انجیل کے جلائے گئے اوراق
ابتدائی عیسائیوں میں کئی موحد فرقے بھی تھے جو آج تک ’’یونیٹیرین چرچ‘‘ کے نام سے چلے آتے ہیں۔ 235ء میں اکثریتی عیسائیوں کی ایک کونسل (Council of Nicea) نے سینکڑوں انجیلوں کو جلا دیا اور صرف موجودہ چار انجیلوں کو مستند قرار دیا جن میں تثلیثی عقائد درج تھے۔ امریکہ کے دو پروفیسروں کو برلن کے ’’مصری میوزیم‘‘ میں 1991ء میں ایک ایسی ہی جلی ہوئی انجیل کے پندرہ صفحے ملے تھے جو کسی طرح جلنے سے بچ گئے تھے اور ان صفحات کے بارے میں ایک رپورٹ آسٹریلیا کے ایک اخبار ’’سڈنی مارننگ ہیرلڈ‘‘ میں شائع ہوئی ہے جس کا ترجمہ مکرم چودھری خالد سیف اللہ خان صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ جون 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان صفحات میں یسوع مسیح اور انکے پیروکاروں کے درمیان گفتگو درج ہے۔ پروفیسر میریکی نے، جو قدیم تحریروں کے پڑھنے کے علم کے ماہر ہیں، کہا کہ انہیں یقین ہے کہ متن میں کوئی دھوکہ یا بناوٹ نہیں اور یہ یقینی طور پر چوتھی یا پانچویں صدی کا قدیم نسخہ ہے۔ مسودہ قبطی (Coptic) زبان میں لکھا ہوا ہے جو مصر کی ایک قدیم زبان تھی جس میں یونانی حروف ابجد استعمال ہوتے تھے۔ یہ کتاب عیسائیوں کے ایسے اقلیتی فرقہ نے لکھی تھی جو خود کو عارفینGnostics or Knowers کہتے تھے۔ یہ انجیل صاف طور پر اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ شروع میں کئی اقلیتی فرقے موجود تھے جو یا تو عیسائیوں کے بڑے بڑے فرقوں کے اندر مدغم کردیئے گئے یا خود بخود ہی ختم ہوگئے تھے اور ان کو موت کی حد تک اذیتیں دی جایا کرتی تھیں اور ان کی کتب نذرِ آتش کردی جاتی تھیں۔