الٰہی قدرت کا ایک روشن نشان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍جنوری 2005ء میں مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ایک مضمون میں اُن کی والدہ کی طاعون سے شفایابی سے متعلق ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ 74سال پہلے جب میں شاہجہانپور کے مشن ہائی سکول میں اسپیشل فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا تو اس وقت میرے والد صاحب کا انتقال ہوچکا تھا اور میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر تھا اور روزانہ ڈیڑھ دو میل پیدل چل کر مشن ہائی سکول جایا کرتا تھا۔ جلد ہی مجھے ایک پڑوسی سے جو سائیکلوں کی مرمت کرتے تھے دس روپیہ میں ایک مرمت شدہ سائیکل ہاتھ آگئی اور مجھے پیدل چلنے سے نجات مل گئی۔
ہم جس مکان میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہتے تھے وہ ایک بیوہ خاتون کی ملکیت تھا اور دوطرفہ بنا ہوا تھا۔ یہ رہائش ہمارے لئے سستی بھی تھی اور ہماری ضرورت سے زیادہ بھی۔ مالکہ مکان ایک بیوہ تھی جس کا اکلوتا جوان بیٹا دریا میں ڈوب کر فوت ہوچکا تھا اور یہ اس غم میں رو رو کر بینائی کھو بیٹھی تھیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سارے ملک میں طاعون پھیل چکی تھی۔ میں جب سکول پہنچتا تو کئی ساتھیوں کے طاعون سے مرجانے کی خبر پاکر دل دہل جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور بالآخر ہیڈ ماسٹر نے سکول غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیا۔ شہر میں ہو کا عالم اور موتا موتی کا منظر تھا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ ہمارے گھر سے بھی مرے ہوئے چوہے نکلنے لگے۔ مالکہ مکان بھی طاعون سے نہ بچ سکیں۔ ایسی حالت میں کس کا کفن دفن اور کس کی نماز جنازہ ایک ہندو ٹھیلے والا تھا جو دس روپے فی لاش لے کر دس پانچ لاشیں ٹھیلے پر لاد کر عواقب سے بے خبر ہو کر انہیں دریا برد کر دیتا تھا۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک روز میری والدہ کی ران میں بھی گلٹی نکل آئی۔ مجھ کو اپنی والدہ سے بڑی محبت تھی۔ میں بھاگ کر حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کی خدمت میں پہنچا، جو والد صاحب کی وفات کے بعد تنہا ہمارے کفیل تھے اور سڑک کے دوسری طرف کی گلی میں رہائش پذیر تھے۔ (یہ مکان اب بھی جماعت احمدیہ شاہجہانپور کی ملکیت ہے)۔ حافظ صاحب کو جب میں نے یہ پریشان کن خبر سنائی تو انہوں نے مجھے تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’بیٹا گھبراؤ نہیں اور فکر نہ کرو فوراً حکیم محمد صدیق صاحب کے پاس جا کر دوا لے آؤ اور جیسا وہ کہیں اس پر عمل کرو اور دعائیں بھی کرتے رہو۔ میں بھی دعا کر رہا ہوں‘‘۔ میں فوراً حکیم صاحب کے پاس حاضر ہوا اور مدعا بیان کیا۔ وہ ایک نیک اور ہمدرد انسان تھے۔ انہوں نے بھی مجھے تسلی دی اور کچھ گولیاں بھی دیں۔
میں نے گھر آکر فوراً یہ عمل شروع کر دیا لیکن شدت غم میں میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے جن کو میں نے داہنے ہاتھ کی آستین سے صاف کر ڈالا اور اماں پر ظاہر نہ ہونے دیا اور تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد حضرت حافظ صاحب کو بھی اطلاع دیتا رہا۔ جن حالات سے میں ان دنوں گزر رہا تھا آج ان کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ میں عواقب سے بے خبر ہو کر والدہ کی خدمت میں لگاہوا تھا۔ تیسرے روز خدا خدا کر کے گلٹی پھوٹ گئی۔ میں بھاگ کر حضرت حافظ صاحب کے پاس پہنچا پھر حکیم صاحب کو بتایا۔ دونوں نے حال سن کر اطمینان کا اظہار کیا اور کچھ گولیاں اَور دیں۔ ابھی یہ عمل جاری تھا کہ ایک اَور گلٹی گردن میں نکل آئی۔
بعد میں معلوم ہوا کہ جس مریض کو دوسری گلٹی نکل آئے وہ اس مرض سے نجات نہیں پاسکتا لیکن مجھے اس وقت اس بارے میں کچھ علم نہ تھا اور پھر بھاگ کر حضرت حافظ صاحب کے پاس پہنچا۔ انہوں نے یہ سن کر کچھ سکوت اختیار کیا لیکن میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی بولے کہ فکر کی کوئی بات نہیں، فوراً جا کر حکیم صاحب کو خبر کرو۔ میں بھاگم بھاگ حکیم صاحب کے پاس پہنچا اور نئی گلٹی کا حال سنایا۔ پہلے تو وہ بھی خاموش ہوگئے لیکن پھر فوراً ہی بول پڑے کہ فکر کی کوئی بات نہیں جس نے پہلی گلٹی کا زہریلا مواد نکال کر باہر پھینک دیا تھا وہ اس دوسری گلٹی کے اثر کو بھی زائل کر سکتا ہے۔ انہوں نے کچھ گولیاں دیں اور پچھلے عمل کو دہرانے کے لئے کہا۔ خدا کو اپنے پیارے مسیح موعود کے لئے ایک اور معجزہ دکھانا منظور تھا کہ تیسرے روز گردن کی گلٹی بھی پھوٹ گئی اور اس مہلک مرض سے بکلی نجات مل گئی۔
پھر میں بسلسلہ ملازمت مراد آباد چلا گیا اور والدہ تنہا رہ گئیں تو حضرت حافظ صاحب نے میری والدہ سے نکاح پڑھوا لیا۔ جب حضرت حافظ صاحب قادیان چلے گئے تو میری والدہ اس لق ودق مکان میں بالکل تنہا رہ گئیں۔ اسی دوران تقسیم ملک کا واقعہ پیش آگیا اور میں مراد آباد سے مع اہل وعیال نواب شاہ سندھ آگیا جہاں میرے خسر صاحب اسٹیشن ماسٹر تھے۔ پھر غالباً 1953ء میں پیلی بھیت (یوپی۔ انڈیا) میں بھی فسادات شروع ہوگئے تو والدہ صاحبہ نے مجھے لکھا کہ اب آکر مجھے لے جاؤ۔ چنانچہ مَیں تین ہفتہ کی رخصت لے کر شاہجہان پور پہنچا۔ اور اُنہیں اپنے ہمراہ لاہور لے آیا جہاں وہ میری ہمشیرہ کے پاس مقیم ہوگئیں اور وہیں اُن کا انتقال ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں