افغانستان میں غیرتِ الٰہی کے عبرت انگیز نظارے

ماہنامہ‘‘احمدیہ گزٹ’’کینیڈا جنوری 2012ء میں مکرم فضل الٰہی انوری صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے

Hazrat Syed Abdul Latif Shaheed Kabul

جس میں حضرت صاحبزادہ سیّد عبداللطیف صاحبؓ کی شہادت کے ذمہ دار بعض اشد معاندین کے بدانجام کا اختصار سے تذکرہ کیا گیا ہے۔
مُلّا عبدالرزاق قاضی کا حشر
اس خونی ڈرامے کا ایک کردار مُلّا عبدالرزاق، ’قاضی القضاۃ‘تھا اور’مُلّائے حضور‘کے لقب سے سرفراز تھا۔ اسی کے منحوس ہاتھوں نے شہید مرحوم کے سنگسار کیے جانے کے فتویٰ پر آخری دستخط کیے تھے اور یہی وہ بدبخت تھاجس نے شہید مرحوم ؓ پر پہلا پتھر چلا کر اس معصوم پر سنگساری کا آغاز کیا تھا۔
ایک دن امیر کابل کی سواری جا رہی تھی۔ قاضی عبدالرزاق بھی اسی سڑک پر دائیں جانب چل رہا تھا جبکہ بادشاہ کا حکم تھا کہ چلنے والے سڑک کی بائیں جانب چلا کریں۔ چنانچہ ایک سپاہی نے اسے روکا اور بائیں جانب چلنے کو کہا۔ وہ اسے اپنی ہتک سمجھتے ہوئے سپاہی سے اُلجھ پڑا۔ اتفاق سے امیر عبدالرحمن نے بھی یہ ماجرا دیکھ لیا اور اُسی وقت قاضی عبدالرزاق پر ایک ہزار روپیہ جرمانہ کر دیا۔ یہ سزا پانے کے بعد وہ ملک سے ایسا غائب ہوا کہ کچھ پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں چلاگیا ہے۔ تاہم امیر امان اللہ کے عہد میں وہ واپس آگیا۔ لیکن اب کی بار اس سے پھر کوئی ایسی حرکت سرزد ہوئی جس کی وجہ سے امیر نے حکم دیا کہ اسے کوڑے لگائے جائیں اور بستہ بند مجرموں کی طرح وہ روزانہ آکر حاضری دیا کرے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اُس کے بعد اُس کا لڑکاقاضی عبدالواسع اُس کا جانشین بنا جو چند سال بعد نہایت بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔
امیر حبیب اللہ خان کا انجام
حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے امیر حبیب اللہ خان کے سر پر خود بادشاہت کا تاج رکھا تھا۔ واقعۂ شہادت کے چند سال بعد امیر سیرو سیاحت کی غرض سے ایک پُر فضا علاقہ میں گیا۔ اس کا بھائی سردار نصراللہ خان اور کئی درباری اس کے ہمراہ تھے۔ جلال آباد کے قریب شاہی شکار گاہ ’گلہ گوش‘ میں اس کے لشکر نے ڈیرے ڈال دیے۔ بادشاہ کا خیمہ عین وسط میں تھا، ارد گرد درجنوں خیمے درباریوں کے نصب تھے۔ فوج کا ایک مستعد دستہ امیر کی حفاظت پر مامور تھا۔ جب وہ رات اپنی ملکہ کے ہمراہ محو استراحت تھا تو کسی نامعلوم شخص نے اس کے خیمہ میں داخل ہوکراس کا کام تمام کردیا۔ قاتل کے بارہ میں کبھی معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کون تھا۔
سردار نصراللہ خان پرخدا کے غضب کا نزول
سردار نصراللہ خان نے امیر حبیب اللہ خان کے قتل ہوجانے کے بعد جلال آباد میں ہی اپنی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔ جب حبیب اللہ خان کے بیٹے امان اللہ خان کو (جو کابل کا گورنر تھا اور وہیں پر تھا) پتہ چلا کہ اس کے چچا نے اس کا حق چھین کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے تو اس نے اپنی ماں سے مشورہ کر کے کابل میں موجود فوجی افسروں اور شہر کے رؤسا کو اکٹھا کیا، انہیں اعتماد میں لے کر وفاداری کا حلف لیا اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اُس نے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ سردار نصراللہ خان کو گرفتار کرکے پابہ جولاں اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس حکم پرفوری عمل ہوا اور اسی سردار نصراللہ خان کو بھاری بیڑیاں اور ہتھکڑیاں پہنا کر کابل لایا گیاجس نے کچھ عرصہ پہلے شہید مرحوم کو از راہ ظلم بیڑیاں اور زنجیریں پہنائی تھیں۔ امیر امان اللہ خان نے اسے ملک و قوم کا غدار قرار دے کر شاہی قلعہ‘ارک شاہی’میں محبوس کردیا۔ گویا اسے اُس سے بھی بدتر اور بدبودار کوٹھڑی نصیب ہوئی جو اس نے شہید مرحوم کے لیے تجویز کی تھی۔ سردار نصراللہ خان ان صدمات کی تاب نہ لاکر اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا جس پر اسے بالآخر قتل کر دیا گیا اور لاش کا بھی کچھ علم نہیں ہوسکا۔ اس کی بیوی اور دو بیٹے پہلے ہی خدا کی قہری تقدیر کا نشانہ بن چکے تھے۔
امیر امان اللہ خان والی ٔ افغانستان کازوال
امیر امان اللہ خان نے تخت نشین ہوتے ہی (غالباً اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے) یہ اعلان کیا کہ آئندہ مکمل مذہبی آزادی ہوگی کہ کوئی جو چاہے عقیدہ رکھے، اس پر عمل کرے اور اس کی اشاعت کرے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اس قانون کا علم ہونے پر مدرسہ احمدیہ قادیان کے افغان طالب علم مولوی نعمت اللہ صاحب کو فورًا افغانستان بھجوایا مگر تاکید فرمائی کہ جب تک حکومت کی طرف سے انہیں تحریری ضمانت نہ مل جائے کہ وہ بطور احمدی مبلغ افغانستان میں رہ سکتے ہیں تب تک وہ اپنا کام صرف احمدیوں کی تعلیم وتربیت تک محدود رکھیں۔
اُن دنوں افغان وزیرخارجہ سردار محمود طرزی حکومت ہند سے مشورہ کے لیے منصوری آئے ہوئے تھے۔ حضورؓ نے ایک وفد بھجوایا تاکہ اُن سے دریافت کیا جائے کہ آیا اس اعلان میں جماعت احمدیہ بھی شامل ہے؟ سردار محمود طرزی نے وفد کو یقین دلایا کہ جو پہلے ہوچکا، وہ ہوچکا۔ آئندہ افغان احمدی باشندے بھی اپنے عقائد اور ان کی اشاعت میں اسی طرح آزاد ہوں گے جیسا کہ دوسرے فرقے۔ اس پر حضورؓ نے مولوی نعمت اللہ صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ سردار صاحب کے واپس افغانستان پہنچنے پر اُن سے مل کر خود بھی اس بات کی تصدیق کر لیں۔ چنانچہ اُن کے ملنے پر سردار صاحب موصوف نے اُنہیں بھی اپنے عقائد کے اظہار اور تبلیغ میں مکمل آزادی کا یقین دلایا۔
مزید احتیا ط کی خاطر حضورؓ نے وزیر خارجہ موصوف کو ایک خط لکھا جس میں اپنے وفد کے حوالہ سے اُن امور کی تصدیق چاہی۔ وزیر موصوف نے فارسی زبان میں جواباً لکھا کہ جماعت احمدیہ کے جو افراد افغانستان کے باشندے ہیں، ان کی جان و مال اور عزت کی ذمہ داری حکومت پر اسی طرح ہے جس طرح دوسرے باشندوں کی اور یہ کہ حکومت اپنی اس ذمہ واری کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونے دے گی۔ آخر میں لکھا کہ یہ جواب اعلیٰ حضرت، شاہ افغانستان، کے علم اور مشورہ سے لکھا جا رہا ہے۔
امان اللہ خان کو تخت پر بیٹھے ابھی چند سال ہی ہوئے تھے کہ منگل قوم نے اُس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ اس پر امیر نے علماء اور رؤسائے مملکت کی ایک بہت بڑی کانفرنس طلب کی۔ کانفرنس میں نہایت شوریدہ سر اور زبان دراز درباری عبداللہ نامی نے (جو عوام میں ’مُلّاں شوربازار‘ اور ’مُلّائے لنگ‘ کے ناموں سے جانا جاتا تھا) بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اگر وہ چند احمدیوں کو سنگسار کرادے تو اس کے خلاف اٹھنے والی اس بغاوت کو دبایا جا سکتا ہے۔ دنیوی جاہ و حشمت کے دلدادہ امیر کو یہ مشورہ پسند آیا۔ چنانچہ اس نے مولوی نعمت اللہ صاحب کو گرفتار کرکے کئی دن تک قید و بند میں رکھا اور 31؍اگست 1924ء کو سنگسار کروادیا۔ چند ماہ بعد دو اَور افغان احمدیوں (قاری نورعلی صاحب اور مولوی عبدالحلیم صاحب) کو گرفتار کرلیا گیااور اذیتیں دینے کے بعد 21؍فروری 1925ء کو انہیں بھی سنگسار کر دیاگیا۔
تین معصوم احمدیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کے بعد بظاہر مطمئن ہوکر امیر امان اللہ اپنے مصاحبوں اور اہل خاندان کو لے کر یورپ کے سفر پر نکلا۔ یورپ میں اس کا شاندار استقبال ہوا۔ شاہ مصر، شاہ ایران، ملکہ معظمہ انگلستان، مصطفی کمال اتاترک اور شاہ روم کی طرف سے اس کے اعزاز میں استقبالیے دیے گئے اور اس کی شان میں قصیدے پڑھے گئے۔چنانچہ واپس افغانستان لَوٹنے پر یہ سمجھتے ہوئے کہ اُس کی طاقت کا راز مغرب کی تقلید کرنے میں ہے، اُس نے اپنے درباریوں کو ساتھ ملا کر ’اصلاحات‘ کے نام پر تبدیلیاں شروع کردیں۔ مثلاً اس نے مَردوں کو داڑھی منڈوانے، عورتوں کو پردہ اتار کر مغربی لباس زیب تن کرنے اور سکولوں میں دینی نصاب کو ختم کرنے کے احکام جاری کردیے۔ اس سلسلہ میں وہ اپنی ملکہ ثریا کو بھی بے پردہ کرکے اور مغربی لباس پہناکر پبلک کے سامنے لے آیا۔ مگر عوام ان تبدیلیوں کے لیے تیار نہ تھے۔ چنانچہ 24؍نومبر 1928ء کو ملک بھر میں بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس میں زیادہ تردخل پیروں، فقیروں اور اُن ملاؤں کا تھا جو یہ سمجھے کہ بادشاہ ان کا اثرو رسوخ ختم کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ بادشاہ درپردہ عیسائی ہو چکا ہے اور ملک میں اسلامی شریعت کی بجائے مغربی تہذیب لانا چاہتا ہے۔
حکومت کے خلاف بغاوت میں تیزی اُس وقت پیدا ہوئی جب مُلّاؤں نے ایک شخص بچہ سقہ کو بھی اپنے ساتھ ملالیا جو کسی وقت شاہی محل میں رہ چکا تھااور اَب ڈاکوؤں کا سردار تھا۔ چنانچہ بادشاہ اپنی جان بچانے کیلیے ملکہ اور بچوں کو لے کر قندھار، غزنی، قلات اور چمن سے ہوتا ہوا برا ستہ ہند اٹلی جاپہنچا اور اس طرح بچہ سقہ عملاً ملک کا بادشاہ بن گیا۔ امیر امان اللہ خان اسی بے بسی کی حالت میں 3؍اپریل 1960ء کو سوئٹزرلینڈ میں مر گیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ا مان اللہ خان کو بادشاہت سے محروم ہونے کے بعد احساس ہو گیا تھا کہ یہ سب احمدیوں پر ظلم کی پاداش میں اس پر وارد ہوا ہے۔ چنانچہ اُسے اٹلی پہنچے ابھی تھوڑے دن ہی ہوئے تھے کہ اس کے ایک ہمسفر درباری نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو خط میں لکھاکہ:‘‘ہماری مجالس میں بار بار یہ ذکر آیا ہے کہ یہ جو کچھ ہماری ذلّت ہوئی ہے وہ اُس ظلم کی وجہ سے ہوئی جو ہم نے احمدیوں پر ڈھایا تھا۔ اب جبکہ ہمیں یہ سزا مل چکی ہے تو امید ہے آپ ہمارے لیے بد دعا نہ کریں گے۔’’
مُلّائے شور بازار کا انجام
درباری مُلّاعبداللہ کے مشورہ پر احمدیوں کو سنگسار کیا گیا تھا۔ شہادتوں کے تھوڑا عرصہ بعد ہی بادشاہ کا یہ منہ چڑھا درباری کسی وجہ سے بادشاہ کے زیر عتاب آگیا جس پر اسے گرفتار کرکے توپ کے دہانے سے باندھ کر اڑا دیا گیا۔
قاضی عبدالرحمن کا انجام
امیر امان اللہ کے دَور میں، کابل کا قاضی القضاۃ، قاضی عبدالرحمٰن تھا جس نے احمدیوں پررجم کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ امیر امان اللہ خان کے ملک سے فرارہونے کے بعد بچہ سقہ نے قاضی عبدالرحمن کو گرفتار کرکے اس کی اعضا بریدگی کا حکم دیا۔ یعنی ہزارہا لوگوں کے مجمع کے سامنے ایک ایک کرکے اس کے اعضا کاٹے گئے۔ جوں جوں اس کے اعضا کٹتے جا رہے تھے، اس کی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی تھیں۔ اور جب اس کے سارے اعضا کٹ چکے تو اس کی کھال اتاردی گئی اور پھراس کی لاش کو گڑھے میں پھینک کر اسے ہمیشہ کے لیے معدوم کردیا گیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!
ایک عاشق احمدیت کا ردّعمل
اس مضمون کا اختتام ایک عاشق احمدیت اور خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب ؓ کے رقم فرمودہ ایک خط کے ساتھ کیا گیا ہے جو حضرت چودھری صاحب نے 3؍اکتوبر 1924ء کو حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کی شہادت کی خبر سن کر لندن سے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت اقدس میں تحریر کیا تھا۔ اس خط میں آپؓ نے لکھا:
‘‘میری زندگی آج تک ایسی ہی گزری ہے کہ سوائے اندوہ و ندامت کے اور کچھ حاصل نہیں۔مَیں اکثر غور کرتا ہوں کہ یہ بھی کیسی زندگی ہے کہ سوائے روزی کمانے کے کسی اَور کام کی فرصت نہ ملے اور دنیا کے دھندوں میں پھنسا انسان طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا رہے۔آج جو ایک خوش قسمت کے محبوب حقیقی کے ساتھ وصال کی خبر آئی تو جہاں دل میں ایک شدید درد پیدا ہوا،وہاں یہ بھی تحریک ہوئی کہ تمہارے لیے یہ موقع ہے کہ اپنی ناکارہ زندگی کو کسی کام میں لاؤ اور اپنے تئیں افغانستان کی سر زمین میں حق کی خدمت کے لیے پیش کرو۔پھر مَیں اچانک رُکا کہ کیا یہ محض میرے نفس کی خواہش نمائش تو نہیں کہ اس یقین پر کہ مجھے نہیں بھیجا جائے گا، اپنے تئیں پیش کرتا ہے۔ اور مَیں نے اپنے ذہن میں ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ کیا جو اس رستہ میں پیش آئیں گی اور اپنے تئیں سمجھایا کہ فوری شہادت ایک ایسی سعادت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور کیا تم محض اس لیے اپنے تئیں پیش کرتے ہو کہ جاتے ہی شہادت کا درجہ حاصل کرو اور دنیا کے افکار سے نجات حاصل کرویا تمہارے اند ر یہ ہمت ہے کہ ایک لمبا عرصہ زندہ رہ کر ہر روز اللہ تعالیٰ کے ر ستہ میں جان دو اور متواتر شہادت سے منہ نہ موڑو۔ حضور انور،مَیں کمزور ہوں، سست ہوں،آرام طلب ہوں۔ لیکن غو ر کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ مَیں نمائش کے لیے نہیں،فوری شہادت کے لیے نہیں،دنیا کے افکار سے نجات کے لیے نہیں بلکہ اپنے گناہوں کے لیے توبہ کا موقعہ میسر کرنے کے لیے، اپنی عاقبت کے لیے ذخیرہ جمع کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنے تئیں اس خدمت میں پیش کرتا ہوں۔اگر مجھ جیسے گنہ گار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور مجھے یہ توفیق عطا فرمائے کہ مَیں اپنی زندگی کے بقیہ ایام اس کی رضا کے حصول میں صرف کر دوں تو اس سے بڑھ کر مَیں کسی نعمت اور کسی خوشی کا طلب گار نہیں۔
حضور مَیں مضمون نویس نہیں اور حضور کی بارگاہ میں تو نہ زبان یاری دیتی ہے نہ قلم جیسے کسی نے کہا ہے:

بے زبانی ترجمانِ شوقِ بے حد ہو تو ہو
ورنہ پیش یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں

اس لیے اسی پر بس کرتا ہوں کہ مَیں جس وقت حضور حکم فرماویں،افغانستان کے لیے روانہ ہونے کو تیار ہوں اور فقط حضور کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلبگار ہوں۔’’

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں