انٹرویو: محترم حافظ قدرت اللہ صاحب

خدام الاحمدیہ کی تاریخ سے ایک ورق
(مطبوعہ رسالہ ’طارق‘ لندن 1994 ٕ)

(مرتّب: محمود احمد ملک)

گزشتہ شمارہ میں مجلس خدّام الاحمدیہ کے پہلے غیررسمی اجلاس منعقدہ 31 جنوری 1938ء میں شامل نوجوانوں کے اسماء درج کئے گئے تھے۔ ان میں ایک نام محترم حافظ قدرت اللہ صاحب کا بھی تھا۔ محترم حافظ صاحب اس وقت لندن میں مقیم ہیں اور خاکسار کی درخواست پر انہوں نے اس سلسلہ میں جو یادداشتیں بیان کی ہے وہ انہی کے اپنے الفاظ میں پیش کی جارہی ہیں۔
محترم حافظ صاحب ناسازی طبع اور کمزوری کے باعث علیل ہیں۔ قارئین سے ان کی درازیٔ عمر اور کامل صحت یابی کے لئے بھی دعا کی درخواست ہے۔
محترم حافظ صاحب نے بیان کیا کہ خاکسار 22 فروری 1917ء کو سرگودھا میں پیدا ہوا۔ میرے والدین نے 1901ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ والد صاحب اپنی وفات تک جماعت احمدیہ سرگودھا شہر کے صدر رہے۔ میں نے اپنی ساری تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرلی۔ پھر 1939ء میں مولوی فاضل کرنے کے بعد زندگی وقف کردی اور دارالواقفین میں منتقل ہوگیا جس کے انچارج مکرم عبد الرحمن انور صاحب تھے جو تحریک جدید کے بھی انچارج تھے مگر اصل نگرانی حضرت مصلح موعودؓ کی ہی تھی۔
محترم حافظ صاحب نے بتایا کہ جماعت کے لئے خلافت ثانیہ کا زمانہ تاریخی اور تربیتی لحاظ سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس عرصہ میں جماعت کے لئے بعض مشکلات اور ابتلاء بھی آئے جو کہ الٰہی جماعتوں کے لئے ایک طبعی امر ہے۔ مگر ان ابتلاؤں کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جماعتی نظام کو مضبوط کرنے، اس کو ترقی دینے اور افراد جماعت کی تربیت کے خاص مواقع میسر آجاتے ہیں۔ خلافت ثانیہ کے دَور میں لاہوریوں کا فتنہ اٹھا جس کا علمی اور روحانی رنگ میں کامیاب طور پر مقابلہ کیا گیا۔ پھر بعض اور فتنے پیدا ہوئے جیسے مستریوں کا فتنہ اور احرار کا فتنہ جس کے نتیجہ میں تحریک جدید کا قیام عمل میں آیا۔
یہ 1937ء کی بات ہے جب ابتداء میں یہ تحریک چند نوجوانوں تک محدود تھی جن کی تعداد دس یا گیارہ تھی اور جو اپنے اخلاص اور سلسلہ سے محبت کی بِنا پر جماعتی خدمات میں مصروف رہتے تھے۔ مَیں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اُن میں شامل تھا۔ ہم حضرت مصلح موعود ؓ کے ایماء پر ہی سلسلہ کی خدمت سر انجام دیتے تھے۔ چنانچہ حضورؓ کے ایماء اور ارشاد سے ہی ہمارا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ ہمارے لیڈر جناب مولوی قمرالدین صاحب مرحوم تھے۔ وہ اس اجلاس میں صدر اور مکرم محبوب عالم خالد صاحب سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ابھی یہ تحریک عام نہ ہوئی تھی بلکہ فقط چند خدّام تک ہی محدود تھی اور جس میں دارالواقفین کے بعض دیگر نوجوان بھی شامل ہوگئے تھے۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں اس تحریک کو تمام جماعت کے لئے عام فرما دیا اور اس طرح ایک عالمی نظام قائم ہوگیا جو اَب پوری وسعت اور شان کے ساتھ ساری دنیا میں قائم ہوچکا ہے۔
جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر منتخب ہوئے تو دارالواقفین کے اکثر خدّام مجلس کے لئے مرکزی طور پر خدمات سرانجام دینے لگ گئے۔ ہمارے اجلاسات حضرت میاں صاحب کی کوٹھی ’’النصرت‘‘ (دارالانوار) میں آپ ہی کی صدارت میں منعقد ہوتے تھے اور اس طرح ایک عجیب جذبہ اور ایمانی ذوق کے ساتھ خدّام الاحمدیہ کی تحریک جاری و ساری رہی۔
محترم حافظ صاحب نے بتایا کہ 1939ء میں جماعت کی سلور جوبلی کے موقع پر لوائے احمدیت اور لوائے خدام الاحمدیہ پہلی بار لہرائے گئے۔ اس کے محافظین کے پہلے گروپ میں اس عاجز کو بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
محترم محبوب عالم خالد صاحب کے بعد محترم چودھری خلیل احمد ناصر صاحب مرحوم سابق مبلغ امریکہ ایک لمبا عرصہ بطور سیکرٹری خدام الاحمدیہ مرکزیہ کام کرتے رہے۔ خاکسار نے بھی کئی سال ان کے نائب کے طور پر خدمت میں حصہ لیا۔ اس طرح 1945ء کے اواخر تک کوئی نہ کوئی مرکزی خدمت خاکسار کے سپرد رہی۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
1945ء کے آخر میں دارالواقفین کے بہت سے واقفین کو سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں بھجوادیا۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمہ کے بعد تبلیغی جہاد کے لئے یہ ایک سنہری موقع تھا۔ اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں:

ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی
آغاز  تو  میں  کردوں ، انجام  خدا  جانے

1945ء میں واقفین زندگی چند جوانوں کا ایک قافلہ کراچی سے روانہ ہوا اور تین ہفتہ کے بحری سفر کے بعد لورپول (برطانیہ) پہنچا۔ اس قافلہ میں محترم حافظ قدرت اللہ صاحب بھی شامل تھے۔ آپ اُن ایّام کو یاد کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ اس بحری سفر کے دوران ہم جہاز میں باجماعت نماز ادا کرتے رہے۔ امامت کے فرائض میرے سپرد تھے اور میں نے نمازوں کے دوران قرآن کریم کا پورا دَور مکمل کیا۔
برطانیہ میں میرا قیام ڈیڑھ برس رہا جہاں 1947ء کے رمضان المبارک میں لندن مسجد میں پہلی مرتبہ نماز تراویح میں قرآن کریم کا دَور مکمل کرنے کی توفیق پائی۔ 1947ء میں مجھے ہالینڈ جانے کا ارشاد ہوا جہاں سے تین سال بعد 1950ء میں پاکستان واپسی ہوئی۔ 1952ء میں انڈونیشیا پہنچا تو میرے والد صاحب کی وفات کی اطلاع مجھے ملی۔ اگلے سال 1953ء میں میری والدہ کی وفات کی اطلاع بھی مجھے انڈونیشیا میں ملی۔ 1956ء میں واپس پاکستان آیا اور چند ہفتہ کے قیام کے بعد پھر ہالینڈ کے لئے روانہ ہوگیا۔ غالباً 1967ء میں پاکستان میری واپسی ہوئی اور ربوہ میں کچھ عرصہ کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری اور پھر نائب وکیل التبشیر کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ڈیڑھ سال بعد پھر انڈونیشیا کے لئے روانہ ہوا، جہاں چھ سال کے قیام کے بعد 1976ء میں ہالینڈ جانے کا حکم ملا۔ لیکن ہالینڈآنے کے بعد بیماری کی وجہ سے مبلغ کے طور پر خدمت کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں