انبیائے کرام کی سرزمین۔ فلسطین
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24جون 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍جولائی 2013ء میں انبیائے کرام کی سرزمین ’’فلسطین‘‘ کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
فلسطین بحیرہ روم کے انتہائی مشرقی حصے کے آخر میں واقع ہے۔ اس کے اطراف میں لبنان، اردن اور صحرائے سینا واقع ہیں۔ فلسطین کا کُل رقبہ چودہ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔
فلسطین یونانی لفظ Palaistina سے ماخوذ ہے۔ ماہرینِ آثارقدیمہ کے مطابق اس مقدّس زمین پر قریباً نو ہزار قبل مسیح میں قوموں نے بسنا شروع کیا لیکن اس کی تاریخ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دَور سے مرتب ہوئی۔ عہدقدیم میں یہاں یہودیہ اور سامریہ کی حکومتیں قائم تھیں۔
مسلمانوں کے لیے فلسطین ایک مقدّس مقام ہے۔ ہجرت کے سترہ ماہ بعد تک مسلمان اسی جگہ یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہدمبارک کے دوران 636ء میں بیت المقدس فتح ہوا اور حضرت امیر معاویہؓ کے دَور میں فتح عسقلان کے ساتھ فلسطین کی فتح بھی مکمل ہوگئی۔ 1009ء میں فاطمی خلیفہ ابومنصورالعزیز اور عیسائیوں کے درمیان طویل صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا۔ 1099ء میں یورپی عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور ایک بار پھر یروشلم میں لاطینی حکومت تشکیل دے دی گئی۔ صلیبی جنگیں جاری رہیں اور بالآخر 4؍جولائی 1187ء کو حطین کے فیصلہ کُن معرکے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کراکے عیسائی بادشاہت کا خاتمہ کردیا۔ 1516ء میں عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اوّل نے فلسطین کو سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کرلیا۔ 1882ء سے 1903ء تک عثمانی حکومت نے یہودیوں کو دوبارہ یہاں آباد ہونے کی اجازت دی تو روس سے کثیر تعداد میں یہودی یہاں آکر آباد ہوگئے۔
جنگ عظیم اوّل میں ترکی کی شکست کے ساتھ ہی مسلمان ریاستوں کو بکھیر دیا گیا اور فلسطین برطانیہ کے زیرانتظام آگیا۔ برطانیہ نے 2؍نومبر 1917ء کو اعلانِ بالفور کے ذریعے یہودیوں کو اُن کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا یقین دلایا۔ چنانچہ ایک ماہ بعد برطانوی فوجوں نے جنرل ایلن لی (Elen Lee) کی قیادت میں بیت المقدس کا گشت کرنے کے بعد اعلان کیا کہ آج صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ حکومت برطانیہ نے 1922ء میں مجلس اقوام (League of Nations) سے فلسطین کو اپنے زیرنگرانی رکھنے کی قانونی آڑ حاصل کرلی اور پھر یہودیوں کو فلسطین میں بِلاروک ٹوک داخلے کی اجازت مل گئی۔ چنانچہ فلسطین میں یہودیوں کی تعداد جو 1919ء میں 58ہزار تھی، 1941ء میں بڑھ کر چھ لاکھ آٹھ ہزار ہوگئی۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر 1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے بعد یہودیوں کو غیرمعمولی مراعات دی گئیں اور 29؍نومبر 1947ء کو اقوام متحدّہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کرکے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔ چند ماہ بعد برطانیہ نے فلسطین سے اپنی فوج واپس بلالی اور 14؍مئی 1948ء کو ’’یہودی کونسل‘‘ نے ڈیوڈ بن گوریان کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کرلی۔