۔
٭ حضرت حاجی محمد الدین صاحب تہالویؓ کو 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر جہلم کے دوران بیعت کی سعادت عطا ہوئی۔ جب آپؓ بیعت کے بعد واپس لوٹے تو آپؓ کی اپنے علاقہ میں شدید مخالفت ہوئی اور قتل کی دھمکیاں ملنے لگی۔ آخر ایک دن قریبی بارہ دیہات سے لوگ اکٹھے ہوکر آگئے کہ آپؓ کو قتل کردیں۔ آپؓ نے اُن سے کہا کہ اگر مارنا ہی چاہتے ہو تو پہلے مجھے دو نفل پڑھ کر دعا کرنے دو۔ پھر آپؓ قریبی مسجد میں چلے گئے اور دعا میں ایسے مشغول ہوئے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا۔ باہر لوگ سمجھنے لگے کہ آپؓ ڈر گئے ہیں۔ جب کافی دیر کے بعد آپؓ باہر نکلے تو ایک گھوڑ سوار آتا دکھائی دیا۔ اس نے للکار کر کہا کہ اِس شخص کو کوئی ہاتھ تک نہ لگائے۔ وہ شخص اتنا بارعب معلوم ہوتا تھا کہ مجمع یہ سنتے ہی منتشر ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی جان بچالی۔
٭ حضرت مولوی غلام حسین ایازؔ صاحب تحریک جدید کے تحت بھجوائے جانے والے پہلے وفد میں شامل تھے۔ آپ کو سنگاپور بھیجا گیا تھا۔ آپ بہت متقی، پرہیزگار اور صاحب رؤیا و کشوف تھے۔ آپ کی ولادت 1903ء میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم کو 1891ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ محترم ایاز صاحب پرائمری کے بعد مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کر کے زندگی وقف کردی۔ 1935ء میں آپ کو سنگاپور بھیجا گیا جہاں سے 1950ء میں واپسی ہوئی۔ شدید مخالفت کے باعث وہاں بارہا آپ پر قاتلانہ حملے ہوئے اور شدید زخمی بھی کیا گیا۔
1941ء میں ایک روز سنگاپور کی جامع مسجد میں ایک ہندوستانی مولوی عبدالعلیم صدیقی کا لیکچر تھا۔ محترم ایازؔ صاحب بھی وہ لیکچر سننے چند دوستوں کے ساتھ تشریف لے گئے۔ مولوی صدیقی نے جب جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارہ میں غلط بیانی شروع کی تو آپ جرأت سے کھڑے ہوگئے اور اپنے بیگ سے قرآن کریم نکال کر مولوی صدیقی کو چیلنج کیا۔ مولوی صدیقی پہلے ہی مجمع کو مشتعل کرچکا تھا۔ یہ چیلنج سنتے ہی اُس نے اعلان کیا کہ یہ شخص کافر و مرتد ہے اور اس کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ مجمع میں سے بعض لوگوں نے آپ کو مارنا شروع کیا اور پھر گھسیٹتے ہوئے مسجد کی سیڑھیوں تک لائے اور چودہ فٹ بلندی سے آپ کو نیچے گرا دیا۔ آپ سر کے بل گرے اور لڑھکتے ہوئے سڑک پر جاگرے اور بیہوش ہوگئے۔ آپ کے سر کی ہڈی اور بازو کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ اجنبی ملک اور اجنبی باشندے تھے۔ آپ کے دیگر احمدی دوستوں کو بھی مارا پیٹا گیا تھا اور وہ اپنی جان بچاکر موقع سے بھاگ گئے تھے۔ بظاہر محترم ایازؔ صاحب کی موت یقینی تھی۔ اسی اثناء میں ایک احمدی فوجی افسر کرنل تقی الدین صاحب اپنی فوجی جیپ میں وہاں سے گزرے اور انسانی ہمدردی کے تحت کسی کو سڑک پر گرا دیکھ کر جیپ روکی تو حیران رہ گئے کہ یہ تو محترم ایازؔ صاحب ہی تھے۔ چنانچہ آپ کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں لمبا عرصہ آپ زیرعلاج رہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے صحت اور زندگی عطا فرمائی۔
