انٹرویو: محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ (بیگم پروفیسرڈاکٹر عبدالسلام صاحب)
محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی اہلیہ محترمہ امۃالحفیظ صاحبہ کی وفات 13؍مارچ 2006ء کو ہوئی۔ آپ علم دوست تھیں، قرآن کریم کی تعلیم، اسلامی تاریخ، سیرت رسول اﷲ ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑکے علمی خزانے کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں بھی گہر ی دلچسپی رکھتی تھیں۔ آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ 28 سال بحیثیت صدر لجنہ (یوکے) انہوں نے شاندار خدمات انجام دیں۔ عورتوں کی تربیت بڑے آرام سے کرنے والی شخصیت تھیں۔ بڑی نرم مزاج تھیں۔ تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی وفا و اطاعت کا مثالی نمونہ تھیں۔ بہت سادہ، صابر اور منکسرالمزاج تھیں۔
محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ موصیہ تھیں۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ حضور انور ایدہ اﷲتعالیٰ نے ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔ ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ فروری 2009ء میں آپ کا چند سال قبل کا ایک انٹرویو شامل اشاعت ہے جسے مکرمہ عاتکہ صدیقہ صاحبہ نے قلمبند کیا ہے۔
محترمہ امۃالحفیظ صاحبہ اور محترم ڈاکٹر صاحب دو بھائیوں کی اولاد تھے۔ آپ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے آباء جھنگ کے رہنے والے تھے اور جدامجد ایک ہندو راجپوت شہزادے تھے جو حضرت بہاؤالدین زکریاؒ کی تعلیم کے زیر اثر مسلمان ہوئے اور تارک دنیا ہوکر اُن کی صحبت میں رہنے لگے حتّٰی کہ اُن کے مقبرہ کے اندر حضرت مخدوم سعد کے نام سے مدفون ہوئے۔ ہمارے دادا بھی صاحب کشف، زاہد و متقی انسان تھے۔ اُن کے تین بچوں میں بڑے میرے والد غلام حسین صاحب، دوسرے محمد حسین صاحب (ڈاکٹر صاحب کے والد محترم) اور پھر جنت بی بی صاحبہ تھیں۔
میرے والد 21؍ جنوری 1874ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مڈل کے امتحان میں صوبہ پنجاب میں اوّل رہے۔ میڑک میں صوبہ میں دوم آئے۔ مشن کالج لاہور سے B.A. کیا اور کچھ عرصہ گورنمنٹ ہائی اسکول جھنگ شہر میں ملازمت کی، پھر پنجاب ایجوکیشنل سروس سے منسلک ہوکر ڈیرہ غازیخان میں بطور اسسٹنٹ ڈائیریکٹر آف اسکولز متعین ہوئے۔ پھر اپنی احسن کارکردگی کی وجہ سے لدھیانہ میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اور یہاں سے ترقی پاکر ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز بنائے گئے۔ 1932ء میں ریٹائر منٹ کے کچھ عرصہ بعد جھنگ شہر سے قادیان منتقل ہوگئے اور 1932ء سے 1947ء تک ناظر تعلیم رہے۔ قیام پاکستان کے بعد جھنگ آگئے جہاں آپ کی آبائی جائیداد تھی اور بہن بھائی بھی مقیم تھے۔
میرے والد ایک بڑے عالم تھے، وسیع مطالعہ تھا اور کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور علماء و اکابرین سے بہت تعلقات تھے۔ آپ ریٹائرمنٹ کے بعد حج کے لئے تشریف لے گئے تو سلطان عبدالعزیز ابن سعود نے اُن سے بعض کتب کے انگریزی تراجم کرائے۔ انہوں نے ہی سلطان کو یہ حدیث سنائی کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ ایک آگ حجاز کی زمین سے نہ نکلے گی جو بصرہ تک اونٹوں کی گردنیں روشن کر دے۔ اس حدیث کی طرف متوجہ کرتے ہوئے آپ نے بتایاکہ ارض حجاز میں تیل ہے۔ چنانچہ سلطان نے ایک کمپنی سے تیل کی تلاش کا معاہدہ کیا اور کامیابی حاصل ہوئی۔
میں 23؍ دسمبر 1924ء کوجھنگ شہر میں پیدا ہوئی۔ پانچ بھائی اور تین بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ میری والدہ محترمہ کا نام صہبا بیگم تھا۔ میری پیدائش سے ایک روز قبل اباجان نے خواب میں حضرت مسیح موعودؑ کی صاحبزادی نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کو شاہی بگھی میں سوار اپنی طرف آتا دیکھ کر سمجھ لیا تھاکہ لڑکی تولد ہو گی۔ اس لئے میرا نام بھی ان کے نام پر امۃالحفیظ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنے والدین کے مزاج کا گہرا اثر قبول کیا اور بڑے بھائی بہنوں کے اسلامی اخلاق بھی میرے سامنے رول ماڈل کے طور پر عملی نمونہ تھے۔ جب میں چھٹی جماعت میں تھی تو اباجان قادیان ہجرت کرگئے جہاں مڈل کے بعد مَیں نے حضرت مصلح موعود ؓکے ارشاد پر آپؓ کی جاری کردہ دینیات کلاس میں داخلہ لے لیا اور چار سال تک تعلیم حاصل کی۔ اس دوران مختلف پروگراموں میں خوب حصہ لیا، نظمیں کہیں اور پڑھیں، کئی انعام لئے۔ لیکن پردہ کا اہتمام اوائل عمر سے ہی کیا اور دوسروں کو ہمیشہ اس کی تلقین بھی کی۔ اکیس برس کی عمر میں تعلیم سے فارغ ہوئی اور اس کے دو سال بعد میری شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد مَیں کچھ عرصہ سسرال کے ہاں ملتان میں رہی، ڈاکٹر صاحب کیمبرج یونیورسٹی میں Ph.D. میں مصروف تھے۔ یونیورسٹی قوانین کے مطابق یہ ڈگری تین سال سے پہلے نہیں دی جاتی تھی لیکن انہوں نے تین سال کا کورس ایک سال میں مکمل کر لیا تو یونیورسٹی کے قوانین میں ترمیم کرکے انہیں یہ ڈگری پہلے دیدی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کی غیر معمولی ذہانت کے باعث امریکہ کے پرنسٹن انسٹیٹیوٹ نے 1951ء میں فیلوشپ دیدی اور وہ امریکہ چلے گئے۔ اس ادارہ میں اُن کی ملاقات آئن سٹائن سے ہوئی جو وہاں ڈائریکٹر تھے اور اُن کی عمر 72 برس تھی۔ آٹھ ماہ اس ادارہ میں کام کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب واپس کیمبرج آگئے اور ستمبر میں پاکستان پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب کی مصروفیات کا علم تو شادی سے پہلے بھی تھا۔ وہ اپنی تعلیم و تحقیق کو مقدم جانتے تھے۔ اس لئے مَیں ذہنی طور پر خود کو تیار کرتی رہی کہ میرا کوئی مطالبہ ان کے کا م میں رکاوٹ نہ بنے ۔ ستمبر 1951 ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی کے پروفیسر اور صدر شعبہ مقرر ہوئے۔ تقرری کے وقت انہیں سات پیشگی ترقیاں دی گئیں۔ کچھ عرصہ بعد پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں ہمیں رہائش بھی مل گئی۔ اس سے قبل وہ ہر ہفتے چھ گھنٹے کا سفر طے کرکے ہمیں ملنے کے لئے ملتان تشریف لاتے رہے۔
1953ء کی اینٹی احمدیہ تحریک کے بعد ڈاکٹر صاحب کو کیمبرج یونیورسٹی سے لیکچررشپ کی آفر ہوئی اور آپ کو احساس بھی ہوگیا کہ تحقیقی کاموں کے لئے یہاں کی فضا ناموافق ہے۔ چنانچہ 1953ء کے آخر میں ہم انگلستان آگئے۔ کیمبرج (1954-1956ء) میں آکر پہلے سال ہی ڈاکٹر صاحب ڈرائیونگ ٹیسٹ دینے کے لئے گئے تو کئی گھنٹوں تک واپس نہ لَوٹے۔ مَیں طویل انتظار کرنے کے بعد اُن کو لینے گئی تو آپ نے بڑی افسردگی کے لہجے میں بتایا کہ زندگی کا یہ پہلا امتحان ہے جس میں ناکام ہوا ہوں۔ اس ناکامی کو بہت محسوس کیا۔ دوسری کوشش میں آپ نے یہ ٹیسٹ پاس کرلیا۔ مَیں نے بھی جلد ہی ڈرائیونگ سیکھ لی اور اُن کی مصروفیات کی وجہ سے گھریلو کام کاج سنبھال لئے۔ بچوں کو اسکول اور ڈاکٹر صاحب کو کالج چھوڑنے کے بعد گھر کا اور لجنہ کے ضروری کام کرتی۔ ابتداء میں لندن میں لجنہ کا کوئی دفتر نہیں تھا، فون کی سہولت نہیں تھی۔ ہر سہولت نہ ہوتے ہوئے بھی کام کرنا تھا۔ سردی میں بیٹھ کر ہم کام کرتے۔ خاکسار نے لجنہ کی صدارت کے فرائض 1960ء تا 1988ء تک ادا کرنے کی توفیق پائی۔ اس دوران 45 مزید شاخیں قائم ہوئیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے لندن میں آمد کے بعد اپنی پگڑی کی صفائی اور کلف لگانے کا کام میرے سپرد کیا تھا۔ حضورؒ کی ’’الیس اللہ‘‘ کی انگوٹھی پر کپڑا لپیٹ کر تنگ کرنے کی سعادت بھی مجھے ملی۔
ڈاکٹر صاحب امپیریل کالج لندن سے پروفیسر کے طور پر یکم جنوری 1957ء سے 1993ء تک وابستہ رہے۔ اُن کے ساتھ میرے کئی یادگار سفر بھی ہوئے۔ پہلا سفر ماسکو کا تھا جہاں سائنس اکیڈیمی کی سالگرہ تھی۔ وہاں زارؔ کے محلاّت اور باغات بھی دیکھے۔ اسی طرح نوبیل انعام لینے کے لئے سویڈن کا سفر تھا۔ جس روز ڈاکٹر صاحب کو نوبیل انعام دئیے جانے کا اعلان ہوا، آپ گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ دن کے بارہ بجے سرکاری طور پر فون سے اطلاع ملی تو ہم خبر سنتے ہی فوراً مسجد فضل لندن گئے اور مسجد میں شکرانے کے نفل ہم دونوں نے ادا کئے۔
علم کے ہر شعبہ سے ڈاکٹر صاحب کو دلچسپی تھی۔ ادب کے حوالہ سے زمانہ طالب علمی میں ایک ڈرامہ لکھا تھا جو گورنمنٹ کالج لاہور کے رسالہ راویؔ میں ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کی زیر ادارت شائع ہوا۔ اُن کو شاعری سے بھی دلچسپی تھی ہر بڑے شاعر کی کتب ان کے پاس تھیں۔ تاریخ کو بہت دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ فیضؔ کے بعض اشعار کا حوالہ اپنی گفتگو میں دیا کرتے تھے۔ 27 فروری 1988ء کو انٹر کانٹی نینٹل لاہور میں فیضؔ فاؤنڈیشن نے آپ کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب کا انتظام کیا۔ اس موقع پر آپ نے نظریاتی اختلاف کے باوجود فیضؔ مرحوم کے ساتھ اپنی کئی مشترک قدریں بیان فرمائیں۔ فیضؔ کا یہ شعر اکثر دہرایا کرتے:
کئی بار اس کی خاطر ذرّے ذرّے کا جگر چیرا
مگر یہ چشم حیراں ، جس کی حیرانی نہیں جاتی
ایک انٹر ویو میں ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ شعر سے مجھے لگاؤ رہا ہے۔ نظم لکھنا کونسا مشکل کام ہے؟ میں نے تو شاید ایک آدھ نظم لکھی ہے مگر سارے بڑے سائنس دان اچھے ادبی ذوق کے مالک رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو اپنے والدین سے عشق کی حد تک پیار تھا اور آپ کے والد بہت دُعاگو تھے۔ قریباً تین سال کے لئے آپ انہیں لندن بھی لے آئے تھے۔ والدین کی قدر دانی کے بارہ میں بچوں کے سامنے قرانی آیات دہرایا کرتے۔ ان آیات پر خود بھی عمل کرتے اور بچوں کو بھی اس کی تلقین کیا کرتے۔
بچوں کی تعلیم کی طرف ڈاکٹر صاحب کی بھر پور توجہ رہی۔ آپ کامعمول تھا کہ شام کے کھانے پر فرداً فرداً سب بچوں سے دن بھر کی تعلیمی مصروفیات کے متعلق استفسار کرتے اَور راہنمائی فرماتے تھے۔ بیرونی ممالک کے دوروں سے واپسی پر بچوں کی سکول رپورٹس دیکھتے، راہنمائی کرتے اور وقت کی قدر کرنے کی بہت تاکید کرتے۔ وقت کے ضیا ع کے ڈر سے گھر میں ٹیلی ویژن رکھنے سے گریز کرتے۔ حالانکہ وہ بے حد شفیق باپ تھے۔ ہمیشہ پیار و محبت اور احترام سے بچوں سے مخاطب ہوتے اور بڑے دھیمے انداز میں گفتگو کرتے۔ اُن کے انداز میں ایسی تاثیر تھی کہ بچے ان کی باتوں کا گہرا اثر قبول کرتے۔ بچوں کو اُن کے اساتذہ کے احترام کی تلقین کرتے رہتے۔ غالباً 1955 ء میں انہوں نے اپنے والد صاحب کو اپنے اساتذہ کی تلاش کے لئے لکھا تھا تاکہ اساتذہ کی پیرانہ سالی میں نذرانہ کے طور پر کچھ مالی اعانت کر سکیں۔ اُس وقت اُن کے چھ اساتذہ بقید حیات تھے۔
ڈاکٹر صاحب ناشتہ میں انڈا ٹوسٹ اور چائے کی ایک پیالی پیا کرتے تھے۔ کھانے میں شوربے والا سالن آلو گوشت، تلی ہوئی مچھلی، سیخ کباب اور ماش کی دال پسند تھی۔ سبزیوں میں مشروم بہت پسند تھے۔ مجموعی طور پر مچھلی مرغوب غذا تھی اور عموماً دستر خوان پر ایک وقت میں ایک ڈش پسند کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب بلا کے ذہین تھے۔ گفتگو کرتے تو گویا منہ سے پھول جھڑتے اور سننے والا اثر لئے بغیر نہ رہ سکتا۔ خود حساس تھے اور دوسروں کے احساسات کو متأثر کرنا جانتے تھے۔ اس طرح ہماری 47 سالہ رفاقت میں اختلاف کا سوال ہی کبھی پیدا نہ ہوا۔
ڈاکٹر صاحب نے جس شان سے خدائے واحد یگانہ کے ایمان کا حق ادا کیا ایسا سائنسدان ملنا مشکل ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ان کی وفات پر فرمایا تھا: سلام ہوجس دن تو پیدا ہوا اور جس دن تومرے گااور جس دن دوبارہ اٹھا یا جائے گا۔ یہاں لفظ سلام سے حضورؒ کاا شارہ ڈاکٹر صاحب کے والد چودھری محمدحسین صاحب کے اُس کشف کی طرف بھی ہے جس میں ڈاکٹر صاحب کی پیدائش سے قبل چودھری صاحب کو ایک فرشتے نے ایک معصوم بچہ پکڑایا اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا ہے۔ آپ نے بچے کا نام پوچھا تو آواز آئی: عبدالسلام‘‘۔