امام وقت کی اطاعت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍نومبر 1999ء میں ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے کہ فرشتہ سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ جب 1936ء میں قادیان سے انگلستان کے لئے روانہ ہوئے تو رستہ میں بمبئی میں بھی مختصر قیام فرمایا جہاں مقامی جماعت کی درخواست پر نماز جمعہ پڑھائی اور خطبہ کے دوران فرمایا: ’’آپ سب جانتے ہیں کہ مَیں اس جگہ کی مقامی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا۔ میرا آپ لوگوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی تعلق یا شناسائی نہیں۔ حتی کہ مَیں آپ لوگوں سے ذاتی طور پر متعارف بھی نہیں لیکن بایں ہمہ آپ نے نماز جمعہ کے لئے مجھے اپنا امام بنانا پسند کیا ہے۔ میری یہ درخواست ہرگز نہ تھی۔ آپ لوگوں نے ازخود میرا انتظام کیا ہے۔ اس لئے اب آپ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس نماز میں درد دل کے ساتھ پورے طور پر میری پیروی کریں۔ آپ سب کو لازمی طور پر میری اقتدا کرنا ہوگی۔ کسی کو چون و چرا کی مجال نہ ہوگی۔ میری کسی غلطی پر آپ زیادہ سے زیادہ سُبْحَانَ اللّٰہ کہہ سکتے ہیں لیکن اگر مَیں نماز میں کوئی غلطی کر جاؤں تو آپ لوگوں کو بھی لازمی طور پر میری اقتدا میں وہ غلطی کرنا ہوگی، کسی کو نکتہ چینی کرنے کا حق نہ ہوگا۔ اس بات کے بیان کرنے سے میری غرض آپ کو یہ نصیحت کرنا ہے کہ ہمارے مذہب اسلام میں جب ایک معمولی آدمی جس کو صرف وقتی طور پر امام بنایا جائے اس کی اطاعت کا یہ تقاضا ہے تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام وقت حضرت خلیفۃالمسیح جن کے ہاتھ پر ہم سب نے بیعت کی ہوئی ہے، ان کی بہ دل و جان اطاعت اور فرمانبرداری کرنا کس قدر ضروری اور اس سے روگردانی کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔‘‘