٭ حضرت مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب نے ’’روح پرور یادیں‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ آپ نے اپنے اور کئی دیگر مربیان کے ایمان افروز واقعات اس میں بیان کئے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کی تبلیغ اور دعاؤں سے سیرالیون کے ایک پیراماؤنٹ چیف مسٹر بائیو (Bayo) مسلمان ہوگئے تو اُن کی ریاست کے پانچ صد افراد نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ ان افراد کی تربیت کے لئے مجھے ارشاد موصول ہوا کہ فوری طور پر لندن سے سیرالیون پہنچ جاؤں چنانچہ مَیں وہاں پہنچا۔ میرا قیام پیراماؤنٹ چیف کے بنگلے کے ہی ایک حصے میں تھا ۔ پیراماؤنٹ چیف پہلے عیسائی تھے۔ اچانک وہ ایک مزمن بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ جب حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب نے انہیں اسلام کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے آپ کا اپنے ہیڈ پادری سے سرعام مناظرہ کرادیا جس میں عیسائیوں کو شکست ہوئی۔ جس پر چیف نے حضرت مولوی صاحب سے کہا کہ وہ اور اُن کی ریاست کے کئی لوگ اسلام قبول کرلیں گے بشرطیکہ آپ اُن کی صحتیابی کا ذمہ لے لیں۔ حضرت مولوی صاحب نے یہ شرط منظور کرلی اور مقامی جماعت کے ساتھ مل کر دعاؤں میں مصروف ہوگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت اقدس میں بھی دعا کے لئے لکھ دیا۔ چند ہی روز میں خدا تعالیٰ نے معمولی دواؤں کے ذریعہ چیف بائیو کو شفا عطا فرمائی۔ جب اُن کی صحت کافی سنبھل گئی تو انہوں نے خود ہی اسلام قبول کرنے کی خواہش کی۔ حضرت مولانا موصوف نے اس شرط پر اُن کی خواہش ماننے پر رضامندی ظاہر کی کہ وہ شراب ترک کردیں گے اور چار سے زائد بیویاں بھی چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ان شرائط کو بخوشی تسلیم کرلیا اور اُن کی بیعت حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھجوادی گئی۔ حضورؓ نے اُن کی بیعت منظور فرماتے ہوئے اُن کا اسلامی نام صلاح الدین رکھا۔ جب مَیں وہاں پہنچا تو یہ حالات بھی معلوم ہوئے کہ چیف صلاح الدین کی ایک بیوی جو عیسائی ہے اور اُسے چیف صاحب کے عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہونے کا شدید افسوس ہے ۔ بعد میں اُس عورت نے میرے ایک طالبعلم کو لالچ دے کر ایک انتہائی زہریلی بوٹی میرے کھانے میں ڈال دی۔ چونکہ میرا کھانا بھی طالبعلم پکاتے تھے اس لئے اُس لڑکے کے لئے یہ کام آسان تھا۔ لیکن اُسے ایسا کرتے ہوئے ایک دوسرے لڑکے نے دیکھ لیا اور مجھے خبر کردی کہ فلاں نے کوئی مشکوک چیز کھانے میں ڈال دی ہے۔ اس زہریلی بوٹی کو کھانے کے نتیجہ میں مریض پانی پی پی کر ایک ماہ میں مر جاتا ہے اور اُس کا پیٹ پھول جاتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس سازش سے مجھے باخبر کردیا تو مَیں نے اُس طالبعلم کو فارغ کرکے اُس کے علاقہ میں بھیج دیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُس طالبعلم کو خاص طور پر نوازا جس نے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے مجھے اس سازش سے خبردار کیا تھا۔ وہ بعد میں تعلیم حاصل کرکے پہلے کئی پرائمری سکولوں کا ہیڈماسٹر بنتا رہا اور آخر میں ایک ہائی سکول کا ہیڈماسٹر مقرر کیا گیا۔
٭ 1974ء میں جب پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ملّاؤں کے خونی فسادات جاری تھے تو ایک احمدی مربی محترم مولوی عبدالوہاب احمد صاحب شاہد اُن ایام میں ساہیوال میں متعین تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ یہ عاجز حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؒ نے فرمایا کہ آپ کے نائب امیر ضلع کہتے ہیں کہ اپنے مربی سلسلہ کو سمجھائیں کہ وہ احتیاط کیا کریں۔ یہ اپنے آپ کو بڑے بڑے خطرات میں ڈال دیتے ہیں، کیا کرتے ہیں آپ؟۔ عاجز نے عرض کی: حضور! جہاں اکّا دکّا احمدی گھروں کو جلوس والے گھیرے میں لے لیتے ہیں وہاں اُن کی تسلّی کے لئے پہنچتا ہوں اور اُن کی حفاظت کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ سن کر حضورؒ نے دعا دی اور فرمایا:’’وَاللہ یعصمک من الناس۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کا محافظ ہو، میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔
