انقلاب انگیز نمازیں
حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک عظیم الشان کارنامہ توحید کے قیام کے ساتھ ان نمازوں کا احیاء ہے جو دیکھنے اور سننے والوں کے دلوں کو فتح کر لیتی ہیں۔ سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں: ’’میں دیکھتا ہوں کہ لوگ بیعت کے بعد معاً ایک پاک تبدیلی اپنے چال چلن میں دکھلاتے ہیں وہ نماز کے پابند ہوتے ہیں اور منہیات سے پرہیز کرتے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیتے ہیں‘‘۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6و7مئی 2004ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے مسیح محمدی کے غلاموں کی روح پرور عبادتوں اور انقلاب انگیز نمازوں کی تصویرکشی کی گئی ہے۔
٭ حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں: فروری 1903ء میں خاکسار قادیان گیا تو ہر وقت نماز، درس القرآن اوراسرارحق کا بیان ہی دیکھا۔ مجھے حقہ کی عادت تھی، میں نے کسی جگہ بھی حقہ نہ دیکھا اور اس سے متاثر ہو کر حقہ کو خیرباد کہہ دیا۔ مہمان خانہ میں شہزادہ عبد اللطیف صاحبؓ اور دیگر افغان بھی فروکش تھے۔ رات کے وقت جب بھی آنکھ کھلتی تو ان لوگوں کو تہجد پڑھتے دیکھتا۔ نماز فجر کے بعد تمام طلباء تلاوت قرآن کریم میں مشغول دیکھے گئے۔ شیخ غلام احمد صاحب شیر فروش کی دکان پر بعض لوگ خود ہی حسب ضرورت دودھ پی لیتے اور قیمت رکھ جاتے۔ ایک دفعہ مسلسل ایک ماہ قادیان میں رہ کر جب اپنے گاؤں کریام آیا تو ایک شخص کو گالی نکالتے سنا۔ میں نے کہا پورے ایک ماہ بعد یہ ناشائستہ آواز میرے کانوں میں پڑی ہے۔
٭حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کو بیعت کی توفیق فروری 1892ء میں ملی۔ قبول احمدیت سے قبل آپ کو نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی کی طرف توجہ نہ تھی۔ لیکن پھر ایسا خشوع وخضوع اور حضور قلب میسر آیا کہ آپؓ کے والد حضرت مرزا نیاز بیگ صاحب نے ایک دوست کو بتایا: میں گھنٹوں سوچ میں پڑا رہتا تھا کہ میں نے بچوں پر اتنا روپیہ صرف کیا اور تعلیم دلائی مگر ان کی دینی حالت مایوس کن ہے مگر جب یہ بچے (مرزا ایوب بیگ صاحب اور مرزا یعقوب بیگ صاحب) تعطیلات میں گھر آئے تو ان میں عجیب تغیر دیکھا کہ نماز سوزو گداز سے پڑھتے ہیں…۔ (آپ نے جب معلوم کیا کہ یہ تبدیلی حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کی وجہ سے ہے تو انہوں نے بھی بیعت کر لی)۔
٭ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحبؓ بقاپوری فرماتے ہیں کہ بیعت کے بعد جب میں واپس گاؤں آیا تو شدید مخالفت ہوئی۔ اس زمانہ میں مجھے دن بدن نمازوں میں زیادہ سرور اور لذت حاصل ہو رہی تھی۔ گھر میں بڑے بھائی کے سوا والدین اور چھوٹا بھائی بھی میرے مخالف ہو گئے اور اکثر برا بھلا کہتے رہتے۔
جب ایک ماہ گزر گیا تو میری والدہ والد صاحب کو کہنے لگیں کہ اس کو کیوں برا کہتے رہتے ہو، یہ تو پہلے سے زیادہ نمازیں پڑھتا ہے اور تہجد کا بھی پابند ہے۔ والد صاحب نے کہا: اس نے مرزا کو مان لیا ہے جو مہدی کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ بولیں کہ امام مہدی کے معنی تو ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں اور اس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے۔ پھر مجھے کہا: ’’بیٹا میری بیعت کا خط بھی لکھ دو‘‘۔ اس کے بعد سوائے والد صاحب کے باقی گھر والے خاموش ہو گئے۔ لیکن میں نے ان کو قائل کرنا نہ چھوڑ ا۔ آخر ایک سال کے اندر سوائے ایک بھائی کے سب نے بیعت کر لی۔
٭ دوبھائی ڈاکٹر علی اظفر صاحب اور ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر کم عمری میں ہی بغرض ملازمت مشرقی افریقہ چلے گئے جہاں حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ پہلے سے ملازم تھے۔ اور لوگوں میں نیک اور پاک اور عابد یقین کئے جاتے تھے۔ مکرم ڈاکٹر فیض علی صاحب بتایا کرتے تھے کہ دین کی طرف میرا دھیان کم تھا۔ بڑے بھائی کو ملنے آیا تو اُن کے اندر نمایاں تبدیلی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ خوبصورت چہرہ پر داڑھی عجب بہار دکھا رہی تھی اور نماز وعبادت سے شغف بڑھ گیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ آپ مکرم ڈاکٹر صاحبؓ کی تبلیغ سے احمدی ہوچکے ہیں۔ اپنے بھائی میں یہ تغیر دیکھ کر مَیں نے بھی بیعت کا خط لکھ دیا۔ پھر قادیان آکر دستی بیعت بھی کرلی۔
٭ حضرت منشی محمد اسماعیل صاحبؓ سیالکوٹی نے بیعت سے پہلے ایک دفعہ اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ غلام قادر نماز پڑھا کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو نماز پڑھ کر کیا مل گیا۔ آپ نے سوچا کہ بھائی سچ کہتا ہے اس لئے نماز خود بھی ترک کردی۔ بعد میں جب آپ نے بیعت کر لی تو کچھ عرصہ بعد پھر بھائی کو نماز پڑھنے کی نصیحت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ اب پڑھا کروں گا کیونکہ اب محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو کچھ مل گیا ہے۔ بالآخر بھائی نے بھی بیعت کر لی اور نہ صرف نمازیں بلکہ تہجد پڑھنے لگے۔
٭ محترم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے بزرگ حنفی المذہب تھے۔ مگر سچائی کی جستجو میں اہلحدیث میں شامل ہو گئے۔ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں پڑھتے تھے جہاں پادری ینگ سن سے بحث مباحثہ رہتا تھا۔ جس میں حیات مسیح کے عقیدہ کی وجہ سے سخت زک اٹھانا پڑتی تھی۔ اس وجہ سے دین میں شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ بعض مرتبہ آریہ بن جانے کا خیال آتا۔ طبیعت کی اس بے چینی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ پڑھی اور کچھ دن بعد سیالکوٹ میں حضورؑ کی زیارت کی تو دل اس یقین سے بھر گیا کہ یہ منہ جھوٹے کا نہیں ہو سکتا۔ مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی تقریر سنی تو پھر روحانی سکون برباد ہو گیا۔ ان ایام میں ایک صوفی منش بزرگ سے وظائف سیکھے مگر سکون نصیب نہ ہوا۔ اس کے بعد ’’براہین احمدیہ‘‘ پڑھ کر یقین ہو گیا کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ سمجھ میں آئے یا نہ آئے، بلا شبہ دین کی صداقت کے دلائل صرف آپ ہی بیان کر سکتے ہیں۔ پھر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ والا مضمون سن کر اس خیال کو اور بھی تقویت پہنچی۔ اس کے بعد آپ بسلسلہ ملازمت افریقہ چلے گئے۔ واپس آئے تو ضلع سیالکوٹ اور پھر ضلع گورداسپور میں پلیگ ڈیوٹی پر متعین ہوئے۔ اہل وعیال امرتسر میں تھے۔ ایک روز اطلاع ملی کہ آپ کا دو سالہ لڑکا ممتاز احمد سخت بیمار ہے تو آپ گھبراگئے۔ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر گھر پہنچے۔ رخصت ختم ہوئی مگر بچے کے بخار میں ذرہ بھر افاقہ نہ ہوا۔ بیگم نے کہا گورداسپور تو جانا ہی ہے قادیان جا کر حضرت مرزا صاحب سے دعا ہی کرالو۔ یہ سن کر قادیان کی راہ لی۔ دوبجے رات قادیان پہنچے تو دیکھا کہ مسجد مبارک تہجد گزار لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ جب آپ نے حضورؑ سے کوئی وظیفہ پوچھا تو فرمایا ’’یہی نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور سمجھ سمجھ کر پڑھا کرو‘‘۔ پھر بچے کی صحت کے لئے دعا کی درخواست کی تو حضورؑ نے اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کر دی۔ بیعت کرکے ڈیوٹی پر پہنچے تو تیسرے روز خط ملا کہ لڑکا بالکل اچھا ہے۔ پتہ چلا کہ جس صبح حضورؑ سے دعا کروائی تھی، اس روز حالت بہت خراب تھی مگر پچھلی رات اچانک بخار اتر گیا۔ ڈاکٹر کو اطلاع دی تو وہ مانتا ہی نہ تھا۔ اور کہنے لگا کہ یہ کوئی اعجاز مسیحائی ہے کہ مردہ زندہ ہو گیا۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے دورہ گوئٹے مالا کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے سیکورٹی چیف نے مجھ سے درخواست کی کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ بڑی خوشی کے ساتھ پڑھیں۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ میری بیوی کٹر کیتھولک ہے وہ ہمیشہ مجھے کہا کرتی ہے کہ فلاں منسٹر نے بہت اچھی سروس کی اور اس کا دل پر بڑا اثر ہوا ہے۔ تم بھی کبھی آؤ۔
انہوں نے کہا کہ آپؒ کے ساتھ جو دوتین دن گزارے ہیں اور آپ کی نمازیں دیکھی ہیں تو میں نے اپنی بیوی سے جا کر کہا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ روحانیت کیا ہوتی ہے۔ تم احمدیوں کو نماز پڑھتے دیکھ لو تو تمہیں پتہ لگے کہ دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ بعد میں انہوں نے اور ان کے سٹاف نے کہا کہ دل سے تو ہم اسلام کے پیروکار ہو چکے ہیں اب دیر یہ ہے کہ اپنے خاندانوں کو سمجھا لیں۔ چنانچہ بعد میں انہوں نے بیعت کر لی۔
٭ حضرت شیخ محمد دین صاحب تحریر فرماتے ہیں: منشی عمر دین صاحبؓ نماز پڑھتے، قرآن مجید کی تلاوت روزانہ کرتے اور اخبار بدر بھی قادیان سے ان کے پاس آتا تھا۔ مجھے اُن کی نیکی کو دیکھ کر رغبت پیدا ہوئی اور اُن کی تحریک پر ہی حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں تحریری بیعت کا خط لکھ دیا۔
٭ پشاور کے خواجہ محمد شریف صاحب بٹالویؓ کا حسن سلوک اور اعلیٰ اخلاق دیکھ کر آپکی اہلیہ نے بھی احمدیت قبول کر لی۔ اگر کوئی عورت دریافت کرتی کہ آپ کا خاوند احمدی ہو گیا ہے تو جواب دیتیں کہ جب سے میرا شوہر احمدی ہوا ہے اس کا سلوک مجھ سے بڑا اچھا ہے اور سچ بولتا ہے اور سچی بات پسند کرتا ہے اور پہلے سے زیادہ نیک اور دیندار ہو گیا ہے۔
جب آپؓ کی خوشدامن نے اپنی بیٹی کو کہا کہ اگر وہ چاہے تو طلاق لے دیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا شوہر حق پر ہے، میں بھی احمدی ہوں اور میں ڈر کر احمدی نہیں ہوئی بلکہ ان کے حسن سلوک نے مجھے احمدیت قبول کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
٭ حضرت عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل نے 1924ء میں مڈل کیا۔ اور ایک مخلص احمدی دوست میاں محمد مراد صاحب کی تحریک پر قادیان روانہ ہوئے۔ رات حضرت قریشی محمد حسین صاحب امیر جماعت لاہور کے مکان پر گزاری۔ آپ فرماتے ہیں:حکیم صاحب کی کیا ہی روحانی شخصیت تھی۔ نہایت باوقار، سنجیدہ اور بارعب قد دراز، سر پر سفید پگڑی، میں تو اس وقت صرف پندرہ سولہ سال کی عمر کا بچہ تھا لیکن ان کا نماز پڑھنے کا واقعہ اب تک مجھے یاد ہے۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ میں ایک فرشتہ کو حرکت کرتے دیکھ رہا ہوں ۔
آپ قادیان میں اندازاً آٹھ دن ہندو رہے۔ اس دوران اپنے مشاہدہ کو یوں بیان کرتے ہیں: حضرت مصلح موعود ؓ پر جوانی کا عالم تھا۔ صحت نہایت اچھی تھی۔ جب آپؓ نمازوں میں قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو عاشقان زار پر ایک عجیب وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی اور جب آپ سجدہ میں جاتے تو بارگاہِ الٰہی میں عجز ونیاز کرتے کرتے مخلصین کی چیخیں نکل جاتیں۔میں پہلی صف میں نمازیوں کے درمیان بیٹھ جاتا اور سارے نظارے کو بچشم خود دیکھتا رہتا۔ آخر آٹھویں دن مَیں نے پرانے خیالات سے بکلی تائب ہوکر بیعت کی خواہش ظاہر کی تو حضورؓ نے فرمایا : ’’میاں ابھی تم بچے ہو۔ تمہاری عمر چھوٹی ہے۔ دو تین ماہ اور ٹھہرو اور مزید تحقیقات کرو‘‘۔ مگر آپ نے اصرار کیا تو حضورؓ نے اگلے دن بیعت لے لی۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے 1996ء میں نواحمدی ابراہیم صاحب کا جنازہ پڑھانے سے پہلے خطبہ جمعہ میں فرمایا : یہ گلاسگو میں پانچ سال پہلے مسلمان ہوئے تھے مگر احمدی نہیں تھے۔ ایک سال پہلے ان کا تعارف اتفاقاً جماعت سے بوسنیا میں ہوا۔ انہوں نے جس طرح احمدیوں کو عبادت کرتے دیکھا ان کا تعلق باللہ دیکھا، ہر موقع پر دعا کر کے کام کرتے تھے۔ اس سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو احمدیوں کے ساتھ جانے کیلئے وقف کر دیا اور مجھے کہا کہ آج سے میں احمدی ہوں۔
٭ حضرت مولوی محمد الیاس صاحب نے جب احمدیت قبول کی تو لوگ عورتوں کو ان کی اہلیہ کے پاس بھیجتے کہ اب تمہار نکاح محمد الیاس سے ٹوٹ گیا ہے، تم اپنی والدہ کے گھر چلی جاؤ، ہم تمہارا دوسرا نکاح کسی اور شخص سے کرادیں گے۔ وہ ان عورتوں سے کہتی: یہ کیسا کافر ہے جونمازیں پڑھتا ہے، تہجد کی نماز میں روتا ہے اور قرآن پاک ہر وقت پڑھتا رہتا ہے۔ اگر یہ کافر ہے تو میں بھی کافر ہوں، مجھے ایسا ہی کافر خاوند چاہئے جو مجھ سے بہترین سلوک کرتا ہو، بہت نیک، پرہیز گار اور نمازی ہو۔
٭ خان بہادر سعد اللہ خان صاحب خٹک نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر 1911ء میں بیعت کی تو ایسی تبدیلی اختیار کی کہ ولی اللہ بن گئے۔ ایک دفعہ مالاکنڈ کے آپ کے قدیمی دوست قاضی محمد احمد جان صاحب چند افسر ساتھ لے کر آپ کے پاس بطور جرگہ آئے اور کہا کہ آپ کے احمدی ہونے کا سن کر سخت صدمہ اور افسوس ہے، آپ توبہ کرلیں۔ آپ نے جواب دیا کہ جب میں آپ کی طرح مسلمان تھا تو نہ نماز پڑھتا تھا، نہ تہجد نہ قرآن کریم سے کوئی واقفیت یا تعلق تھا۔ سارادن تاش اور شطرنج میں گزرتا اور لڑکے آکر ناچتے۔ خدا بھلا کرے ہمارے مولوی مظفر احمد صاحب کا جن کے نیک نصائح اورپاک صحبت نے اس گندی زندگی سے بیزار کراکر پابند نماز وتہجد کیا اور درس قرآن کا شوق دلایا۔ اگر یہ دین نہیں اور دین دراصل وہ تھا جو میں آپ لوگوں کی رفاقت میں اختیار کر چکا تھا تو مجھے یہ کفر اُس دین سے پسندیدہ ہے۔
٭ ماریشس میں یوسف جیوا اچھا صاحب 26 سال کی عمر میں احمدی ہوئے تو نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز تہجد کا التزام بھی کرنے لگے۔ کسی نے اُن کی والدہ سے کہا کہ اپنے بیٹے کو سمجھاؤ وہ گمراہ ہو گیا ہے۔ والدہ نے کہا میں تو اس میں کوئی گمراہی نہیں دیکھتی بلکہ پہلے وہ مذہبی فرائض سے بے اعتنائی کرتا تھا اور اب وہ پنجگانہ نماز کے علاوہ تہجد بھی پڑھنے لگا ہے۔
٭ حضرت شیخ عبد الرشید صاحب بٹالوی کے قبول احمدیت کے بعد شدید مخالفت ہوئی۔ اہلحدیث برادری نے قافیہ حیات تنگ کر دیا اور آپکی و الدہ تو آپ کو عاق کرانے کے درپے ہوگئیں۔ لیکن آپ کے والد صاحب نے جواب دیا کہ پہلے یہ دین سے سراسر غافل وبے پرواہ تھا مگر اب نمازی بلکہ تہجد گزار بن گیا ہے اسے میں کس بات پر عاق کروں۔
٭ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اکتوبر 1898ء میں ایک رسالہ میں امام مہدی کی پیشگوئی کا صریحاً انکار کیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کو حکومت کا باغی قرار دیا جس پر حکومت نے انہیں چار مربعوں سے نوازا اور حضورؑ کے خلاف حکومت حرکت میں آگئی۔ چنانچہ انگریز کپتان پولیس اور انسپکٹر پولیس سپاہیوں کا دستہ لے کر بوقت شام قادیان پہنچ گئے اور حضرت اقدس ؑ کے مکان کا محاصرہ کرکے مسجد کے کوٹھے پر چڑھ گئے۔ حضور ؑ اطلاع ملنے پر باہر تشریف لائے تو کپتان پولیس نے کہا کہ ہم خانہ تلاشی کرنے آئے ہیں۔ خبر ملی ہے کہ آپ امیر عبدالرحمن خاں والی افغانستان سے خفیہ ساز باز رکھتے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا: ’’یہ بالکل غلط ہے ہم تو گورنمنٹ انگریزی کے عدل وانصاف اور امن اور مذہبی آزادی کے سچے دل سے معترف ہیں اور دین کو بزور شمشیر پھیلانے کو ایک بہتان عظیم سمجھتے ہیں لیکن اگر آپ کو شک ہے تو آپ بیشک ہماری تلاشی لے لیں البتہ ہم اس وقت نماز پڑھنے لگے ہیں اگر آپ اتنا توقف کریں تو بہت مہربانی ہو گی‘‘۔ کپتان پولیس نے کہا کہ آپ پہلے نماز پڑھ لیں۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے اذان دی اور نماز مغرب پڑھائی۔ آپؓ کی جادو بھری آواز سن کر کوئی بڑے سے بڑا دشمن مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ انگریز کپتان خدا کا پرشوکت کلام سن کر محو حیرت ہو گیا اور اس کی تمام غلط فہمیاں خود بخود دور ہو گئیں۔ وہ تلاشی وغیرہ کا خیال ترک کرکے نماز ختم ہوتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اقدس ؑ سے کہنے لگا کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ ایک راستباز اور خدا پرست انسان ہیں اور جو کچھ آپ نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔ پس خانہ تلاشی کی کوئی ضرورت نہیں۔
٭ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طرف سے کئے جانے والے مقدمہ حفظ امن کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود ؑ 13؍فروری 1899ء کو پٹھانکوٹ تشریف لے گئے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جس مقام پر مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کا خیمہ لگا ہوا تھا اس کے نزدیک ہی ایک مکان میں حضرت مسیح موعود ؑ قیام پذیر ہوئے۔ درمیان میں ایک میدان تھا جہاں احمدی نماز پڑھا کرتے تھے۔ مغرب کا وقت تھا۔ مولوی عبد الکریم صاحب ؓ سیالکوٹی حسب معمول امام بنے ۔ انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو ان کی بلند مگر خوش الحان اور اثر میں ڈوبی ہوئی آواز مسٹر ڈوئی کے کان میں پڑی اور وہ اپنے خیمہ کے آگے کھڑے ہوئے اور انہماک کے عالم میں کھڑے قرآن سنتے رہے۔ نماز ختم ہوئی تو راجہ غلام حیدر خانصاحب تحصیلدار پٹھانکوٹ کو بلاکر کہا کہ اس قسم کا ترنم اور اثر میں نے کسی کلام میں نہیں سنا اور نہ کبھی محسوس کیا۔ کیا پھر بھی یہ نماز پڑھیں گے اور مجھے نزدیک سے سننے کا موقع دیں گے؟
اس پر راجہ صاحب حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کل ماجرا عرض کیا۔ آپ ؑنے فرمایا ہمارے پاس بیٹھ کر قرآن سنیں۔ چنانچہ اب کی دفعہ نماز کے وقت ایک کرسی قریب بچھا دی گئی اور صاحب بہادر آکر اس پر بیٹھ گئے اور تلاوت کے دوران مسحور ہو کر جھومتے رہے‘‘
٭ حضرت مولوی نور احمد صاحب لودھی ننگل بہت خوش الحان تھے۔ فجر کی نماز میں بلند آواز سے تلاوت فرماتے تو عموماً سکھ لوگ کافی عرصہ کھڑے تلاوت سنتے رہتے۔
٭ حضرت مولانا ظہور حسین صاحب بخارا کو جاسوسی کے الزام میں روس کی جیلوں میں غیرانسانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ فرماتے ہیں: میںدن رات بس اللہ تعالیٰ سے ہی دعائیں مانگتا اور حسب عادت رات کو تہجد کیلئے اٹھتا۔ صبح نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کرتا اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو نفل ادا کرتا۔ اشک آباد جیل میں بہت سے ترک قیدی تھے۔ وہ مجھے روزانہ نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے دیکھتے اور ان میں سے بہتوں کو مجھ سے شدید محبت ہو گئی۔تاشقند جیل میں بہت سے مسلمان قیدی تھے جنہوں نے مجھے اپنا امام منتخب کرلیا۔
٭حضرت شیخ محمد شفیع صاحب آف بھیرہ محکمہ نہر میں ضلعدار تھے۔ ایک دن ہندو مہتمم نہر نے آپ کو کسی کام کیلئے بلابھیجا۔ آپ نے جواب دیا کہ جمعہ کی نماز کے وقت میں نہیں آسکتا۔ اُس نے سپرنٹنڈنٹ انجینئر سے شکایت کر دی کہ حکم عدولی کا مرتکب ہوا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ: نماز جمعہ کا وقت تھا اور اس اہم مذہبی فریضہ کے رہ جانے کا اندیشہ تھا۔ یہ جواب اس شان اور توکل سے دیا گیا کہ انگریز افسر نے نماز جمعہ کے لئے مسلمان ملازمین کی ایک گھنٹہ کی مستقل رخصت محکمہ سے منظور کرا دی۔
٭ 1906ء میں ملک کرم الٰہی صاحب کی اہلیہ قادیان آئیں تو واپسی پر اپنے قلبی تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا: مرزا صاحب کے ہاں دینداری کا یہ حال ہے کہ نماز کے اوقات خاص کر قابل دید تھے۔ بچہ سے لے کر بوڑھے تک، کیا عورت کیا مرد بڑے خشوع وخضوع سے سر بسجود نظر آتے تھے قادیان میں سوائے قرآن اور نماز پڑھنے کے کوئی دوسرا کام ہی نہیں… میں دعویٰ سے کہتی ہوں کہ مرزا صاحب کے گھر کی دینداری بے نظیر ہے۔ میں اماں جان کی نماز کا چشم دید واقعہ بیان کرتی ہوں کہ وہ نماز میں زار زار رورہی ہیں اور منہ کے آگے دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو گیا مگر جھٹ دوپٹہ کا وہ پلہ پیچھے کر لیا کہ مباداریانہ پایا جاوے اور اس خشوع وخضوع سے نماز ادا کی کہ ہم حیران ہو گئیں۔
٭ مشہور ادیب، نقاد اور مورخ رئیس احمد جعفری حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ کے متعلق لکھتے ہیں: آپ اس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جسے عام طور پر کافر بلکہ گمراہ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ گمراہ اور کافر شخص بغیر شرمائے داڑھی رکھتا ہے اور اقوام متحدہ کے جلسوں میں علی الاعلان نماز پڑھتا ہے۔ جھمپیر کا قیامت خیز ریلوے حادثہ جب رونما ہوا تو یہ شخص اپنے سیلون میں فجر کی نماز پڑھ رہا تھا۔
اسی طرح مولانا عبد الماجد دریا بادی رقمطراز ہیں: ’’سر ظفر اللہ خان کے سیاسی حالات سے یہاں بحث نہیں۔ امتیازی چیز یہ ہے کہ اتنا بڑا اعزاز ایک کلمہ گو کو یہ مغربی مادی دنیا پیش کر رہی ہے۔ کرسی صدارت سے آیات قرآنی کی تلاوت جنرل اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار انہی ظفر اللہ نے کی۔‘‘
چوہدری صاحب کی پابندی نماز کی گواہی سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ریاست نے بھی دی وہ لکھتے ہیں آپ دینی شعار کے سختی سے پابند ہیں کبھی بھی نماز کو قضاء نہیں ہونے دیتے۔
بیروت کے کثیر الاشاعت روزنامہ ’’بیروت المسائ‘‘ نے لکھا: ہم وزیر خارجہ پاکستان السید محمد ظفر اللہ خاں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ بیروت میں ان سے کئی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان کی فصاحت وبلاغت سے پر لیکچر بھی سنا۔ آپ کا لیکچر سن کر ہمارا متاثر ہونا لازمی تھا۔ جبکہ اقوام متحدہ کی مجالس آپکی زوردار تقاریر سن کر ورطہ حیرت میں پڑ چکی تھیں۔ ہم نے آپ کو قرآن مجید کے علوم بیان کرتے ہوئے سنا …ہم نے آپ کو ’’پالم تپیش‘‘ ہوٹل میں تہجد پڑھتے اور عبادت کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
٭ حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب یادگیریؓ فرماتے ہیں کہ: بیعت سے پہلے میں نہ قرآن سے آشنا تھا نہ نماز کا عادی۔ بیعت کے بعد نماز تہجد کا بھی عادی ہو گیا اور نماز میں ذوق اور شوق حاصل ہوا۔
1945ء میں آپ حج کیلئے تشریف لے گئے تو ایک عرب نے کہا کہ میں نے ان جیسی نمازیں، دعائیں اور کارخیر کرتے ہوئے بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے۔
٭ جوش ملیح آبادی ایک دوست کا یوں ذکر کرتے ہیں: ’’میاں محمد صادق دراز قامت ژرف نگاہ، شب رنگ، صباح طینت، لاہور کے باشندے … عقیدہ کے لحاظ سے قادیانی ، نواہی سے بیزار، اوامر کے پابند، نماز پنجگانہ کے بغیر سانس لینے کو گناہ سمجھنے والے، سخن سنج ، شاعر نواز، اخلاص شعار، مردم شناس ، عہدہ کے اعتبار سے شب یلدار اور پاکیزگی طبع وشرافت نفس کے نقطہ نظر سے صبح صادق! … وہ شدت کے ساتھ دین دار تھے‘‘۔
٭ دیوان سنگھ مفتون ’’ایڈیٹر ریاست‘‘ دہلی نے تحریر فرمایا جہاں تک اسلامی شعار کا تعلق ہے ایک معمولی احمدی کا دوسرے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا مذہبی لیڈر بھی مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ احمدی ہونے کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور دوسرے اسلامی احکام کا عملی طور پر پابند ہو۔ چنانچہ مجھے اپنی زندگی میں سینکڑوں احمدیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا اور ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں دیکھا گیا جو اسلامی شعار کا پابند اور دیانتدار نہ ہو۔
٭ حضرت شیخ محمد دین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ بنگل والا میں امیرخاں بلوچ نے بتایا کہ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں میں کسی غرض سے قادیان گیا اور مہمان خانہ میں ٹھہرا تو دیکھا کہ ہروقت اذانیں ہوتی تھیں، لوگ باقاعدہ نمازوں میں شامل ہوتے تھے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان لوگوں کو سوائے نمازیں پڑھنے کے اور کوئی کام ہی نہیں۔
٭ 1913ء میں ایک غیر احمدی صحافی محمد اسلم صاحب چند دن قادیان میں قیام کرکے واپس گئے تو لکھا کہ صبح نماز کے بعد جو میں نے گشت کیا توتمام احمدیوں کو بلاتمیز بوڑھے وبچے اور نوجوان کے لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا۔ دونوں احمدی مسجدوں میں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کی قرآن خوانی کا مؤثر نظارہ مجھے عمر بھر یادرہے گا۔
٭پاکستان کے سابق وزیر داخلہ میجر جنرل نصیر اللہ بابر نے بیان کیا: ایک بار مولانا… ایک میٹنگ میں آیا۔ بات سے بات شروع ہو گئی۔ مولانا نے مجھ سے پوچھا کہ آپکے بارہ میں سنا ہے کہ آپ باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر کہنے لگے کہ آپ تلاوت کرتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں۔ مولانا نے کہا پھر شاید آپ قادیانی ہیں۔
میں نے پوچھا: مولانا! آپ امامت کراتے ہیں؟ مولانا نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا: آپ تہجد پڑھتے ہیں؟ مولانا نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا تو پھر آپ کو قادیانی ہونے کا زیادہ حق پہنچتا ہے۔
٭ مکرم کرنل ڈاکٹر رشید علی صاحب محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے متعلق لکھتے ہیں: میں بھی لندن والے سلام سے واقف ہوں۔ میں خود وہاں جاکر مشینیں وغیرہ خریدا کرتا تھا۔ اس شخص کا اس ملک پر احسان ہے کہ اس نے ابتدائی سالوں میں ہماری بے حد مدد کی ۔ وہ ایک پکا نمازی مسلمان تھا۔