البانیہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ 21؍اگست 1995ء میں یورپ کے پسماندہ ملک البانیہ کے بارے میں ایک مضمون مکرم محمد محمود طاہر صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ البانیہ کی لمبائی 207 میل اور 50 میل کے درمیان ہے اور کثیر تعداد میں جھیلیں اور دریا اسے قدرتی حسن سے مالا مال کئے ہوئے ہیں۔ یہاں کی 30 لاکھ کی آبادی نسلی طور پر دو گروہوں میں منقسم ہے۔ 70 فیصد زراعت پیشہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق البانیہ میں مسلمان 70 فیصد اور عیسائی 30 فیصد ہیں۔ 1967ء میں کیمونسٹ حکومت نے تمام مساجد اور چرچوں کو بند کردیا تھا۔ عثمانی ترکوں نے جن کے ذریعہ یہاں اسلام کا نفوذ عمل میں آیا تھا کئی صدیوں تک البانیہ پر حکومت کی۔ 1912ء میں البانیہ کی خودمختاری تسلیم کرکے 1920ء میں یہاں قومی حکومت قائم کردی گئی لیکن 1939ء میں اٹلی نے البانیہ پر دوبارہ قبضہ کرلیا اور جنگ عظیم دوم میں شکست کے دوران جرمنی نے بھی 43ء میں البانیہ پر حکومت کی۔ اس کے بعد ملک میں اشتراکیوں نے حکومت بنالی۔ 55ء میں البانیہ اقوام متحدہ کا ممبر بنا اور پھر روس سے تعلقات خراب ہوتے ہوتے 68ء میں بالکل ختم ہوگئے جس کے بعد البانیہ نے چین سے تعلقات مستحکم کرنے شروع کئے لیکن وہ بھی 1977ء میں ختم ہوگئے اور اس کے بعد یوگوسلاویہ ہی اس کے تعلقات کا محور رہا۔ البانیہ میں یک پارٹی نظامِ حکومت ہے اور اس کا دارالحکومت تیرانہ ہے۔