بعد میں ایک دفعہ جب احمدی معززین پر حملہ کی خبر پاکر مَیں حویلی لکھا پہنچا تو بس پر سے اُترتے ہی مجھے ایک جلوس نے گھیر لیا اور چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ اس کی تکّابوٹی کردو جنت تمہاری ہے۔ مَیں اپنا یہ آخری وقت جان کر کلمۂ شہادت پڑھنے اور درودشریف کا ورد کرنے لگا۔ اُدھر جنت کے امیدواروں نے چاروں طرف سے سنگ باری شروع کردی۔ عین اُس وقت میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ اے اللہ! تیرے سوا میرا کون ہے۔ آج موت کے منہ سے نکال کر اپنے قادر اور محیی ہونے کا نشان دکھا۔
یہ الفاظ ابھی میری زبان پر آئے ہی تھے کہ ایک جھٹکے کے ساتھ کسی غیرمرئی چیز نے مجھے اٹھاکر ایک تانگے پر پھینک دیا۔ مجھے اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ تانگہ اُس وقت کہاں سے اور کیسے نمودار ہوا تھا۔ لیکن میرے بیٹھتے ہی وہ سرپٹ دوڑتا اور جلوس کو چیرتا ہوا چلتا چلا گیا۔ اُدھر ہر طرف چیخ چنگھاڑ ہونے لگی۔ مجھے لگا کہ میری وہ موت جو جیالوں کے لئے جنت کے دروازے کھولنے کا اعلان کرچکی تھی اب گھوڑے کے سموں تلے کچلی جارہی ہے۔ تانگہ بان نے آن کی آن میں مجھے مکرم میاں محمد جہانگیر خان وٹو صاحب (والد میاں منظور احمد وٹو صاحب) کے گھر پہنچا دیا۔ مَیں نے تانگہ بان کو پیسے دینا چاہے تو اُس نے لینے سے انکار کیا۔ مَیں نے اُس کا نام و پتہ پوچھا تو کہنے لگا کہ میرا کوئی نام و پتہ نہیں، جو کام میرے سپرد تھا وہ مَیں نے کردیا ہے۔ بعد میں وہ کبھی بھی نظر نہیں آیا۔ وہاں پہنچ کر مجھے اطمینان ہوا کہ جن دوستوں کو بچانے کی کوشش کرنے مَیں حویلی لکھا گیا تھا وہ اپنی فیملیوں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔
(باقی آئندہ)
…………………………………
’’درویشان احمدیت‘‘

قسط دوم
(مطبوعہ انصارالدین ستمبر اکتوبر 2013ء)
’’درویشان احمدیت‘‘ (مؤلفہ مکرم و محترم فضل الٰہی انوری صاحب ) کا تعارف گزشتہ شمارہ میں شامل اشاعت کیا گیا تھا اور اس سلسلۂ کتب کے حصہ سوم کے ایک باب سے چند منتخب واقعات ہدیۂ قارئین کئے جارہے تھے۔ ذیل کا مضمون گزشتہ شمارہ میں بیان کردہ مضمون کا ہی تسلسل ہے۔
٭ مکرم مولانا عبدالوہاب شاہد صاحب کا بیان کردہ ہی یہ واقعہ بھی ہے کہ جنوری 1991ء میں خاکسار محترم سید احمد علی شاہ صاحب (ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مقامی) کے ہمراہ صوبہ سندھ میں ضلع نوابشاہ اور ضلع سکھر کی جماعتوں کے سالانہ جلسوں میں بطور مرکزی نمائندہ شریک تھا۔ ان ضلعی جلسوں کے علاوہ صدر جماعت مسن باڈہ (لاڑکانہ) مکرم ہدایت اللہ صاحب نے بھی اپنے ہاں ایک جلسہ کا پروگرام رکھ لیا۔ چنانچہ ہم 9 جنوری کو وہاں پہنچ گئے۔ جلسہ کا پروگرام نماز مغرب و عشاء کے بعد شروع ہونا تھا مگر عشاء کی نماز سے فارغ ہوتے ہی یکدم شور پڑ گیا کہ ڈاکو آگئے ہیں۔ اس پر مسجد کے سارے دروازے بند کردیئے گئے صرف مستورات کے حصہ میں ایک عقبی دروازہ کھلا رکھا گیا تاکہ احباب اس میں سے نکل کر محفوظ جگہوں میں چلے جائیں۔


یہ مسلح ڈاکو لُوٹنے کی بجائے لوگوں کو یرغمال بناکر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور پھر بھاری تاوان وصول کرکے چھوڑتے ہیں۔ چنانچہ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہر کوئی اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا۔ مَیں نے بھی سوچا کہ ہم بھی نکل کر کسی محفوظ جگہ پر چلے جائیں مگر جب مَیں نے مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ وہ اپنی پگڑی محراب میں رکھ کر پچھلی صف میں سر پر مفلر باندھے نماز میں مصروف ہیں۔ اس پر میری توجہ بھی اللہ تعالیٰ کے پاک کلام و من دخلہٗ کان امنا کی طرف مبذول ہوئی اور مَیں نے بھی دل میں یقین کرلیا کہ باہر جانے سے نہیں بلکہ خدا کے گھر کے اندر رہتے ہوئے ہی ہماری حفاظت ہوگی چنانچہ مَیں نے بھی نماز پڑھنی شروع کردی۔
ڈاکوؤں نے جب مسجد کے دروازے بند دیکھے تو وہ مسجد کا ایک دروازہ توڑ کر اندر آگئے۔ ہم دونوں اُس وقت سجدہ کی حالت میں تھے۔ اس پر دو ڈاکوؤں نے ہمیں گھسیٹنا شروع کردیا، مگر ہم نے دیکھا کہ جتنا زور وہ ہمیں سجدہ سے اٹھانے میں لگا رہے تھے اُس سے کئی گُنا زیادہ زور کے ساتھ کوئی غیبی طاقت ہمیں سجدہ گاہ سے چمٹائے رکھ رہی تھی۔ جب کافی کھینچاتانی کے باوجود وہ ڈاکو ہمیں اٹھا کر لے جا نہ سکے تو ناکام ہوکر مسجد سے باہر نکل گئے اور باہر سے صدر جماعت کے بیٹے عزیزم فرحت اللہ کو پکڑلیا اور پھر فائرنگ کرتے ہوئے اُسے ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں روپوش ہوگئے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے فرحت اللہ کو بھی ڈاکوؤں کے چنگل سے آزاد کرانے کے سامان پیدا فرمادیئے۔
٭ مکرم ٹھیکیدار غلام رسول صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر ہمارا تبلیغی گروپ مکیریاںؔ ضلع ہوشیارپور پہنچا تو ایک دن ہمارے امیر وفد سید محمد حسین شاہ صاحب نے ہمیں موضع بھنگالہ رائے جانے کے لئے کہا۔ چنانچہ ہم دو افراد روانہ ہوگئے۔ بھنگالہ رائے کے قریب پہنچ کر ہمیں کسی نے بتایا کہ ’’کل اُسی جگہ تمہارے امیر کو لوگوں نے مارا ہے اور اُن کے منہ پر گند ملا ہے…‘‘۔ یہ بات سُن کر ہم واپس آنے کی بجائے سیدھے وہاں کے رئیس جو رائے صاحب کہلاتے تھے، اُن کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔ وہ سامنے ہی اپنی کرسی پر بیٹھا تھا۔ ہم نے اندر داخل ہوتے ہی السلام علیکم کہا جس کا اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ ہم نے کہا کہ ہم کوئی سوال کرنے نہیں آئے، ایک پیغام لے کر آئے ہیں اور اگر دو منٹ ہماری بات سن لیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ ہماری اتنی سی بات پر اُس نے غصہ سے ہمیں نکل جانے کو کہا اور پھر ایک نوکر کو آواز دی کہ اِن کو دھکے دے کر یہاں سے نکال دو۔ اس پر اُس کا ایک نوکر ہمارے پاس آیا کہنے لگا کہ میاں صاحب! یہاں سے چلے جاؤ۔ ہم اُس نوکر سے بات کرہی رہے تھے کہ رائے صاحب نے نوکر کو گالی دے کر کہا کہ اگر یہ نہیں نکلتے تو اِن پر شکاری کتے چھوڑ دو۔ نوکر جو اپنے مالک کے تیور دیکھ چکا تھا، اندر گیا اور کتوں کو چھوڑ دیا۔ کتے ہمارے قریب آئے اور کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھا تک نہیں۔ تب مَیں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا کام ہوگیا ہے، اب ہم واپس چلتے ہیں۔
شام کو واپس مرکز پہنچے اور اپنی رپورٹ لکھوائی تو امیر وفد شاہ صاحب سے پوچھا کہ سُنا ہے کہ آپ کو لوگوں نے کل وہاں مارا بھی ہے لیکن آپ نے پھر آج صبح ہمیں وہاں بھیج دیا۔ اس پر شاہ صاحب نے جواب دیا: مَیں نے اسی لئے تو آپ کو وہاں بھیجا تھا کہ آپ بھی اتنے بڑے ثواب سے محروم نہ رہیں۔
چونکہ ہماری رپورٹیں ساتھ کے ساتھ قادیان پہنچ رہی تھیں۔ چنانچہ جب ہم وقف کا عرصہ پورا کرکے واپس قادیان آئے تو سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے خاص طور پر قصر خلافت میں بلاکر یہ واقعہ زبانی سنا۔ پھر اپنی خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ عطا فرمایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں