امانات کی قادیان سے ربوہ منتقلی … 1947ء
محترم عزیز احمد صاحب سابق ناظر بیت المال کا مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ 25؍اکتوبر 1995ء کی زینت ہے جس میں آپ بیان کرتے ہیں صدر انجمن احمدیہ میں بطور امانت رکھوائے گئے زیورات ، دیگر امانات اور ریکارڈ کو قادیان سے بحفاظت پاکستان منتقل کرنے کی توفیق حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی رضی اللہ عنہ کو ملی تھی جس کا ذکر تاریخ احمدیت میں آ چکا ہے۔
بعد میں جمع ہونے والی مزید امانتوں کو لانے کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے مکرم میجر نصراللہ خان صاحب کو اس ہدایت کے ساتھ بھجوایا کہ مضمون نگار اور محترم شیخ عبدالحمید عاجز صاحب کے درمیان قرعہ اندازی کے ذریعہ فیصلہ کیا جائے کہ قادیان میں ناظر مال کے طور پر کون رہے گا۔ جس کا نام نکلے وہ امانات لاہور لائے اور پھر اپنے عزیزوں سے مل کر واپس چلا جائے اور اگر حالات کسی کو بھجوانے کی اجازت نہ دیں تو امانات میجر صاحب کے سپرد کرکے ان سے قرآن پر حلف لے لیا جائے کہ قومی امانت کی حفاظت کے لئے اگر جان بھی دینی پڑے تو وہ پرواہ نہیں کریں گے۔ اس ہدایت کی روشنی میں مضمون نگار قادیان سے آنے والے آخری قافلہ میں شامل ہوکر پہلے لاہور اور پھر مکرم قریشی محمد عبداللہ صاحب کے ہمراہ چنیوٹ پہنچے اور باقاعدہ دفتر کا آغاز کیا۔ دفتر کو ربوہ منتقل کرنے سے قبل حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر مکرم عبداللطیف صاحب اوورسیئر نے صرف ایک رات میں ایسا کمرہ تیار کروا دیا جس میں یہ امانات اور ریکارڈ بحفاظت رکھاجا سکتا تھا۔