افغانوں اور کشمیریوں میں بنی اسرائیلی عنصر

قریباً دو ہزار سال قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بنی اسرائیل کی ابتدا ہوئی۔ آپؑ کے پوتے حضرت اسحق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کا خطاب عطا فرمایا۔ آپؑ کے بارہ بیٹے تھے جن سے بارہ قبائل شروع ہوئے اور وہ بنی اسرائیل کہلائے۔ پھر ایک قبیلہ جسے کہانت کی خدمت سپرد ہوئی تھی، اِن قبائل سے خارج ہوگیا لیکن حضرت یوسفؑ کے دو بیٹوں کو میراث ملی اور اُن دونوں کی اولاد بھی بنی اسرائیل کے قبائل میں شمار ہوئی۔
جامعہ احمدیہ ربوہ کے خلافت سووینئر کے ایک مضمون میں افغانستان اور کشمیر کی طرف آباد کئے جانے والے جلاوطن بنی اسرائیلی قبائل میں متعدد مثالوں کے ساتھ بنی اسرائیلی عنصر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مؤرخین اور محققین کے بیانات کے علاوہ آج بھی اِن قبائل کی بعض رسوم،قبائل اور مقامات کے ناموں، مختلف اصطلاحات اور سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات میں جو مماثلت پائی جاتی ہے وہ اس بات کی شہادت ہے کہ افغانستان کے راستے کشمیر تک پہنچنے والی قوم کا تعلق بنی اسرائیل ہی سے ہے اور انہی قبائل کی خاطر حضرت مسیحؑ بھی ہجرت کرکے کشمیر تک پہنچے جہاں آپؑ کی وفات ہوئی۔ لیکن یہ ساری تحقیق حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام کے حوالہ سے کی جارہی ہے۔ خود حضورؑ نے اس بارہ میں بنیادی امور بیان کرکے جو نتیجہ نکالا تھا، وہ یہی تھا کہ
’’اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ افغان بنی اسرائیل میں سے ہیں جیسا کہ کشمیری بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ اور جن لوگوں نے اپنی تالیفات میں اس کے برخلاف لکھا ہے انہوں نے سخت دھوکا کھایا ہے اور فکرِ دقیق سے کام نہیں لیا۔‘‘ (مسیح ہندوستان میں)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں