امریکہ میں احمدیت کی تاریخ کا ایک ورق
جماعت احمدیہ امریکہ کے اردو ماہنامہ ’’النور‘‘ ستمبر/اکتوبر2009ء میں امریکہ میں احمدیت کے آغاز کے حوالہ سے حضرت مولوی حسن علی صاحب کا ایک صدی قبل کا تحریر کردہ ایک مضمون شامل اشاعت کیا گیا ہے جو اخبار ’’بدر‘‘ قادیان کی ایک پرانی اشاعت سے لیا گیا ہے۔
محترم شیخ محمد الیگزینڈر رَسل ویب
امریکہ کے شہر ہڈسن علاقہ نیویارک میں 1846ء میں ایک شخص پیدا ہوا جس کا نام الیگزینڈر رسل ویبؔ رکھا گیا۔ اس شخص کا باپ ایک نامی و مشہور اخبار کا ایڈیٹر و مالک تھا۔ ویبؔ صاحب نے کالج میں پوری تعلیم پائی اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چل کر ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا۔ویب صاحب کی لیاقت علمی، طرز تحریرکا شہرہ دُور دُور ہوا تو روزنامہ ’’سینٹ جوزف مسوری ڈیلی گزٹ‘‘ کا ایڈیٹر بننے کی پیشکش ہوئی۔ پھر اس کے بعد کئی اخبارات کی ادارت آپ کے سپرد ہوتی رہی۔ جس اخبار کے ویبؔ صاحب ایڈیٹر رہے وہ امریکہ کا دوسرا بڑا اخبار تھا۔ آپ کی لیاقت کے اعتراف میں بعد ازاں آپ کو فلپائن میں امریکہ کا سفیر مقرر کیا گیا۔
1872ء میں مسٹر ویبؔ نے دین عیسوی کو ترک کردیا۔ انہوں نے دیکھا کہ عیسائی مذہب سراسر خلاف عقل و عدل ہے۔ کئی برس تک ویبؔ صاحب کا کوئی دین نہ تھا لیکن ان کو ایک قسم کی بے چینی تھی چنانچہ مختلف ادیان پر غور کرتے رہے۔ پہلے بُدھ مذہب کی کامل تحقیقات کی لیکن اس مذہب کو تشفی بخش نہ پایا۔ اسی زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مجدّد زمان کے انگریزی اشتہارات کی یورپ و امریکہ میں خوب اشاعت ہورہی تھی۔ ویبؔ صاحب نے اس اشتہار کو دیکھا اور مرزا صاحب سے خط و کتابت شروع کی جس کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ویبؔ صاحب نے دین اسلام قبول کرلیا۔
حضرت حاجی عبداﷲ عرب صاحب ایک میمن تاجر تھے جو پہلے کلکتہ میں تجارت کرتے تھے اور جب اﷲتعالیٰ نے لاکھ دو لاکھ کی پونجی کا ان کو سامان کردیا تو ہجرت کر کے مدینہ میں جابسے۔ وہاں باغوں کے بنانے میں بہت کچھ صرف کیا۔ بہت عمدہ باغ تیار تو ہوگئے لیکن عرب کے بدوؤں کے ہاتھوں پھل ملنا مشکل تھا۔ آخر بیچارے پریشانی میں مبتلا ہوئے اور جدّہ میں مختصر پونجی سے تجارت شروع کردی ۔ بمبئی سے تجارتی تعلق ہونے کی وجہ سے ہندوستان بھی کبھی آجاتے۔ آپ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کے مومن اور مادرزاد ولی تھے۔ مثل بچوں کے دل گناہوں سے پاک و صاف، خداپر بہت ہی بڑا توکّل ، ہمت نہایت بلند، مسلمان کی خیر خواہی کا وہ جوش کہ صحابہ یاد پڑجائیں۔ مجھ کو آپ کے ساتھ رہنے کا عرصہ تک موقعہ ملا۔ اگر میں ان کی روحانی خوبیوں کو لکھوں تو بہت طول ہوجائے گا۔ اﷲکا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس آخری زمانہ میں بھی اس قسم کے مسلمان موجود ہیں۔ مکہ معظمہ میں نہر زبیدہ کی اصلاح کے لئے قریب چار لاکھ روپیہ چندہ عبداﷲ عرب صاحب کی کوشش سے ہی جمع ہوا تھا۔
عبداﷲ عرب صاحب نے جب الیگزینڈر رسل ویب سفیر امریکہ کے مسلمان ہونے کا حال سنا تو فوراً انگریزی میں خط لکھوا کر ویبؔ صاحب کے پاس روانہ کیا۔ ویبؔ صاحب نے بھی ویسی ہی گرمجوشی کے ساتھ جواب دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگرآپ کسی طرح منیلا (فلپائن) آسکتے تو امریکہ میں اشاعت اسلام کے کام میں کچھ صلاح و مشورہ کیا جاتا۔ حاجی عبداﷲعرب صاحب کو حضرت سید اشہدالدین جھنڈے والے سے بیعت ہے۔ جب کوئی اہم کام درپیش ہوتا ہے تو آپ اپنے پیرو مرشد سے ضرور صلاح و مشورہ لیتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے جب اپنے مرشد سے منیلاجانے کے بارے میں استفسار کیا تو حضرت پیر صاحب نے استخارہ کیا اور کہا کہ ضرور جاؤ، اس سفر میں کچھ خیر ہے۔ عبداﷲعرب نے مجھ کو خط لکھا کہ مَیں بھی منیلا چلوں کیونکہ آپ انگریزی نہیں جانتے اور ویبؔ صاحب اُردو نہیں جانتے اس لئے ایک مترجم ضروری ہے۔
مَیں اُس زمانہ میں کٹک میں تھا۔ کلکتہ میں حاجی صاحب میرا انتظار کرتے رہے مگر مسلمانان کٹک نے مجھ کو جلد رخصت نہ دی۔ آخر وہ ایک یوریشین نومسلم کو لے کر منیلا چلے گئے۔ اس سفر میں حاجی صاحب کا ہزار روپیہ سے زیادہ صرف ہوا۔
ویبؔ صاحب سے ملاقات ہوئی تو یہ بات طے پائی کہ ویبؔ صاحب سفارت کے عہدہ سے استعفیٰ دیدیں اور حاجی عبداﷲ عرب صاحب امریکہ میں اشاعت اسلام کے لئے چندہ جمع کریں۔ حاجی صاحب نے ہندوستان واپس آکر مجھ سے ملاقات کی اور میرے ذریعہ سے ایک جلسہ حیدرآباد میں منعقد ہوا جس میں چھ ہزار چندہ بھی جمع ہوا۔ مَیں نے حاجی صاحب سے کہہ دیا کہ ویبؔ صاحب کو اُس وقت تک عہدہ سے علیحدہ ہونے کو نہ لکھیں جب تک چندہ پورا جمع نہ ہو لے۔ لیکن حاجی صاحب نے اپنے جوش میں میری نہ سنی اور بمبئی سے تار دیا کہ سب ٹھیک ہے، نوکری سے استعفیٰ داخل کر دو۔ چنانچہ ویبؔ صاحب ہندوستان آئے ۔ مَیں بمبئی سے ساتھ ہوا۔ بمبئی ، پونہ، حیدرآباد میں ویبؔ صاحب نے مجھ سے کہا کہ جناب مرزا غلام احمد صاحب کا مجھ پر بڑا احسان ہے، اُنہی کی وجہ سے میں مشرف بہ اسلام ہوا۔ مَیں اُن سے ملنا چاہتا ہوں۔ مرزا صاحب کی بدنامی وغیرہ کا جو قصہ میںنے سنا تھا اُن کو سنایا۔ ویبؔ صاحب نے حضرت مرزا صاحب کو ایک خط لکھوایا۔ جس کا جواب آٹھ صفحہ کا حضرت نے لکھ کر بھیجا اور مجھ کو لکھا کہ لفظ بہ لفظ ترجمہ کرکے ویبؔ صاحب کو سنادینا۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ ویبؔ صاحب نہایت شوق و ادب کے ساتھ حضرت اقدس کا خط سنتے رہے۔ خط میں حضرت نے اپنے اس دعویٰ کو مع دلیل کے لکھا تھا۔ پنجاب کے علماء کی مخالفت اور عوام میں شورش کا تذکرہ تھا۔ حضرت نے یہ بھی لکھا تھا کہ مجھ کو بھی تم سے (یعنی ویبؔ صاحب سے)ملنے کی بڑی خواہش ہے۔
ویبؔ صاحب، حاجی عبداﷲعرب صاحب اور مَیں نے غور کرکے فیصلہ کیا کہ ایسے وقت میں کہ ہندوستان میں چندہ جمع کرنا ہے مصلحت نہیں ہے کہ ایک ایسے بدنام شخص سے ملاقات کرکے اشاعت اسلام کے کام میں نقصان پہنچایا جائے۔ اب اس بدفیصلہ پر افسوس آتا ہے۔
ویبؔ صاحب لاہور گئے تو اسی خیال سے قادیان نہ گئے لیکن بہت بڑے افسوس کی بات یہ ہوئی کہ ایک شخص نے ویبؔ صاحب سے پوچھا کہ آپ قادیان حضرت مرزا صاحب کے پاس کیوں نہیں جاتے تو انہوں نے یہ گستاخانہ جواب دیا کہ قادیان میں کیا رکھا ہے!۔ لوگوں نے ویبؔ صاحب کے اس نامعقول جواب کو حضرت اقدسؑ تک بھی پہنچادیا۔
غرض ہندوستان کے مشہور شہروں کی سیر کرکے ویبؔ صاحب تو امریکہ جا کر اشاعت اسلام کے کام میں سرگرم ہوگئے۔ دوماہ تک مَیں اُن کے ساتھ رہا۔ وہ حقیقت میں آدمی معقول ہیں اور اسلام کی سچی محبت اُن کے دل میں ہے۔ مجھ سے جہاں تک ہوسکا اُن کی معلومات بڑھانے ، کَج خیالات کو درست کرنے اور مسائل ضروری کی تعلیم دینے میں کوشش کی اور شیخ محمد میرا ہی رکھا ہوا اُن کا نام ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں نے چندہ کا وعدہ تو کیا تھا لیکن ادا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا تھا۔ حاجی عبداﷲعرب صاحب نے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارا اور پھر سخت مایوسی کی حالت میں اپنے مُرشد کی خدمت میں جاکر سارا ماجرا عرض کیا۔ حضرت پیر صاحب نے استخارہ کیا تو معلوم ہوا کہ انگلستان اور امریکہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے روحانی تصرفات کی وجہ سے اشاعتِ اسلام ہورہی ہے اُن سے دعا منگوانے سے کام ٹھیک ہوجائے گا۔ اس پر حاجی صاحب نے بیان کیا کہ جناب مرزاغلام احمد صاحب کی علمائے پنجاب و ہند نے تکفیر کی ہے ان سے کیونکر اس بارہ میں کہا جائے۔ اس بات کو سن کر شاہ صاحب نے بہت تعجب کیا اور دوبارہ اﷲکی طرف متوجہ ہوئے اور استخارہ کیا۔ خواب میں جناب حضرت محمد مصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد اس زمانہ میں میرا نائب ہے وہ جو کہے وہ کرو۔ صبح کو شاہ صاحب نے کہا کہ اب میری حالت یہ ہے میں خود مرزا صاحب کے پاس چلوں گا اور اگر وہ امریکہ جانے کا کہیں تو میں جاؤں گا۔ جبکہ حاجی عبداﷲعرب صاحب نے اور دوسرے صاحبوں نے خواب کا حال سنا اور پیر صاحب کے ارادہ سے واقف ہوئے تو مناسب نہ سمجھا کہ پیر صاحب خود قادیان جائیں۔ سب نے عرض کیا کہ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ آپ کی طرف سے کوئی دوسرے صاحب حضرت مرزا صاحب کے پاس جا سکتے ہیں۔ چنانچہ پیر صاحب کے خلیفہ عبداللطیف صاحب اور حاجی عبداﷲعرب صاحب قادیان گئے اور سارا قصہ بیان کرکے خواستگار ہوئے کہ حضرت اقدسؑ اس طرف متوجہ ہوں تاکہ اشاعت اسلام کا کام امریکہ میں عمدگی سے چلنے لگے۔
حاجی عبداﷲعرب صاحب سے مجھ کو ایک اَور عجیب بات معلوم ہوئی کہ قسطنطنیہ میں سیّد فضل صاحب ایک باکمال بزرگ رہتے ہیں جن کو سلطان روم بہت پیار کرتے ہیں۔ سید فضل صاحب کے بزرگوں میں ایک شیخ گزرے ہیں جو صاحبِ کشف و کرامات تھے۔ وہ اپنے ملفوظات میں لکھ گئے ہیں کہ آخری زمانہ میں مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو مغربی ملکوں میں ایک بہت بڑی قوم گورے رنگ والی حضرت مہدی علیہ السلام کی بڑی معین و مددگار ہوگی اور وہ سب داخلِ اسلام ہوگی۔ واﷲاعلم بالصواب۔
محترم شیخ محمد الیگزینڈر رسل ویب صاحب نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی وفات پر جو خط لکھا اس میں حضرت صاحب کے ساتھ اپنی بیس سالہ واقفیت کا ذکر کرتے ہوئے اقرار کیا ہے کہ بیشک مرزا صاحب خداتعالیٰ کے انبیاء میں سے تھے۔