الفضل سے زندگی بھر کا تعلق

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 3؍نومبر2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم تنویر احمد ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ بچپن میں ہمارے دادا جان محترم چودھری احمد دین صاحب جوکہ خود زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن جماعتی اخبارات و رسائل کے سننے کا بے حد شوق رکھتے تھے۔ چنانچہ ہم بہن بھائیوں میں سے جو بھی سکول سے پہلے گھر آ جاتا تھا یا چھٹی کے دن جو بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتا تھا اس پر لازم تھا کہ وہ دادا جان کے ہاتھ میں موجود الفضل یا کوئی رسالہ ہے تو اسے سارا پڑھ کر سنائے۔ کم عمری کی و جہ سے بعض اوقات دادا جان کا یہ فعل طبیعت پر گراں گزرتا لیکن ان کی ہم سب کے ساتھ محبت اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ پورے ادب کے ساتھ ان کے حکم کی تعمیل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے داداجان کو غریق رحمت کرے۔ آپ کے اسی شوق کی وجہ سے جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اپنے گھر الفضل کو رونقیں بکھیرتے ہی دیکھا ہے۔ دادا جان کی وفات کے بعد ہم نے ہمیشہ یہ فریضہ اپنی امی جان کو ادا کرتے دیکھا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے گھر میں الفضل نے اسی وقت ناغہ کیا ہے جب اسے پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ روزنامہ الفضل ہو یا الفضل انٹرنیشنل ڈاک سے موصول ہو یا انٹرنیٹ کا سہارا لینا پڑے جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے امی، ابا، بہن، بھائیوں میں تقریباً سب کو اس کا عاشق پایا ہے۔ اب دیار غیر میں ہوتے ہوئے بھی الفضل ہمارے سب ہی گھروں کا ایک ایسا فرد بن گیا ہے جو اگر ناشتے میں کسی و جہ سے شامل نہ ہو سکے تو پھر دوپہر کے کھانے کی بھوک الفضل ہی مٹائے گا۔
ہمارے دادا جان کے چھوٹے بھائی چودھری غلام مصطفیٰ صاحب تھے جن کا دو سال پہلے 90؍سال سے زائد عمر میں وصال ہوا تھا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت لمبا عرصہ بہاولنگر کی ایک جماعت میں صدر بھی رہے ہیں۔ دادا جان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد بھی چودھری صاحب کو الفضل کا دلدادہ پایا ہے۔ چودھری غلام مصطفیٰ صاحب گاؤں کے نمبر دار بھی تھے۔ 23؍سال تک مجھے ان کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے میں نے ہمیشہ ان کے ہاتھ میں اس وقت الفضل دیکھا ہے جب بھی آپ باہر سیر کو جاتے یا ملنے ملانے والوں کے درمیان بیٹھے ہوتے تھے۔ اکثر اوقات ملنے آنے والوں سے ہی الفضل سننے کی فرمائش کرکے سن لیا کرتے تھے۔ ان کے اس عمل نے ہمارے اندر بھی الفضل پڑھنے کا شوق پیدا کر دیا۔
بچپن سے ہی ہم نے اپنے اباجان چودھری نذیر احمد خادم صاحب کو الفضل میں لکھتے دیکھا ہے۔ یہ بات بچپن میں بڑی اہمیت رکھتی ہے بلکہ ابھی بھی ہے کہ گھر سے کسی فرد کامضمون اخبار میں چھپے اور اخبار بھی وہ ہو جو آپ کی پسند کا تو اس کو پڑھنے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔ 3؍ اگست 2012ء کے الفضل میں یہ پڑھ کر کہ آپ بھی لکھیں خاکسار سے رہا نہ گیا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میری زندگی کو بنانے میں اور پھر عملی میدان میں آنے تک الفضل کا بڑا کردار رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم اخبار کو ہمیشہ جاری و ساری رکھے اور ہم اور ہماری نسلیں بھی اسی طرح اس سے مستفید ہوتی رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں