الفضل کے ذریعہ پاک تبدیلیاں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍جون 2012ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں اخبار الفضل کے ذریعہ ہونے والی چند پاکیزہ تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
٭… مکرم چوہدری نور احمد صاحب ناصر لکھتے ہیں: میرے داداچوہدری نور محمدصاحب سفید پوش اور علا قہ کے بڑے ہی بااثر شخص تھے۔ حضرت چوہدری عبدالقادر صاحبؓ آف سجووال (جو ملٹری ڈرائیور تھے) کو علم ہوا کہ اگر وہ چوہدری نور محمد صاحب کو احمدی کر لیںتو سارے علاقہ میں احمدیت پھیلنے میں آسانی ہوجائے گی۔چنانچہ تبلیغ کے جنون نے اُنہیں چوہدری نور محمد صاحب سفید پوش کے پیچھے لگا دیا۔ اُدھر چوہدری نور محمد صاحب سخت مخالف تھے اور کوئی بات سننے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ ہمیشہ حضرت چوہدری عبدالقادر صاحبؓ سے بدسلوکی سے پیش آتے ۔ تاہم وہ ان ساری بدسلوکیوں کو درگزر کرتے ہوئے مسلسل آتے اور جماعتی اخبار چودھری نور محمد صاحب کے تکیے کے نیچے رکھ کر چلے جاتے اور چودھری صاحب اس کو بغیر پڑھے اور دیکھے دادی جان کو دے دیتے کہ اسے چولہے میں جلا دینا۔ یہ سلسلہ لمبا عرصہ جاری رہا کہ ایک دن اچانک اُن کی نظر اخبار پر لکھے ایک حرف ’’محمدؐ ‘‘ پر پڑی۔ جب تھوڑا سااخبار کھولا تو لکھا تھا ۔ ؎
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمدؐ دلبر میرا یہی ہے
اس شعر نے تو گویا ان کی کایا ہی پلٹ دی۔ دھول چھٹنے لگی، سارا اخبار پڑھا اور پھر اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ تم نے وہ اخبار جلادیئے ہیں جو عبدالقادر لاتا تھا۔ وہ کہنے لگیں نہیں میں نے سارے سنبھال کے رکھے ہو ئے ہیں ۔کہا سارے لے آ۔ جب وہ لائیں تو سارے اخبار ایک ایک کرکے پڑھنے لگے۔ جوں جوں پڑھتے جاتے توں توں دل کی میل صاف ہوتی گئی۔ اخبار ختم ہو گئے تو دل بھی مسیح پاک کی پاکیزہ تحریرات سے دھل گیا اور امام الزماں کا غلام ہو گیا۔ چنانچہ فوراً بیعت کرلی۔
٭…محترمہ وزیر بیگم صاحبہ لکھتی ہیں کہ 1939ء میں میرے خاوند قاضی شریف الدین صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔ ایک دفعہ تو گویا ہمارے گھر پر بم گر گیا مگر پھر میں ان کے پاس چلی گئی لیکن احمدیت کی بہت ہی مخالف تھی اور ہر وقت قاضی صاحب سے ناراض رہتی۔ مگر وہ مجھے کچھ نہیں کہتے تھے۔ انہوں نے یہ کہا کہ مَیں تو خدا کے فضل سے احمدی ہو گیا ہوں اور اب مَیں نہیں ہٹ سکتا۔ تمہیں نہیں کہتا کہ تم احمدی ہو جاؤ۔ تمہاری اپنی مرضی ہے۔ مجھے ہر وقت احمدیت کے متعلق اچھی باتیں بتاتے رہتے تھے مگر مَیں اکثر اُن سے ناراض رہتی۔ جب صبح قرآن پاک پڑھتے تو مجھے اس کے معنے بتاتے۔ مسئلہ بھی بتاتے کہ دیکھو قرآن میں یہ لکھا ہے۔ جب سے احمدی ہوئے تھے پانچ وقت نمازیں گھر میں ہی پڑھتے۔ تہجد بھی پڑھتے تھے۔ بہت ہی دعائیں کرتے، میرے لئے بہت ہی دعائیں کرتے رہتے تھے۔ اس وقت میرے دو بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ میں بہت کمزور تھی پھر ان کی طرف سے بہت غم کرتی تھی۔ رشتے دار اور ملنے والے بھی مخالفت کرتے تھے۔ ایک دفعہ میری کچھ سہیلیاں میرے گھر آئیں تو میں نے ان کی چائے وغیرہ سے خاطر کی۔ انہوں نے کوئی چیز نہیں کھائی اور کہنے لگیں کہ ہم نے مرزائن کے گھر کا کچھ نہیں کھانا۔ جس پر میں بہت روئی اور قاضی صاحب کو کہا کہ دیکھا لوگ کتنا بُرا سمجھتے ہیں!۔ وہ ہنس کرکہنے لگے کہ کوئی بات نہیں ایک دن آئے گا کہ وہ خود ہی کھا لیں گے۔
گھر میں اخبار الفضل بھی آنا شروع ہو گیا۔ محترم قاضی صاحب الفضل کو اونچا پڑھتے اور میں سنتی رہتی۔ آخر ایک دن اُن کا نیک نمونہ اور دعائیں رنگ لائیں اور میری خوش دامن صاحبہ نے خود ہی ان کو کہہ دیا کہ میری بیعت کا خط بھی لکھ دیں۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔
٭… مکرم طارق احمد طاہر صاحب مربی سلسلہ بہاولنگر لکھتے ہیں: روزنامہ الفضل میں چھپنے والا ایک مضمون بعنوان ’’عصر حاضر کی طبّ کی روشنی میں روزہ کی افادیت‘‘ اپنی جماعت میں درس کے طور پر سنایا تو ایک بزرگ نے بتایا کہ وہ پندرہ سال سے روزے نہیں رکھ رہے تھے لیکن یہ مضمون سُن کر باقاعدہ روزے رکھنے شروع کردیئے ہیں۔
٭…مکرم ناظر صاحب دعوت الی اللہ قادیان ایک ہندو کی نظر میں الفضل کی قدر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
چند روز ہوئے بعض غریب جماعتوں کے لئے الفضل مفت جاری کرانے کی تحریک کی گئی تھی۔ اس پر جہاں اپنوں نے چند اخبار مفت جاری کروائے وہاں ہندو اصحاب میں سے جناب لالہ سنت رام صاحب رئیس بشناہ تحصیل رنبیر سنگھ ریاست جموں نے بھی لکھا کہ وہ اخبار الفضل کوروزانہ پڑھتے ہیں اور اس تحریک پر مبلغ تین روپے بھیج رہے ہیں تاکہ ان کی طرف سے جماعت ریاسی کے نام اخبار الفضل مفت جاری کر دیا جائے۔
٭… ایک غیرازجماعت دوست نے اپنے خط میں الفضل میں شائع ہونے والے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
’’الفضل اخبار نے میرے دل میں ایک خاص تبدیلی پیدا کردی ہے خاص کر خلیفہ صاحب کے خطبات بہت مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ ان سادے مگر مسحور کر دینے والے خطبات کے بغور مطالعہ کے بعد زنگ آلودہ دلوں کی تسخیر یقینی اور لازمی امر ہے۔ اگر آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ضرور اس نیک دل اور روشن دماغ کی کرنیں گم گشتہ راہ لوگوں کے لئے ہدایت کا باعث ہوںگی۔…‘‘۔
بعدازاں اس دوست نے احمدیت قبول کرلی۔
٭… الٰہ آباد کے ایک غیراحمدی عالم اور دانشور سرشفاعت احمد خان صاحب الفضل کے خریدار تھے۔ ایک بار جب اُن کی خدمت میں آئندہ سال کے لئے قیمت کی وصولی کا وی پی بھیجا گیا تو خلاف توقع واپس آگیا۔ اس پر بذریعہ خط انہیں وی پی واپس آنے کی اطلاع دی گئی۔ اس کے جواب میں انہوں نے سالانہ قیمت پندرہ روپے کا چیک بھیجتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’مکرمی بندہ السلام علیکم والانامہ جناب صادر ہوا۔ مجھے نہایت افسوس ہے کہ الفضل کا وی پی واپس کردیا گیا میں بمبئی تھا ابھی آج آیا ہوں اور نوکروں کی بیوقوفی اور غلطی ہے۔ معافی کا خواستگار ہوں۔
بعض الفضل کے مضامین نہایت دلچسپ ہوتے ہیں اور تقریباً تمام پرچہ روز میں پڑھتا ہوں۔‘‘
٭… حضرت مصلح موعودؓ نے 1935ء میں ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’مجھے کل ہی ایک نوجوان کا خط ملا ہے۔ وہ لکھتا ہے میں احراری ہوں میری ابھی اتنی چھوٹی عمر ہے کہ میں اپنے خیالات کا پوری طرح اظہار نہیں کرسکتا۔ اتفاقاً ایک دن ’’الفضل‘‘ کا مجھے ایک پرچہ ملا جس میں آپ کا خطبہ درج تھا۔ مَیں نے اسے پڑھا تو مجھے اتنا شوق پیدا ہو گیا کہ میں نے ایک لائبریری سے لے کر ’الفضل‘ باقاعدہ پڑھنا شروع کیا۔ پھر وہ لکھتا ہے خدا کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں اگر کوئی احراری آپ کے تین خطبے پڑھ لے تو وہ احراری نہیں رہ سکتا۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ خطبہ ذرا لمبا پڑھا کریں۔ کیونکہ جب آپ کا خطبہ ختم ہو جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دل خالی ہو گیا اور ابھی پیاس نہیں بجھی۔
تو سچائی کہاں کہاں اپنا گھر بنالیتی ہے۔ وہ چھوٹے بچوں پر بھی اثر ڈالتی ہے اور بڑوں پر بھی‘‘۔
٭… 1940ء میں غیرمبایعین کے مہمان خانہ کے ایک سابق منتظم نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھا:
’’آداب کے بعد عرض ہے کہ بندہ جناب سید حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹ کے خاندان اور حضرت مسیح موعود کے صحابہ سے ہے اور حضرت اقدسؑ کی بیعت کا شرف حاصل ہے۔ ان کے بعد حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی اس کے بعد چند ایک وجوہ سے لاہور کی جماعت کے ہاں سلسلہ آمدورفت رہا۔ مگر حضور کی عزت اور احترام بدستور میرے دل میں رہا۔
یہ میرا ایمان ہے کہ کسی جماعت کی تنظیم یا ترقی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کسی خلیفہ یا امیر کے ماتحت نہ ہو اور اس کے حکم کے ماتحت نہ چلے۔ مگر لاہور کی رہائش میں مجھے جو تجربہ ہوا وہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے امیر کے ماتحت چلتے ہیں۔ کئی ایک ان میں خود سر ہیں اور حضرت امیر مولوی محمد علی صاحب چشم پوشی فرماتے ہیں۔ دوسرے اخلاقی حالت بھی مصری عبدالرحمن صاحب کے لاہور آنے پر درست نہ رہی اور پبلک گفتگو بھی شرافت کی حد سے گر گئی ہے۔
چونکہ حضور کی عزت اور احترام میرے دل میں بہت تھا۔ اس لئے میں برداشت نہ کرسکتا تھا اور اکثر بحث مباحثہ تک نوبت پہنچتی تھی۔ جس سے مجھے قادیانی جاسوس کہنے لگے۔ چونکہ ان ایام میں میری رہائش لاہور احمدیہ بلڈنگ میں تھی اور میں سپرنٹنڈنٹ مہمان خانہ بھی تھا۔ اس لئے حالات زیادہ وضاحت سے معلوم ہوتے رہے جس سے میں ان لوگوں سے دلبرداشتہ ہو گیا اور حضور کی قدم بوسی کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ انہی دنوں جناب میر عبدالسلام صاحب لندن سے سیالکوٹ آئے ہوئے تھے جو کہ میرے ماموں زاد بھائی ہیں اور ہم زلف بھی ہیں۔ انہوں نے مجھے سیالکوٹ کی رہائش کا مشورہ دیا۔ چنانچہ دو سال سے میں سیالکوٹ میں ہوں۔ یہاں اخبار الفضل روزانہ پڑھتا رہا اور جناب ہمشیرہ صاحبہ سیدہ فضیلت بیگم سے تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہا جس سے میرے تمام شکوک رفع ہو گئے۔
اب میں حضور سے سابقہ غفلت اور کوتاہیوں کی معافی چاہتا ہوں اور حضور کی بیعت میں داخل ہوتا ہوں اور فارم بیعت پُرکرکے ارسال خدمت کرتا ہوں۔ حضور میری بیعت قبول فرمائیں اور میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے استقامت دے۔‘‘