افغانستان … ایک سو سال پہلے
فرینک مارٹن 1895ء سے 1903ء تک افغانستان کے چیف انجینئر رہے اور اس حیثیت میں انہوں نے پہلے امیر عبدالرحمن اور پھر اُن کے بیٹے امیر حبیب اللہ کے قریب رہ کر کام کیا۔ بعد میں انگلستان واپس آکر انہوں نے ایک کتاب لکھی جس میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کا بھی تفصیلی ذکر کیا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2، 4 و 6؍نومبر 2002ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کے قلم سے اس تاریخی کتاب “Under the Absolute Amir of Afghanistan” کی تلخیص شامل اشاعت ہے۔
قریباً ایک سو سال قبل اگرچہ افغانستان ایک آزاد ملک تھا لیکن اس کی آزادی مشروط تھی کیونکہ اس کی خارجہ پالیسی ہندوستان میں مقیم برطانوی وائسرائے کے ہاتھ میں تھی۔ 1895ء میں امیر عبدالرحمن نے اپنے بیٹے سردار نصراللہ کو انگلستان بھجوایا تاکہ وہ انگریز حکومت کو لندن میں افغان سفارتی نمائندہ تعینات کرنے کی اجازت دینے پر رضامند کریں تاکہ باہمی معاملات وائسرئے ہند کی بجائے براہ راست طے کئے جاسکیں۔ اگرچہ اس مقصد میں سردار نصراللہ کو کامیابی نہ ہوسکی لیکن وہ واپس وطن جاتے ہوئے فرینک مارٹن کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ مارٹن لکھتا ہے کہ چند روز سردار نصراللہ نے قندھار میں قیام کیا اور پھر گھوڑوں پر سوار ہوکر کابل کی طرف روانہ ہوئے۔ کوئی باقاعدہ سڑک موجود نہیں تھی لیکن صدیوں سے سفر کرنے والوںکی آمدورفت سے جو راستہ بن گیا تھا، اسی پر چلنا پڑتا تھا۔ راستہ کے کنارے جگہ جگہ اونٹوں، گھوڑوں وغیرہ کے ڈھانچے پڑے تھے۔
فرینک مارٹن لکھتا ہے کابل اس وقت ڈیڑھ لاکھ آبادی کا شہر ہے۔ تنگ گلیاں جن میں گھروں کا گند پھینک دیا جاتا ہے، بارش یا برفباری کے نتیجہ میں ان گلیوں میں چلنا دوبھر ہوجاتا ہے۔ بازار بھی تنگ ہیں کہ سامان سے لدا ہوا اونٹ بھی گزر رہا ہو تو پیدل چلنا مشکل ہوجاتاہے۔ آوارہ کتے بہت زیادہ ہیں لیکن ان کا فائدہ یہ ہے کہ گلیوں کا گند اور غلاظت صاف کر دیتے ہیں۔ شہر کے لوگوں کا عمومی تأثر یہی ہے کہ عرصہ سے نہائے نہیں۔ وہ امراء بھی جن کے چہرے صاف ہوتے ہیں، اُن کی گردن میلی ہوتی ہے۔ البتہ ہر گھر میں حمام ضرور بنایا جاتا ہے۔ امراء کا علاقہ شہر کے نئے حصہ میں ہے۔ یہ صاف ستھرا علاقہ ہے۔
افغان قوم کے نقوش بنی اسرائیل سے گہری مماثلت رکھتے ہیں۔ بچوں کے نام اکثر بنی اسرائیل کے انبیاء کے نام پر رکھے جاتے ہیں بلکہ یہاں کے بعض پہاڑوں کے نام بھی بنی اسرائیل کے انبیاء کے نام پر ہیں۔ ان لوگوں کا کاروباری انداز بھی بنی اسرائیل سے ملتا جلتا ہے۔ زیادہ تر آبادی پشتو بولتی ہے لیکن فارسی چونکہ درباری زبان ہے اس لئے اس کا سمجھنا صاحبِ حیثیت افراد کے لئے ضروری ہے۔ سکولوں میں بھی پڑھائی جاتی ہے جہاں کا مدارالمہام ایک مولوی ہوتا ہے، اُس کے ہاتھ میں ایک بید ہوتا ہے اور بچے اُس کے اردگرد آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ کئی بار بچوں کو ایسی سزا دیتے ہیں کہ اُن کی دردناک چیخیں دُور تک سنائی دیتی ہیں۔
لوگ شدید توہم پرست ہیں۔ روحوں اور بھوتوں سے بے حد ڈرتے ہیں۔ نجومیوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ شاہی خاندان نے بھی اپنے نجومی رکھے ہوئے ہیں جن کی اکثر پیشگوئیاں غیرواضح اور ذومعنی ہوتی ہیں۔
فرینک مارٹن امیر عبدالرحمن کے دَور میں کابل پہنچا۔ وہی امیر جس کے دَور میں پہلے احمدی حضرت عبدالرحمن صاحبؓ کو شہید کیا گیا۔ مارٹن لکھتا ہے کہ یہ امیر آخر عمر میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا تھا اور دربار میں بھی بستر پر بیٹھتا تھا لیکن اس کا دبدبہ پورے ملک پر بہت تھا اور گرفت مضبوط تھی۔ سارے انتظامی اختیارات اُس کے ہاتھ میں تھے اور وہ ملک بھر سے آنے والی جاسوسی رپورٹوں کا رات گئے تک مشقت اٹھاکر خود مطالعہ کرتا تھا۔ حکومت کا انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں تھا، چند افسران کے پاس اختیارات تھے جنہیں وہ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے۔باہمی اختلاف کی صورت میں جو پہلے امیر تک پہنچ جاتا، جیت اُسی کی ہوتی۔ اسی لئے امیر تک رسائی کیلئے رشوت کا بازار گرم رہتا۔
امیر عبدالرحمن نے حکومت انگریزوں کی مدد سے حاصل کی تھی۔ جب اس کے ایک رشتہ دار ایوب خان نے انگریز فوج کو قندھار میں شکست دی تو اس نے انگریزوں کی مدد کی اور انگریزوں کی مدد سے ایوب خان کی طاقت کو کچل کر مشروط حکومت سنبھال لی۔ چنانچہ وہ انگریزوں کا وظیفہ خوار بھی رہا اور اُس کی خارجہ پالیسی وائسرائے ہند کے ہاتھ میں رہی۔ ایک طرف وہ انگریزوں کو وفاداری کا یقین دلاتا تھا اور دوسری طرف انگریزوں کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکاتا تھا تاکہ وہ افغان قبائل جو ہندوستان کی سرحد کے قریب واقع ہیں، وہ ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کی بجائے افغان حکومت میں ہی شامل رہنے کو ترجیح دیں۔ اس مقصد کے لئے اُس نے اپنے مولویوں سے تحریر کرواکے ایک کتابچہ بھی قبائلی علاقہ میں تقسیم کروایا کہ انگریزوں کو قتل کرنے والا جنت میں جائے گا۔ اس طرح جب قبائلیوں اور انگریز فوج کا تصادم ہوا اور چند انگریز اور بہت سے قبائلی ہلاک ہوئے تو انگریزوں نے امیر کو دھمکی دی کہ اگر اس نے اپنا طرز عمل نہ بدلا تو اسے اقتدار سے محروم کردیا جائے گا۔ اس پر وہ محتاط ہوگیا۔ مارچ 1901ء میں اُس پر فالج کا حملہ ہوا اور یکم اکتوبر کو اُس کی وفات ہوئی۔
یہ وہی دَور ہے جب حضرت عبدالرحمن صاحبؓ نے قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی اور واپس جاکر ان خیالات کا اظہار کیا کہ صرف مذہبی اختلاف کی بنیاد پر کسی کا قتل ناجائز ہے۔ جاسوسوں کی رپورٹ پر آپؓ کو گرفتار کرکے کابل لایا گیا اور یہاں قیدخانہ میں ہی دَم گھٹ کر شہید کردیا گیا۔ یہ غیرواضح ہے کہ اس شہادت میں امیر عبدالرحمن کے علاوہ کون کون اس سازش میں شریک تھا۔ کیونکہ اس وقت تک امیر پر فالج کا حملہ ہوچکا تھا اور وہ عملاً کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہ تھا۔ اور بعد میں جب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب امیر سے ملے تو اُس نے آپؓ سے مل کر بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپؓ کے خلاف کچھ رپورٹیں آئی تھیں جنہیں مَیں نے نظرانداز کردیا ہے۔
اس زمانہ میں بہت سے احمدیوں کو قیدخانہ کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ مارٹن لکھتا ہے کہ کسی بھی سرکاری عمارت کی کھڑکیوں پر سلاخیں لگاکر اُسے جیل میں تبدیل کردیا جاتا تھا۔ جگہ کی کمی کا اندازہ کئے بغیر اُنہیں اندر ٹھونسا جاتا تھا۔ صفائی کا کوئی تصور ہی موجود نہ تھا چنانچہ ستر اسّی فیصد قیدی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ پورے دن میں کھانے کے لئے دو نان دیئے جاتے تھے اور ٹخنوں کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھا۔ مارٹن کے نزدیک وہاں کی گلیوں کے کتے وہاں کے قیدیوں سے کئی درجہ بہتر زندگی گزارتے تھے۔
سب سے خوفناک سزا ’’بالاحصار‘‘ کا قیدخانہ تھا۔ یہ ایک خشک کنواں تھا جس کا نچلا حصہ کھود کر پندرہ بیس فٹ چوڑا کردیا گیا تھا۔ یہاں قیدیوں کو عمر بھر کے لئے ڈالا جاتا تھا اور اُن کے لئے روٹی اور پانی کو اوپر سے پھینکا جاتا تھا۔ قیدی وہیں رہتے، کوئی مر جاتا تو اُس کی لاش بھی نہ نکالی جاتی۔ وہاں رہنے والے چند ہی دن میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے اور دیواروں کے ساتھ سر پٹخ پٹخ کر اپنا خاتمہ کرلیتے۔
قتل کرنے کی سزائیں بھی شدید تھیں۔ ایک قاتل کو درخت کے ساتھ باندھ دیا گیا اور روزانہ اُس کی جلد کا ایک حصہ اتارا جاتا حتی کہ چند دن بعد وہ مرگیا۔ امیر حبیب اللہ کے محل کے قریب گند صاف کرنے پر مامور شخص بیمار ہوگیا تو بطور سزا اُس کی حاملہ بیوی کے پیٹ پر پچاس ڈنڈے مارے گئے جس سے وہ ہلاک ہوگئی۔ ایک بار چند فوجیوں نے فرار ہونے کی ناکام کوشش کی۔ اُن کی آنکھوں میں پہلے تیزاب ڈال کر انہیں بصارت سے محروم کردیا گیا اور پھر انہیں ایک دوسرے کے ساتھ باندھ کر چھوڑ دیا گیا۔ جو کئی دن میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے بندھے باری باری موت کے منہ میں چلے گئے۔ مارٹن کے خیال میں نسبتاً آسان سزا یہ تھی کہ کسی کو توپ کے دہانہ سے باندھ کر اُڑا دیا جائے۔
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے مارٹن بیان کرتا ہے کہ قادیان میں جو نشانات آپؓ نے دیکھے وہ مسمریزم کی کوئی صورت تھے اور آپؓ کے پاس دوسروں کو لاجواب کرنے والے دلائل بھی تھے اور ایک معجزانہ ثابت قدمی تھی۔ آپؓ کی وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو آپؓ نے اپنی شہادت کے بعد کے حالات کے متعلق کی تھی۔ مارٹن نے آپؓ کے بارہ میں لکھا ہے: “One of the chief and most influential of the mullahs” ۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ قادیان میں قیام کے دوران ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ حضر ت صاحبزادہ صاحبؓ کو اپنے ہمراہ ایک کمرہ میں لے گئے جہاں دونوں نے عالم کشف میں مقدس مقامات کی زیارت کی اور مختلف مناسک ادا کئے۔ اس سے آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا اتنا یقین ہوگیا کہ موت بھی آپؓ کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکی۔
مصنف بیان کرتا ہے کہ امیر حبیب اللہ نے آپؓ کے ایمان لانے کا سنا تو آپؓ کو پیغام بھجوایا کہ وطن واپس آجائیں۔ جب وہ واپس پہنچے تو آپؓ کو حراست میں لے کر امیر کے دربار میں لایا گیا لیکن آپؓ نے امیر کے سوالات کے جواب اتنی ذہانت سے دیئے کہ اُسے آپؓ پر ہاتھ ڈالنے کا موقع نہ مل سکا۔ اور اُس نے اپنے بھائی سردار نصراللہ کی طرف آپؓ کو بھجوادیا جس نے آپؓ کو بارہ علماء کی عدالت میں بھجوادیا۔ علماء کو بھی آپؓ کے عقائد میں کوئی قابل گرفت بات نہ ملی تو آپؓ کو بری کردیا گیا اور فیصلہ امیر کی طرف بھجوادیا گیا۔ لیکن امیر مصر تھا کہ آپؓ کو سزا دی جائے چنانچہ معاملہ دوبارہ علماء کے پاس منتقل ہوا لیکن امیر کے شدید کے دباؤ کے باوجود بارہ میں سے دس علماء نے آپؓ کے خلاف فیصلہ دینے سے انکار کردیا۔ صرف دو علماء نے، جن کے سردار نصراللہ سے قریبی تعلقات تھے، سردار کے اصرار پر قتل کے فتوے پر دستخط کئے۔اس فتویٰ کی امیر حبیب اللہ نے تصدیق کردی۔ جب سزا سنانے کے بعد آپؓ کو امیر کے سامنے سنگسار کرنے کیلئے لے جایا گیا تو آپؓ نے سب کے سامنے یہ پیشگوئی فرمائی کہ اب اس ملک پر ایک بہت بڑی تباہی آئے گی اور امیر حبیب اللہ اور سردار نصراللہ بھی خمیازہ بھگتیں گے۔ پھر جس روز آپؓ کو شہید کیا گیا تو اُس رات ایک خوفناک آندھی آئی۔ یہ ایک غیرمعمولی بات تھی اور لوگ اسے آپؓ کی شہادت سے متعلق قرار دیتے تھے۔ نصف گھنٹہ بعد اچانک آندھی رُک گئی۔ پھر چند ہی روز میں کابل میں ہیضہ کی خوفناک وبا پھوٹی ۔ لوگ برملا کہہ رہے تھے کہ یہ آپؓ کی پیشگوئی کا نتیجہ ہے۔ ہیضہ کی وبا سے امیر اس قدر خوفزدہ تھا کہ وہ یاغمانؔ چلے جانا چاہتا تھا لیکن گورنر نے کہا کہ امیر کے جانے کے بعد عوام اور فوجی کہیں اُس کے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ چنانچہ اُس نے تخت کی لالچ میں اپنا قیام ارکؔ کے محل میں رکھا لیکن خود کو دو کمروں تک محدود کرلیا۔ چھ سات درباریوں کے علاوہ کوئی اُس تک نہیں جاسکتا تھا اور یہ درباری محل سے باہر نہیں جاسکتے تھے تاکہ جراثیم باہر سے محل میں منتقل نہ ہوجائیں۔ پھر امیر کی چہیتی بیوی جان سے گزر گئی تو امیر مخبوط الحواس ہوگیا اور اُس کا زیادہ وقت مصلّے پر گزرنے لگا۔
اس کے بعد مارٹن کا قلم تو خاموش ہوجاتا ہے لیکن ’’تاریخ احمدیت‘‘ میں یہ حقائق محفوظ ہیں کہ بعد میں کئی احمدیوں کو قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں اور کئی شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔ آخر امیر حبیب اللہ قتل کیا گیا اور سردار نصراللہ کو اُس کے قتل کے الزام میں ارکؔ جیل میں رکھا گیا جہاں کبھی حضرت صاحبزادہ صاحب ؓ کو رکھا گیا تھا اور پھر اسی قید میں خاموشی سے اُس کا خاتمہ کردیا گیا جس طرح حضرت عبدالرحمن صاحبؓ کا کیا گیا تھا۔ تاہم حضرت مسیح موعودؑ دونوں معصوم احمدیوں کی شہادتوں کے اثرات کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیا ہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملے گی۔ ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا۔ کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بے دردی سے قتل کرکے اپنے تئیں تباہ کرلیا۔ اے کابل کی زمین! تُو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ اے بدقسمت زمین! تُو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تُو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے۔‘‘
مارٹن اُس زمانہ کے حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے کہ فوج میں کوئی نظم و ضبط نہیں ۔ کوئی وردی نہیں۔ مارچ پاسٹ میں جس کا دل چاہتا ہے وہ جب چاہے اپنا پاؤں زمین پر مارتا ہے ، جب چاہتا ہے بندوق تھام لیتا ہے۔ توپ کا نشانہ شاذ ہی نشانے کے پچاس گز کے اندر گرتا ہے۔ امیر حبیب اللہ کی تخت نشینی کے وقت جب توقع کے مطابق فوج نے بغاوت نہیں کی تو امیر نے خوش ہوکر ہر فوجی کو ایک ’’تمغہ وفاداری‘‘دیا جو چاندی کا بنا ہوا تھا۔ اکثر فوجیوں نے وہ تمغہ بیچ کر اناج خریدا تاکہ فاقوں سے نجات حاصل کریں۔ فوج میں چھٹی یا ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اگر چھٹی پر جانا ہو تو اپنا متبادل دینا ضروری ہوتا۔ فوجی بہت سخت جان ہوتے لیکن ان کے جرنیل جنگی مہارت اور علم سے بالکل کورے ہوتے۔
امیر عبدالرحمن نے کابل میں مختلف ورکشاپیں قائم کی تھیں لیکن ان میں کام کرنے والوں کا بنیادی علم بہت کم تھا اور تنخواہیں اتنی کہ فاقوں پر گزارا ہوتا۔ دفاتر کے کلرک ’’مرزا‘‘ کہلاتے تھے۔ اُن کا علم فارسی، ابتدائی عربی اور بنیادی ریاضی تک محدود ہوتا۔ جمع تفریق تک تو خیریت رہتی لیکن ضرب تقسیم میں گڑبڑ ہوجاتی۔ اکثر ایک ہی حساب میں ہر مرزا کا جواب دوسرے سے مختلف ہوتا۔ یہ اپنے کام میں دلچسپی صرف اُس وقت لیتے جب ان کے سپرد کسی افسر کے خلاف بدعنوانی ثابت کرنے کا کام کیا جائے۔ مارٹن اس بات کا عینی شاہد ہے کہ ایک کلرک نے اصل زر سے بھی دوگنی رقم کا غبن ثابت کردیا۔
مصنف کہتا ہے کہ وہاں کے علماء ہر وقت اپنے ہاتھوں میں تسبیح پھیرتے رہتے خواہ گفتگو یا کوئی بھی کام کر رہے ہوں۔ اگر کوئی غیرمسلم اُن کے سامنے آجائے تو عموماً وہ کراہت کا اظہار کرتے ہوئے تھوک دیا کرتے تھے۔امیر عبدالرحمن ان علماء کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن امیر حبیب اللہ نے ان کا بہت اکرام کیا اور انعامات سے نوازا۔ … پاگلوں کا بھی بڑا احترام کیا جاتا تھا اور انہیں کوئی روکتا ٹوکتا نہ تھا حتی کہ وہ بعض دفعہ امیر کے دربار میں بھی پہنچ جاتے۔
آخری باب میں مارٹن کہتا ہے کہ امیر عبدالرحمن نے اپنے سیاسی مخالفین کو چُن چُن کر خاموشی سے قتل کروادیا تھا اور اپنے اور اپنے ولی عہد کے لئے کوئی خطرہ باقی نہیں رہنے دیا تھا۔ (لیکن جو ظلم عظیم امیر عبدالرحمن اور امیر حبیب اللہ کے دَور میں کیا گیا اُس نے نہ صرف اس بادشاہت کو نابود کردیا بلکہ سلطنت کو بھی بدامنی اور خونریزی کی لمبی داستان کا حصہ بنادیا)۔