’امامِ اعظم‘ حضرت امام ابو حنیفہؒ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں فرمایا ’’وہ ایک بحرِ اعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں … امام بزرگ ابوحنیفہؒ کو علاوہ کمالات علم آثارِ نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں یدطولیٰ تھا‘‘ ۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں مکرم ظفراللہ خان طاہر صاحب کا مضمون ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اپریل 1997ء میں شاملِ اشاعت ہے۔
آپؒ کا نام نعمان، کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم تھا۔ 80ھ میں کوفہ میں فارسی النسل ثابت بن زوطی کے ہاں پیداہوئے جو کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ہوش سنبھالا تو آپؒ بھی اسی کاروبار میں شامل ہوگئے۔ ایک روز بازار سے گزر رہے تھے کہ کوفہ کے مشہور امام، امام شعبیؒ نے انہیں بلایا اور پوچھا کہاں جا رہے ہو؟۔ آپؒ نے کسی سوداگر کا نام لیا تو امام نے فرمایا ’میرا مطلب ہے پڑھتے کس سے ہو‘۔ آپ نے افسوس کے ساتھ جواب دیا ’’کسی سے بھی نہیں‘‘۔ اس پر شعبیؒ نے کہا ’’مجھ کو تم میں قابلیت کے جوہر نظر آتے ہیں۔ تم علماء کی صحبت میں بیٹھا کرو‘‘۔ آپؒ نے یہ نصیحت قبول کی اور نہایت اہتمام سے تحصیل علم پر متوجہ ہوئے اور پہلے علم العقائد (یعنی علم کلام) کے میدان کو منتخب کیا اور وہ کمال پیدا کیا کہ بڑے بڑے اساتذہ فن، آپؒ سے بحث نہیں کرتے تھے۔ پھر فقہ کے میدان میں اترے اور کوفہ کے مشہور امام حمادؒ کے شاگرد ہوئے۔ 120ھ میں جب آپؒ کی عمر 40 برس تھی تو امام حمادؒ کی وفات پر ان کی مسندِ درس پر آپؒ جلوہ افروز ہوئے ۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ کو حضرت امام باقر ؒ اور حضرت امام جعفر صادقؒ سے شاگردی کا تعلق تھا اور اہلِ بیت سے فطرتاً بہت محبت بھی تھی چنانچہ اس عقیدت کی بناء پر اموی خلفاء کو یہ گمان گزرا کہ آپؒ حکام کے خلاف بغاوت میں اہلِ بیت کے معاون ہیں لیکن چونکہ آپؒ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا اس لئے انہوں نے ایک طرف اہل بیت کے سرکردہ افراد کو شہید کردیا اور دوسری طرف آپؒ کو حکومت میں شامل کرنے کے لئے قضاء یا خزانہ کے شعبے پیش کئے گئے لیکن آپؒ کے معذوری ظاہر کرنے پر کو کئی روز تک قید میں رکھ کر آپؒ پر کوڑے برسائے جاتے رہے۔ جب آپؒ کو قید سے رہائی ملی تو آپؒ مکہ تشریف لے آئے جہاں جلاوطنی میں چھ سال بسر کئے اور اس دوران علمی مشاغل کو بھی ساتھ جاری رکھا۔
132ھ میں بنو امیہ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد خلافت پر عباسی خاندان قابض ہوا تو انہوں نے بھی فتنوں کو فرو کرنے کے نام پر مظالم شروع کئے۔ اہل بیت کے کئی سرکردہ افراد کو شہید کردیا گیا اور اہل بیت سے تعلق کی بناء پر امام ابو حنیفہؒ کو دربار میں حاضر ہونے کا فرمان جاری کیا۔ اس وقت منصورکی حکومت تھی ۔ اس نے آپؒ کو قاضی مقرر کرنا چاہا لیکن آپؒ نے انکار کردیا۔ آپؒ کے انکار پر اس نے غصہ میں آکر کہا ’’تم جھوٹے ہو‘‘۔ آپؒ نے فرمایا ’’ اگر میں جھوٹا ہوں تو اس عہدہ کے قابل نہیں ہوں کیونکہ جھوٹا قاضی نہیں مقرر ہوسکتا‘‘۔
اس جواب کے بعد منصور نے امام ابو حنیفہؒ کو قید کردیا۔ آپؒ نے قید میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا چنانچہ امام محمدؒ جو بعد میں فقہ حنفی کے دست و بازو بنے انہوں نے قید میں ہی آپؒ سے تعلیم پائی۔ آپؒ کے دوسرے نامور شاگرد امام ابو یوسفؒ ہیں ۔ چونکہ قید میں ہونے کے باوجود حضرت امام ابو حنیفہؒ کی شہرت ہر طرف پھیلتی جا رہی تھی جس سے منصور کو خطرہ لاحق تھا چنانچہ اس نے قید میں ہی آپؒ کو زہر دلوادیا اور اس طرح آپؒ رجب 150ھ میں وفات پاگئے۔ آپؒ کی نماز جنازہ چھ بار ادا کی گئی۔ پہلی بارشامل افراد کی تعداد 50 ھزار سے زائد تھی۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ کی وصیت کے مطابق آپؒ کو خیزران کے مشرقی جانب دفن کیا گیا جہاں سلطان ارسلان سلجوتی نے 459ھ میں آپؒ کا مقبرہ اور ساتھ ایک مدرسہ ’مشہد ابی حنیفہ‘ تعمیر کروایا جو بغداد کا پہلا مدرسہ خیال کیا جاتا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ نے آنے والے مسیح کو امام ابو حنیفہؒ سے مناسبت دی ہے کہ دونوں پرہیزگاری اور تقویٰ کی برکت اور سنت کی متابعت سے اجتہاد اور استنباط کے نہایت بلند درجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ دوسرے لوگ اس کے سمجھنے سے بھی قاصر ہیں اور دقّت معانی کی وجہ سے ان کے اجتہادات کو کتاب و سنت کے مخالف سمجھتے ہیں…۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’ہمارے نزدیک سب سے اول قرآن مجید ہے، پھر احادیث صحیحہ جن کی سنت تائید کرتی ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ان دونوں میں نہ ملے تو پھر میرا مذہب تو یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جاوے‘‘۔