امانت و دیانت کے چند واقعات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍نومبر 2006ء میں مکرم ابن کریم صاحب کے قلم سے بعض واقعات شامل اشاعت ہیں جو بے مثال امانت و دیانت کی زندہ مثالیں ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑنے بڑا ہی خوبصورت فقرہ تحریر فرمایا ہے: ’’تقویٰ کی باریک راہیں اختیار کرو‘‘۔ دراصل اس تعلیم میں آپ کا اپنا عکس نظر آتا ہے کہ کس طرح آپ نے خدا کی رضا کی باریک راہیں اختیار کیں۔ سیر کے دوران بعض صحابہ نے کسی کھیت سے لگے ہوئے کیکر سے مسواکیں اتاریں تو فرمایا: تم لوگوں نے اس کے مالک سے اجازت لی ہے؟ اور اسی طرح ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ بعض ہمراہیوں نے کسی کی بیری کے چند بیر اٹھا لئے ہیں تو یہی فرمایا: کیا مالک سے پوچھا ہے؟
یہ روح جماعت کے افراد میں خدا کے فضل سے پیدا ہو چکی ہے، دیانت اور امانت ان کا طرئہ امتیاز ہے۔ دوسروں کے اموال کی نگرانی اور حفاظت ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ اسی حوالے سے چند مشاہدات و واقعات پیش ہیں:
٭ مجھے گوجرانوالہ تعیناتی کے دوران ایک احمدی وکیل سے ملنے کچہری جانا پڑا۔ چند آدمی جو اپنے کسی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے وہاں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے دوران گفتگو وہاں کے ایک مجسٹریٹ کو اچھی خاصی گالی دی اور کہا اس نے یہ کام کہاں کرنا ہے۔ ایک احمدی دوست نے مجھے بتایا کہ وہ احمدی مجسٹریٹ ہیں انہوں نے ناجائز کام کرنا نہیں اور ایسے لوگ روزانہ ہی یہ سلوک ان سے کرتے ہیں۔
٭ پاکستان کے ایک شدید معاند احمدیت جرنیل اور صدر مملکت نے ایک طرف تو جماعت کو اپنے زعم میں مٹانے کے قوانین مقرر کئے اور اس کے باوجود آپریشن کروانے کے لئے یہ کہتے ہوئے ایک احمدی سرجن ہی سے رجوع کیا کہ ’’ اس وقت صرف آپ ہی واحد سرجن ہیں جن پر میں اعتماد کر سکتا ہوں‘‘۔
٭ مجھے ایک کاروباری دوست نے بتایا کہ میں فیصل آباد سے تھوک کے حساب سے سامان ربوہ لاتا ہوں۔ وہاںتھوک مرچنٹ کو جب یہ پتہ چلا کہ میں ربوہ سے تعلق رکھتا ہوں تو اس نے کہا مجھے تمہارے پیسوں کی اب کوئی فکر نہیں۔ اول تو ربوہ والے پیسے مارتے ہی نہیں اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو آپ کے ہاں جو نظام ہے اس کے ذریعہ ہم اپنا حق لے لیتے ہیں۔
٭ چند سال پہلے ایک تانگہ بان جو ربوہ کے قرب و جوار ہی سے تعلق رکھتے تھے احمدی ہوئے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کو احمدیت کی طرف کس طرح رغبت پیدا ہوئی۔ انہوں نے بتایا یوں تو احمدیوں کے اچھے اخلاق و کردار کے سبھی معترف ہیں مگر چند سال پہلے کا واقعہ میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ ہوا یوں کہ ایک رات میں نے سٹیشن سے فیکٹری ایریا کے لئے ایک نوجوان طالب علم کو بٹھایا اور دس روپے کرایہ طے کیا۔ جب ہم منزل پر پہنچے تو اُس نے مجھے دس روپے کا نوٹ دیا جو اندھیرے میں مَیں نے جیب میں رکھ لیا۔ مگر جب روشنی میں آکر دیکھا تو وہ دس کی بجائے پانچ روپے کا نوٹ تھا۔ اگلی صبح میںنے دیکھا کہ ایک نوجوان بڑی بے تابی سے مختلف تانگہ بانوں سے پوچھ رہا تھا کہ آپ تو رات کو مجھے نہیں چھوڑنے گئے تھے۔ بالآخر اس نے مجھے بھی روک کر یہی سوال کیا۔ میںنے اثبات میں جواب دیا تو اس نے پانچ روپے دئیے اور کہا کہ رات کو اندھیرے کی وجہ سے غلطی ہو گئی تھی اور بار بار معذرت کی۔ اس واقعہ نے میرے دل میں احمدیت کا بیج بودیا جو بعد میں درخت بن گیا۔
٭ ایک صاحب کا کوئی کیس ایک جماعتی دفتر میں چل رہا تھا۔ بقول ان کے مَیں اس لڑائی جھگڑے کی وجہ سے بہت بددل تھا اور بالکل کنارے پر پہنچ گیا تھا مگر ایک چھوٹی سی بات نے مجھ پر اتنا گہرا اور حیرت انگیز اثر کیا کہ میرا دل صاف ہوگیا۔ ہوا کچھ یوںکہ دفتر کے ایک کارکن سے میں نے معاملہ کی نقل مانگی۔ انہوں نے کہا کہ دو روپے اس کاپی پر خرچ آئے ہیں وہ آپ جمع کروا دیں۔ میں نے اُنہیں پانچ روپے دئیے تو اُس کارکن نے فوری طور پر مجھے تین روپے تھما دئیے۔ میں جانتا ہوں کہ دوسرے محکموں اور دفتروں میں تو حیلوں بہانوں سے روپے بٹورے جاتے ہیں اور بقائے کا تو تصور ہی نہیںہے مگر یہاں پائی پائی کا حساب بے باق کیا جاتا ہے۔ اس چھوٹی سی دیانتداری نے میرے پہاڑوں جیسے خدشات دُور کر دئیے۔
٭ محترم مولوی تاج دین صاحب مرحوم جو ناظم دارالقضاء تھے کی دیانتداری کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی صاحب تحفہ حتیٰ کہ عقیقہ وغیرہ کا گوشت بھی تحفتہً لاتے تو نام پوچھنے کے بعد اسے کہتے آپ تھوڑی دیرباہر ٹھہریں، اندر آ کر لسٹ دیکھتے کہ کہیں ان کا کوئی کیس تو نہیں۔ اگر کیس وغیرہ ہوتا تو معذرت سے وہ تحفہ واپس کر دیتے۔ دوسری طرف گھر کے اندر تنگدستی کا عالم یہ تھا کہ ایک د فعہ شدید بخار ہو گیا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ کچھ لوگ عیادت کے لئے گھر گئے تو دیکھا کہ آپ بخار کے باوجود صحن میں بیری کے درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ لوگوں نے اصرار کیا کہ مولوی صاحب یہاں باہر تو گرمی ہے اندر کمرہ میں جاکر پنکھے کے نیچے آپ آرام کریں۔ مگر مولوی صاحب نے بار بار اصرار کے باوجود یہی کہا کہ نہیں میں یہاں ٹھیک ہوں۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ اس قناعت پسند مخلص کے کمرہ میں کوئی بجلی سے چلنے والا پنکھا ہی موجود نہیں تھا اس لئے خاموشی کے ساتھ بیری کے درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ اِس وقت آپ کی ساری اولاد مریکہ میں مقیم ہے اور دین و دنیا کی حسنات سے خدا نے انہیں خوب نوازا ہے۔
٭ میرے ایک دوست کینیڈا سے ربوہ آئے تو ایک دفعہ کہیں سے تبادلے میں حاصل کی گئی رقم میں ایک بڑی مقدار جعلی کرنسی کی شامل ہو گئی۔ اُن کے علم میں جب یہ آیا تو جن جن جگہوں پر انہوں نے لین دین کیا تھا، ان لوگوں کے پاس فرداً فرداً گئے اور بتایا کہ مجھے ملنے والی رقم میں جعلی کرنسی کے نوٹ کسی نے عمداً دھوکہ دہی سے شامل کر دئیے ہیں اور میں انہیں روپوئوں میں سے خرید و فروخت کر چکا ہوں۔ آپ برائے مہربانی رقم چیک کر لیں کیونکہ یہ میرا ضمیر برداشت نہیں کرتا کہ مجھے تو نقصان پہنچ ہی چکا ہے اور آگے میں کسی کو دھوکہ دہی اور بد دیانتی سے نقصان پہنچائوں۔ چنانچہ اس طرح اُن کے نقصان کا ازالہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے بعض اب بھی ہمیشہ مجھے متشکرانہ نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں بڑے نقصان سے بچایا۔ حالانکہ یہ سب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تعلیمات ہی کا اثر ہے کہ ہم لوگ ایسی قباحتوں سے محفوظ ہیں اور ہمارے ضمیر بیدار ہیں۔
٭ محلہ کے ایک دکاندار نے سنایا کہ ہمارے ایک واقف زندگی گھرانہ کے بچوں کا میری دکان پر آنا جانا ہے۔ ایک دن مجھے بقایا رقم دینے میں غلطی لگ گئی۔ بچے نے پچاس روپے دئیے تھے، میں سمجھا اس نے سو روپیہ دیا ہے چنانچہ پچاس روپے زیادہ واپس کردیئے۔ بچہ یہ رقم پکڑے جب گھر پہنچا تو اس کی والدہ نے اس کی خوب خبر لی کہ تم نے خود رقم کیوں نہ چیک کی اور اگر دکاندار کو غلطی لگ گئی تھی تو تم یہ زائد رقم گھر لائے کیوں؟۔ پھر بچے کے والد اس کے ساتھ میری دکان پر آئے اور بچے کے ہاتھ سے وہ رقم واپس کی۔
یہ واقعہ سن کر مجھے وہ کہانی یاد آگئی جب ایک ایک نامی گرامی چور نے تختہ دار پر چڑھائے جانے سے پہلے اپنی ماں کو پیار کرنے کے بہانے اُس کا کان چبالیا تو لوگوں نے کہا بدبخت آخری وقت میں تم نے ایک اَور ظالمانہ فعل کرڈالا۔ اُس نے کہا حقیقت یہ ہے کہ بچپن میں جب چھوٹے موٹے جرائم کرتا تو میری ماں کبھی برا نہ مناتی بلکہ میرے جرم پر پردہ ڈالتی، اگر اس وقت مجھے ٹوک دیا جاتا تو آج میں اس انجام کو نہ پہنچتا۔
٭ حضرت بابا صدرالدین صاحب قادیانیؓ نہایت مخلص سادہ طبع اور نیک سیرت بزرگ تھے۔ شروع ایام میں تو اپنے پیشے (کمہار) کا ہی کام کرتے تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے آٹے اور دالوں کی دوکان کھول لی۔ یہ کاروبار خوب چلا لیکن تقسیم ہند سے کچھ قبل کاروبار میں خاصا نقصان ہو گیا اور آپؓ مقروض ہو گئے۔ تقسیم ہند کی وجہ سے کاروبار جاتا رہا اور بابا جی محض درویشی وظیفہ پر گزارہ کرنے لگے۔ لیکن آفرین ہے اس بوڑھے کی جواں ہمتی پر کہ اس نے زمانہ درویشی ہی میں وہ قرض بے باق کردیا۔ اس طرح کہ انہوں نے لنگر خانے کو آٹا دالوں کی سپلائی شروع کر دی۔ ساری اجناس وہ اپنے بوڑھے کمزور ہاتھوں سے صاف کرتے اور خود چکی چلاکردالیں بناتے اور یوں اس 80 سالہ پیر فرتوت نے اپنی جھریوں والی کمزور بانہوں کے بل پر سارا قرض اتار دیا۔