الحاج ڈاکٹر مظفر احمد ظفر صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ امریکہ
محترم الحاج ڈاکٹر مظفر احمد ظفرؔ صاحب نے 1955ء میں احمدیت قبول کی اور جماعت میں مختلف حیثیتوں سے خدمت کی توفیق پائی۔ قریباً دس سال تک نیشنل صدر کے عہدہ پر فائز رہے اور دس سال سے زیادہ عرصہ نائب امیر کے طور پر کام کیا۔ جماعت احمدیہ امریکہ کے خلافت سووینئر میں آپ کا ذکرخیر مکرم ظفر احمد سرور صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے لئے آپ کی محبت بے مثال تھی۔ آپ نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی تھی اور اوہائیو سٹیٹ کے شہر ڈیٹن میں CURE کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہے تھے۔ آپ کو پبلک سروس کیلئے مختلف ایوارڈز بھی دیئے جاتے رہے۔ 15؍نومبر 1996ء میں 60 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔
آپ کے بیٹے مکرم مرید نوراللہ ظفر صاحب لکھتے ہیں کہ 1950ء میں جب احمدی ہمارے شہر میں بسنا شروع ہوئے اور ڈیٹن کی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو میرے والد اور چچا کا احمدیوں پر پتھراؤ کرنا معمول بن گیا۔ ایک روز چند احمدیوں نے آپ دونوں کو پکڑکر پتھراؤ کی وجہ پوچھی۔ آپ نے جواب دیا کہ ہمیں احمدیوں کی عجیب ٹوپیاں اچھی نہیں لگتیں اور نہ ہی وہ عجیب وغریب لباس جو تمہاری عورتیں پہنتی ہیں۔ اس پر احمدیوں نے مسجد کے فوائد بیان کئے اور یہ بھی کہا کہ یہ مسجد ایک دن آپ ہی کی مسجد ہو گی۔ پھر اِن دونوں کو کھانا بھی کھلایا اور پیار اور محبت سے پیش آئے۔ اس کے بعد آپ وقتاً فوقتاً مسجد جانے لگے اور احمدیوں کی مدد بھی کرتے رہتے۔ آپ کو احمدیوں کے تعلق باللہ نے بہت متأثر کیا ہوا تھا۔ چنانچہ جلد ہی خود بھی احمدیت قبول کرلی۔ پھر آپ خدمت دین میں ایسے وقف ہوئے کہ گھر میں کوئی تقریب بھی ہوتی تو آپ کسی جماعتی مصروفیت کی وجہ سے موجود نہ ہوتے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ سے سچی اور انتہائی محبت تھی۔
محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سابق امیر جماعت امریکہ نے الحاج ڈاکٹر مظفر احمد ظفر صاحب کے بارہ میں فرمایا کہ آپ کے ساتھ میرا تعلق نومبر 1983ء میں ہوا اور وقت کے ساتھ یہ دوستی اور محبت بڑھتی رہی۔بعد ازاں ہمیں امیر اور نائب امیر کے عہدوں کے تحت بھی اکٹھے اور ایک ساتھ کام کرنے کا موقعہ بھی ملا تو آپ کو ہر وقت ہر کام کے بجالانے کے لئے تیار پایا۔
جب آپ پہلی بار ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ آئے تو اپنے ساتھ سوالات کی ایک لمبی فہرست بھی لائے لیکن جیسے ہی آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کو دیکھا تو اپنا کاغذ جیب میں ڈال لیا جیسے حضورؒ کو ایک نظر دیکھنے سے ہی آپ کو تمام سوالوں کا جواب مل گیا ہو۔
ضیاء کے آرڈینینس کے بعد جب ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک پاکستانی صحافی نے آپ سے پوچھا کہ کیا اب آپ پاکستان کے لئے امریکہ کی امدادپر پابندی لگوانا چاہیں گے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ہر گز نہیں، ہمارا پاکستان کے عوام سے تو کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
آپ بہترین خطیب تھے۔ تقریب میں جب بھی آنحضورﷺ یا حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر آتا تو آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آتیں اور آواز بھی بھرّا جاتی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ایک خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ وہ ہمارے معزز بھائی تھے۔ Ph.D. ہونے کے باوجود بھی انہوں نے کبھی ڈاکٹر کا لقب استعمال نہیں کیا۔وہ ایک نہایت ذہین و فہیم اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں فدا ئی انسان تھے۔ میں ایک عرصہ سے انہیں جانتا ہوں۔ وہ نہایت مستعد انسان تھے۔ عموماً میری سیکورٹی کے انچارج ہوتے اور یوں لگتا تھا کہ جلسہ کے دنوں میں وہ سوتے ہی نہیں تھے۔ میں جب بھی اپنے کمرے یا رہائش سے باہر آتا تھا، وہ ہمیشہ وہاں موجود ہوتے۔ وہ امریکی احمدیوں کا مزاج دوسروں کی نسبت زیادہ سمجھتے تھے اس لئے مَیں اُن سے تبادلہ خیال کرکے بہت فائدہ اٹھاتا تھا۔ وہ ایک نہایت منکسرالمزاج اور وفادار انسان تھے جنہوں نے جماعت کی اعلیٰ ترین خدمت کی توفیق پائی۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کیلئے وقف تھے اور اُن کی وفات سے ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے۔